قرآن کی کل محکم آیات500ہیں؟ پھر 500آیات منسوخ بھی ہیں؟ اسلئے امت مسلمہ گمراہی کا شکارہے!
اپریل 12, 2025

متقدمین کے ہاں 5سو آیات پھر علامہ جلال الدین سیوطی نے 19اورشاہ ولی اللہ نے5تک معاملہ پہنچادیا
اصول فقہ : ”قرآن سے مراداحکام کی پانچ سو آیات ہیں ۔ باقی قرآن قصے، وعظ ونصیحت ہے”۔
پانچ سو آیات کو منسوخ کہا توپورا قرآن منسوخ قرار دیا۔ ”رسول قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کریںگے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان:30)
ابن تیمیہنے مسالک کو فرقے لکھ دیا اسلئے کہ حلال وحرام پر اختلاف تھا ۔ بیوی کو ”حرام” کہنے پر خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین میں اختلاف تھا مگر ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے ”زادالمعاد” میں بیوی کو حرام کہنے پر20مسالک کے تضادات لکھ دئیے۔صحیح بخاری میں حسن بصری نے کہا کہ بعض علماء کے نزدیک یہ تیسری طلاق ہے جوکھانے پینے کی اشیاء کی طرح نہیں کہ کفارہ ادا کرنے سے پھر حلال ہوجائے بلکہ حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔ جبکہ ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حرام کا لفظ طلاق اور قسم کچھ بھی نہیں اور نہ اس کا کوئی کفارہ ہے۔
حالانکہ سورہ تحریم میں واضح ہے کہ اگر بیوی کو حرام قرار دیا تو کچھ بھی واقع نہیں ہوگا۔ نبیۖ کی ماریہ قطبیہ سے حرمت پر یہ نازل ہوئی تھی۔ محکم آیت کو بوٹی بوٹی کردیا۔اور اللہ نے واضح فرمایا کہ ” جیسے ہم نے بٹوارے کرنے والوں پر نازل کیا ہو جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیااور ہم ان سب سے پوچھیںگے”۔ (سورہ الحجر)یہی حشر طلاق کی آیات اور احکام کا بھی کردیا تھا۔سورہ البقرہ230 سے آیات 228،229 اور231،232 البقرہ اور سورہ طلاق کی آیات کو منسوخ قرار دے دیا تھا۔
علامہ سیوطی اور شاہ ولی اللہ کی نظر اصل گمراہی کی طرف نہیں گئی لیکن منسوخ آیات کو کم کردیا تھا۔
آیات کی منسوخی پر احکام کی منسوخی کا غلط ہے۔ توراة کی آیت سے یہود نے حلالہ کی لعنت مرادلی، انجیل کی آیت سے عیسائی نے طلاق کا خاتمہ مرادلیا اسلئے اللہ نے بہتر آیات قرآن میں نازل کردیں۔ حلالہ کا خاتمہ اور طلاق کی صحیح صورت واضح ہوگئی لیکن علماء نے پھر یہود ونصاریٰ کی طرح حلالہ کو بھی رائج کردیا اور طلاق کا درست تصور بھی ختم کردیا۔ سنیوں نے یہود کی طرح حلالہ کو رائج کردیا اور شیعہ نے نصاریٰ کی طرح طلاق کی آیات کے مفہوم سے واضح انحراف کردیا۔ سنی فقہاء نے اکٹھی تین طلاق کو رائج کردیا اور شیعہ نے تین ادوار میں گواہوں کی شرط رکھ کر عورت کے چھٹکارے کا راستہ روک دیا۔ دونوں قرآن وسنت اور فطرت کے خلاف ہیں۔
قرآن نے بہت وضاحتوں کیساتھ حلالہ سے بھی چھٹکارا دلا دیا ہے اور اگر عورت چاہے تو ایک ساتھ تین طلاق نہیں ایک طلاق بلکہ طلاق کا اظہار کئے بغیر ایلاء میں بھی عورت کو چھٹکارے کا اختیار دیا ہے۔ اسی طرح خلع کا بھی اختیار دیا ہے لیکن شیعہ سنی دونوں نے عورت کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے۔
جن پانچ آیات کو شاہ ولی اللہ نے منسوخ قرار دیا ہے وہ بھی منسوخ نہیں ہیں۔ بلکہ انتہائی کم عقلی کا مظاہرہ ہے لیکن جن آیات کے احکام کو منسوخ کردیا گیا ہے ان کی طرف تو کسی نے دھیان نہیں دیا ہے اور آج اس سے چھٹکار اپانے کا وقت آگیا ہے۔
1: تم پر فرض کردی گئی ہے وصیت اگر تم میں سے کوئی مال چھوڑے والدین اور اقارب کیلئے معروف طریقے ،متقیوں پر حق ہے (البقرہ 180)
ایک مالدار شخص جب فوت ہوتو اس کی اولاد اور والدین وغیرہ کیلئے متعین وراثت ہے لیکن وصیت یا قرض کے بعد۔ اسلئے کہ ایک تہائی مال کی وصیت کا اس کو حق دیا گیا ہے اور والدین بسا اوقات زیادہ ہی ضرورت مند ہوتے ہیںاور دوسرے رشتہ داروں میں بھی ایسے افراد ہوسکتے ہیں۔ جب علماء نے یتیم پوتے پوتیوں کو وراثت سے محروم کردیا ہے تو اس پر وصیت سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے۔ جن آیات کی بنیاد پر وصیت کی اس آیت کو منسوخ کردیا ہے تو ان میں وصیت کے بعد وراثت کے الفاظ موجود ہیں۔
2: ”اور جو تم میں مریں اور بیویاں چھوڑ یں تو ان پر اپنی بیویوں کیلئے سال کی وصیت ہے گھر سے نہ نکالنے کی۔ پس اگر وہ نکل گئیں تو تم پر حرج نہیں جو وہ اپنے حق میں فیصلہ کریں معروف طریقے سے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔(البقرہ240)
اس سے پہلے کی آیت البقرہ 234کو کہ بیوہ کی عدت4 مہینے 10دن ہے ، منسوخ قرار دینا حماقت ہے۔ بیوہ کا ضروری نہیں کہ عدت ختم ہوتے ہی نکاح ہو تو سال کی وصیت فطرت ہے۔
3: اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کریں تو ان پر اپنوں میں4 گواہ طلب کرو، اگروہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں روک لو یہاں تک کہ مریں یا ان کیلئے اللہ کوئی راہ نکال دے۔ (البقرہ:15)
ایک عورت کے بگڑنے سے معاشرہ خراب ہوتا ہے اسلئے اپنوں میں چار گواہی دیں تو اس کو گھرمیں روکنے کا حکم ہے ۔ اللہ کی طرف سے راستے نکالنے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی نیا حکم نازل کرے بلکہ اس کیلئے شوہر کا بندوبست ہوجائے۔ اسلئے کہ اسکے بعد بھی سنگساری کا حکم تو نازل نہیں ہوا بلکہ سورہ نور میں 100کوڑے کا حکم مرد اور عورت کیلئے یکساں ہے۔ کنواری لڑکی ماردی جاتی ہے ۔ شادی شدہ مرد نہیں مارا جاتا اسلئے کہ اللہ کے پپغام کو عوام تک علماء نے پہنچانے کے بجائے قرآن کی طرف دھیان نہ دیا۔ لعان میں شوہر بیوی کو رنگے ہاتھوں پکڑلے تو بھی قتل نہیں کرسکتا اور نہ کوئی سزا دے سکتا ہے بلکہ اگر جج کو پتہ ہو کہ مرد سچا اور عورت جھوٹی ہے تو بھی سزا ٹالنے کا اللہ نے حکم دیا ۔جب سیدہ پروین شاکر کو شوہر نے طلاق طلا ق طلاق کہا تو یہ غزل کہی:
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کردے گا
مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
تمہاری یاد کے نام سے انتساب کردے گا
4: اے نبی! مؤمنوں کو جہاد پر ابھارو۔ اگر تم میں 20آدمی صابر ہیں تو وہ200پر غالب آئیں گے ۔اور اگر تم میں100 ہوں تو1000 پر غالب آئیں گے۔ان پرجنہوں نے کفر کیا اسلئے کہ وہ قوم سمجھتے نہیں ہیں ۔ (لانفال : 65)یہ مؤمنوں کی نفری کے پیش نظر ہے اسلئے کہ کم من فئة قلیلة غلب فئة کثیرة باذن اللہ ”کتنے چھوٹے گروہ ہیں جو بڑے گروہ پرغالب ہیں اللہ کے حکم سے”۔
آیت میں گنتی نہیں بلکہ کیفیت مقصود ہے اور اس کو کسی اور آیت سے منسوخ کرنا حماقت ہے۔
5: اے ایمان والو! جب تم رسول سے سرگوشی کروتو اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ دو،یہ تمہارے لئے بہتر اور زیادہ پاکیزہ بات ہے۔پس اگر تم نہیں پاؤ تو اللہ غفور رحیم ہے۔ (المجادلہ : 12) فرض نہیں بہتر قرار دیا۔ مذہبی طبقہ بکتا ہے۔ بانٹنے کا حکم ہوگا تو اس سے غریب کو فائدہ پہنچے گا ۔ طلحہ محمود مولویوں کو الٹی سیدھی نماز پڑھاتا تھا ۔بقول اقبال باغی مرید:
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھرپیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دیہاتی ہو ، مسلمان ہے سادہ
مانندِ بتاں پوجتے ہیں کعبے کو برہمن
نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقہ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں ہے عقابوں کا نشیمن
جاویداحمدغامدی ، مفتی محمدتقی عثمانی ،مولانا فضل الرحمن، پیر ذوالفقار نقشبندی ، مفتی مختار الدین ، تبلیغی اکابراور علماء ومشائخ کے احوال بہت اچھے ہیں لیکن غریب بھوک سے مررہاہے۔
میرے مرشدکے مرید گاڑیوں بنگلے والے اور حاجی عثمان بوسیدہ عمارت یثرب پلازہ میں آخری چھٹی منزل پر جو دھوپ کی تپش سے گرم توا بنتا تھا۔ جبکہ مریدوں نے علماء ومفتیان کو گاڑیوں، بنگلوں کا مالک بنادیاتھا۔ایک خلیفہ نے مولانا فضل الرحمن کی دعوت کی تو مولانا نے اس کو فیڈرل Bایریا کا امیر بنانے کا امر کیا لیکن میں نے علماء کو روک دیا تھا۔
ہمارا اصل معاملہ روایات کو اس حدتک بیان کرنا ہے کہ بریلوی دیوبندی اور شیعہ واہل حدیث توجہ کریں۔ باقی صحیح بخاری میں حضرت علی کی روایت ہے کہ نبیۖ نے مابین الدفین کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں چھوڑا۔ اور یہ قرآن کی سلامتی پر دلیل ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس نے اپنی بخاری کی شرح میں لکھ دیا کہ ” حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت علی سے قرآن کی سلامتی کیلئے یہ روایت اسلئے نقل کی ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں تاکہ ان کی تردید ہو کہ تمہارا تحریف قرآن کا عقیدہ غلط ہے۔ لیکن حقیقت میں حضرت علی کی یہ بات درست نہیں ہے اسلئے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے”۔( کشف الباری شرح صحیح البخاری)
قرآن کے خلاف شیعہ اور سنی دونوں متحد ہیں۔ فرقہ واریت کوانہوں نے اپنا کاروبار اور پیشہ بنایا ہواہے۔ جس دن ان کی روٹی روزی بند ہوگی تو پھر ڈھول باجا اٹھاکر گانے کا گانا شروع کردیں گے۔
میاں نور محمد جھنجھانوی اور حاجی امداد اللہ مہاجرمکی کے مریداکابرعلماء دیوبنداپنے مرشد کی بات ” فیصلہ ہفت مسئلہ” پر عمل کرتے تو فرقہ وارنہ مذہبی اختلافات کی جگہ معاملہ سنجیدہ علمی مسائل پر آتا اور قرآن وسنت کی طرف رجوع ہوجاتا۔ حضرت علامہ عبدالحی لکھنوی ایک حنفی عالم دین تھے اور مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویہ رشیدیہ میں تین طلاق پر ان کا فتویٰ بھی نقل کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہوتی ہے اور تین والا بھی نقل کیا ہے۔
فمن شاء فلیرجع ومن شاء فلیحلل ” پس جو چاہے تو ایک مجلس کی3 طلاق پر رجوع کرے اور جو چاہے لعنت حلالہ سے دوجمع دو چار ہوجائے”۔
مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے کہہ دیا تھا کہ ”جو زیادہ غیرت مند ہو اس کی بیوی کو حلالہ سے بچاؤ۔ جس میں غیرت کی کمی ہوبھلے شکار کرو”۔
حنفی اور اہل حدیث، سلفی اور پنج پیری ہر طرف سے ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ تم قرآن و حدیث اور اسلاف کے منکر ہو۔ چلو شیعہ کا قرآن یا اس کی تفسیر الگ صحابہ واہل بیت الگ۔ لیکن جن کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن ایک ہے، حدیث ایک ہے اور قرآن کے بعد صحاح ستہ اور بخاری صحیح ترین کتاب ہے وہ بھی ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں؟۔
آئیے ہم جائزہ لے لیتے ہیں کہ حق اور باطل کیا ہے؟۔ صحیح بخاری میں ” اکٹھی تین طلاق پر ایک آیت کا حوالہ ہے اور دو احادیث کا۔ آیت کا بھی جائز لیتے ہیں اور ان دونوں احادیث کا بھی ۔
الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان (البقرہ 229)یہ آیت ہے۔
ترجمہ:” طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بخاری نے آیت کا درست حوالہ دیا ہے؟۔ غور سے دیکھ اور سمجھ لیجئے!۔
شافعی مسلک کے معروف بخاری کے شارح علامہ ابن حجر عسقلانی نے شافعی مسلک کی تائید میں لکھ دیا ہے کہ ” اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق جائز، سنت اور مباح ہیں اسلئے کہ جب دو طلاقیں ایک مرتبہ میں ہوسکتی ہیں تو پھر تین طلاق کا ایک ساتھ واقع کرنا بھی جائز ہے”۔
حالانکہ قرآن نے اکٹھی 2طلاق کی بات نہیں کی بلکہ یہ واضح کیا ہے کہ دو طلاق بھی الگ الگ مرتبہ ہیں۔ امام ابوبکر جصاص حنفی رازی نے اپنی کتاب ”احکام القرآن” میں یہ واضح کیا ہے کہ اس آیت میں الگ الگ مرتبہ طلاق ہی مراد ہیں،جیسے 2روپیہ کو 2مرتبہ روپیہ نہیں کہہ سکتے بلکہ 2مرتبہ فعل کو کہتے ہیں ۔2مرتبہ حلوہ کھایا۔ 2حلوہ کھایا نہیں۔
حنفی ،اہل حدیث، پنج پیری اور دیوبندی اتفاق کریںگے کہ امام بخاری نے شافعی مسلک کی تائید میں حنفی مسلک کو کھڈے لائن لگانے کے چکر میں پھسل کر بہت بڑا توپ پدو مار دیا ہے۔ اسلئے کہ اللہ نے فرمایا کہ واطیعوا اللہ و رسولہ ولا تنازعوا فتشلوا و تذہب ریحکم واصبروا ان اللہ مع الصٰبرین ” اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور جھگڑو نہیں کہ پھر پھسل جاؤ اور تمہاری ہوا خارج ہوجائے۔اور صبر کرو ۔بیشک اللہ صبر والوں کیساتھ ہے۔(سورہ المائدہ :46)
عبداللہ بن عمر نے قرآن کے واضح طریقہ کار کو نہ سمجھا تو رسول اللہ ۖغضبناک ہوگئے اور سمجھایا کہ پاکی کی حالت میں طلاق دو ، یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت آجائے ، پھر حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت آجائے تو اس کو رکھنا چاہتے ہو تو رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دو۔ یہی وہ طریقہ ہے جو اللہ نے قرآن میں عدت اور طلاق کیلئے امر کیا ہے”۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق، بخاری کی کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت )
بریلوی مفتی اعظم پاکستان وتنظیم المدارس کے صدرمفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی اور دیوبندی مفتی اعظم پاکستان اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی محمدتقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہۖ سے عدی بن حاتم نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”او تسریح باحسان سورہ بقرہ آیت 229ہی تیسری طلاق ہے”۔(نعم الباری ۔ کشف الباری)
شافعی اور حنفی مسلک میں پھڈہ ہے کہ حنفی کہتے ہیں کہ ” البقرہ 230میں فان طلقہا فلا یحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ کا تعلق الطلاق مرتان سے نہیں ہے بلکہ اس کے بعد فدیہ کیساتھ ہے اسلئے کہ ”ف” تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے”۔ جبکہ شافعی مسلک کا کہنا یہ ہے کہ ”اس کا تعلق الطلاق مرتان سے ہے”۔
جبکہ عدی بن حاتم کی روایت سے نہ صرف یہ کہ شافعی مسلک بالکل باطل ثابت ہوجاتا ہے بلکہ حنفی مسلک، عربی قاعدے اور حدیث کے مطابق تو الطلاق مرتان کا تعلق ”ف”کی تعقیب بلا مہلت کا تعلق فامساک بمعروف او تسریح باحسان سے ثابت اسٹیبلش ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں کوکنی برادری شافعی مسلک سے ہی تعلق رکھتی ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی کوکنی ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور میرے کوکنی دوست منیر داؤد ملا شافعی مسلک چھوڑ کر حنفی بن چکے ہیں اور حنفی بھی وہ قرآن فہمی کی وجہ سے بن گئے ہیں لیکن اہل حدیث اور حنفی قرآن وحدیث کے مقابلے میں شافعی کو کبھی ترجیح نہیں دے سکتے ہیں۔ قرآن وحدیث سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ طلاق کا طریقہ کار الگ الگ طلاق دینا ہے۔ امام بخاری نے قرآن کی آیت کو شافعی مسلک کی تائید میں بالکل غلط پیش کیا ہے۔ جس کو پاکستان میں موجود سبھی طبقات مانیں گے۔
حنفی مسلک کی نالائقی ہے کہ اپنا مقدمہ اچھے انداز میں پیش نہیں کیا۔ چانچہ علامہ بدر الدین عینی نے ابن حجر عسقلانی کی تردید میں لکھ دیا ہے کہ” اس آیت میں دو مرتبہ کی طلاق کو اکٹھی ثابت کرنے پر تیسری مرتبہ کوقیاس کرنا ٹھیک نہیں ہے اسلئے دو بار طلاق سے رجوع ہوسکتا ہے جبکہ تیسری بار کی طلاق سے رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔ حالانکہ امام بخاری اور ابن حجرعسقلانی دونوں کی بنیاد ہی غلط تھی اور اس بنیاد کو ٹھیک قرار دینا علامہ عینی کی بھی بڑی غلطی تھی۔
ثریا سے علم، دین اور ایمان کو واپس لارہا ہوں تو ایمان والے میری مدد کریں ورنہ پھر تمہاری داستاں تک بھی نہیں ہوگی داستانوں میں۔ اسلئے کہ میں تم سے روٹی چائے نہیں دین کی مدد مانگ رہاہوں ۔ دین کی مدد اللہ کی مدد ہے اور اللہ پھر مدد کرے گا۔
مفتی گوہر علی شاہ سے مولانا ندیم درویش کہتا ہے کہ ”مروجہ جمہوریت مطلقاً کفر ہے” تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ ”یہ جملہ اجتماع نقیضین ہے یعنی اس میں دونوں جملوں کا آپس میں تضاد ہے”۔ اور جب تضاد ہے تو دعویٰ بھی باطل تو تردید کی ضرورت بھی نہیں رہتی ہے۔ پھر مولانا درویش کو مجبور کیا جاتا ہے کہ کہو کہ عالم دین نہیں ہو ۔ منطق نہیں سمجھتے”۔
جب آیات 229اور230البقرہ میں اکٹھی تین طلاق کا ثبوت موجود نہیں ہے تو پھر اکٹھی تین کا حکم نافذ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟۔ میں مفتی اعظم پاکستان مفتی گوہر علی شاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا لیکن ہمیں جلدی تھی اور ان کو نکلنے میں دیر لگی تھی اس لئے ملاقات نہیں ہوسکی۔ مفتی منیر شاکر نے ان کی تعریف بھی کی تھی اور اپنا سلام بھی دیا تھا۔ پروگرام تھا کہ مفتی منیر شاکر اور علامہ جوادالہادی کی بھی ان سے ملاقات کراؤں گالیکن تقدیر میں نہیں تھی۔
امام ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”زادالمعاد” میںابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ فان طلقہا کا تعلق فدیہ اور دو الگ الگ مرتبہ طلاق کیساتھ ہی ہے”۔جس سے اہل حدیث کی طرف سے بھی حنفی مسلک کی تائید ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ” اللہ نے سورہ ا بقرہ آیت :228میں عدت کے تین اداوار یا مراحل کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا (اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ وہ اصلاح چاہتے ہوں) اللہ نے عدت کی پوری مدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے؟” ۔تو کیا یہ حکم منسوخ ہے؟۔
ناسخ اور منسوخ کا علم رکھنے والوں نے نہیں بلکہ حلالہ کی لذت میں دیوانوں نے یہ آیت الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان سے منسوخ قرار دیدی ہے۔
حالانکہ دورِ جاہلیت میں دو جاہلانہ رسوم تھیں۔ ایک یہ کہ شوہر عدت میں جتنی بار چاہتا تھا غیرمشروط رجوع کرسکتا تھا۔ تو اللہ نے اصلاح اور معروف کی شرط رکھ دی اور جاہلیت کی رسم اڑاکر رکھ دی تھی اور دوسری جاہلانہ رسم یہ تھی کہ ” اکٹھی تین طلاق پر شوہر اور بیوی باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے بھی رجوع نہیں کرسکتے تھے بلکہ حلالہ کی لعنت سے جہنم کے چودہ طبق کی نچلی سطح سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس کا بھی ان آیات میں خاتمہ کردیا ہے۔
جب علماء وفقہاء نے معروف و اصلاح کی شرط کو خارج کردیا توبہت بڑا نقصان کیا ہوگیاہے؟۔
حنفی مسلک میں اگرنیت نہ ہو توبھی شہوت کی نظر پڑنے سے رجوع ثابت ہوجاتا ہے ۔
شافعی مسلک میں اگر نیت نہ ہو تو پھر جماع کی سروس جاری رکھنے سے بھی رجوع نہیں ہوتا ہے۔
قرآن کے معروف اور اصلاح کی شرط کو چھوڑ کر علماء ومفتیان عزت کمائیں گے؟۔ نہیں نہیں بلکہ حلالہ کی لذت اٹھاکر بارود سے اڑنے کی ذلت ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ طالبان نے استاذان کو کیوں مارنا شروع کردیا ہے؟۔ جب اس کو معلوم ہوگا کہ اسکی ماں کا حلالہ کیا ہے تو گمنام خود کش سے اس کو اڑائے گا۔ علماء ومفتیان قرآن کی بنیاد پر اپنی عوام کی عزتوں کو نہیں بچاسکتے ہیں تو شاہ ولی اللہ کا دور محمد شاہ رنگیلا کا تھا جو اورنگزیب بادشاہ کا پوتا تھا۔ جو لڑکیوں کو ننگا کرکے سیڑھیوں میں بالا پر چڑھنے کیلئے کھڑا کرتا تھا اور ان کے پستانوں کو پکڑ پکڑ چلتا تھا اس سے اس کا داد ابھی بہت بیکار تھا جس نے فتاوی عالمگیری میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری پر حد معاف کردی تھی ۔لیکن علماء ومفتیان اس سے زیادہ بیکار تھے جنہوں نے 26ویں ترمیم کی طرح فتاوی عالمگیریہ کا آئین مرتب کیا تھا اور حلالہ کے نام پر نکاحی عورتوں کے گل چھرے اڑاتے تھے۔
1857ء کی جنگ آزادی سے بدتر حالات کا سامنا افغانستان ، عراق، لیبیا، شام اور فلسطین کے بعد ہماری تباہی وبربادی کا خدا انخواستہ ہوسکتا ہے۔
اگر اپنی طرف سے کوئی جھوٹ بولتا ہے کہ ایک مرتبہ آیت 228کے حکم کہ ”عدت میں باہمی صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے ” کو آیت229البقرہ نے منسوخ کردیا تو یہ بھی جھوٹ ہے اور اگر کوئی کہتا ہے کہ آیت 230نے منسوخ کردیا تو بھی جھوٹ ہے۔ پھر تو آیت 231اور 232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد اجازت دیکر سب کو منسوخ کردیا ہے؟۔ اور سورہ طلاق کی آیت ایک کے بعد دوسری نمبر آیت سے بھی سب کو منسوخ کردیا ہے؟۔
قرآن میں کوئی تضادات نہیں تمہاری شہوت کا جذبہ امت مسلمہ کو جنت سے نکال رہاہے؟۔
بخاری میں پہلی حدیث یہ ہے کہ رفاعہ القرظی نے اپنی بیوی کوتین طلاق دی ، اس نے عبدالرحمن بن زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور نبیۖ کے پاس آگئی۔ اپنے دو پٹے کا پلو دکھایا کہ میرے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو نہیں لوٹ سکتی۔ یہاں تک دوسرے شوہر کا ذائقہ اس سے نہ چکھ لو جیسے کہ پہلے شوہر کا چکھ لیا ہے اور وہ تمہارا نہ چکھ لے”۔
کیا بخاری کی اس حدیث سے قرآن کی واضح آیات کو منسوخ کیا جاسکتا ہے؟۔ کہ عدت میں اللہ نے باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت دیدی ہے اور اس حدیث میں روکا گیا ہے؟۔ بالکل نہیں! بلکہ یہ حدیث بخاری کی دوسری احادیث سے بالکل متصادم ہے جن میں الگ الگ طلاق کا ذکر ہے اور یہ کہ اس کے شوہر نے کہا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں اپنی مردانہ قوت سے اس کی چمڑی ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔ جس سے بخاری کے عنوان کو سپوٹ نہیں ملتی اور چاروں مسالک میں کسی نے بھی اس حدیث کی بنیاد پر اکٹھی تین طلاق کی دلیل نہ پکڑی یہاں تک کہ امام شافعی نے بھی ۔ پھر کسی عورت کو حلالہ کیلئے نامرد پر مجبور کرنا جس سے حلالہ نہیں ہوتا تو بھی نبیۖ کی شان میں بڑی گستاخی ہے۔
وزیرستان کے لوگ کہتے ہیں کہ ”اگرچہ مہمان ہو مگر اپنے خصیے چھپاؤ”۔ بخاری بڑا آدمی تھا لیکن قرآن کے سامنے کچھ نہیں تھا اور اس کی غلطی نے کافی لوگوں کی عزتوں بھرتا نکال دیا ہے۔
بخاری کی دوسری حدیث عویمر عجلانی والی ہے جس میں لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق دی گئی تھی اور وہ سورہ طلاق کے مطابق فحاشی کی صورت میں بہترین وضاحت ہے جس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ”اس کی وجہ سے عدت میں رجوع کی آیات کو منسوخ قرار دے دیا جائے”۔
علماء وفقہاء کا شروع میں یہی مؤقف تھا کہ اکٹھی تین طلاق بدعت ہیں یا سنت؟۔ شافعی کیلئے یہ سنت کی دلیل تھی اور حنفی اس کو سنت کیلئے دلیل نہیں مانتے تھے۔ قرآن کی تنسیخ کا تو کسی کو وہم وگمان بھی نہیں ہوگا کیونکہ وہ بڑی شان وعظمت والے تھے جو قرآن کو منسوخ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ علامہ انور شاہ کشمیرینے اس حدیث کے بارے میں بھی لکھا کہ ” ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے الگ الگ تین بارطلا ق دی ہو”۔ (فیض الباری شرح صحیح البخاری) علماء کرام اور عوام الناس بتائیں کہ عویمر عجلانی کی روایت کے بارے میں حنفی ومالکی مؤقف درست ہے یا شافعی؟۔
پورے ذخیرہ احادیث میں یہی ایک حدیث وہ ہے جس پر سبھی کا اتفاق ہے کہ اس میں اکٹھی تین طلاق کا ذکر موجود ہے اور یہ صحیح متن اور مستند طریقہ سے نقل ہوئی ہے ۔باقی کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں جس میں اکٹھی تین طلاق کا ذکر ہو اور اس پر دوامام اورمسالک کے علماء ومفتیان متفق ہوں۔
کیا اس حدیث سے قرآن میں عدت کے اندر رجوع والی آیات کو منسوخ قراردیا جاسکتا ہے؟۔ نہیں ہرگز بھی نہیں اور قطعاًہی نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میں منکر حدیث ہوں؟۔صحیح بخاری کا گستاخ ہوں؟۔ اسلاف اور سلف صالحین کی عظمتوں کا منکر ہوں؟۔
نہ تو احادیث کا منکر ہوں،نہ امام بخاری کا میں گستاخ ہوں اور نہ ہی اسلاف اور سلف صالحین کی عظمتوں کا منکر ہوں لیکن قرآن کی بنیادپر، اسلاف کے متفقہ مؤقف کی تائید سے ایسی روایت کی تردید علم، ایمان اور دین کا تقاضاہے جو قرآن سے بھی متصادم ہو اور چاروں فقہی مسالک سے بھی اور خود بخاری کی دیگر احادیث سے بھی بالکل متصادم ہو۔
خیبرپختونخواہ کے دیوبندی،اہل حدیث، پنج پیری، شاکرمنیری اور بریلوی متفقہ طور پر یا انفرادی طور پر اپنا مؤقف لکھ کر اخبار کے اڈریس پر بھیج دو۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ اکٹھی تین طلاق کیلئے صرف اور صرف ایک حدیث ہے عویمر عجلانی نے لعان کے بعد جو دی ہے تو اس سے قرآن کی واضح آیات کو منسوخ کرنا تو دور کی بات ہے حنفیوں کے نزدیک تو طلاق سنت بھی ثابت نہیںہوتی ہے۔
اب مسئلہ آتا ہے ایک مشہور حدیث کا جس کو بہت غلط فہمی سے متفقہ سمجھا جاتا ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ رسول اللہ ۖ کو ایک شخص نے خبردی کہ فلاں آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں۔ جس پر رسول ۖ غضبناک ہوکرکھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہوجبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ (سنن نسائی)
اگر اس حدیث کو امام شافعی مانتے تو اکٹھی تین طلاق کو سنت کیوں قرار دیتے۔ ان کے نزدیک یہ روایت بالکل بھی درست نہیں ہے اسلئے اس کو متفقہ قرار دینا انتہائی درجے کی بہت بڑی حماقت ہے۔
بخاری ومسلم نے اس روایت کو اس قابل نہیں سمجھا کہ صحیحین میں اس کو درج کردیا جاتا ۔ حالانکہ حنفی مسلک کی عمارت اس روایت پر کھڑی ہے کہ اکٹھی تین طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیں اور اس کو جب شافعی نہیں مانتے تو متفقہ ہرگز ہرگز نہیں۔
محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان کی صحیح بخاری کی شرح کشف الباری میں تفصیلات لکھی ہوئی ہیں اور علامہ غلام رسول سعیدی کی نعم الباری بھی دیکھ لو مگر اس میں یہ ایک غلطی ان سے سرزد ہوئی ہے کہ اگر قرآن میں فان طلقہا کا لفظ نہ ہوتا جس سے تعقیب بلا مہلت کے قاعدے کی وجہ سے اکٹھی تین طلاقیں ثابت ہوتی ہیں تو پھر جتنی آیات واحادیث ہیں تو ان سب سے الگ الگ طلاقوں کا ثبوت ملتا ہے۔ حالانکہ علامہ غلام رسول سعیدی نے مغالطہ کھایا ہے ۔ اس میں تو حنفی مسلک دو مرتبہ طلاق سے نہیں جوڑتا ہے بلکہ فدیہ سے جوڑتاہے اور جس کو ”نورالانوار: ملاجیون” میں بریلوی دیوبندی اپنے مدارس میں پڑھاتے ہیں، مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اس کو صحیح کرنے کا اعلان کردیں۔
رسول اللہ ۖ نے واضح فرمادیا تھا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین ادوار سے ہے اور یہ سورہ بقرہ کی آیت 228اور 229کی واضح تفسیر ہے اور یہ وضاحت نہ سمجھنے پر غضبناک ہوئے تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر عویمر عجلانی والی روایت کا کیا بنے گا؟۔ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ فحاشی کی صورت میں سورہ طلاق کے اندر اللہ نے عدت میں روکنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ فحاشی کی بنیاد پر عدت میں مرحلہ وار طلاق کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ یہی قرآن وحدیث اور مسلک حنفی کا تقاضہ تھا اور اس پر سب اتفاق بھی کرلیںگے۔ انشاء اللہ
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمود بن لبید کی روایت کا بنے گا جس کو شافعی نہیں تو حنفی مانتے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محمود بن لبید کی روایت کے دوپہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہے یا نہیں؟۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر واقع ہو تو پھر رجوع بھی ہوسکتا ہے کہ نہیں ہوسکتا ہے؟۔
پہلی صورت : تین طلاق واقع ہوسکتی ہیںاور یہ اچھی بات نہیں ہے کہ اکٹھی تین طلاق دی جائے۔
دوسری صورت: رجوع ہوسکتا ہے اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں واضح طور پر باہمی اصلاح کی بنیاد پر رجوع کی عدت میں اجازت دی ہے۔
سوال: اگر رجوع ہوسکتا ہے تو پھر نبیۖ نے رجوع کا حکم کیوں نہیںدیا؟۔ غضبناک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
جواب: اس سے زیادہ مضبوط حدیث بخاری کی ہے جس میں نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود عبداللہ بن عمر سے رجوع کا فرمایا تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ محمود بن لبید کی روایات میں خبر دینے والے شخص، طلاق دینے والے شخص اور قتل کی پیشکش کرنے والے شخص کو چھپایا گیا ہے۔ حالانکہ دوسری روایات میں یہ افراد معلوم ہیں ۔خبر دینے والا شخص حضرت عمر تھے ۔ جس نے طلاق دی تو وہ عبداللہ بن عمر تھے اور جس نے قتل کی پیشکش کی تھی تو وہ حضرت عمر تھے۔ بخاری کی روایت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن عمر کی طلاق پر حضرت عمر نے خبر دی تو نبیۖ غضبناک ہوگئے۔ دوسری روایات میں بخاری کے اندر روایوں نے غضبناک ہونے والی بات کو چھپادیا ہے۔ لیکن تین چیزوں کا تو ثبوت مل گیا ۔ خبر دینے والے کا ، جس کی خبر دی گئی اور رسول اللہ ۖ کے غضبناک ہونے کا۔ چوتھی چیز قتل کی پیشکش کرنے والے کا؟۔تو روایات میں یہ موجود ہے کہ حضرت عمر نے ہی یہ پیشکش کی تھی۔
اب رہ جاتی ہے ایک ساتھ تین طلاق دینے کی وضاحت ؟۔ تو صحیح مسلم میں حضرت حسن بصری کی روایت ہے کہ ایک مستند شخص نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی تھیںاور 20سالوں تک کوئی اور شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص مل گیا اور اس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ (صحیح مسلم)
ان دونوں افراد کے ناموں کا ذکر کیا جاتا تو پتہ چل جاتا کہ کون زیادہ فقیہ اور کون زیادہ مستندتھا؟۔
بخاری کا راوی ذکر کرتا ہے کہ رفاعہ القرظی نے تین طلاقیں دی تھیں۔ دوسرا راوی ذکر کرتا ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں۔ بخاری کبھی ایک کو مستند سمجھ کر اکٹھی تین طلاق کو سنت قرار دینے کیلئے اس عنوان کے تحت درج کرتا ہے اور کبھی دوسرے کو مستند سمجھ کر الگ الگ طلاق کو واضح کردیتا ہے۔
رسول اللہ ۖ کے دور میں محمود بن لبید پیدا ہوئے تھے لیکن ان کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ اور حضرت عمر کے حوالہ سے جب سختی اور عبداللہ بن عمر کی طرف سے اکٹھی تین طلاق پر بعض لوگوں کیلئے پردہ ڈالنا زیادہ مناسب اسلئے تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد آپس کی قتل وغارت سے ناچاکی کی ایک فضا قائم ہوچکی تھی۔ عبداللہ بن عمر سے کسی نے کہا کہ حضرت عمر اپنا جانشین مقرر کریں گے ۔ جس پر اس نے قسم کھائی کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔ پھر موقع مل گیا تو حضرت عمر سے پوچھ لیا کہ میں نے یہ سنا ہے اور میں نے قسم کھائی تو پوچھنا مناسب سمجھ لیا۔ حضرت عمر نے کہا کہ ”اگر میں اپنے بعد کسی کو بھی مقرر نہیں کروں تو بھی میرے لئے جائز ہے۔ اسلئے کہ نبیۖ نے کسی کو مقرر نہیں فرمایا۔اور اگر میں اپنے بعد کسی کو نامزد کردوں تو بھی میرے لئے جائز ہے اسلئے کہ ابوبکر نے اپنے بعد نامزد کیا تھا”۔
پھر حضرت عمر نے تیسرا راستہ اپنایا ۔ چھ افراد کی شوریٰ بنائی ۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ، حضرت زبیر بن عوام۔
کسی نے مشورہ دیا کہ عبداللہ بن عمر ہی کو نائب بنادو۔ حضرت عمر نے کہا کہ اس کو طلاق کا طریقہ بھی نہیں آیا تو اس پر امت مسلمہ کی ذمہ داری لگاؤں؟ اور یہ ہرگزنہیں ہوسکتا ہے۔ یہ خلافت کیلئے نااہل ہے۔ حضرت عمر نے محسوس کیا کہ جس نے اتنی بڑی قسم کھائی کہ میرا والد نبیۖ کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا تو وہ یہ نہیں جانتا کہ نامزد بھی اس کا والد ہی ہوا ہے؟۔ مگرحضرت عمر نے یہ نااہلی کی بنیاد نہیں بنایا بلکہ طلاق کے مسئلے کو نہ سمجھنا نااہلی کی بنیاد بنادیا۔
جب پھر خلافت قائم ہوگی تو شاید اس میں بھی طلاق کا مسئلہ سمجھنا اہلیت کی بنیاد بن جائے گا۔ اور لوگوں کی نااہلی یا ہٹ دھرمی سے یہ ثابت ہورہاہے کہ ایک دن طلاق کے مسئلے پر خلافت قائم ہوگی۔
حضرت عمر نے حکم دیا کہ حضرت صہیب3 دن تک نماز پڑھائے گا۔ تین دن تک شوریٰ کے تمام ارکان بند ہوں گے اگر فیصلہ نہیں کیا تو پھر سب کی گردن ماردی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ کچھ نوجوانوں کو نگرانی کیلئے مقرر کردیا تھا۔
چھ افراد میں جن کی اکثریت ہو تو اس کو خلیفہ بنایا جائے اور دوسرے نہیں مانیں تو گردن اتاری جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہ میں اس کا امیدوار نہیں ہوں۔حضرت عمر نے کہا کہ اگر تین ایک طرف اور تین دوسری طرف ہوں تو جن تین میں عبدالرحمن بن عوف ہو تو اس کو خلیفہ بنایا جائے۔
حضرت زبیر نے اپنا ووٹ حضرت علی کے حق میں دیا اور حضرت طلحہ نے اپنا ووٹ حضرت عثمان کے حق میں دیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنے ووٹ کا اختیار حضرت عبدالرحمن بن عوف کو دیا اور یوں حضرت عبدالرحمن بن عوفکی حیثیت ایک فیصلہ کن شخص کی ہوگئی۔ مدینہ کے انصار ومہاجرین اور اشراف وعوام سے تین دن تک رائے طلب کی اسلئے کہ خلافت کے دو امیدوار تھے۔ حضرت عثمان اور حضرت علی۔ ان دونوں میں ایک کو منتخب کرنا تھا۔
جب حضرت عبدالرحمن بن عوف نے دونوں کا انٹرویو لیا تو ایک سوال دونوں سے پوچھ لیا کہ اپنی خلافت کو ابوبکر و عمر کے طرز پر چلاؤگے؟۔ حضرت علی نے کہا کہ میں ان کا پابند نہیں ہوں ۔ نبیۖ کی سنت کا پابند ہوں۔ حضرت عثمان نے کہا کہ میں ان دونوں کے طرز پر خلافت کو چلاؤں گا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف خود بھی طلب گار نہیں تھے اور ان دونوں میں سے اپنے احساسات کے مطابق حضرت عثمان میں طلب نہیں دیکھی اور حضرت علی میں طلب دیکھی تو حضرت عثمان کے حق میں فیصلہ کردیا تھا۔ حضرت عمر نے سب کو تاکید کی تھی کہ کوئی بھی رشتہ داری کا لحاظ نہ کرے۔ خلیفہ بن جائے تو پھر اپنے اقارب کی جگہ عوام اور اہل کو ترجیح دے اور حضرت عمر نے سپہ سالار حضرت خالدبن ولید اور فاتح فارس حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھی اپنے دور میں سپہ سالاری اور گورنری سے ہٹادیا تھا۔
آج کل دیوبندی علماء کرام ومفتیان عظام بھی دو گروپوں میں تقسیم ہیں ۔ایک جمہورریت کو کفر کہتا ہے اور دوسرا جمہوریت کو کفر نہیں کہتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے دلائل بھی دیتے ہیں اور امارت اسلامی افغانستان سے رہنمائی پر بھی متفق ہوجاتے ہیں۔
دیوبندی میں یزیدی اور حسینی کی تقسیم بھی ہے۔ جب امیر معاویہ نے یزید کو نامزد کیا تھا تو عبداللہ بن عمر نے کہا تھا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں پہنچتا تو اپنے حق میں فیصلہ کرواتا۔ حضرت امیرمعاویہ کو پتہ چلا تو اس نے کہا کہ ”میرا بیٹا اس سے بہتر اور میں اس کے باپ سے بہتر ہوں ”۔ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ” مجھے انتشار اور فتنے کا خطرہ تھا ورنہ تواس کو بہت سخت جواب دے سکتا تھا”۔
جو لوگ یزید کی نامزدگی کی تعریف کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن صحابہ کرام کی عظمت و شان اسلئے نہیں کہ صحابہ واہل بیت کے ہوتے یزیدکا حق نہیں تھا ۔ فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے صحابہ کرام کے درجات میں بھی فرق تھا تو یزید صحابی بھی نہ تھا۔
مکہ میں عبداللہ بن زبیر نے اپنی خلافت قائم کی تھی اور شام میں یزید کے مقابلے میں ایک صحابی کا خلیفہ ہونا زیادہ مناسب تھا۔ یزید کے بعد بنی امیہ کی دوسری شاخ مروان بن حکم کو خلیفہ بنایا گیا تھا۔ عبداللہ بن زبیر نے اس کے حملوں کو بھی ناکام بنایا مگر پھرعبدالملک بن مروان نے عبداللہ بن زبیر کی والدہ کے سامنے وہ حشر کیا جو ملاعمر دور میں ڈاکٹر نجیب اللہ شہید کی لاش کیساتھ کیا گیا تھا۔ نجیب کی والدہ پتہ نہیں زندہ تھی یا نہیں لیکن چھوٹے بچے تھے اور عبداللہ بن زبیر کی والدہ اسماء بنت ابی بکر 100 سال کی عمر میں نابینا زندہ تھی۔ عبداللہ بن زبیر نے اپنی ماں سے کہا کہ میں ہتھیار ڈال دیتا ہوں اسلئے کہ مرنے کے بعد میری لاش کا بہت برا حشر کریں گے۔ تو آپ کو تکلیف ہوگی؟۔ صدیق اکبرکی بیٹی ماں اسماء بنت ابوبکر نے کہا: بیٹا!تمہارے ٹکڑے کرنے سے زیادہ تکلیف تمہارے ہتھیار ڈالنے پر مجھے ہوگی۔ جب ایک دفعہ تمہیں قتل کیا جائے تو پھر ٹکڑے کرنے سے فرق نہیں پڑتاہے؟۔ بیٹے نے اپنا کاندھا آگے کیا کہ دعا دو۔ نابینا ماں نے پیٹھ پر تھپکی دی اور کہا کہ اللہ مدد کرے۔ پوچھا، پیٹھ سخت کیوں لگتی ہے؟۔ بتایا اماں زرہ پہن رکھا ہے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا زرہ اتاردو۔ چنانچہ زرہ اتار دیااور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تو کئی دنوں تک حجاج نے لاش لٹکائے رکھی۔ حکم دیا کہ ماں کو قریب لاؤ اور پھر کہا کہ اپنے بیٹے کا حشر دیکھ لیا؟۔ اس کو کیا ملا؟۔ حضرت ابوبکر کی 100سالہ بیٹی اسماء بنت ابوبکر نے کہا کہ بیٹے نے سودا مہنگا نہیں کیا ہے۔ تم نے اس کی دنیا برباد کردی اور اس نے تمہاری آخرت برباد کردی۔ یہ تھی صحابہ کرام کی عالی شان۔
اگر یزید کے خلاف حضرت امام حسین کی قربانی کی طرح حضرت عبداللہ بن زبیر کے واقعہ کو بیان کیا جاتا تو اہل تشیع کے مقابلے میں بعض دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کو یزیدی بننے کی ضرورت نہ پڑتی۔ یزیدومروان اور بنوامیہ وبنوعباس کیلئے ہمارا ایمان اور اسلام خراب ہوتا ہو تو یہ بڑی حماقت ہوگی اورجب دیوبندی مکتبہ فکر کے حکیم الاسلام قاری محمد طیب نے اپنے بیٹے کو 50سال اہتمام کے بعد اپنا جانشین مقرر کرنا چاہا تو دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کی طرف سے مزاحمت ہوئی۔ وہ نعت لکھ دی جو ایک بریلوی خوشی کے عالم میںلکھتا ہے ۔ جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا عبداللہ درخواستی نے مولانا عبیداللہ انور ابن مولانا احمد علی لاہوریکو مفتی محمود کی جگہ قائد جمعیت علماء مقرر کرنا چاہا تو جمعیت علماء اسلام کی شوریٰ نے مولانا فضل الرحمن کو بنادیا تھا، جس سے جمعیت دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔رائیونڈ کی شوریٰ اور بستی نظام الدین بھارت کی امارت بھی تبلیغی جماعت کے دو گروپ میں تقسیم ہیں۔
قرآن کی طرف توجہ کی گئی تو فرقہ واریت اور گروہ بندیوں کی جگہ سب مساجد ومدارس اور مذہبی جماعتوں کو خدمات کا اتنا موقع ملے گا کہ تقسیم کے بجائے سب ایک دوسرے کی مدد گار ہوں گی۔
اگر صرف طلاق اور عورت کے حقوق کے حوالہ سے قرآن وحدیث کی درست تعلیمات کو عوام اور دنیا کے سامنے لایا جائے تو ایک بہت بڑی نمایاں تبدیلی آئے گی۔ امریکہ، یورپ، آسڑیلیا، بھارت اور مشرق ومغرب اورشمال وجنوب میں پوری دنیا کو اسلامی نظام کے حق میں ووٹ دینا پڑے گا۔ تمام زبانوں میں قرآن کے تراجم کافی ہوں گے۔ لیکن جب قرآنی آیات کے واضح مفہوم کو بگاڑ دیا گیا ہو تو پھر کون قرآن کو دیکھ اور سمجھ کر انقلاب کی امید رکھ سکتا ہے؟۔اسلئے ہم متوجہ کررہے ہیں۔
سورہ بقرہ کی آیات میں تسلسل کیساتھ 222 سے 237تک عورت کے حقوق ہی حقوق کا ذکر ہے۔ لیکن علماء وفقہاء نے اس کمزور طبقے کو بالکل محروم کرکے رکھ دیا ہے۔ خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔
آیت222البقرہ میں دو باتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ عورت کا حیض تکلیف اور ناپاکی ہے اور دوسری یہ کہ تکلیف اور ناپاکی سے بچنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور توبہ کرنے اور پاکی سے اللہ نے محبت کا فرمایا۔
جس کا مطلب ایک تو طلاق کیلئے یہ مقدمہ ہے اور پاکی وحیض کا طلاق کے احکام میں بڑا اہم کردار ہے اور بنیاد اس کی عورت کو تکلیف سے بچانا ہے۔
جب ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر احکام کا جائزہ لیں گے تو پھر ٹھوکریں کھانے سے بچت ہوجائیگی۔
آیت223البقرہ میں عورت کو اثاثہ قرار دیا ہے۔شوہر کیلئے عورت بچوں کی ماں ہوتی ہے ، گھر کی عزت ہوتی ہے، راحت وسکون کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اپنے گھر اور خاندان کی کشتیاں جلا کر آتی ہے اور اس کا خیال رکھنا انسانیت کا اہم تقاضہ ہے۔
آیت224البقرہ میں طلاق کا بنیادی مقدمہ ہے کہ اللہ کو اپنے عہدوپیمان کیلئے بطور ڈھال یوں استعمال نہ کرو کہ نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح نہ کراؤ۔ یعنی کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے کہ جب میاں بیوی بالخصوص اور دیگر عوام بالعموم صلح کریں تو اللہ اور مذہب کو اس میں رکاوٹ بنایا جائے۔
یمین کی دواقسام ہیں۔ نکاح اور طلاق کو بھی یمین کہتے ہیں اور حلف کو بھی یمین کہتے ہیں۔ جب یمین سے مراد حلف ہو تو وہ قسم اور کفارہ کو کہتے ہیں جس کا سورہ مائدہ میں ذکر ہے کہ ”یہ تمہارے یمین کا کفارہ ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ یہاں پر اس قسم کے کسی حلف کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، تفاسیر اور کتابوں سے قرآن کی واضح آیات میں مغالطہ دیا گیا ہے کیونکہ یہاں حلف کا کوئی تذکر ہ نہیں ہے۔
آیت225البقرہ میں تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ اللہ تمہیں یمین یعنی طلاق کے لغو الفاظ پر نہیں پکڑتا مگر جو گناہ تمہارے دلوں نے کمایا، اس پر پکڑتا ہے۔حدیث بالکل برحق ہے کہ طلاق مذاق میں معتبر ہے لیکن اس کا تعلق عورت کے حقوق سے ہے اور جب عورت طلاق کے بعد صلح نہیں کرنا چاہتی ہو تو پھر اس کی مرضی ہوگی اور مذاق کی طلاق میں بھی اس کو خلع کے حقوق نہیں بلکہ طلاق کے حقوق ملیں گے۔ یہ اللہ کی طرف سے رکاوٹ نہیں بلکہ عورت کی طرف سے رکاوٹ ہے۔ اگر اس کو صلح نہیں کرنی تو پھر طلاق کے ظاہری الفاظ اور کنایہ الفاظ سب معتبر ہوں گے۔ مذاق بھی بالکل معتبر ہوگا لیکن اللہ نے ان آیات میں یہ سمجھایا ہے کہ اگر میاں بیوی آپس میں راضی ہوں اور کوئی مذہب کی بنیاد پر کہے کہ اللہ صلح کی راہ میں رکاوٹ ہے تو یہ فتویٰ غلط ہے اور اس کی وجہ سے اللہ نے وضاحتیں کردی ہیں۔
آیت226البقرہ میں ایلاء کی وہ گھناؤنی بلا ہے جس میں شوہر طلاق کا کھلے الفاظ میں اظہار بھی نہیں کرتا تھا اور مدتوں اس کو اپنی تحویل یا نکاح میں رکھتا تھا۔ اللہ نے اس کی ڈیڈلائن بتائی ہے کہ جب شوہر طلاق کے الفاظ کے بغیر ناراض ہو تو پھر عورت کیلئے چار مہینے انتظارکی عدت ہے۔اس میں اگر باہمی رضامندی سے صلح ہوگئی تو ٹھیک ہے اور نہیں ہوئی تو چارماہ کے بعد عورت جہاں چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔ یہ بہت اہم آیت اور اس میں بڑا اہم حکم ہے۔ جب ناراضگی کی عدت چار ماہ مقرر کی ہے اللہ نے تو کوئی شوہر اپنی بیوی سے ناراضگی کے بعد یہ نہیں سمجھے گا کہ مدتوںمیرے لئے بیٹھی رہے گی۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا اور ایک ماہ کے بعد رجوع کرنا چاہا تو اللہ نے فرمایا کہ پہلے ان سب کو طلاق کا اختیار دے دو تاکہ اگر وہ راضی نہ ہوں تو علیحدگی پر عمل ہو۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایلاء بھی حقیقت میں طلاق ہی ہے لیکن طلاق کا کھلے الفاظ میں ذکر نہیں ہے۔ جمہور کے نزدیک عورت پھر بھی ہمیشہ نکاح میں رہے 4 ماہ کے بعد بھی، لیکن احناف کے نزدیک چار ماہ بعد طلاق ہوگی۔ دونوں میں احناف کا مسلک پھر بھی کچھ اچھا ہے لیکن یہ بھی غلط ہے کہ چار ماہ بعد پھر اس کو تین ماہ مزید بھی عدت پر مجبور کرکے اذیت دی جائے۔ مسلک حنفی کی یہ بہت بڑی مگر دوسروں سے چھوٹی غلطی ہے۔
آیت227البقرہ میں اللہ نے یہ واضح کیا کہ اگر طلاق کا ارادہ تھا تو پھر یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر پکڑنے کی اللہ نے وضاحت کردی ہے اسلئے کہ طلاق کے اظہار سے عدت 3 ماہ کے بعد ختم ہوتی اور مزید ایک مہینے کا اضافہ اور انتظار عورت کیلئے اذیت ہے اور اس تکلیف کا اللہ کو حساب دینا پڑے گا اسلئے کہ وہ ارادے کو بھی سنتا اور جانتا ہے۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے تین ادوار کا ذکر کیا ہے اور حمل کو نہ چھپانے کا حکم دیا ہے اسلئے کہ یہ عورت کی عدت ہے۔ اور اس میں اصلاح کی شرط پر شوہروں کو لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ جس بیوہ کی عدت میں عورت کو اشارہ کنایہ سے نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں تو طلاق کی عدت میں دوسرا شخص اس کا جواز نہیں رکھتا ہے۔ علماء وفقہاء نے اصلاح کی شرط بھی نکال دی اور شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیا یا پھر اکٹھی تین طلاق میں رجوع کا حق ختم کردیا اور یہ دونوں باتیں جاہلیت کی تھیں اور اللہ نے ان کو ختم کیا تھا۔ شوہر کو نہ غیر مشروط رجوع کا حق ہے اور اگر میاں بیوی صلاح پر راضی ہوں تو کسی سے فتویٰ لینا جہالت ہے ۔ اللہ نے رجوع اور صلح نہ کرنے کے فتوے دینے سے روکا ہے لیکن قرآن کو مدارس نے ہی بوٹیاں بوٹیاں بناکر اس کے سر پیر کچل ڈالے۔
آیت229میں مزید وضاحت کردی کہ طلاق عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ ہے اور رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے یعنی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں کرسکتے۔ ان تمام آیات میں عورت کی اذیت کو نظر انداز کرکے فقہ سازی کی گئی ہے جس کا کوئی اخلاقی، قانونی ، شرعی اور فطری جواز نہیں ہے جس سے کتابیں بھردی گئی ہیں تضادات سے بھرپور اور انسانیت کے دائرے سے نکلی ہوئی۔
اگر طلاق کا فیصلہ کیا تو احسان کیساتھ رخصت کرنے کا حکم ہے، یعنی اپنے حق سے زیادہ نوازنے کا حکم ہے۔ جو بھی دی ہوئی چیزیں ہیں حق مہر کے علاوہ تمام کی تمام منقولہ وغیر منقولہ جائیدادیں اور چاہے خزانے دئیے ہوں۔ کوئی چیز واپس نہیں لے سکتے ہیں۔ البتہ کوئی ایسی چیز ہو کہ جس پر دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کا اتفاق ہو کہ اگر واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں۔پھر وہ عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میںدونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔فدیہ سے مراد فدائی کی قربانی ہے اور اس کو خلع قرار دینا انتہائی شرمناک حماقت ہے۔ اللہ نے عورت کو مالی تحفظ دیا ہے اور یہ لوگ خلع کے نام پر بلیک میلنگ کا کاروبار کھولنا چاہتے ہیں۔
دو مرتبہ اور تیسری مرتبہ طلاق کے بعد کہاں کا خلع ؟۔ خلع عورت اور طلاق مرد کی طرف سے ہوتی ہے۔ سورہ النساء آیت19میں خلع اور 20،21 آیات میں طلاق کے احکام کی وضاحت ہے۔
آیت230البقرہ میں اس فدیہ کا فیصلہ کرنے کے بعد کی طلاق مراد ہے۔ طلاق عربی لغت میں عورت چھوڑنے کو کہتے ہیں۔ شوہر عورت کو طلاق کے بعد بھی دوسری جگہ نکاح پر اپنی غیرت کا مسئلہ بناتاہے اسلئے اللہ نے واضح فرمادیا کہ دوسرے شوہر سے نکاح ضروری ہے تاکہ عورت کی جان آزاد ہو اور یہ حکم پہلی بار نہیں ہے بلکہ اگر مذاق میں طلاق دی یا ایلاء کیا۔ ایک بار طلاق دی یا دو بار جب تک عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو شوہر کیلئے رجوع ویسے ہی حرام ہے جیسے اس آیت میں حرام ہے لیکن جب تک ان الفاظ کا ذکر نہیں آیا تو پھر عورت کیلئے جان چھڑانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے اسلئے توراہ وانجیل کے بعد بہت تفصیل اور بہتری کیساتھ طلاق کے حوالے سے بھرپور آیات کھول کھول کر بیان کردیں تاکہ یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر مسلمان نہیں چلیں۔ لیکن پھر بھی چل پڑے ہیں اسلئے کہ قرآن کو چھوڑ دیاہے۔
آیت231میں پھر تفصیل سے ہے کہ عدت کی تکمیل پر بھی معروف رجوع ہوسکتا ہے تاکہ اس بات کو ذہن نشین کرلیا جائے کہ عدت میں رجوع کا اختیار عورت کی آزادی کیلئے دیا تھا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر عدت گزرنے کے بعد ان میں معروف رجوع کی خواہش ہو تو اللہ اس میں کوئی رکاوٹ ہے۔ علماء ودفقہاء نے آدھے بچے سے کم اور زیادہ کے حوالے سے رجوع کا جوشرمناک تصور پیش کیا ہے اس کو قومی اسمبلی میں کبھی مولانا فضل الرحمن یا شیر افضل مروت بیان کرے تو کمال ہوگا۔
آیت232البقرہ میں کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے نہ صرف رجوع کی اجازت ہے بلکہ معاشرہ ، مولوی اور سب کو خناس کا کردار ادا کرتے ہوئے رکاوٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ اس میں تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی اورزیادہ تزکیہ ہے جو اللہ جانتا ہے ۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے اساتذہ قرآن کے ترجمہ اورتفسیر میں مولانا بدیع الزمان، قاری مفتاح اللہ اور مفتی محمد ولی تھے اور انوارلقرآن آدم ٹاؤن میں جلالین ومشکوٰة شریف کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید اور بیضاوی کے استاذ مولانا شبیراحمد رحیم یار خان والے تھے۔ مجھے اعزاز حاصل ہے کہ تفسیری عزیزی میں غلطیاں پکڑ میں آئیں تو مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی کے پاس بھی جواب نہیں تھا اور قاری مفتاح اللہ صاحب نے تفسیر کشاف کا مشورہ دیا اور اس وقت میں نے تفسیر کشاف لیکر قرآنی آیات کی مشکلات کا حل تلاش کرنا شروع کیا تھا۔ بیضاوی کی غلطیوں پر اور اصول فقہ کی غلطیوں پر اساتذہ کرام نے مجھے اپنی تائیدات اور حوصلہ افزائیوں سے نوازا تھا جن میں کنزالدقائق ، شرح الوقایہ اور نورالانوار و اصول الشاشی وغیرہ فقہ واصول فقہ کی کتابیں شامل تھیں اور مفتی عبدالمنان ناصر لورالائی کی طرف سے بھی فقہی مسائل میں کتابوں کے مقابلے میری تائید ہوتی تھی۔ ان اساتذہ کرام اور دیگر بہت سارے اساتذہ کرام کی تائیدونصرت اور حوصلہ افزائی ہی کا نتیجہ ہے کہ مجھے اللہ نے بڑی توفیق عطا فرمائی۔
غلام احمد پرویز نے حدیث کا انکار کرنے سے زیادہ قرآن کی واضح آیات کا انکار کیا ہے۔ جب اللہ نے بہت سلیس انداز میں مسائل کا ذکر کیا ہے تو پھر غلام احمد پرویز کو اپنی طرف سے تبویب القرآن لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ لیکن چونکہ علماء نے بھی قرآن کو بے ربط کرکے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا تو پرویز کو موقع مل گیا اور بہت سارے علماء اور لکھے پڑھے طبقے کو متاثر کرکے نئی تعبیرات ایجاد کردیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی اس سے متاثر ہے لیکن طلاق کے حوالہ سے پرویز کا ذکر نہیں کیا ہے۔ جس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ احادیث کا ذخیرہ اور صحابہ کرام کے فتوے غلط ہیں ،بالکل بھی نہیں۔
حضرت عمر دارالافتاء میں بیٹھ کر مفتی نہیں تھے کہ کوئی فتویٰ دے رہے تھے بلکہ عدالت سے لوگوں کو انصاف فراہم کررہے تھے۔ ایک تنازعہ آیا کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہے۔ اب حضرت عمر نے کیا فیصلہ دینا تھا؟۔ ظاہر ہے کہ قرآن میں واضح ہے کہ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تو پھر شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے اور حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دے دیا۔ جب شوہر نے بیوی کو حرام کہہ دیا اور جھگڑا حضرت عمر کے دربار میں آگیا اوران کا تصفیہ ہوگیا اور صلح کیلئے راضی ہوگئے تو پھر رجوع کا فیصلہ ہوگیا۔ فقہاء نے اس کو نام دیا کہ یہ حضرت عمر نے ایک طلاق قرار دی ہے۔ حالانکہ یہ قرآن وحدیث سے بہت بڑی ناواقفیت ہے۔
حضرت علی کے دور میں شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا اور رجوع نہ کرنے پر عورت ڈٹ گئی تو پھر حضرت علی نے فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ علماء وفقہاء نے اپنی کم عقلی سے حضرت علی پر تہمت باندھ دی کہ حرام کے لفظ پر تین طلاق قرار دیا ہے۔
حضرت عمر و حضرت علی میں حلال وحرام پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اگر قرآن اور سنت کو امت مسلمہ سمجھ لیتی تو حضرت عمر وعلی میں اختلاف نہیں دکھائی دے سکتا تھا۔ لیکن قرآن کو انہوں پس پشت ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے گمراہی پر گامزن ہوگئے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت کا مطلب یہی ہے کہ پہلے 3 طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی اور پھر حضرت عمر نے اکٹھی تین پر تین کا فیصلہ دے دیا کہ حضرت عمر کے دور میں پہلا تنازعہ کھڑا ہوا تھا ۔ پھر حضرت ابن عباس کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہے کہ اکٹھی تین طلاق کو ایک بھی قرار دیا اور تین بھی۔ بلکہ جس صورت میں عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تھی تو رجوع کا فتویٰ دیتے تھے اور عورت رجوع پر راضی نہیں ہوتی تھی تورجوع کا فتویٰ نہیں دیتے تھے اور یہی حال آپ کے پانچوں شاگردوں کا بھی تھا۔ جن میں اختلاف نہیں تھا بلکہ مختلف صورتحال پر فتویٰ الگ الگ طرح کا دیا جو قرآن کے مطابق ہوتا تھا اسلئے کہ عورت راضی ہو تو رجوع ہوسکتا تھا ۔عورت راضی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
جن احادیث میں تضادات نظر آتے ہیں تو ان میں بھی تضادات قطعی طور پر نہیں ہیں۔ مثلاً فاطمہ بنت قیس کے حوالہ سے ایک قسم کی روایات یہ ہیں کہ اکٹھی تین طلاقیں دیں اور دوسری قسم میں ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی ہیں۔ اب دونوں کی تطبیق یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دی ہوں گی لیکن پھر شمار ایک ہوئی ہوگی اسلئے پھر الگ الگ بھی تین مرتبہ مرحلہ وار طلاقیں دی ہوں گی۔ احناف کے مسلک ضعیف روایات میں بھی تطبیق ممکن ہو تو تطبیق ضروری ہے اور کسی روایت کو حتی الامکان رد کرنے کی ضرورت نہ ہو تو رد نہیں کرنا چاہیے۔
پہلے دور میں یہ سوچ نہیں تھی کہ عدت میں بھی رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اماںعائشہ سے فتویٰ پوچھا گیا کہ عورت نے تیسرے حیض میں اپنی عدت کو مکمل قرار دیا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ بالکل ٹھیک ہے ۔ عدت کے تین ادوار سے مرادتین اطہار پاکی کے ایام ہیں۔ قرآن وحدیث میں بھی یہ بالکل واضح ہے مگر حنفیوں کو ریاضی کا جنون چڑھ گیاکہ اس طرح عدت میں 3کا عدد پورا نہیں ہوگا۔ جس طہر میں طلاق دی تو وہ ادھوری ہوگی اور دو طہر اور مل جائیں گے تو ڈھائی بن جائیں گے۔ اسلئے حیض مراد ہے تاکہ تین کا عدد مکمل ہوجائے۔
پھر جن پاکی کے دنوں میں طلاق دی ہے تو تین حیض کیساتھ وہ بھی شامل ہوں گے اور ساڑھے 3 بن جائیںگے؟۔تو قرآن کے خاص عدد3 پرعمل نہیں ہوگا۔ اتنی بڑی مدت کے اضافہ سے عورت کی اذیت میں اضافہ ہوگالیکن اس کی بھی پرواہ نہیں۔
جس طرح روزہ کی نیت سورج نکلنے کے بعد بھی کچھ کھائے پیئے بغیر ہوتی ہے اور روزہ پورا شمار ہوتا ہے ادھورا نہیں،اسی طرح طہر میں ہاتھ لگائے بغیر طلاق کی عدت کا عدد پورا شمار ہوگا ادھورا نہیں۔
حنفی فقہاء وعلماء نے طہر کو عدت الرجال ،حیض کو عدت النساء قرار دیا۔ جس کی وجہ سے سورہ طلاق کا ترجمہ بھی درست نہیں بن سکتا اسلئے کہ اللہ نے یہ فرمایا کہ فطلقوھن لعدتھن ”پس ان کو طلاق دو ان کی عدت کیلئے” تو ترجمہ ہوگا کہ حیض کیلئے ان کو چھوڑدو۔ جس میں مقاربت ویسے بھی منع ہے اور جس طہر میں طلاق دی جاتی ہے تو اس سے پہلے کی حیض میں بھی مقاربت نہیں ہوتی اسلئے وہ حیض بھی انتظار کی مدت میں شامل ہے۔ جیسے اعتکاف کے آخری دس دن میں جونہی عید کے چاند کی خبر ملتی ہے تو اعتکاف والے قید سے آزاد ہوتے ہیںاسی طرح جب عورت کوحیض آتا ہے تو عدت پوری ہوتی ہے البتہ عورت جدائی نہیں چاہتی اسلئے بڑھانے سے اس پر اثر نہیں پڑتا لیکن قرآن وحدیث کے برعکس جو غیر فطری مسائل گھڑے گئے ان سے جان چھڑانا بہت ضروری ہے۔ مولانا بدیع الزماننے قرآن و اصول فقہ کی تعلیم دی اور نصاب کے مقابلے میں میری حوصلہ افزائی فرمائی۔اس دور کے طالب علم اور اساتذہ کرام گواہی دیں گے۔
فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (سورہ البقرہ آیت:230)
‘اگر پھر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے وہ نکاح کرے”۔
اس کا پہلا معرکة الآراء مسئلہ یہ ہے کہ اس میں موجود طلاق کا تعلق کس سے ہے؟۔ حنفی مسلک میں اس کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے جو عربی قواعد کا تقاضہ ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد علامہ تمنا عمادی مشرقی پاکستان ریڈیو سے قرآن کا درس دیتے تھے اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع، علامہ سیدمحمدیوسف بنوری،مولانا ابولاعلی مودودی ، علامہ شبیراحمد عثمانی اور حنفی واہل حدیث اور شیعہ علماء کرام اس کے علم کے سامنے خس وخاشاک تھے۔ انہوں نے کتاب ”الطلاق مرتان” لکھی ہے جس کا علماء نے جواب نہیں دیا بلکہ ڈائنوسار کی طرح اپنی بڑی بڑی دم رکھتے توگھسیڑ دیتے تھے۔ علامہ عمادی نے حنفی اصول اور عربی قواعد سے یہ طلاق خلع کیساتھ سے منسلک کردی ۔ اگر حنفی مسلک کا نام لیکر اس پر بس کرتے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا تھا لیکن تمناعمادی نے احادیث کی کتابوں کو قرآن کے خلاف سازش قرار دے دیا اور اپنی کتاب میں دو باتیں بنیادی ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ ایک یہ کہ قرآن نے مرد کی طرف سے تیسری طلاق کا خاتمہ کردیا تاکہ کوئی عورت مرد کی غلطی سے حلالہ کی شکار نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ حلالہ کو خلع سے منسلک کردیا کہ عورت کی طرف سے خلع ہوتا ہے تو سزا بھی اس کو ملتی ہے۔
اگر بالفرض علامہ تمناعمادی کا استدلال رائج ہوتا تو بھی انتہائی غلط تھا اور اس کا تدارک قرآن میں موجود تھا۔ جس ”ف” تعقیب بلا مہلت نے علامہ تمنادی اور فقہ حنفیہ کو یہاں تک پہنچادیا تھا تو اس کی وجہ دو مرتبہ طلاق فامساک بمعروف او تسریح باحسان میں دو مرتبہ کے بعد تیسری طلاق بھی وہاں ثابت ہوجاتی ہے اور پھر جب آیت231البقرہ نے تین مرتبہ طلاق اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے تو آیت232البقرہ میں خلع کے بعد بھی بغیر حلالہ کے رجوع ہوتا۔
الغرض علامہ تمنا عمادی بہت بڑے آدمی تھے۔ غلام احمد پرویز جیسے لوگ اس کی شلوار کی جیب میں ہوتے مگر علماء ومفتیان نے کراچی میں ان کو گمنامی کی قبر میں دھکیل دیا۔ مفتی تقی عثمانی اس وجہ سے کہتا ہے کہ بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں جن کی علمی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا مگر آج ان کا کوئی نام بھی لینے والا نہیں ہے۔ مفتی تقی عثمانی بھی ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان اور ہمارے پیر بھائی مولانا عبدالحق فاضل دیوبند کے شاگرد ہیں۔ اس نے تو اپنے استاذ کے پیر حاجی محمد عثمان پر بہت بڑا سازشی فتویٰ لگادیا۔ میرا اور اس کا مشترکہ استاذ حضرت مولانا بدیع الزمان اسکے غلط فتوے کا مقابلہ کرنے پر شاباش دے رہے تھے۔ پھر سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے مسئلے پر بھی اس کوچت کردیا تھا۔
حلال وحرام کا ڈھونگ اسلئے رچایا جارہاہے کہ سودی بینکاری جیسی معیشت کو عالمی سازش کیساتھ جائز قرار دیدی ہے جس پر جامعہ فاروقیہ الفاروق نے پورا مضمون شائع کیا اور بنوری ٹاؤن کراچی کی طرف سے بھی پھر وہی مضمون شائع کیا گیاہے۔
قرآن وحدیث اور فقہ حنفی کے ٹھیک مؤقف یا اقرب الی الصوب کو میری وجہ سے انشاء اللہ بہت پذیرائی ملے گی۔ اکابر دیوبند کے کراچی میں اصل جانشین دو ہیں ۔ایک مفتی حسام اللہ شریفی رکن مجلس تحقیقات رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ جو مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد ہیں جو قاری طیب، مفتی محمد شفیع ، مولانا یوسف بنوری وغیرہ کے بھی استاذ تھے اورحضرت شریفی صاحب شیخ الہندکے ایک واسطہ سے شاگرد ہیں۔ مولانا غلام رسولہزاروی شیخ الہند مولانامحمود الحسن کے شاگرد تھے۔مولانا محمد یوسف لدھیانوی شریفی صاحب کو استاذ کا درجہ دیتے تھے اور مفتی اعظم امریکہ میرے کلاس فیلو مفتی منیر احمد اخون کے شریفی صاحب دادا استاذ ہیں۔
شریفی صاحب کو مولانا احمد علی لاہوری نے بھی مسائل کا حل اور فتوے لکھنے کی اجازت دی تھی لیکن الحمدللہ شریفی صاحب میری تائید فرمارہے ہیں اور انہوں نے قرآن پر دوبڑی کتابیں بھی لکھی ہیں اور ان کا نام مولانا حسین احمد مدنی نے رکھا تھا اور انکے پاس اورنگزیب بادشاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن بھی ہے۔ مجھ پر اتنی شفقت فرماتے ہیں کہ ان کے پاس جانے سے شرمندگی ہوتی ہے۔ اتنا بڑا انسان مجھ سے عقیدت رکھے تو شرمندگی کے سوا کیا ہوگا؟۔
اکابرعلماء دیوبند کی تحریکوں کے اصل دوسرے جانشین حضرت مولانا قاری اللہ داد صاحب ہیں۔ جمعیت علماء اسلام، تنظیم اہل سنت، تحفظ حقوق اہل سنت والجماعت ،سواداعظم اہل سنت اور سپاہ صحابہ سب کے اکابرین کے اصل جانشین ہیں۔ الحمدللہ میرے لئے سرپرست بڑے بھائی کی طرح ہیں۔
مولانا محمدامین شہیدہنگوکوہاٹ نے مجھے نماز کی امامت کیلئے زبردستی آگے کیا۔ مولانا نصر اللہ توحید آباد صادق آباد رحیم خان میرے استاذ تھے۔ بہت محبت رکھتے تھے۔مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے بیعت ہوگئے تھے ۔ مولانا مفتی کفایت اللہ فیوچر کالونی ، خطیب مولانا عبدالرحمن اور مولانا مفتی عبدالرؤف ہالیجیکے علاوہ بہت نام ہیں جن سے شاگردی کا شرف ملا اور ان کی دعائیں بھی الحمدللہ ساتھ ہیں۔ مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا عبدالکریم بیرشریف، مولانا سرفراز خان صفدر ، مولانا خان محمد امیرمرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت اور تمام مکاتب فکرکے پروفسیر شاہ فرید الحق جمعیت علماء پاکستان، علامہ شفاعت رسول نوری، حضرت مفتی خالد حسن مجددی، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالرؤف صدراتحادالعماء سندھ، علامہ طالب جوہری، علامہ حسن ظفر نقوی ، ڈاکٹر اسرار احمد اورمولانا عبدالرحمن سلفی امیر غرباء اہلحدیث بڑے بڑے ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی تائید کی ایسی مثال بہت مشکل سے مل سکتی ہے۔
پہلے سال جب جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا اورمولانا مفتی عبدالسمیع شہید سے سرِ راہ بحث ہوگئی جو شرح جامی کے بعد میں استاذ بن گئے اور پہلے استاذ نہیں تھے۔ طلبہ کا ہجوم جمع ہوا اور آخر میں انہوں نے کہا کہ ”تم افغانی پڑھ کر آتے ہو اور مقصد علم حاصل کرنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہوتاہے” اور پھر میر ی آنکھوں میں آنسو آئے اور کسی طالب علم نے مجھے کہا کہ صوفی صاحب چلو اور مسجد کے ایک کونے میں لے جاکر کہا کہ ”اپنا ذکر کرو”۔
دوسرے دن شہرت ہوئی کہ صوفی صاحب تو علامہ تفتازانی ہیں۔ میں نے کہا کہ میری قابلیت نہیں اور اپنے استاذ مولانا عبدالمان ناصر سے وہی پوچھا تو سیکنڈ وں میں جواب دیا۔یہ سب صرف تحدیث نعمت کے طور پر نہیں بتارہاہوں بلکہ وہ علمی حقائق ہیں جس سے مولانا فضل الرحمن سمیت سب علماء ومفتیان سب اچھی طرح سے آگاہ بھی ہیں۔
ایک طالب علم کو قرآن وحدیث کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے او راس کو پڑھایا جاتا ہے کہ آیت حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ میں عورت خودمختار ہے کہ وہ جس سے چاہے نکاح کرے۔ احادیث میں ولی کی اجازت کو ضروری قرار دیا ہے تو 200کے قریب احادیث قرآن کے اس حکم کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔
حالانکہ حنفی مسلک کا تقاضہ تھا کہ اس میں تطبیق کی جاتی کہ آیت سے مراد طلاق شدہ عورت ہے اور حدیث میں کنواری کا ذکر ہے۔ بیوہ کو اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اپنی جان کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت ہے۔ ایک طرف جمہور کی مت ماری گئی ہے کہ قرآن کی واضح آیات کے اندر بیوہ اور طلاق شدہ کو خود مختار قرار دیا گیا ہے لیکن یہ احادیث کی وجہ سے اس کو نہیں مانتے۔ پھر دوسری طرف احناف تواتر کی حد تک پہنچنے والی احادیث کو نہیں مان رہے ہیں۔ جب قرآن و احادیث پر اتفاق نہیں ہوگا تو اجماع کہاں سے آئے گا؟۔
پاکستان میں حنفی مسلک والوں کی اکثریت ہے لیکن آئے روز انتہائی تشویشناک خبریں آتی ہیں۔ ہزارہ میں کورٹ میرج کرنے والی لڑکی کو اپنی 6ماہ کی بچی کے ساتھ جس بہیمانہ انداز میں شہید کیا گیا تو یہ علماء کے اختلافات کا شاخسانہ بھی ہے۔ علماء و مفتیان کو قرآن و احادیث اور اسلام سے زیادہ اپنا مدرسہ اپنے پیٹ کیلئے آباد کرنے کی فکر لگی ہے۔
ایک بات علماء ، دانشور اور پڑھے لکھے لوگوں کو غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے سابقہ صدر اُستاذ العلماء محدث العصر شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ
” خبر واحد سے احناف کے نزدیک حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ میں نکاح پر حلالہ میں جماع کا اضافہ نہیں ہوسکتا ۔لیکن احناف احادیث کی وجہ سے نہیں بلکہ نکاح کا معنی جماع کرنے کی وجہ سے ہی حلالہ میں جما ع کا حکم لگاتے ہیں”۔
ایک طرف علم کی یہ بہت بلند چوٹی ہے کہ حنفی مسلک میں اتنے زبردست اصول ہیں کہ اگر کسی حدیث میں جماع کا حکم ہو تب بھی اس سے جماع ثابت نہیں ہوتا بلکہ قرآن میں جماع کا ذکر ہوتا پھر ثابت ہوتا۔ یہ بہت بہترین اور زبردست علم ہے۔
دوسری طرف یہ کہنا کہ نکاح سے جماع مراد ہے بہت بڑا معمہ ہے جس کو حل کرنا ضروری ہے۔ نکاح کو جماع قرار دینے سے جن گھمبیر مسائل نے جنم لیا ہے ان کے بھیانک انجام سے مولانا سلیم اللہ خان صاحب بھی بے خبر نہیں تھے۔ لیکن جب بڑھاپے میں دار العلوم دیوبند یوپی انڈیا اور اپنے ملک پاکستان کے تمام علماء کرام و مفتیان عظام کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے شاگرد مفتی تقی عثمانی کو سودی بینکاری پر نہیں منواسکے تو اکابر کے نصاب سے لڑنا پیرانہ سالی میں ایک انتہائی مشکل مسئلہ تھا۔
تیسری طرف اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی ضعیف حدیث میں بھی حلالے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ جس پر حلالے کی امارت کھڑی کی گئی ہے جس کا تفصیل سے ذکر کردیا ہے۔
چوتھی طرف اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب حنفی اصولِ فقہ کے مطابق نکاح پر حدیث سے جماع کا اضافہ نہیں ہوسکتا ہے تو پھر قرآن میں کتنی واضح واضح آیات میں باہمی صلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ جن کے مقابلے میں کوئی بھی خاطر خواہ حدیث نہیں ہے تو پھر مذہب کے نام پر کتنی بڑی بلڈنگ کھڑی کردی گئی ہے؟۔ میں علماء و مفتیان کا دشمن ضرور ہوں مگر ان کا جو شیطان کے نائب اور اسلام کے دشمن ہیں اور علماء حق میرے سر کے تاج اور اُستاذ ہیں۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ النساء آیت 15 میں بدکاری کی چار شہادتوں پر گھر میں نظر بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ اس کو موت آجائے یا پھر اللہ اس کیلئے کوئی راستہ نکال دے۔
ظاہر ہے کہ یہ شکایت اور گواہی کسی مرد کے ساتھ پکڑے جانے کی صورت میں نہیں ہوسکتی بلکہ بے راہ روی کا شکار کوئی بیوہ ، طلاق شدہ ، کنواری کا معاملہ ہوسکتا ہے۔ جب تک اللہ کسی شوہر سے اسکا مسئلہ حل نہ کردے تو ماحول کو بگاڑنے نہ دیا جائے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ سورہ نور کی آیات سے اس کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ جس میں زناکار مرد و عورت کو 100، 100 کوڑے لگانے کا حکم ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ شادی شدہ کیلئے سنگساری کا حکم ہے۔
جس آیت سے سابقہ آیت منسوخ ہوگئی تو اس میں سنگساری کا ذکر نہیں ہے تو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی لکھتے ہیں کہ پہلی آیت النساء 15سے سنگسار کرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ ہم بنوری ٹاؤن میں پڑھتے تھے تو مولانا سلطان محمد محسود دورۂ حدیث میں تھا۔ اس نے بتایا کہ تخت پر بیٹھے مفتی ولی حسن بخاری پڑھا رہے تھے اور پاجامہ پھٹا ہوا تھا۔ طلبہ ہنس رہے تھے اور اچانک مفتی صاحب کی نظر وہیں پڑی تو ا س نے کہا کہ ”میں بھی بڑا چوتیا ہوں”۔ جب بیگم راعنا لیاقت علی خان نے قادیانیوں کے حق میں کوئی بیان دیا تھا تو روزنامہ جنگ کراچی میں مفتی ولی حسن کا بیان چھپا تھا کہ” اس کی رگ پھڑک رہی ہے”۔ جس پر عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ ہوا۔ مفتی ولی حسن سے جج نے مطالبہ کیا کہ معافی مانگو۔ مفتی ولی حسن نے کہا کہ میرا تعلق علماء دیوبند سے ہے معافی نہیں مانگ سکتا۔ جس پر قاری شیر افضل خان نے مفتی اعظم پاکستان کا نعرہ لگایا۔ اس دن سے وہ مفتی اعظم پاکستان بن گئے۔
قرآن میں عورت کی جان چھڑانے کیلئے آیت 230البقرہ میں کسی اور شوہر سے نکاح کا حکم ہے۔ پشاور کے کھیتوں سے ایک خاتون کی لاش ملی تھی جو حلالہ کے وقت دوسرے شوہر سے خوش ہوگئی اور پھر جدا نہیں ہونا چاہتی تھی اور اس کو سزا مل گئی۔ عورتوں کو معاشرے میں سزا مل جاتی ہے اور جتنی شریعت یا مولوی کے مذہب میں ہے اس سے زیادہ ملتی ہے۔ قرآن اور حدیث کو ٹکرائیں گے تو مولویوں کے سر ٹوٹ جائیں گے لیکن اتفاق نہیں ہوگا۔ حنفی مسلک میں اگر کنواری لڑکی کو کورٹ میرج کی اجازت ہو تو پھر مساجد میں کھلے عام تبلیغ کرنی ہوگی ۔ قتل کی بھی مذمت کرنی ہوگی۔ احادیث اپنی جگہ پر بالکل ہی درست ہیں جس کی وجہ سے ناگوار معاملات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اس کا دائرہ کار غیر مسلموں کی لڑکیوں تک بھی بڑھانا چاہیے۔ البتہ قرآن اور حدیث کی اس تعلیم کو عام کرنا چاہیے کہ لڑکی راضی نہیں ہو تو اس کا نکاح زبردستی سے کرنے کی باپ کو بھی اجازت نہیں ہے۔ جہاں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور دیگر جاہلوں نے بچیوں کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے جو ان کی مرضی کے بغیر ہو تب بھی تو ان کو الیکٹرانک میڈیا پر لاکر بے نقاب کرنا چاہیے۔
اگر کسی کنواری لڑکی کو کسی سے عشق ہوجائے تو پھر قرآن سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ جہاں اللہ نے فرمایا ہے کہ ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردنا تحصنًا لتبتغوا عرض الحیاة الدنیا ومن یکرھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم ”اور اپنی لڑکیوں کو مجبور مت کرو بغاوت پر جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیاوی زندگی اس کے ذریعے تلاش کرو اور جس کو مجبور کیا گیا ہو تو ان کی مجبوری کے بعد اللہ غفور رحیم ہے۔ (النور:33)
جو لوگ اپنی دنیاوی وجاہت کی غرض سے اپنی لڑکیوں کو ان کی مرضی کے مطابق نکاح کی اجازت نہیں دیتے تو ان کی دنیا بھی تباہ ہوجاتی ہے اور اگر اللہ کے حکم کے مطابق ان کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ان کا نکاح کردیتے تو اللہ کے حکم پر عمل ہو تا۔ جب لڑکی کورٹ میرج کرتی ہے تو بسا اوقات اپنا مستقبل تاریک کردیتی ہے۔ اسلئے احادیث میں ان پر روکنے کیلئے زور ڈالا گیا ہے ۔ لیکن قربان جائیں اس اللہ پر جس نے اپنے قرآن میں ایک ایک مسئلے کا حل اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اس کو دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجائیں۔ لیکن افسوس کہ مسلمان مسلمان نہیں ہوتے۔ نبی ۖ نے بھی اگر ایک طرف لڑکی کو اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سے روکنے کی بات کی ہے تو دوسری طرف ولی کو بھی پابند کیا ہے کہ اس کی مرضی سے ہی اس کا نکاح کیا جائے۔ قرآن و سنت کے جس توازن سے مسلمان جہالتوں کے جس اندھیرے سے نکل سکتے تھے وہ پوری دنیا کیلئے مشعل راہ ہے۔ مسلمان مذہبی طبقات پر تکیہ کرکے بیٹھے ہیں کہ وہ کچھ کریں گے تو پھر ہم اپنی جہالتوں سے نکل سکیں گے لیکن علماء اپنی جہالتوں سے نکل جائیں تو بھی یہ مرد کے بچے ہوں گے۔ قرآن اپنی آیات کو منسوخ نہیں کرتا بلکہ توراة اور انجیل کی بھی تصدیق کرتا ہے اور دنیا کے تمام درست مذاہب کی تصحیح بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علماء کرام ، مشائخ عظام ، طلباء واجب الاحترام کو توفیق دے کہ یہ سال نصاب میں ضائع کرنے کے بجائے نصاب کو درست کرنے پر ہی لگادیں۔ ماحول سے نکلنا مشکل کام ہے لیکن نکلنا بھی ضروری ہے اور نکلیں گے۔ انشاء اللہ العزیز
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ