رجوع کا تعلق عدت سے : کے ٹھوس دلائل. اداریہ نوشتہ دیوار
اگست 9, 2017
1: للذین یؤلون من نساءھن تربص اربعۃ اشہر فان فاؤا فان اللہ غفور رحیمOوان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیمO
’’اورجو لوگ اپنی عورتوں سے نہ ملنے کی قسم کھالیں، ان کیلئے چارماہ کا انتظار ہے، اگر آپس میں مل گئے تو اللہ مغفرت والا رحم کرنے والا ہے ۔ اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو اللہ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ البقرہ: 226،227
اس آیت سے پہلے اللہ نے وضاحت کی کہ اللہ تمہیں لغو قسم سے نہیں پکڑتا۔ مگر جو تمہارے دلوں نے گناہ کمایا ہے۔ دلوں کا گناہ یہ ہے کہ طلاق کا عزم تھا تو اس کا اظہار کیوں نہیں کیا؟۔ اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار کرنے پر عدت تین ماہ ہے اور عزم کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے ایک ماہ مدت بڑھ گئی۔
2: المطلقٰت یتربصن بانانفسھن ثلاثۃ قروء ۔۔۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا’’طلاق والی 3مرحلے تک انتظار کریں۔ (3طہروحیض یا3ماہ تک) اور ان کے شوہروں کو اس مدت میں ان کو صلح و اصلاح کی شرط پر لوٹانے کی اجازت ہے‘‘۔ البقرہ: 228
مندرجہ بالا آیات میں طلاق کی زیادہ سے زیادہ انتظار کی عدت 4ماہ اورکم ازکم 3ماہ واضح کی گئی ہے اور عدت سے رجوع کا تعلق بھی جوڑ دیا گیاہے۔ کیا کوئی اس سے منکر ہوگا کہ اللہ نے رجوع کا تعلق عدت سے نہیں جوڑا؟۔
خلفاء راشدینؓ فیصلہ اور فتویٰ سب سے پہلے قرآن سے دیتے تھے۔ جب حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک ساتھ تین طلاق کا تنازعہ پہنچاتو عورت رجوع پر آمادہ نہیں تھی اور شوہر رجوع کرنا چاہتا تھا، حضرت عمرؓ نے قرآن اور سنت سے فیصلہ دینا تھا، یہی فطرت کا تقاضہ بھی تھا کہ عورت کی رضا کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا، دنیا کی ہر عدالت یہی فیصلہ دیتی ہے۔ حضرت علیؓ کا بھی تنازع میں یہ فتویٰ تھا لیکن حضرت علیؓ نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ باہمی رضامندی سے ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود بھی رجوع ہوسکتاہے۔ عورت پر یہ بڑا احسان تھا کہ اس دور میں اس کی مرضی کا فیصلہ دیا گیا، مردوں کی جہالت اس قدر تھی کہ بس چلتا تو اپنی بیوی کا حلالہ کرواکر بھی اپنی جاگیر سے نہ نکلنے دیتے۔ اب بھی یہ معاملہ چل رہاہے لیکن حضرت عمرؓ نے حلالہ کروانے پر بھی سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا۔ عورت راضی نہ ہو تو رجوع کا فتویٰ دینا بہت بڑی زیادتی ہے مگر عورت راضی ہو اور قرآن میں اجازت ہو تو حلالہ کا فتویٰ دینا بے غیرتی ہے۔
3: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان
’’طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقہ سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے‘‘۔ البقرہ:229۔ یہ آیت اس سے پہلے والی آیت کے تناظر میں ہے کہ عدت کے طہرو حیض کی صورت میں تین مراحل ہیں۔ پہلے دو مرتبہ کی طلاق کا تعلق عدت کے پہلے دو مرحلوں سے ہے۔ نبیﷺ نے حضرت عمرؓ کے عرض کرنے پر عبداللہ ابن عمرؓ کو غضبناک ہوکر یہی مسئلہ سمجھایا تھا۔ بخاری کی احادیث ہیں۔ معروف رجوع کا معنی بھی باہمی رضا صلح و اصلاح کی شرط ہے اور اس سے رجوع کی وہ منکر صورتیں مراد نہیں جو فقہ کی کتابوں میں شافعی اور حنفی مسلکوں میں اختلافات کے حوالہ سے درج ہیں ایک کے نزدیک نیت نہ ہو تو مباشرت سے رجوع نہ ہوگا اور دوسرے کے نزدیک نیند میں شہوت سے ہاتھ لگ جائے تو بھی رجوع ہوگا، عورت اور مرد کسی کی بھی شہوت معتبر ہوگی ۔
4: ولایحل لکم ان تأخذوا مما اتیتموھن شئی الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ و ان ختم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدوداللہ فأولئک ھم الظلمونOفان طلقہافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ’’اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لو ۔ الا یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اسکے بغیر اللہ کی حدود پر دونوں قائم نہ رہ سکیں گے۔ اور اگر (اے جدائی کا فیصلہ کرنے والو) تم یہ خوف رکھو کہ وہ اس چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، جو ان سے تجاوزکرے تو وہی لوگ ظالم ہیں اور اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے‘‘۔ البقرہ:229،230۔ آیات کے ربط اور ترتیب کی بڑی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرتا، سوائے غلام احمد پرویز کے، وہ اپنی ڈگڈگی بجاتا ہے۔ آیت229کا پہلا حصہ آیت 228کی وضاحت ہے۔ تیسرے مرحلہ کی عدت میں رجوع کا ارادہ ہوتو معروف رجوع کیا جاسکتاہے، اور چھوڑنے کا پروگرام ہو تو تسریح باحسان ہی تیسرے مرحلہ میں تیسری طلاق ہے۔ لیکن تیسرے مرحلے میں تیسری طلاق دی تو بھی عدت میں رجوع سے اسلئے نہیں روکا جاسکتا ہے کہ قرآن میں تضاد نہیں اور عدت میں باہمی رضامندی سے ہی رجوع کو اللہ نے واضح کردیاہے۔ چونکہ ایک تو مرد عورت کو طلاق کے بعد بھی دوسری جگہ مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتاتھا اور دوسرا یہ کہ علماء نے حلالہ کی لعنت کو امت پر مسلط کرنا تھا تو اللہ نے اس کا تدارک کرنے کیلئے ایک بیانیہ و مقدمہ بھی وضاحت کیساتھ بیان کردیا۔ جو حلال نہ ہونے سے پہلے بالکل ہی متصل ہے، فقہ حنفی کی اصولِ فقہ میں اس طلاق کو اسی فدیہ کے مقدمہ سے جوڑا گیاہے، علامہ ابن قیمؓ نے بھی حضرت ابن عباسؓ کی یہی تفسیر نقل کی ہے۔
5: اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ’’جب تم عورتوں کو طلاق دو،اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو معروف طرح سے رجوع کرلو یا معروف طرح سے روک لو‘‘،231
6:و اذا طللتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن اذا تراضوا بیھم بالمعروف ’’اور جب عورتوں کو طلاق دو،اور وہ عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے ازدواجی تعلق قائم کریں، جب وہ آپس میں معروف طرح سے راضی ہوں۔ البقرہ :232
7:اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن…… لاتخرجوھن من بیوتھن والایخرجن الا ان تأیین باحشۃ مبینۃ لعل یحدث بعد ذلک امراOواذاطلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف واشھدوا ذی عدل منکم (سورۂ طلاق ، آیات 1اور2)۔ کیا کوئی حدیث قرآن کی آیات کے منافی ہوگی؟۔
لوگوں کی راۓ