صادق سنجرانی کے انتخاب سے اس ہاؤس کا منہ کالا ہوا، حاصل بزنجو کے بیان پر ارشاد نقوی کا تبصرہ
مارچ 16, 2018
حاصل بزنجو ایک بڑے باپ کابڑا بیٹاتھا مگرپہلے قوم پرستی کے بانی عبدالمالک بلوچ کا ساتھی تھا، جب ان لوگوں کے کہنے پر جوان طبقے نے ہتھیار اُٹھاکر بغاوت شروع کردی تو خود جمہوری سسٹم کا حصہ بن گئے۔ چلو دیر آید درست آیدمگر جب جمہوری دور میں بھی فنڈ کھانیوالا مشتاق رئیسانی 65کروڑ نقدی پر پکڑا جائے تو ارکان میں بغاوت کا پھیل جانا بھی فطری بات تھی۔ جب ن لیگ اور اچکزئی کیساتھ مل جمعیت علماء اسلام کو حکومت سے باہر رکھا گیا تھا تو بلوچستان میں جو کچھ ہوا تھا تو اس کو فطری کہا جاسکتا ہے،ایوانِ بالا کا منہ کالا ہوا تو جنہوں نے کالا کیا ہے انکا نام بھی بتاؤ۔ ڈرنے کی ضرورت اسلئے نہیں کہ آرمی چیف کا بیان میڈیا پر آگیا کہ’’ بلوچستان کی حکومت کو بدلنے میں جس فوجی نے کردار ادا کیا ہے اس کا نام بتاؤ، ہم قانونی کاروائی کرینگے‘‘۔ اس الیکشن میں حصہ نہ لیا جاتا تب بھی بات ٹھیک ہوسکتی تھی۔ نوازشریف کی دیگ پر رضا ربانی بیٹھا ہوتاتو انکامنہ کالا ہوتا۔
جمہوریت کی اصل تو یہی تھی کہ رضا ربانی کو نوازشریف کی طرف سے اس شرط پر پیشکش کی گئی کہ پیپلزپارٹی نے رضا ربانی کو نامزد کیا تو ہم بھی ان کی حمایت پر غور کرسکتے ہیں۔
جب پیپلزپارٹی نے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے برداشت کرتے کرتے آخر اپنی سیاست بچانے کی کوشش کی تو اس کا یہ جمہوری حق تھا۔ خواجہ آصف طعنے دے رہاہے کہ جس تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا ہے تو اس نے اپنی مقبولیت کم کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔
حاصل بزنجو نے جمہوریت نہیں بلوچوں کی بھی ناک کٹوادی ہے، اتنے پاپڑ تو ظفر اللہ جمالی نے پرویزمشرف کیلئے بھی نہیں بیلے تھے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ بڑے باپ کا بڑا بیٹا بہت سمجھدار اور جمہوریت کیلئے انسانیت کا کردار ادا کریگا۔ شاہ سے زیادہ زیادہ شاہ کا وفادار بننے پر یقیناًبڑا افسوس ہوا ہے۔ انسان غلطی کا پتلا ہے اور حاصل بزنجو کو چاہیے کہ بلاتاخیر اپنے اس جذباتی بیان پر شرمندگی ظاہر کریں۔ ن لیگ والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا ضمیر، جن کی غیرت، جن کی عقل، جن کی دانش، جن کی روایت اور جن کا ایمان سب کچھ اسٹیبلشمنٹ نے چھین لیاہے لیکن اب جمہوریت پسند طبقات نے بھی بحیرۂمردارکے گھاٹ کا پانی پی لیا ہے۔ پختونوں اور بلوچوں میں جو لوگ پنجاب کے خلاف نفرت کا بازار گرم کرتے تھے۔ ان قوم پرستوں نے نوازشریف کے بغل میں جگہ بنالی ہے۔ فوج نے آخر اس کے علاوہ قصور کیا کیا تھا کہ نوازشریف و دیگر پنجابی کٹھ پتلی قیادت کو قوم پر مسلط کیا تھا۔ اس گناہ کو شاید اللہ بھی معاف نہیں کریگا ،اسلئے کہ اس کٹھ پتلی قیادت نے ریاست، سیاست، جمہوریت، صحافت سب کا بیڑہ غرق کردیا۔ نوازشریف مارشل لاء کی کال کوٹھڑی میں نظر بند نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں اپنی صفائی کیلئے جو تقریر کی تھی وہ جھوٹ تھی اللہ کا فضل وکرم نہیں تھا ۔
جی ٹی روڈ پر ایک بچے کو نادانستہ قافلے سے روند ڈالا تھا اور ڈرائیور کے پاس لائنس ہو تو بہت معمولی سا مقدمہ بنتا تھا لیکن وہ ڈرائیور آج تک پیش نہیں ہوسکا ۔ نامعمول وہ نہیں ہیں جن پر الزام لگایا جارہاہے بلکہ نامعلوم نے پہلے جو کردار ادا کیا تھا وہ اب نوازشریف کیلئے نہیں کررہے ہیں اور اس دکھ، قلق اور غم کا اظہار شیر دھاڑ کر نہیں کرتا بلکہ اس کی آواز گدھے کی طرح ڈھینچو ڈھینچو کرنے کی لگتی ہے اور دوسرے تو عادی ہیں، جنرل ضیاء الحق کی تو خیر پھر بھی کوئی مونچھ شونچھ تھیں جس کو شیر کہا جاتا تھا، نوازشریف تو یونہی شیر بناہوا ہے۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اب قومی سیاسی قیادتیں ہوش کے ناخن لیں۔ اگر نوازشریف اپنے قاتل ڈرائیور کو معمولی دفعہ کیلئے حاضر نہ کرسکے ۔ محمود خان اچکزئی کا کزن پولیس والے کو نشے کی حالت میں قتل کردے اور رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تب بھی رہائی پر شرمندہ ہونے کے بجائے گوانتا ناموبے کے قیدی یا کشمیر فتح کرنے اور یا پھر سیاسی قیدی کی طرح اس پر پھول بھی برسائے جائیں؟۔ یہ کونسے پختونوں کی روایات ہیں اگر محمود خان اچکزئی پختون روایات اور انسانیت کو قائم رکھتا تو مجید اچکزئی کو مجرم کی حیثیت سے غریب پولیس اہلکار کے سامنے پیش کرتا اور معافی مانگنے کیلئے منت کرتا۔ فوج کیخلاف بات کی جاتی ہے لیکن طالبان سے فوج نے عوام کو بچایاہے۔ عوام اٹھے گی تو سیاستدان اپنی بچت کیلئے اسی فوج سے مدد مانگیں گے۔
لوگوں کی راۓ