شہید غیرت پیکر حمیت پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت کو17سال ہوگئے ۔ تحقیقاتی صحافت کا ایک نیا آئینہ
جون 22, 2024
شہید غیرت پیکر حمیت پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت کو17سال ہوگئے ۔ تحقیقاتی صحافت کا ایک نیا آئینہ
علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ستم یہ کہ مگر کوفیوں میں گزری (ڈاکٹر عبد القدیر خان)
اخبارضرب حق کراچی سن1997سے مئی سن2007تک سیاسی، مذہبی، بین الاقوامی موضوع اور تائیدات۔ سن1991سے تصانیف ، ملک بھر میں فروخت ،خطبہ حجة الوداع کے الفاظ کی لاؤڈ اسپیکر پر سبھی زبانوں اُردو، سندھی، پنجابی، بلوچی ، پشتو میں تبلیغ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فرض پورا کردیا تھا۔
اے لوگو! وہ باتیں سن لو جس سے تم ٹھیک زندگی گزار سکو گے۔ خبردار ! ظلم نہ کرنا ،خبردار ! ظلم نہ کرنا ، خبردار ! ظلم نہ کرنا ۔
مسلمانو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں حرمت والی ہیں …میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو…مسلمانو! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ نماز پڑھنے والے اس کی پرستش کریں لیکن وہ تمہارے درمیان رخنہ اندازی کرے گا۔ …مسلمانو! اللہ کی کتاب قرآن مجید کو مضبوط تھام لو تاکہ تم سیدھی راہ سے ہٹ کر گمراہ نہ ہو۔ …کسی مسلمان شخص کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہاں اگر وہ راضی ہو۔ …جاندار کی تصویر جائز نہیں جاندار کی تصویر کو مٹادو۔…پردے کا اہتمام کرنا فرض ہے ، پردے کا اہتمام کرو۔ …داڑھی منڈوانا جائز نہیں شریعت کے مطابق داڑھی رکھو۔…گانا بجانا حرام ہے گانا مت بجاؤ۔
نماز، روزہ، زکوٰة اور حج بیت اللہ کی علمی اور عملی ذمہ داری پوری کرو۔ …اپنے نفس، معاشرے اور پوری عالم کی اصلاح کیلئے جدوجہد کرو۔ …اللہ کی راہ میں جہاد کرو اورپوری دنیا پر چھاجاؤ۔ …اللہ اور اسکے رسولۖ کی اطاعت میں وہ طاقت ہے جسکے ذریعے کمزور سے کمزور تر جماعت فاتح عالم بن سکتی ہے۔
نقش انقلاب مہدی آخرزمان سے قبل11خلفاء قریش، ہر ایک پر اُمت کا اجماع۔ مہدی امیر اول پھر5افراد کا حسن ،5افراد کا حسین کی اولاد سے، آخر پھر حسن کی اولاد سے ہوگا۔ (مظاہر حق شرح مشکوٰة ) علامہ جلال الدین سیوطی نے لکھا کہ12خلفاء میں ہر ایک پر اُمت کا اجماع ہوگا۔مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑہ نے اپنی کتاب ”تصفیہ مابین شیعہ و سنی” میں لکھاکہ ”وہ 12خلفاء قریش آئیں گے جن پر اُمت کا اجماع ہوگا”۔ شاہ اسماعیل شہید نے ”منصب امامت” میں مہدی خراسان کا ذکرکیا اورکتاب ”الاربعین فی احوال المہدیین” لکھی ہے ۔
نبی ۖ نے فرمایا: وہ اُمت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول مَیں ہوں، اسکا درمیان مہدی اور آخر عیسیٰ ۔ شیعہ مصنف نے اپنی کتاب ”الصراط السوی فی احوال المہدی” میں لکھا کہ ”اس سے مہدی عباسی مراد ہوسکتا ہے ، حدیث میں مہدی کے بعد11مہدی جن کو حکومت بھی ملے گی لیکن پھر مہدی آخری امیر کیسے ہوں گے؟”۔جواب یہ ہے کہ آخری مہدی سے قبل11مہدی اور کئی قیام قائم ہوں گے۔ حسنی، سیدگیلانی ، حسینی امام مجہول کا ذکر طالب جوہری نے اپنی کتاب میں کیاہے۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: قحطانی مہدی کے بعد ہوگا اور وہ اس جیسا ہوگا۔ ارطاة نے کہا: مجھے خبر پہنچی کہ مہدی40سال زندہ رہے گا۔ پھر اپنے بستر پر مر جائے گا۔ پھر قحطان سے ایک شخص سوراخ دار کانوں والانکلے گا،جومہدی سے الگ نہ ہوگا۔ 20سال رہے گا پھر اسلحہ سے قتل ہوگاپھر اہلبیت نبیۖ سے نیک سیرت مہدی نکلے گا، شہرقیصر پر جہاد کرے گا اور وہ اُمت محمد ۖ کا آخری امیر ہوگا۔ اسی دور میں دجال نکلے گا اور عیسیٰ کا نزول ہوگا۔ یہ سارے آثار میں نے نعیم بن حماد کی کتاب الفتن سے اخذ کئے ہیں وہ ائمہ حفاظ اور بخاری کے شیوخ میں ایک ہیں۔( الحاوی للفتاویٰ ، جلد دوم ، صفحہ80:علامہ سیوطی )
بونیرعلاقہ چملہ اگارے میں شاہ وزیر کو محمد سعید نے کہا کہ تم گمراہی پھیلاتے ہو۔ شاہ وزیر نے کہا کہ کتاب میں شریعت کیخلاف بات ہو تو چوک پر گولی ماردو۔ مولانا عبد الرحمن کے پاس گئے۔ مولانا نے کہا کہ ”کتاب میں گمراہی کی بات نہیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ موجودہ دورمیں یہ ایسے عزم والے ہیں”۔ مولانا کے بیٹے مولانا اسحاق اورمولانا زبیر جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ہیں اور انکے بھتیجے دار العلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔
جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور نے ہماری تائید کی اور لکھا کہ ”فرقہ کی جڑیں ختم کردیں۔ اب گدھ فرقہ واریت کی چوٹی پر بیٹھ کر مردار کی ہڈیاںنوچتے رہیں”۔ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر نے قرون اولیٰ کی طرح اصلاح کیلئے ہماری رہنمائی فرمائی ۔
ڈاکٹر اسرار احمدکی عالمی خلافت کانفرنس2001میں تقریر کی۔ لاالہ الااللہ، افرأیت من اتخذ الہ ھواہ ”کیا تو نے اس کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنایا”۔ کیا اس کو دیکھا جس نے امریکہ کو اپنا معبود بنایا؟۔آج غلامی کی زنجیریں توڑنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ مجھے سن1991میں جیل جانا پڑا تھا۔ جب طالبان کی مقبولیت آسمان کو چھورہی تھی تو میں لکھتا تھا کہ دوسروں پر خودکش کی جگہ خود پر حدشرعی جاری کرو تو پوری دنیا میں اسلام کے نفاذ کا مشن کامیاب ہوگا۔
طوفان کررہا تھا میرے عزم کا طواف دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
واقعہ کے بعد خیبر ہاؤس پشاور پہنچا تو ماموں زاد شہر یار نے بتایا کہ ” باقاعدہ میٹنگ میں طالبان کی ذہن سازی کی گئی کہ یہ گھر بڑا ظالم ہے، لوگوں سے بیویاں اور بچے چھین لئے ہیں، بدمعاش ہیں ، طالبان کوبڑا اُکسایا گیا”۔
بھونڈے مظالم کی وضاحتیں :
اورنگزیب نے حملہ آور طالبان پر وار کردیا تو بھی کہا گیا کہ اس کی غلطی تھی۔ طاقتور کے سامنے سرنڈر ہونا بے عزتی تھی۔ امام حسین کی دنیا میں عزت سرنڈر نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
ہمارا کلچر مختلف ہے۔ لوگ رشتہ نہ دینے پر اور ہمارے والا طبقہ رشتہ نہ لینے پر ناراض ہوتا ہے کہ دیا ہے تولیا کیوں نہیں؟۔
ضیاء الدین نے رشتہ لیا، شہریار نے انکار کیا اور اورنگزیب کی داماد ی مزید بگاڑتھا۔ اسفندیار ازالہ کرتا مگر تپش بڑھادی۔ احمد یار آخری تھاجو آگ بجھا تا اسلئے میںواقعہ کی رات طالبان گڑھ ماموں کے گھر گیا۔تاکہ ماموں احمد یار کے رشتے سے شہریار کے رشتے کا ازالہ کردے۔ جس سے ماموں کے گھر میں لگی آگ بجھ سکتی تھی۔ یہ اتنا گھمبیر مسئلہ تھا کہ ضیاء الدین کی شادی تھی اور دلہا دلہن کی ماں بہنوں کی بات چیت نہ تھی۔ میں نے مامی سے پردہ توڑ کر صلح کرائی تھی۔ ضیاء الدین نے یہ زندگی کیسے گزاری ہوگی؟۔ اس کی مغفرت کیلئے یہی کافی ہے۔
حاجی اورنگزیب نے بتایا کہ ”طالبان اسکے پیچھے ایک بار گھر پر آئے تھے اور دوسری مرتبہ گلاب کے بیٹے سے پوچھا تھا کہ کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ ضیاء الدین کیساتھ ہے”۔ واقعہ سے پہلے مشکوک گاڑی کھڑی تھی۔ ضیاء الدین نے کہا طالبان نے کہا کہ ”اسلحہ جمع کررہے تھے۔ مطمئن رہو”۔ اورنگزیب کو ضیاء الدین پر اعتماد تھا۔ اسلحہ رکھااور بے خوف سوگئے ؟۔
منہاج نے کہا تھا کہ معافی کیلئے آنا منع کردواور ضد کی کہ میرا بھائی بھی مرا ہے تو نثار نے کہا : ” آپ کا بھائی ایسا مرا جیسے مہمان مارے گئے ”۔ منہاج نے مہم جوئی کی کہ” نثار نے کہا کہ آپ کا بھائی پڑوسیوں کی طرح مرا ہے اسلئے ہم الگ ہیں”۔ ریاض نے کہا کہ” نثار نے درست کہا، معاملہ تو ان کا ہے”۔
منہاج نے بتایا کہ قاری حسین اکیلا تمہارے سکول کے پاس کھڑا تھا۔ ہماری کوڑ میں ملاقاتیں تھیں ۔ چائے روٹی کا پوچھا مگر وہ انجان بن گیا۔ کوڑ کا پیر کریم ماجراء بتا سکتا ہے۔ عثمان نے بعد میں دوسروں پر گواہی دی توپہلے کیوں نہ بتایا؟۔
بیت اللہ محسود نے قاری حسین ، حکیم اللہ محسود پر قصاص کا حکم کیا۔ طالبان نے معافی مانگتے ہوئے واضح کیا کہ” ایسا ظلم اسرائیلی یہود فلسطین میں بھی نہیں کرتے ”۔پھر قاری حسین و حکیم اللہ نے بیت اللہ محسود سے کہا کہ ” تیرے حکم پر خاندان ملک اور اسکی فیملی ماردی پھرتو تم بھی قصاص کیلئے تیار ہوجاؤ”۔ جس کی وجہ سے بیت اللہ محسودانکے قصاص سے پیچھے ہٹ گیا۔
ممکنہ ڈھونگ مظالم کی بنیادیں :
ہمارابہنوئی سعودی عرب میں تھا۔ اسکے بھائی نے اپنی سالی سے اس کی شادی کرائی اور میری بہن کو نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔
ہمارا الگ کلچر ہے۔ یوسف شاہ سے کہا کہ تمہارے بھانجے بھانجیاں تمہارے گھر اور تمہارے بھتیجے اور بھتیجیاں انکے ماموں کے گھرکے افراد تھے۔ یہی حال ہماری بھابھی کا بھی تھا۔ہمارا کوئی محسود ، وزیر اور بیٹنی کلچر نہیں تھا ۔ جس پر وہ خوش ہوگئے۔
پیرکریم سے پوچھا تھا کہ ایک طرف آپ کا بھانجا پیر شفیق اور دوسری طرف میرا بھانجا عبدالرحیم ہے۔کیا کہتے ہو؟۔ تو اس نے کہا کہ میرا بھانجا غلطی پرہے۔ میں نے بیٹے کیلئے بھائی جلیل کی بیٹی مانگی ، اس نے انکار کردیا توکیا میں اس پر پابندی لگاتا؟۔ میں نے کہا کہ تیری نسلوں میں بھی رشتہ نہیں لوں گا۔ بعد میں طالبان نے ایسی غلط بندشوں کو توڑ کر بہت اچھا کیا ۔
عبدالرحیم نے شادی کی ٹھانی تو میں نے کہا کہ کھل کر نہیں چھپ کر لائیں ۔ وہاں پہنچے تو خالدنے نور علی، ضیاء الدین اور فیاض کوبھی پہنچادیا تھا۔وہاں چاروں گھروں کی نمائندگی تھی۔
ماموں نے رشتے کے مسئلہ پر کہا کہ مجھ میں محسود کا رگ ہے۔ اپنا خون بہاتا ہوں اور دوسروں کا بھی۔ میں نے کہا کہ ”محسود کامفاد ہوتاہے۔ لاکھوں پر بیٹی بیچے تو کیسے بٹھادے؟۔ محسودکی غیرت بڑے ماموں میںتھی ،اگروہ ہوتے تو ہم پر فائرنگ کے بعد کم ازکم کوئی بھی طالبان کو یہاں نہ بساتا ”۔
کانیگرم میں میرے والد کے چچازاد عرف ملنگ دادا کے گھر سے قریب ایک محسودکی بیوہ نے قبضہ کیا۔جو برکی کی بہن ہے۔ منہاج کے والد نے ملنگ دادا کولپائی سے منع کیا تھا مگر اپنوں نے ساتھ نہیں دیا تو ماموں نے لپائی پر پشتو غیرت کی ہمت نہ کی اور کہا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ بیٹھک بنارہاہے۔ ملنگ داداکو لایاپڑوسی کو دبانے کیلئے اور پھر اپنی عزت وغیرت ختم کرادی۔
فوجی لیز کی30کنال کا ماجراء :
نانا کے بھتیجے گل امین نے نوکری میں پیسے کمائے اور اپنے باپ اور چاچوں پر خوب پیسہ لٹایا۔انہوں نے اس کو جائیداد کا چوتھا حصہ دیکر بھائی بنادیا۔ آخر میں گل امین بیمار تھا ۔ بہن محمود کی بیوہ تھی۔محمود کے بعد اسکے باپ سلطان اکبر شاہ نے خانی کا نمبر پورا کیا۔ ماموں خان بن گیا تو گل امین نے مسئلہ اٹھادیا۔ جس پر ماموں نے کہا کہ میں چوتھا بھائی بھی نہیں مانتاہوں ۔
محمود کی اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی کا بیٹا ایوب شاہ گریڈ21میں ریٹائرڈ ہوا۔ محمود کی بیوہ گل امین کی بہن تھی۔ گل امین بیمار تھا اور چاہتا تھا کہ خان کی نوکری کا بھاڑہ اسکے بیٹے ریاض کو مل جائے۔ریاض نےCSSمیں قبائل کے اندر پہلی پوزیشن لی اور اگر انٹرویو میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف بات نہ کرتا تو پھر کمشنر انکم ٹیکس کی جگہ انتظامیہ کے کمشنر سے بھی زیادہ ترقی کرتا۔ انٹرویو میں پوچھا گیا کہ جنرل ضیاء الحق میں کتنی خامیاں ہیں؟، توریاض نے کہا کہ اسلام کے نام پر جمہوریت کو معطل کرکے مارشل لاء لگانے سے لیکر بے شمار خامیاں ہیں۔ خوبیاں پوچھو۔ اس نے کہا کہ خوبیاں کونسی ہیں۔ ریاض نے کہا کہ کوئی نہیں۔ اگر پاکستان میں حق گوئی کی سزا نہیں دی جاتی تو ملک ترقی کرتا اورحالات یہ نہ ہوتے ۔ میرے بھائی امیرالدین ایکس کمشنر بنوں نےCSSکیا تھا اور7میں سے پانچواں نمبر تھا مگر اس کو پھر بھی چھوڑدیا گیا۔ عدالت میں جج نے کہا کہ فوج سے ہمارا مقابلہ نہیں ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا بھائیPTCLسےDMGگروپ میں پہنچ کر کمشنر بن گیا۔
گل امین باپ کی زندگی میں فوت ہوتا تو یتیم بچوں کا دادا کی میراث میں حصہ نہیں تھا۔ علماء نے خود ساختہ شریعت بنائی۔
أفرأیت الذی یکذب بالدین فذالک الذی یدع الیتیم ” کیاآپ نے اس کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے پس یہ وہی ہے جو یتیم کو چھوڑ دیتا ہے”۔(مولوی کی نشاندہی)
گل امین نے جو خرچہ کیا تھا وہ قانون اور شریعت میں اپنا کیس ہارتا اور جائیداد سے مکمل محرومی کا سامنا تھا۔ اسکے بچے میرے والد کے بھانجے ہیں۔ گل امین نے دعویٰ کیا کہ لیز کے پچاس کنال کی قیمت میں نے دی ۔ حالانکہ مشترکہ زمین تھی اور اس کی کوئی متعین قیمت ہوتی تو بھی دونوں مالکان کی مرضی سے طے ہوتی اور دونوں کو برابرکے پیسے بھی ملنے تھے۔
30کنال سے گل امین کی چوتھائی کا مسئلہ حل ہوتا تو والد کیلئے یہ بڑی چیز نہیں تھی۔ اس نے کہا تھا کہ غیاث الدین کو قسم نہیں اٹھواتا ،بس صرف اتنا کہہ دے کہ پیسہ دیا ہے تو مجھے پہنچ گئے ہیں۔وہ تو خاموش بھی گل امین کے فائدہ میں ہوا تھا۔
جب گل امین کا مسئلہ30کنال لیز پر حل نہیں ہوا بلکہ قوم نے نانا کی قبر پر جانور ذبح کئے ۔ زمین ہماری اکیلی بھی نہیں تھی تو پھر اس کے بعد معاملے میں الجھاؤ کا کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا۔
میرے باپ کو نیلام میں سستی بندوقیں ملیں ،مارکیٹ قیمت چار گنا تھی۔ گل امین سے کہا کہ ایک تمہارے لئے لی ہے۔ اس نے کہا کہ1500میں آپ نے لی اور میں2500لوں گا۔ دونوں مجھے دینا۔ ماموں کیساتھ جھگڑا چل رہاتھا۔میرے والد چاہتے تھے کہ بندوق گل امین کوملے اور گل امین نے چاہا کہ ماموں کو نہ ملے۔ دوسری بندوق6000ہزار میں بیچ دی۔
جلال کو گل امین نے گھر کے سودا کیلئے رقم دی اور کہا کہ سریرالدین، علاء الدین اور سعدالدین کو نقدی کی ضرورت ہو تو دینا۔ جب دوسرے دن کاپی کا لکھاہواحساب گل امین کو دکھایا تھا توجب سعد الدین کا نام آتا تھا تو ایک گالی بھی دیتا تھا۔
زمین پر پیر جمیل اور شوکت کو قید کیا گیاتھا۔ مینک کے بیٹے کو زد وکوب و قید کرنا کس کی غلطی تھی؟۔ اکبر علی اور نواز حاجی آئے کہ مینک کے مسئلے پر بلایا ہے۔ حاجی بدیع الزمان نے کہا کہ مینک نے دھونس دیا کہ فوج سے بلڈوز کروں گا۔ نثار نے کہا کہ مینک سے کہو کہ پارٹنر سے بات کرو۔ اس نے قسمت خان سے50کنال کا تبادلہ کیاتھا ۔ یہ50ہمارے حساب میںآگئی۔
پھر منہاج نے کہا کہ ہماری مینک سے بات ہوگئی ۔ ہم ایک کنال کے بدلے اس کو سوادو کنال دیں گے۔ پھر اس کے ساتھ جھگڑا کیا تو یہ کس کا قصور تھا؟۔ یہ سب طے ہونا چاہیے۔
مجھے یہ دکھ تھا کہ سب نے بھائی ممتاز کے گھر پر دھاوا بولا تھا اسلئے نثار سے کہا تھا کہ اب تصفیہ بہرحال ہونا چاہیے اور اگر تم نہیں کرتے تو میں آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاؤں گا۔
پھر نثار بھائی نے کہا کہ مینک کو بے عزت کیا اور اس نے یہ شرط رکھی ہے کہ علی باچہ کی زمین پر صلح کروں گا۔ اسکے بدلے جٹہ میں ہندو والی زمین دیںگے۔ فیصلہ ہوگیااور بعد میں نثار بھائی نے کہا کہ ہمیں دوسری زمین دی ۔ میں نے کہا کہ حقائق سے تو آگاہ کرتے ۔ نثار نے کہا کہ ان کو واپس کردینی ہے۔10کنال واحد10داؤد اور10گلبہار کی والدہ کو۔
پہلے اشرف علی سے ریاض لالانے کہا تھا کہ ہمیں پیسے نہیں ملے اور میرا باغ لے لیں۔ میں نے کہا تھا کہ جتنی زمین ریاض کے پاس ہے تو یہ وراثت میں پھوپھی کا حق ہے۔ داؤد اور واحد کی والدہ کا اتنا حق ہے جتنی زمین پر بیٹھے ہیں۔ ماموں سے حساب نہیں۔ بہر حال یہ زمین دیں بھی تو ہم نہیں لیں گے ۔
اگر زمین کا پیسہ دینے کے بعد میرا باپ مکر گیا تو دوسری مرتبہ پارٹنر کو دیتا جسکے نام کاغذ تھے؟ ۔ واحد اور داؤد سے کہا کہ پرائی زمین دینے کا کیافائدہ ؟۔ جہانزیب نے بتایا کہ بہن مجھ سے ناراض تھی۔ بہنوں کو زمین دیں تو اچھی دیں ۔2کنال شبیر کو راستہ ملے۔7کنال داؤد،7واحد اور7نوبہار کی والدہ کو مل جائے۔ ساڑھے تین کنال ریاض کی والدہ اور ساڑھے تین ملازئی کی پھوپھی کودیںتوپھر دل کو بھی تسلی مل جائے گی۔
ریاض نے بتایا کہ عالمگیر نے کہا کہ ”ہماری زمین تھی لیکن نور علی نے کہا کہ ماموں ہیں”۔ ہر چیز کی وضاحت ضروری ہے۔ عالمگیر کے بچوں کا حق ہم کیوں کھائیں گے؟۔اگرسب باتیں ریکارڈ پر نہیں ہوں گی تو ظالم اور مظلوم کا کوئی پتہ بھی نہیں چلے گا اور غلط فہمیاں بارودی سرنگیں بن جاتی ہیں۔
میرے والد کا ہاتھ تنگ تھا تو زمین قائم میاں خیل کو بیچی۔ دوست نعمت زرگر نے رقم دی کہ آپ دیں نہیں تو بیٹے دیں، نہیں تو یہ میری ہوگی۔ پھر گلزار احمد خان نے سرکاری ریٹ پرزمینوں کا مالک بنادیا۔ حاجی تامین کی منافع بخش زمین نعمت کو دینے کا فیصلہ کیا مگر دماغ خراب تھا اسلئے انکار کردیا۔
ماموں اور علاء الدین نے کہا کہ ہمیں دیدو۔ والد نے کہا کہ مجھے بھی پیسوں کی ضرورت ہے اگر تم بیچتے ہو تو نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم رکھیں گے ، پھر ممتاز نے ان سے کہا کہ یہ زمین میں لیتا ہوں لیکن انہوں نے کہا کہ فائدے کی چیز ہم بھی جانتے ہیں۔ پھر انہوں نے اچھی خاصی قیمت پر بیچ دی۔ اور کمال یہ کیا کہ والد نے علی خان کی زمین پر شفہ کا دعویٰ کیا تھا کہ میں خریدوں گا اور علاء الدین نے کم قیمت میں وہ خرید لی۔ اکبر علی نے کہا تھا کہ” علی خان کی زمین کیلئے تمہارے پاس پیسے نہ تھے تو اس کی ملحقہ زمین آپ کیلئے خریدی”۔ پروپیگنڈہ مہم پریکطرفہ ٹریفک چلے تو پھر نتائج بھی بھیانک نکلتے ہیں۔
میرے والد نے کوٹ اعظم روڈ پر کتنے لوگوں کو سرکاری ریٹ پر آباد کیا ؟۔ چاچاانور شاہ کو بٹیاری میں زمین دلائی تھی لیکن وہ وسواسی تھے اور آخر میں اسکے پیسے پھینک دئیے تھے۔
مینک نے کہا تھا کہ تم قسم اٹھاؤ اور آدھی زمین لے لو یا پھر میں قسم اٹھاتا ہوں کہ ایک تہائی تمہاری ہے۔ میرے بھائیوں نے والد کو بتائے بغیر اس کو قسم کیلئے کہہ دیا اور35کنال کم زمین لی۔ جب مینک کیلئے35کنال چھوڑ سکتے تھے تو30کنال اپنوں کیلئے چھوڑنے میں کونسا مسئلہ تھا؟۔حاجی تامین کی زمین اسکے10گنے سے زیادہ کا معاملہ تھا۔2سوکنال تھی ۔
ریاض نے کہا کہ” لیز کی زمین کیلئے فیروز راضی نہیں تھا اور آپ کی والدہ نے دوپٹہ پھیلاکر استدعا کی تو اس نے قبول کی۔ مینک کیساتھ بھی آپ نے زیادتی کی ، قسم اٹھوائی۔ آپ کا باپ پیچھے آیا تھا ،ہم نہیں گئے تھے۔ مینک سے بھی ہمیں لڑا دیا”۔
منہاج نے کہا کہ ریاض کو چھوڑ دو، خان کی بیٹی دوپٹہ نہیں پھیلاسکتی تھی؟۔ خان کا بیٹا حاجی تامین کی زمین مانگ سکتا تھا بیوی کیلئے بہن سے ناراض تھا، جب ماموں کو پتہ چلا کہ پیسہ آیا ہے تو راضی ہوگئے۔35ہزار اور نگزیب لائے تھے۔23ہزار میں بس خرید لی جو مشترکہ بن گئی اور پھر گم کھاتے میں چلی گئی۔
منہاج کے دل کا آپرشن تھا تو ڈاکٹر ظفر علی ، منہاج اور میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ زندگی اور موت کا بھروسہ نہیں ہے سارے متنازعہ معاملات نمٹالیں گے۔ یوسف شاہ نے بتایا کہ ہماری زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب بھی10کنال ہمارے نام کی زمین قبضہ میں ہے۔18شبیر کو دی ہے وہ بھی ملکیت کی ہے۔
اخلاقیات کا کوئی معیار ہے؟:
سید حسن شاہ بابو نے نواسوں کو گھر اور زمینیں دیںاور قوم کی مختلف شاخوں میں پیروں کاایک ایک گھر ایڈجسٹ کیا۔ پھر میرے والد نے آٹھواں یکجا کردیا۔ اعظم گل سے لڑائی تھی تو زمین کی سیدھ میں پہاڑ کا حق تھا۔ جو معطل کیا گیا۔ ایسا اصول کھڑا کیا کہ جسکے بعد کوئی ذرا اونچا مکان نہیں بناسکتا ہے؟۔ حالانکہ پورے شہر کی آبادی اوپر نیچے ہے۔ مجھے اعظم گل کے بیٹے نے کہا کہ ہماری یہاں بہت بے عزتی ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کہیں تو میں بھائیوں کو منع کردوں گا۔ اسلئے کہ اگرآپ راضی نہ ہو توہم بھی نہیں آتے؟۔ اس نے کہا کہ آپ سے بڑھ کر پڑوسی تو ہمیں چاہیے نہیں!۔ دل خوش ہوا کہ انکے دل سے پتھر ہٹادیا جو بوجھ سمجھ کر آخری امید لیکر آیاتھا ۔
شریعت کے پر خچے اڑادئیے؟:
جب غلام نبی سے معمولی بات پر لڑائی شروع کردی تو وہ نہیں لڑنا چاہ رہاتھا مولانا عین اللہ محسود کو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کیلئے بلایا۔ ماموں راستہ بند کرنا چاہتاتھا اور وہ توسیع چاہتا تھا۔ مولانا عین اللہ نے فیصلہ دیا کہ” شریعت میں راستہ وسیع کرنے کیلئے مسجد اور قبرستان کو بھی مسمار کرسکتے ہیں لیکن راستے کو تنگ اور بند کرنے کی گنجائش نہیں ہے”۔
پھر مولانا عین اللہ کو بلایا۔ مولانا غلام محمد نے کہا تھاکہ میں مناظرہ نہیں کرتا۔ پیر جذباتی ہیں، فتنے کا خطرہ ہے۔ تو مولانا عین اللہ نے کہا ”پھر اجرت دوبارہ دیناہو گی”۔ مولانا غلام محمد نے کہا کہ ”اجرت ڈبل لے لو”۔ پھر اس نے نیا فیصلہ لکھ دیا کہ ”شریعت میں گدھے اور اونٹ کا راستہ ہے لیکن گاڑی کاراستہ نہیں”۔ مشہورہوا کہ ”پیروں نے مولوی کو رشوت کھلادی ”۔
قوم نے کہا کہ” یہ راستہ قومی بنالیتے ہیں”۔ ماموں نے کہا کہ ”پہلے میں قوم سے لڑوں گا”۔ میرے والد نے کہا کہ قوم کی بات مانو۔ بدلے میں پیچھے بانڑاں کا راستہ ذاتی بن جاتا تواس میں عزت اور فائدہ تھا مگرانسان کو ضداندھا بنادیتی ہے۔
ماں کا دوپٹہ پھیلانا ، باپ کا مکر ناثابت ہو تو طالبان ایسوں کا قتل جہاد سمجھیں گے مگر باتیںحقائق کے منافی ہوں تو اصلاح ضروری ہے۔ لوگ اپنے قاتل بھائی، باپ کو جیل یا پھانسی سے بچانے کیلئے نہ مظلوم مقتولین کا خیال رکھیں اور نہ خاتون خانہ کی عزت کا پاس توکچھ بھی کرسکتے ہیں۔ عبادت اورذاتی کردار اپنی جگہ لیکن حقوق العباد اسی دنیا میں ضروری ہے اور انقلاب اسی سے آسکتا ہے۔ ابوطالب نے نمازنہیں پڑھی ۔ کافر قرار دیا گیا لیکن ان کی عزت اسلئے تھی کہ ظالم اور غاصب نہیں تھے۔
مشہورٹھیکیدارحاجی پالم خان محسود:
پیر اورنگزیب شہیدC&WکےSDOتھے۔ میں نے کہا کہ مغرب نے ترقی اسلئے کی کہ قوم وملک کاپیسہ اپنی ذات سے زیادہ قومی اشیاء پر لگاتے ہیں، بھائی اورنگزیب نے کہا کہ وانہ روڈ میں پہاڑ کی کٹائی اور کارپٹ سرکارکی ڈیمانڈ سے میں نے زیادہ کام کروادیا تو چیف نے کہا پھر ہم کیا کھائیں گے؟۔ حاجی پالم خان ٹھیکدار تھا مگر بھائی نے کہا کہ میں بلڈنگ وروڈ بنانے کا پورا پورا خیال رکھتا ہوں تاکہ اس میں کوئی نقص نہ ہو۔ اس نے کہا کہ جوپیسہ چین وغیرہ کو دیا جاتا ہے اگر اسکے آدھے پیسے بھی ہمیں ملتے توہم ان سے زیادہ بہتر سڑکیںبنالیتے۔
پشتو اشعار کا ترجمہ:
جب تمہارے اوپر پیچھے سے وار ہوگا
یہ تمہارا اپنا ہی کوئی رشتہ دار ہوگا
یا تو تمہارا دوست ہوگا یا پھر تمہارا یار ہوگا
جس پر تمہارا بہت ہی زیادہ بھروسہ ہوگا
جب حق کی بات کو حق کہو گے
تو تمہیں گالی بھی اذیت دینے کیلئے دی جاتی ہے
جب تم اے عابد ! سفید کپڑے پہنو گے
تو اس کام پر بھی ان کو تمہارے اوپر غصہ آتا ہے
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ