پوسٹ تلاش کریں

شوہر کے فرائض اور بیوی کے حقوق کا معاشرتی رویہ حکمرانوں اور رعایا پر بھی زبردست اثر انداز ہوا ہے۔

شوہر کے فرائض اور بیوی کے حقوق کا معاشرتی رویہ حکمرانوں اور رعایا پر بھی زبردست اثر انداز ہوا ہے۔ اخبار: نوشتہ دیوار

شوہر کے فرائض اور بیوی کے حقوق کا معاشرتی رویہ حکمرانوں اور رعایا پر بھی زبردست اثر انداز ہوا ہے۔

1:عالمی سطح پربین الاقوامی جبری نظام سے عالم اسلام اور پاکستان کے مسلمان کیسے نکل کر سرخرو ہوسکتے ہیں؟

2: ہندوستان کے ہندو اور افغانستان قوم پرست طالبان کے درمیان پاکستان کس طرح سلامتی کے ساتھ پُر امن رہ سکتا ہے؟

3:سوات ، قبائلی علاقہ جات ، شمالی وزیرستان اور خاص طور پر محسود علاقہ جنوبی وزیرستان میں امن وامان کا قیام کیسے ممکن ہے؟ کیا یہ آئندہ دہشتگردی کا گڑھ بنے گا یاامن کا گہوارہ؟

تفصیل نمبر1:دنیا کو خوف ہے کہ اگر خلافت قائم ہوگئی تو خواتین لونڈیاں، مرد قتل یا غلام بنیںگے۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی4ہزار لونڈیاں تھیں۔ جن میں ہر رنگ ونسل کی لڑکیاں شامل تھیں۔ صحابہ وتابعین کی لونڈیاں تھیں ۔محمد شاہ رنگیلا نے اپنے محل کے زینے پر الف ننگ تڑنگ لڑکیاں کھڑی کی ہوتی تھیں اور ان کے سینے پکڑ پکڑ کر چڑھتا تھا۔ خلافت سے دنیا میں اندھیرا چھا جائیگا۔ دنیا کے خدشات کا جواب دئیے بغیر اسلام کی ترویج اور ہمارا نظام نہیں آسکتا۔ یہ باور کرانا ہوگا کہ تبلیغی جماعت،دعوت اسلامی، مذہبی سیاسی جماعتیں،انقلابِ ایران ، افغان طالبان اور سعودی عرب کواپنی اپنی حدود میں ہمارا تابع رہنا ہوگا۔ اللہ نے رسول اللہ ۖ سے فرمایا: ”یہود و نصاریٰ آپ سے کبھی راضی نہیں ہوں گے حتی کہ آپ ان کی ملت کے تابع بن جاؤ” ۔ (القرآن )
ایک طرف عالمی قوتوں کے دہشتگرد ہیں جو ان کی جنگ لڑتے ہیں۔ جن سے خانہ کعبہ، افغان طالبان ، مساجد ، امام بارگاہیں ، بازار اور عوام محفوظ نہیں ۔ دوسری طرف وہ جماعتیں، تنظیمیں اور ممالک ہیں جن کا اسلام اقوام متحدہ اور دنیا کے تابع ہے۔جب نبیۖ سے فرمایاکہ یہودونصاریٰ آپ سے کبھی راضی نہ ہونگے حتی کہ آپ انکی ملت کے تابع بن جائیں، اس وقت یہودونصاریٰ کی دنیا میں مذہبی حیثیت تھی اور ان کے اقتدار کا دائرہ کار حجاز تک نہیں پہنچا تھا۔
اس وقت عیسائیوں کا مذہبی معاملہ یہ تھا کہ عورت کوطلاق نہیں ہوسکتی اسلام نے طلاق کے مسائل بیان کئے توعیسائیوں کیلئے قابلِ قبول نہ تھے۔3سو سال قبل برطانوی بادشاہ نے بیوی کو طلاق اور دوسری لڑکی سے معاشقہ کے بعد ایک اجتہادی فرقہ کھڑا کیا جس نے طلاق کو عیسائی شریعت میں جائز قرار دیا۔ اب عیسائی مذہب کے تابع نہیں ۔ بلکہ ملکی قوانین انسانی حقوق کی بنیاد پر جمہوریت کے تابع ہیں جو ان کی عوام نے بڑی مزاحمت کے نتیجے میںحاصل کئے ہیں۔
جو عیسائی نبی ۖ کا دین قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھے تو کیا مسخ شدہ دین کو قبول کرینگے؟۔ جو تین طلاق کے بعد رجوع پر قرآن وسنت کا حکم نہیں مانتے ؟ جب تک حلالہ کی لعنت سے اپنی بیگم کی عزت لُٹوانہ دیں رجوع نہیں کرتے۔ کیا ایسے مسلمانوں کے رحم وکرم پر یہودونصاریٰ اپنی خواتین چھوڑ سکتے ہیں؟۔ جو فرعون کی طرح ان کی خواتین کو لونڈیاں بناکر ان کی عزتوں کو تار تار کریں؟۔
خلفاء راشدین نے طاقت سے قیصر وکسریٰ مشرق ومغرب کی سپر طاقتوں کو شکست نہیں دی تھی بلکہ خواتین ،لونڈیوں ، غلاموں،مزارعین اور تمام کمزور طبقات کو ایسے انسانی، قانونی اور شرعی حقوق دئیے تھے کہ جس کی وجہ سے ان سپر بادشاہوں کے پاؤں سے زمین نکل گئی تھی۔ حضرت عمر ریت کے ٹیلوں پر تنہاء کہیں بھی سوجاتے اور قیصرو کسریٰ کو مسلح دستوں کے بغیر نیند نہیں آسکتی تھی۔
انسانی حقوق کی بحالی کیلئے اسلام نے چار اقدامات اُٹھائے تھے۔
1:غلام اور لونڈیاں بنانے کی انڈسٹریاں جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا۔
نبیۖ نے سود حرام ہونے کی آیت نازل ہونے کے بعد مزارعت کو سود قرار دیا۔ چار ائمہ مجتہدین اس پر متفق تھے کہ مزارعت سود اور حرام ہے۔ جب کسان کے ہاتھ اپنی محنت کی پوری کمائی آگئی تو کاشتکار کی قسمت جاگ اُٹھی۔ کسان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو یثرب کی وادی مدینہ بن گئی جو ایسا شہر تھا جہاں تاجر مٹی میں ہاتھ ڈالتے تو سونا بن جاتا اسلئے کہ کسان کے ہاتھ میں قوت خرید کی طاقت آگئی تھی۔ جب شہر کی گلیاں بازار کامنظر پیش کر رہی تھیں تو نبی ۖ نے حکم دیا کہ سڑکوں کا اتنا فاصلہ رکھا جائے کہ دو مال بردار اونٹ آسانی کے ساتھ اس میں گزر سکیں۔ ایک طرف جاگیردانہ نظام سے غلامی کے خاتمے کی بنیاد پڑگئی اور دوسری طرف دنیا نے ترقی وتمدن کا نظارہ دیکھ لیا۔
بنوامیہ و بنو عباس نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اسلام کے معاشرتی و معاشی نظام کو متأثر کیا۔ دنیا میں سرمایہ دارانہ سودی نظام اور کمیونسٹ نظام تھے تو علماء حق نے کہا کہ ”کمیونزم کیپٹل ازم سے اسلام کے قریب ہے۔ کیپٹل ازم میں سود اور کمیونزم میں سود نہیں تھا ”۔1970میںجمعیت علماء اسلام پر دارالعلوم کراچی ، جماعت اسلامی اور امریکیCIAنے کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔علامہ اقبال نے کہا تھا:
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امراء کے در ودیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
تحریک خلافت کے مولانا محمد علی جوہر کے اخبار کا نام ”کامریڈ” تھا ، مولانا ظفر علی خان کے اخبار کا نام ”زمیندار”تھا جو احراری تھے ۔ مولانا حسرت موہانی بھی سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں کمیونزم کے بہت دلدادہ تھے۔
مولانا یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین علماء حق کے علمبردار تھے ، مولانا فضل الرحمن قائد جمعیت علماء اسلام انکے علمی معاشی نظام کی خدمات کے معترف ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز صاحب مولانا عبید اللہ سندھی سے عقیدت اورمفتی اعظم پاکستان مفتی محمود سے تربیت کے دلدادہ ہیں۔
2:غلام ولونڈی کاجانور کی مانند ملکیت کا تصور ایگریمنٹ میں بدل دیا۔
مفتی تقی عثمان نے کہا نبی کریم ۖ نے آخری جملہ ارشاد فرمایا : الصلوٰة و ما ملکت ایمانکم ایک تو نماز کا پورا خیال رکھنا ۔ دوسرا جو تمہارے ماتحت ہیں ان کا بہت خیال رکھنا۔ ماتحت میں نوکر بھی آگئے بیوی بھی آگئے بچے بھی آگئے۔
غلام ولونڈی جانور کی طرح ملکیت تھے۔ غلام عبد، لونڈی اَمة۔ قرآن نے گروی یا ایگریمنٹ کی حیثیت دی، ملکیت کا تصور ختم کیا۔ ملکت ایمانکم ملکیت نہیں ایگریمنٹ ہے ۔ ملکتفعل اَیمان جمع یمینکی مضاف اور کم مضاف علیہ ۔ مضاف و مضاف علیہ مل کر فاعل ہے۔فاعل یمین مؤنث ہے اسلئے فعلملکت مؤنث ہے۔ترجمہ: ”جسکے مالک تمہارے معاہدے ہیں”۔ ذاتی مالک اور معاہدے کا مالک ہونا جدا ہے۔ کرایہ دار گھر لے تو ایگریمنٹ کا مالک ہے مکان کا نہیں۔ لونڈی وغلام کی ملکیت کا تصور اسلام نے ختم کیا۔ ان کی جان ، مال اور عزت کو تحفظ دیا۔ انکے انسانی اعضاء کی قدر بحال کردی ۔ آنکھ، کان، ہاتھ ، پیر، دانت کے بدلے کا تصور دیا۔ انسانی اعضاء برابر قرار دئیے۔
3: لونڈی و غلام اور آزاد مرد و عورت میں نکاح وایگریمنٹ کی یکسانیت۔
قرآن میں واضح فرمایاکہ ” مؤمن غلام مشرک سے نکاح کیلئے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگتا ہو اور مؤمنہ لونڈی مشرکہ سے بہتر ہے اگر چہ وہ تمہیں اچھی لگتی ہو”۔اسی طرح طلاق شدہ و بیوہ خواتین کیساتھ اللہ نے غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا ارشاد فرمایا۔ جب آزاد عورت کا کسی غلام سے نکاح یا ایگریمنٹ کی کتابت ہو تو غلام کیساتھ مالی تعاون کرنے کا بھی صریح حکم دیا۔ بڑا المیہ ہے بقول علامہ انور شاہ کشمیری کے ”قرآن میں معنوی تحریفات تو بہت زیادہ ہیں لیکن لفظی تحریف بھی ہے ۔ یا انہوں نے مغالطہ سے ایسا کیا ہے یا جان بوجھ کر”۔ فیض الباری ۔ (فتاویٰ دیوبند پاکستان بحوالہ مفتی فرید صاحب)
رضاعت کبیر و رجم کی آیات بکری کے کھا نے سے ضائع ہونا تحریفِ لفظی نہیں تو کیاہے؟۔ علامہ مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تدوین القرآن ” بنوری ٹاؤن نے چھاپی۔ جس میں تفصیل ہے۔توراة کی جعلی آیت رجم کی جگہ سورۂ نور میں 100کوڑے کی سزا آج بھی قابلِ عمل ہے۔ شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کے بارے میں عدالتی فیصلہ آیاکہ ” بڑھاپے کی وجہ سے اس میں بدکاری کی صلاحیت نہیں ہے” تو جعلی آیت الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما (جب بوڑھا اور بوڑھی زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کرو)کا غلط تصور ختم کریں۔
قرآن وسنت اور صحابہ سے آزاد خواتین کیلئے نکاح اور ایگریمنٹ ثابت ہے۔ نکاح میں تمام ذمہ داری شوہرپر ہے اور ایگریمنٹ میں جوبھی طے ہو۔ مشرقی روایات میں رکھیل اورداشتہ کا تصور تھا اور جدید دور میں مغرب نے گرل فرینڈز کا تصور دیا ۔اسلام نے قانونی حقوق اور شرعی حدود کا بھی تعین کردیاہے۔ آزاد عورت و لونڈی سے نکاح ہوسکتا ہے اور ایگریمنٹ بھی۔ یہ انوکھی بات ہے کہ اللہ نے نبی ۖ کی چچازاد ام ہانی سے نکاح کی ممانعت کردی تھی اسلئے کہ مسلمان ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی تھی۔ پھر نبیۖ کو آئندہ کسی عورت سے بھی نکاح کامنع کردیا چاہے کسی کا حسن پسندہو۔ لیکن اللہ نے ایگریمنٹ کی اجازت دی۔ علامہ بدر الدین عینی نے ام ہانی کو نبیۖ کی 28ازواج میں شمار کرکے غلطی کی ۔یہ ایگریمنٹ کا تعلق تھا۔ایک یہودن خاتون سے نبیۖ نے شب زفاف گزارنے کے بعد صبح دعوت ولیمہ کھلائی تو صحابہ نے آپس میں پوچھا کہ ایگریمنٹ ہوا یا نکاح ؟۔ جواب دیا گیا کہ اگر پروہ کروایا تو نکاح ورنہ ایگریمنٹ۔امہات المؤمنین کو پردے کا خاص حکم تھا اور ایگریمنٹ پراس کا اطلاق نہیں تھا۔ قرآن وسنت نے دنیا کو اتنا بدل دیا کہ حضرت صفیہ کوام المؤمنین کا شرف مل گیا اور محبوب چچا کی بیٹی نکاح سے محروم ایگریمنٹ والی بن گئیں۔ نبیۖ نے کزن حضرت زینب کا رشتہ غلام کا دھبہ رکھنے والے حضرت زید سے کردیا۔ رشتہ کامیاب نہ ہوسکا توام المؤمنین کے شرف سے نواز دیا۔ ابنت الجون کا واقعہ انسانی حقوق کیلئے حضرت یوسف کے قصہ سے زیادہ اہم ہے۔ نبیۖ نے نکاح کے بعد خلوت میں معمول کے مطابق رضامندی کا جائزہ لیا جس کو امہات نے ورغلایا تھا جس کی وجہ سے نبیۖ کو نادانستہ چھوڑنا پڑا تھا مگر اس واقعہ کو اتنا شرمناک رنگ دیا کہ نبیۖ کو نعوذ باللہ عورت کی رضا اور اسکے ولی کی اجازت کے بغیر صرف طلب کرنے پر نکاح کا جواز تھا۔ علامہ ابن حجر کی اس حماقت کو مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی نقل کیا۔
عورت اپنے حق کی جنگ لڑرہی ہے مگراسلام نے برابری سے زیادہ حقوق دئیے ۔کھرب، ارب، کروڑ ، لکھ پتی سے لیکر لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں رکھنے والے تک شوہروں پر اپنی اپنی وسعت کے مطابق حق مہر فرض ہے۔ عورت مرد کی مالی پوزیشن دیکھ کر شادی کرتی ہے۔ گھربار، رہن سہن، کھانا پینا ، سیرسپاٹے سے لیکر بچوں کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھائی تک سب کچھ مدنظر ہوتا ہے۔ حق مہر کا درست تصور شوہر کی حیثیت کے مطابق ہے۔ وسعت والے پر زیادہ حق مہر بوجھ نہیں بنتا بلکہ ضمیر سے بوجھ اترنے کا ذریعہ ہے۔ عورت کی حرمت اسکے حوالہ ہوجاتی ہے ، اسکاجسم اسکے بچے جننے کیلئے ہوتا ہے ۔ جمائما نے عمران خان سے طلاق کے بعد بھی اس وقت تک خان کا لفظ اپنے نام سے نہیں ہٹایا جب تک عمران نے دوسری شادی نہیں کی ۔ حالانکہ جمائما کے اسکے بعد کئی فرینڈشپ بھی رہے۔ عربی میں بیگمات کو محصنات کہتے ہیں۔ کنواریوں کو فتیات۔ جب تک عورت طلاق یا بیوہ بننے کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کرتی تواس کی اپنے شوہر سے نسبت باقی رہتی ہے۔ آیت232البقرہ میں طلاق کی عدت کے کافی عرصہ گزرنے کے باوجود باہمی نکاح کیلئے سابق شوہر کی نسبت قائم رکھی گئی ہے مولوی جھوٹ کہتا ہے کہ میاں بیوی میں ایک فوت ہوتوپھر عورت کا نکاح قائم نہیں رہتا ۔پھر قبرکی تختی پر اپنی ماں کیساتھ اپنے باپ کی زوجہ کیوںلکھتاہے؟۔
قرآن میں والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم ” اور بیگمات سے حرام ہے مگر جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے”۔ جیسے دوبہنوں کا نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ اسی طرح کسی محترم بیوہ یا طلاق شدہ کے نکاح سے بھی اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ عورت کی عزت اپنے عزتدار شوہر سے وابستہ ہوتی ہے۔ جب شوہر وفات پاجاتا ہے یا اس کو طلاق دیتا ہے تب بھی یہ نسبت کو کھو نا نہیں چاہتی ہے تو جس طرح دو بہنوں کو جمع کرنے سے اللہ نے منع کیاہے اور نبیۖ نے اس میں محرم رشتوں کو بھی شمار کیا ہے جیسے خالہ بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کا ایک نکاح میں جمع کرنا۔ کیونکہ سوکناہٹ سے قریبی رشتے میں بغض وکینہ کاپیدا کرنا انسانی فطرت سے تصادم ہے۔ دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا منع ہے تو نکاح پر نکاح کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟۔
اسلام غلط تفسیر وتشریحات میں گم ہونے کیلئے اللہ نے نہیں نازل فرمایا بلکہ قرآن کی تابندہ آیات سے قیامت تک کے انسان درست رہنمائی لیکر انسانیت کیلئے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کرسکتے ہیں۔ کسی محترم شوہر کی وفات کے بعد سے عورت کے نام کیساتھ بیگم کی طرح محصنہ کا لفظ لگتا ہے ۔انسان آخر انسان ہے ، جنسی خواہش کی تکمیل بھی ایک سخت ضرورت ہوسکتی ہے تو اسلئے ایگریمنٹ سے مقاصد پورے ہوسکتے ہیں ۔ایک یہ کہ مراعات اور اعزازات قائم رہیں اور دوسرے جائز جنسی خواہش کی تکمیل کیلئے کسی سے ایگریمنٹ بھی ہوسکتا ہے۔ جب مردوں کیلئے بہت ساری خواتین سے ایگریمنٹ کے جواز کیلئے منہ میں پانی آجاتاہے تو عورت کو ایک ایگریمنٹ کی اجازت کیوں بم لگتا ہے؟۔ ناداں! پھر ایگریمنٹ کس سے ہوگا؟۔ اگر کفار کی خواتین کو لونڈی اور مردوں کو جہاد کے ذریعے غلام بنانے کا تصور ہو تو پھر یہ خواتین خود پرقابو کرنے دیںگی یا نہیں؟ لیکن کافرغلام تمہاری خواتین کی عزتوں کو تار تار کرسکتے ہیں۔ کلبھوشن اور ابھی نندن کو گھر میں غلام بنانے کی ہمت کس میںتھی؟۔ غزوہ بدر میں 70 کفار قیدی پکڑے گئے مگر کسی کو بھی غلام نہیں بنایا گیا۔ نادان کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے صحابہ کرام کیلئے ایگریمنٹ کو جائز رکھا تو وہ متعہ زنا تھا اور اگر ابوسفیان اور اس کی بیگم کو پکڑ کر غلام اور لونڈی بنادیا جاتا تو وہ شرعی تھا؟۔
اگر جاگیردانہ نظام ختم کیا جاتا تو کارل مارکس کو قدر زاید کی بنیاد پر انقلاب کی ضرورت نہ پڑتی اور ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلامی کے نظام پر پابندی لگائی تھی لیکن اس سے بہت پہلے بنوامیہ وبنوعباس اور خلافت عثمانیہ دنیا میں غلامی کا نظام ختم کرچکے ہوتے۔سدھے ہوئے غلام اور لونڈی بنانے کا ذریعہ جنگ کا نظام نہیں ہوسکتا تھا بلکہ دنیامیںجاگیردارانہ نظام ہی اس کا واحد ذریعہ تھا۔ جب امریکہ نے افغانستان ، عراق اور لییبا کو تخت وتاراج کیا تو کسی کو غلام نہیں بنایا اور نہ کسی کو لونڈی بنایا ۔ البتہ مردوں کو قتل اور خواتین کی عزتیں لوٹ لیں۔
امریکہ وروس کی سپر طاقتیں اسلامی نظام کے مفقود ہونے کی وجہ سے آئی ہیں۔ اسلام نے سودی نظام اور جاگیردارانہ اور غلام ولونڈی میں ملکیت کا تصور بالکل کالعدم کردیا تھا جس سے دنیا میں آزادی اور خوشحالی کا ماحول بن سکتا تھا۔ عالمی قوتوں کے ذہن میں اسلام کا درست نقشہ پیش کرنا ہوگا تاکہ اپنی حکمت عملی سے وہ ہمارے ریاستی اداروں اور دہشتگردوں کے درمیان معصوم عوام کو ظلم کی بدترین چکیوں میں پیسنے کیلئے نہیں ڈالیں۔یہ اغیار کی سازش کے نتائج ہیں۔
ایک شخص کی دیت 100اُونٹ ہے اور ایک عضو ء کی قیمت آدھی دیت ہے۔ یہ غلط بات نہیں کہ جس دیانتدار ہاتھ کی قیمت 50اونٹ تھی جب خیانت کا مرتکب ہوا تو 10روپے ، 4آنے اور ایک ٹیڈی کی چوری پر خائن ہاتھ کٹے۔ فقہاء نے لکھ دیا کہ جس امام کے نزدیک جتنی رقم پر چور کا ہاتھ کٹتاہے ،اتنی قیمت میں شوہر بیوی کے ایک عضوء کا مالک بنتاہے۔ اس سے زیادہ عورت کی تذلیل کیا ہوسکتی ہے؟۔ حالانکہ حق مہر کا مقصد عورت کو تحفظ دینا ہے۔ اس گھٹیا خیال سے عورت کی جتنی تذلیل ہے، کوئی مہذب معاشرہ اس کا تصور بھی کرسکتا ہے؟۔ نبی کریمۖ نے بے سہارا عورت کا حق مہر لوہے کی انگوٹھی نہ ہونے پر قرآنی سورتوں کی تعلیم اسلئے رکھا کہ اسکے پاس کچھ تھا نہیں۔ البتہ اس کا ایک گھر تھا جو بیشک خالی تھا مگروہ طلاق دیتا تو گھر عورت کیلئے چھوڑنا پڑتااور اگر عورت خلع لیتی تو عورت کو گھر چھوڑنا پڑتا۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ شوہر طلاق دے سکتا ہے لیکن اس صورت میں گھر اور تمام منقولہ وغیرمنقولہ دی ہوئی اشیاء کو واپس نہیں لے سکتا اوروسعت کے مطابق حق مہر اسکے علاوہ ہے۔

تفصیل نمبر2:پاکستانیوں اور افغانیوں کاایکدوسرے سے شکوہ ہوگا ۔ ہندوستان اور پاکستان روایتی دشمن ہیں ۔ جب پاکستانی نماز پڑھتے ہیں تو دائیں طرف افغانستان ،ایران، روس سے آزاد ممالک کی طرف منہ کرکے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بھیجتے ہیں اور بائیں طرف منہ کرکے ہندوستان وغیرہ پر بھیجتے ہیں۔ بیت المقدس کے ارد گرد کو اللہ نے برکت والا قرار دیا ہے۔
بقیہ… ہندوستان کے ہندو اور افغانستان قوم پرست
مسلمان دورِ اول سے تیمور لنگ، مغل بادشاہوں اور خاندانِ غلامان تک جتنے انواع واقسام نے ہندوستان، ایران ، افغانستان اور پاکستان پر حکمرانی کی ہے تو سارے ممالک کو اسلام کے نام پر مسلم حکمرانوں سے ناراضگی ہوسکتی ہے۔ معروف کالم نویس اور اچھے خطیب سینئر صحافی حسن نثار نے کہا کہ ” سندھ پر محمد بن قاسم سے پہلے دو مرتبہ حملہ ہوچکا تھا جو ناکام رہاہے۔ یہ تیسری مرتبہ کا حملہ تھا۔ کسی عورت کی شکایت پر سندھ فتح کرنے کی بات یونہی کہانی ہے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ بنوامیہ کے مظالم سے اہل بیت کے جتنے افراد کو سندھ میں پناہ ملی تھی ،ان کو شہید کرنے کی غرض سے سندھ فتح کیا گیا ”۔ اس رائے میں کتنا وزن ہے ؟۔ مشرکینِ مکہ نے حبشہ کی ہجرت کے بعد مسلمانوں کا تعاقب کیا تھا لیکن عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو حوالہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ جب خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ نے اقتدار پر قبضہ کیا تو معاملہ نظریات کی لڑائی کی جگہ خاندانوں میں منتقل ہوگیا۔ پھر بنوعباس نے بنوامیہ کا تیا پانچا کیا اور آج عراق وشام کے درمیان ایک ایسا یزیدی فرقہ ہے جس میں اسلام سمیت دوسرے مذاہب کا مکسچر ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یزید کے ماننے والے اس طرح کی شکل میں آگئے اور بعض کہتے ہیں کہ ایرانی مذہب یزداں کی طرف یہ منسوب ہیں۔ بہرحال جس مذہب کی بھی یہ باقیات ہیں وہ اپنی شکل رکھتے ہیں۔
اس خطے میں ہندوستان کو چھوڑ کر ایران، افغانستان، پاکستان مسلم ممالک ہیں اور سبھی کو مسلم حکمرانوں سے دور وقریب کے زمانے میں بڑی شکایات ہیں۔ اگرایران کے بادشاہ یزد گرد کی صاحبزادی محترمہ شہر بانوامام حسین کی بیگم بنائی گئی تھی تو بھی فاتح ایران حضرت عمر فاروق اعظم سے ایران کے لوگوں کی ایک قومی نفرت بھی ہوسکتی ہے۔ آج اگر کسی کٹر اہل تشیع حکمران کے بارے میں بھی یہ تصور کیا جائے کہ سعودی عرب اس پر زبردستی قبضہ کرلے اور اس کی بیٹی کو امامِ زمانہ کی بیگم ایک لونڈی کی طرح بنائے تو اس کی قومی غیرت جاگے گی اور اسلام کی یہ فتح بھی اس کیلئے قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ سندھ کے قوم پرست اور اسلام کو دل سے چاہنے والے بھی بنوامیہ کے حجاج بن یوسف ظالم سے نفرت اور سید قوم سے محبت رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں جوکانفرنس منعقد ہوئی تو اس میں تحریک انصاف کے رہنما سینئروکیل حامدخان نے بڑے سخت الزامات دہشت گردی کے حوالے سے بلوچستان کی عدالتی تحقیقات میں لگائے تھے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے نام پر ن لیگ، تحریک انصاف، ایاز پلیجو، منظور پشتین وغیرہ کا ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کرنا شاید مقتدر حلقوں کو نہیں بھایاتھا۔ ایازپلیجو نے سندھ کی مظلوم ، شریف اور مہذب عوام کا مقدمہ بہت خوبی کیساتھ پیش کیا لیکن ایک شخصیت کا نام بھول گئے۔ شاہ عنایت شہید جو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے خلیفہ تھے۔ جس نے اپنے ہزاروں مریدوں کیساتھ یہ نعرہ لگایا تھا کہ ”جو فصل بوئے گا وہی کاٹے گا”۔ اور پھر ان کو اپنے ہزاروں مریدوں کیساتھ شہید کردیاگیا تھا۔ اگر اس عظیم شخصیت کی تحریک کامیاب ہوجاتی تو پھرکارل مارکس کو دنیا میں ایک نیا انقلابی نظریہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سندھ کی تاریخ کو ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی بڑے اچھے الفاظ میں پیش کیا ہے۔
آج ایرانی انقلاب کے خلاف 40سال بعد اپنی عوام مظاہرے کررہی ہے اور اس کا انجام کہاں تک پہنچے گا؟۔یہ کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ طالبان کے جنرل مبین نے بھی درست کہا تھا کہ جب تک عوام میں مقبولیت حاصل نہیں ہوتو افغانستان میں کسی کیلئے بھی حکومت کرنا ممکن نہیں ہے۔ افغان قوم پرستوں کوہی شاید اطمینان دلانے کیلئے جنرل مبین پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف سخت بیانات دیتے رہتے ہیں لیکن صدر نجیب اللہ کی شہادت اور آپس کی جنگ وجدل کا کیا جواب دیںگے؟۔ یہ شاید بہت پیچیدہ قسم کے معاملات ہیں۔ ہندوستان کو بھی مسلمانوں سے بہت گلے شکوئے ہوسکتے ہیں اسلئے کہ اورنگزیب بادشاہ نے بھی اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید کرکے اقتدار حاصل کیا تھا۔ باقیوں کی جن عیاشیوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ بھی تاریخی اعتبار سے ایک بڑا معمہ رہاہے۔ حکمرانوں کی تاریخ اور ان کے کردار پر تبصرے کرنے سے بہتر ہے کہ اس خطے میں ان اسلامی احکام کو زندہ کیا جائے جس کی وجہ سے اس خطے میں اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور ایک بہت بڑے مثبت انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
عیسائیوں میں مذہبی طلاق کی گنجائش نہیں تھی جس کی وجہ سے مرد عورت کو ایک بڑے عذاب کا سامنا تھا۔ آخرکار اسلام کی برکت سے انسانی حقوق بحال ہوگئے۔جو عوامی اور حکومتی سطح پر پوری دنیا نے قبول کئے ہیں۔ ہندو عورت کو ستی کیا جاتا تھا یعنی شوہر کی وفات کے بعد زندہ جلادیا جاتا تھا۔ انگریز نے زبردستی سے اپنے اقتدار میں اس کا خاتمہ کردیا۔ برصغیر پاک وہند میں حنفی مسلک والوں کی اکثریت تھی۔ جب کسی عورت کا شوہر گم ہوجاتا تھا تو اس کو80سال انتظار کا شرعی حکم تھا۔ ایک عورت نے مرتد ہوکر اسلام سے بغاوت کردی تو امام مالک کے مسلک پر 4سال انتظار کے بعد عورت کو شادی کی اجازت دی گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے حیلہ ناجزہ میں لکھاہے کہ ” اگر شوہر نے بیوی کو تین طلاق دیں اور پھر مکر گیا تو بیوی اس کیلئے حرام ہوگی۔لیکن بیوی کو جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیںگے اور گواہ نہ ہوئے تو خلع لے اور شوہر خلع نہ دے تو عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ بس جماع کرتے ہوئے لذت نہ اٹھائے”۔ یہ صرف اس کتاب کا مسئلہ نہیں بلکہ آج بھی یہ فتوے جاری ہیں۔ کیا اس سے بدترین ظلم عورت پر ہوسکتاہے؟۔ ہمارے فقہاء یہودونصاریٰ کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ۔
جب عورت کو قرآن کے مطابق حق مہر سے تحفظ ملے گا، اس کو خلع کا حق مل جائے گا اور اس کو شریعت کے مطابق اختیار دیا جائے گا تو وہ اسلام کے دین پر بہت خوش ہوگی۔ ایک ایرانی نژاد امریکن خاتون نے اسلام میں عورت کے حق پر کتاب لکھ کر تہلکہ مچادیا ہے۔ ایک واقعہ لکھا ہے کہ ” مرد نے عورت سے شادی کی اور اسکے پیچھے کی راہ سے جماع کی لت تھی تو عورت کی جنسی تسکین نہیں ہوتی تھی ،جس کی وجہ سے اس نے خلع کا مطالبہ کیا۔ وہ خلع پر راضی نہیں تھا تو حق مہر سے زیادہ رقم دیکر خلع دینے پر راضی کیا”۔ اگر عورت کو تحفظ ملنے کے بجائے مرد کو نکاح کے بعد بلیک میلنگ کے بدترین قانونی راستے بھی مل جائیں تو پھر اس شریعت کی مقبولیت کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اگر شیرشاہ سوری جیسے بڑے مخلص ڈاکٹر یہ رائے رکھتے ہیں کہ عورت کیلئے کم عمری میں شادی کرنے کے بعد مسائل پیدا ہوتے ہیں تو اس سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔مگر جب قرآنی آیت کی غلط تفسیر ، صحابہ اور بعض ائمہ مجتہدین کی رائے یہ ہو کہ شوہر عورت سے پیچھے کی طرف سے اپنی خواہش پوری کرسکتا ہے اور عورت کی مرضی کو عمل دخل نہ ہو توپھر عورت کس طرح اپنا جسم اپنی مرضی کی تحریک نہیں چلائے گی؟۔ احادیث اور تاریخ کی صحیح معلومات سے یہ ثابت ہے کہ اماںعائشہ کی عمر رخصتی کے وقت 19 سال تھی۔ لیکن جو علماء 9سال مانتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ 9سال میں بچی بالغ بن جاتی ہے تو بھی ان کی بڑی مہربانی ہے کہ بلوغت تک صبر کرنے کا معاملہ رکھتے ہیں لیکن پھر اس کا کیا جواب ہوگا کہ سارے ائمہ مجتہدین کی طرف منسوب ہے کہ بلوغت سے پہلے بچپن میں بھی بچی کی شادی ہوسکتی ہے اور باقاعدہ مسئلے مسائل میں اس بات کا ذکر ہے کہ ”جب بچی ثیبہ اور نابالغہ ہو”۔ جس کا مطلب ایسی چھوٹی بچی جس کیساتھ بلوغت سے پہلے جماع کی کاروائی کی گئی ہو۔ پھر اس پر مسالک ہیں کہ بالغ ہونے پر وہ بچی اپنا نکاح توڑ نے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟۔ اس پر بھی معروف اختلافی مسالک کے بڑے تضادات ہیں۔ بعض تو ثیبہ بچی کو طلاق کے بعد اپنی مرضی کا مالک بتاتے ہیں اور بعض ثیبہ بچی کو طلاق کے بعد اپنی مرضی کا مالک نہیں بلکہ ولی کی اجازت کا محتاج سمجھتے ہیں۔ بعض پھر بلوغت کے بعد بچی کو بھاگنے کاا ختیار دیتے ہیں اور بعض بیوہ وطلاق شدہ کو بھی نکاح میں ولی کی اجازت کا پابند سمجھتے ہیں اور کسی کے نزدیک عورت کا کسی بھی حالت میں کوئی اختیار نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے قانونی شادی کا تصور اسلئے رکھا ہے کہ طلاق کے بعد جائیداد برابر برابر تقسیم ہوجاتی ہے جبکہ ہمارے تو عورت اور مرد نانی نانا اور دادی دادا بننے کے بعد بھی بے نامی جائیداد کے مالک ہوتے ہیں اور شادی پر اس کا کوئی قانونی اثر بھی نہیں پڑتاہے۔ اسلام کے حقیقی قوانین جب اس خطے میں بن جائیں گے تو ایران، افغانستان اور پاکستان نہیں بلکہ ہندوستان پر بھی اس کے بڑے انقلابی اثرات پڑیںگے۔ کوئی لڑکا لڑکی اگر15سال یا19سال کے بعد شادی کرتے ہیں تو ملک کے قانون سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتاہے۔ عورت 10بچے جن لے تب بھی اس کو گھر سے نکالا جاسکتا ہے اور اسکے بچے بھی چھن سکتے ہیں۔ ملک کے قوانین، معاشرتی اقدار اور شرعی مسائل عورت کو کسی قسم کا تحفظ نہیں دیتے بلکہ ایک سے ایک بدتر انداز میںجکڑلیتے ہیں۔ عدالت سے خلع مل جائے تو مولوی نہیں مانتااور مولوی بھی مان جائے تو ہمارے معاشرتی اقدار عورت کی ملکیت کو برقرار رکھتے ہیں۔
جب اصلی شادی میں عورت مرد کو نکاح کے فوائد نہیں ملتے ہیں توپھر سینیٹر مشتاق خان کو ٹرانس جینڈر بل سے کیوں یہ خطرہ اور خدشہ ہے کہ اس کا فائدہ اٹھاکر عورت اور مرد اپنی جنس بدل دیں گے اور مرد مرد اور عورت عورت سے شادی کرنے کی حماقت کریںگے؟۔ اقتدار کی منزل تک پہنچنے کیلئے ہتھکنڈہ استعمال کرنا الگ چیز ہے جو بنوامیہ اور بنوعباس کے اقتدار سے بھی بدتر ہے۔ جو مولانا مودودی خلافت وملوکیت میں حضرت امیر معاویہ کے اقتدار کی مخالفت کرتا تھااس کی جماعت اسلامی ڈکٹیٹر شپ کا بغل بچہ بن کر کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے؟۔ معذرت کیساتھ جب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے طرز حکمرانی پر مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” حضرت ابوبکر کے دور میں نبیۖ کے عمل سے کوئی اختلاف نہیں تھا اور حضرت عمر کے دور میں مال کی تقسیم میں طبقات پیدا کئے گئے ” تو پھر حضرت عمر اور حضرت معاویہ کے اقتدار میں کیا فرق رہتاہے اور یزید کے دور میں بھی بس کربلا کے شہداء کا واقعہ پیش نہ آتا تو مسئلہ نہیں تھا۔
یوں بچوں کے قتل سے بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
آج کے دور میں مدارس نے جس طرح فرقہ پرست عناصر پیدا کئے ہیں تو اس کی وجہ سے ایک ہی فرقہ والے اپنے ہی فرقہ والے سے پریشان ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے سے ماحول اور تاریخی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے نفرت کی فضاء قائم کی جارہی ہے۔ دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری نے ربیع الاول میں راستے بند کرنے اور راتوں کو دیر تک جاگنے سے منع کردیا تو لوگوں کے دل و دماغ میں بات آئی کہ اپنی دوکان چل گئی تو اب دوسروں کی چلنے نہیں دیتے ہیں اور اگر دوکانداری کی بات نہ ہوتی تو اسلام کے درست احکام زندہ کئے جاتے۔

تفصیل نمبر3:محسود قوم نے افغان امریکہ جنگ میں قربانیاں دیں۔ پاکستان کو بھی محسود قوم سے مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ محسود قوم کو بھی بدترین تاریخی تذلیل کا سامنا کرنا پڑا ۔ آج پھرمحسود قوم چاروں طرف سے مشکلات میں پھنسی ہے۔
تاریخ نے قوموں کے وہ دور بھی دیکھے ہیں لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزاپائی
آج اگر محسود قوم نے صحیح فیصلہ نہ کیا توبڑی سزا کھا سکتی ہے۔
طالبان کی آمد کے تذکرے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی نالائق اسٹیبلشمنٹ نے محسود قوم کو بالخصوص اور تمام اقوام کو بالعموم فائدے کی جگہ بہت نقصانات پہنچائے ہیں۔ ہمارا تو پہلا مطالبہ یہی ہوگا کہ بنگلہ دیش کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں بڑے رینکوں کی بھرمار نہیں تو یہاں بھی ڈیزائن مختصر کرکے ریاست کا عوام پر بوجھ کم کیا جائے۔ مذہبی جماعتیں ،سیاستدان دہشت گرد بھی ان کی اپنی پیداوار ہیں۔ اپنے مفادات کی وجہ سے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کرنے کے بجائے سیدھے طریقے سے اسلامی حقوق کا معاملہ جمہوری انداز میں حل کیا جائے اور ملک وقوم اور پاکستان کو انتہائی زوال سے بچایا جائے۔
محسود قوم کا نامزد نمائندہ گل ساخان شہید پہلے کہتا تھا کہ وزیرستان میں کوئی چور اور ڈاکو نہیں چھوڑوں گا۔ واقعی کچھ کام کرکے بھی دکھایا لیکن جب ہوا زیادہ بھرگئی تو پھر وہ بات بھی نہیں رہی اسلئے کہ قوم کا تعاون حاصل نہیں رہا اور آہستہ آہستہ عوام اور مختلف لوگوں کا اعتماد بھی قائم نہیں رہا تھا۔طالبان کا غوغا اٹھا تو وہ کہتا تھا کہ ایک امریکہ کو نہیں چھوڑتا اور دوسرا بیٹنی قوم کونہیں چھوڑتا۔پھر طالبان نے اپنا اقتدار قائم کیا تومحسود قوم طالبان کی دلدادہ بن گئی۔ جب مشکلات پیش آگئی ہیں اور بہت کچھ تجربات کرلئے تو آج خوف کے عالم میں کہتے ہیں کہ ہم طالبان اور فوج کسی سے بھی جنگ نہیں چاہتے ،بس امن چاہتے ہیں۔
جب یہ یقین ہے کہ طالبان اور فوج کی لڑائی میں ہمارا بہت برا حشر ہوگیا ہے اور ہم دونوں کا کچھ نہیں بگاڑسکتے ہیں۔ فوج سے امن قائم کرنے کا مطالبہ ہے لیکن طالبان کی بھی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ہیں تو اس معاملے کو کون اپنے انجام کو پہنچائے گا؟۔ حکیم پاک فوج ہے اور اس کے لونڈے طالبان ہیں لیکن اسی حکیم کے لونڈے سے دوا مانگ رہے ہیں جسکے سبب بیمار ہوگئے؟۔
وانا کے وزیر وں کی تاریخ الگ ہے۔ ازبک کو جگہ دی اور پھر لڑائی ہوئی تو اپنے قومی طالبان اور فوج کی مدد سے ازبک کو بھگادیا تھا اور آج ایک ہی پیج پر پاک فوج، طالبان اور وزیر قوم کے مشران کھڑے ہیں۔ شہزاد وزیر نے بہت مخلصانہ انداز میں بات کی ہے لیکن نتیجہ اس کا یہی نکلتا ہے کہ محسود قوم بھی وزیر کا راستہ اپنالے۔ طالبان اور فوج امن کی رٹ قائم کریں اور قوم اس کے آگے اپنا سر خم کردیں۔ الیکشن میں PTMکے سپوٹروں کو ووٹ مل جائے۔ لیکن محسود قوم کے حالات مختلف ہیں۔ جہاں طالبان نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل کیا اور قوم کے افراد کو قتل کیا اور فوج کے جوانوں کو قتل کیا ہے۔ اسلئے اعتماد کی فضاء قائم کرنا بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ پہلے بھی بے شناخت طالبان کی طرف سے ان کو خطرات کا سامنا تھا اور آج بھی اس لشکر سے خوفزدہ ہیں لیکن منظقی اور اچھے انجام کی طرف بات پہنچے گی۔ پہلے قوم کی حمایت طالبان کو حاصل تھی ۔ آج عوام ان سے نفرت کرتی ہے۔ پہلے وزیرستان سے لاہور ، پنڈی اور کراچی تک جنگ کا میدان تھا۔ اب محسود طالبان کے سرکردہ امیر، لیڈروں اور کارکنوں کی پہچان ہے۔ طالبان سے عوام کو تکلیف پہنچے تو سخت ردعمل کا سامنا کرینگے۔
بادشاہی خان محسودنے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ان جرگوں میں آنا جانا کافی عرصے سے چھوڑ دیا تھا۔ یہاں پر ہماری فوج اور طالبان سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ پہلے امریکہ کی وجہ سے جب علماء نے جہاد کا فتویٰ دیا تو ہم نے قبول کیا لیکن اب امریکہ گیا ہے اور ہماری عوام مشکلات کی زندگی گزار رہی ہے۔ فوج، پولیس، طالبان، سلنڈر سب کے سب بندوق بردار ہیںمگر عوام مظلوم ہے۔ ہر طبقہ اس پر آنکھیں نکالتا ہے۔ اس کا ایک علاج یہ ہے کہ ہم علاقہ چھوڑ دیں اور دوسرا یہ ہے کہ عوام بھی بندوق اٹھالیں۔ علماء سے بھی رہنمائی لینی ہے کہ اب کس کیخلاف جہاد کا حکم ہے اور کون شہید ہے؟۔
عالم زیب خان محسود نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کسی کو قتل کیا جاتا تھا تو قاتل اپنا نام اور قتل کی وجہ بتاتا۔ لیکن جب کسی لشکر کی طرف سے کوئی قتل کیا جائے تو قاتل نامعلوم ہوتا ہے۔ ہم مذاکرات کیخلاف نہیں تھے مگر جس صورتحال کا آج ہم سامنا کررہے ہیں ہمارے یہی خدشات تھے۔
PTMکے صدر رحمت شاہ محسود نے اپنے بیانات میں جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن ، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ،بلدیاتی منتخب ارکان اور کچہری کے قبائلی عمائدین کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے کہ یہ لوگ قوم کے مسائل کا حل نہیں نکالتے بلکہ اپنے مفادات اٹھارہے ہیں۔ کیا یہ مسائل کا حل ہے؟۔
وزیرستان کی تاریخ میں محسود قوم کی سب سے بڑی خوبی کسی اتفاق رائے سے قومی فیصلہ کرنا ہے۔ جس دن محسود قوم نے جماعتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کرلیا تو دنیا کی کوئی قوت ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی ہے۔ پہلے یہ باہمی مشاورت سے سب کو بولنے کا موقع دیتے ہیں اور پھر کسی ایک فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں۔ آج ان میں مختلف شخصیات کی طرف سے انفرادی رائے میں خالی دوسروں سے اختلاف کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے۔
گل سا خان کو کراچی سے بلایا گیا تھا۔ پھر ڈکیتی کا ماحول قومی اتفاق رائے سے ختم ہوگیا۔ اگر قوم طالبان کے امیر مفتی نور ولی محسود کو کھڈے کھانچے سے بھی نکال کر امن کیلئے اپنا قائد نامزد کردے تو اس کو سیدھا چلنا پڑیگا۔ اگر محسود علاقے کو قوم نے چھوڑ کر دہشت گردوں کے حوالے کردیا تو نہ صرف محسود قوم بلکہ پورے خطے کو اسکے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے کہا تھا کہ ”اب مذہبی طبقے کا پشتون قوم پر کوئی اثر نہیں رہا ہے۔ لسانی تعصبات کو استعمال کرکے قربانی لی جائے گی۔ محسود علاقہ عالمی دہشت گردوں کا گڑھ بنایا جائیگا”۔ حکومت ، ریاست اور محسود قوم کو مشترکہ طور پر ایک اچھا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ورنہ مفادات کی سیاست چلتی رہے گی اور قوم مرتی رہے گی۔ جنوبی وزیرستان اسلام کے درست احکام سے پوری دنیا کیلئے ریاست مدینہ کی طرح نمونہ بن سکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز