پوسٹ تلاش کریں

سورہ رحمن میں عظیم خوشخبری

سورہ رحمن میں عظیم خوشخبری اخبار: نوشتہ دیوار

رحمن سکھاتاہے!

الرحمٰنOعلّم القراٰن

”رحمان نے قرآن سکھایا”۔(الرحمن:1،2)

سوال : اللہ رحمن نے قرآن کیسے سکھادیا؟۔

جواب:

1: تلاوت میں ترتیل وتدبرمگرغلوسے بچنا۔ الرحمن

Oآیت بسملہ اور فاتحہ میں الرحمن ….. الرحیم اور ایک ایک لفظ کو وقف کیساتھ پڑھ سکتے ہیں۔

فی بحرٍلُّجِّیٍّ یَّغشٰہُ

قرأت معانی نہیں ترنم کیلئے مگر کتنی مشکل؟

آسان:

فی بحرٍ…لُجّیٍ…یغشٰہُ وقف سے پڑھنا۔

من یقول ائذن لی من۔۔یقول..اِئذن..لی

تبت..یدا…ابی لھب… و… تب

الرحمٰنOالگ تاکہ تلاوت اور معانی دونوں فطری وآسان۔مدارس اور سکول کالج کے طلبہ کیلئے نہ صرف قرآن آسان ہوگا بلکہ بہترین عربی سیکھ لیں گے۔ اللھم …صلِ… علی…محمد…بغیر تنوین وملاپ۔ زیدو عقیل وجعفر بغیرتنوین واؤ ملائے پڑھنا فطری سہل ہے۔ علی گڑھ ” محمڈن کالج” تنوین سے تھا۔ اللہ نے کئی سارے علوم سکھائے۔

2: محکم آیات واضح ہیں۔ عبداللہ بن عمر طلاق کو نہ سمجھ سکے تونبیۖ نے غضبناک ہوکر سمجھادیا۔

3: متشابہ آیات زمانہ کیساتھ پہاڑ جیسے جہاز، لھوالحدیث ،عربة گاڑی اور سائنسی علوم وغیرہ۔

4: برزخ ، قیامت، انقلابی الساعہ جیسے فتح مکہ اور انبیائ کے ادوارمیں انقلابات آئے۔ قرآن پھر انقلاب عظیم کی خبر دیتاہے۔ 1924 تک خلافت تھی۔ انقلاب دنیا کی قیامت۔

5: موبائل کا نیٹ بولتی کتاب اور اس سے زیادہ کتاب ینطق قرآن بولتا ذرہ ذرہ کی خبردیتا ہے۔

قال ۖ انہ لاتقوم الساعة حتی یکلم الرجل فخذہ بماصنعہ اہلہ وحتی تکلم الرجل عذبة سوطہ بماصنعہ اہلہ (ترمذی)
”بیشک قیامت نہیں آئے گی حتی کہ آدمی اپنی ران سے باتیں کرے گا۔جو اس کی اہل کیساتھ ہوا اور حتی کہ آدمی اپنے ہینٹر سے بات کرے گا جو اس کی اہل کیساتھ ہوا”۔ وائرلیس جدید سائنسی ترقی۔

عالمی کانفرنس میںانٹیلی جینس ٹیکنالوجی خطرہ سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق ہواہے۔
دنیا کو درپیش مسائل میں تباہ کن ہتھیار ہیں۔جو ایمن الظواہی کو کابل ، اسماعیل ہنیہ کو تہران اور حسن نصراللہ کو لبنان میں نشانہ بناسکتے ہیں۔ دنیا کو خوف ہے کہ ایٹمی اور جدید ہتھیار اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھ میں نہ لگ جائیں۔ اگر یقین ہو کہ مسلمان اس کے شر بچنے کا روحانی، قانونی، اخلاقی تدارک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو دنیاامام بنالے۔
دنیا کو درپیش مسائل میں ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی میں طوفانی ہواؤں، بارشوں، خشک سالیوں ، سخت گرمی اور سخت ٹھند کا سامنا کرناانتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سمیت پورے ملک کے گٹر اور حیات آباد پشاور کارخانو کا کیمیکل سمیت پورے ملک کی فیکٹریوں کا کیمیکل یا تو پینے کے صاف پانی دریاؤں میں جارہاہے یا پھر زیر زمین پانی کے ذخائر کو تباہ کررہاہے۔ ہندوستان اور چین کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ پروفیسر اورنگزیب حافی نے اس پر بڑا علمی کام کیا ہے جس کو ملک وقوم اور خطے کیلئے سب سے زیادہ تباکن قرار دیا ہے۔
کراچی، اسلام آباد، گوجرانوالہ، لاہور، کوئٹہ اور تمام شہری زندگی آلودگی کا شکار نظر تی ہے۔ ایران کو اپنا دارالخلافہ تہران سے ایرانی بلوچستان مکران میں منتقل کرنا پڑرہاہے۔ جب زلزلہ آتا ہے توتباہی مچ جاتی ہے۔ قدرتی آفات اب اللہ کا عذاب نہیں۔ ہمارے اعمال کے نتائج ہیں۔ پہاڑ گنجے کردئیے۔ اسلام آباد میں25ہزار درختوں کی کٹائی کی شکایت وزیرداخلہ محسن نقوی سے کی گئی ہے۔

 

ولاتخسروا المیزان

اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمان اور دیگر سورتوں میں میزان کا ذکر کیا ہے۔ انسانی فطرت اور کائنات کی ہر چیز میں اعتدال اور توازن ہے۔ جس کو بگاڑنے سے روکا گیا ہے۔ انسان میں طاقت ہو تو پھر ہاتھ سے منکر کو بدل سکتا ہے اور اگر اتنی طاقت نہ ہو توپھر زبان کی طاقت سے منکر کو بدل سکتا ہے اور اگر اتنی طاقت بھی نہ ہو تو دل کی طاقت سے بدل سکتا ہے اور اس کے بغیر رائی کے دانہ کی طرح بھی کسی میں ایمان نہیں ہوسکتا ہے۔ ہاتھ کی طاقت سے کسی منکر کو بدلنے کی مثال طاقتور ترین حکمران طبقے کی ہے۔ زبان سے منکر کوبدلنے کی مثال ایک طاقتور اپوزیشن اور طاقتورصحافی حضرات وغیرہ ہیں۔ دل سے بدلنے کی مثال ایک بالکل ہی کمزور طبقہ ہے۔

حضرت داؤد کی99بیویاں تھیں اور اس کے مجاہد اوریا کی ایک بیوی تھی۔ انسان کمزورہے اور اس کا دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ داؤد کا دل جب مجاہد کی بیگم پر آگیا تو اس نے نیت کرلی کہ مجاہد سے کہنے کی دیرہے۔ فرشتے اچانک محراب میں داخل ہوگئے، حضرت داؤد پر گھبراہٹ طاری ہوئی، انہوں نے کہا فکر مت کرو مسئلہ پوچھنے آئے ہیں۔یہ میرا بھائی ہے اور باتوں میں مجھ پر بھاری ہے۔اسکے پاس99دنبیاں اور میرے پاس ایک دنبی ہے ۔ یہ ایک بھی مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے۔ داؤد نے کہا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو بڑی زیادتی ہے اور اکثر شرکاء یہ کام کرتے ہیں مگر مؤمنوں میں سے کم لوگ۔ پھروہ سمجھ گئے اور اللہ سے اپنی مغفرت مانگ لی تو اللہ نے اس کو معاف کردیا۔(سورہ ص آیات20تا24تک )

جب حکمران کے پاس طاقت ہوتی ہے تو اس کو بسا اوقات اپنی غریب رعایا کے حقوق کا خیال تک نہیں آتا ہے اور سب کچھ چھین لینے سے بھی وہ بھرتا نہیں ہے۔ بیویاں تک بھی چھین لیتا ہے ۔اس طرح کے واقعات پاکستان میں بھی ہیں کہ ایک کی بیوی پسند آگئی تو اس کو سفیر بناکر دور بھیج دیا اور خود جہاز میں پھر اس کی بیوی سے رنگ رلیاں منا تا رہا اور پائلٹ کو اس کے نشہ میں ٹن ہونے کی وجہ سے جہاز فضا میں ہی کافی دیر تک رکھنا پڑا ۔ آج پاکستان کی عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر سچ تو سچ جھوٹ پھیلاکر بھی نفرت کا بازار گرم کیا جاتا ہے اسلئے کسی سے معمولی بھی زیادتی کے بجائے سب کا دل جیت لینا وقت کی ضرورت ہے ۔ جہاں بڑی مشکل ہو تو بجائے حکمران پر کھلی تنقید کرنے کے اس طرح اپنے اوپر بات رکھ بھی ظلم بدلنے کیلئے ایک زبردست کردار ادا ہوسکتا ہے۔ جہاں صحافی حامد میر کہے گا کہ شرٹ اتاری۔ پھر پینٹ اتاری اور آخر میں ایک نیکر رہ گئی تھی، جب اس کو اتارنے لگے تو میں نے کہا کہ سورس بتاتا ہوں ، یوں بچ گیا تھا۔

تحریک انصاف کے رہنما، کارکن، خواتین اور بزرگ بہت رونا روئیں گے۔ شہباز گل جلسہ عام میں جھوٹ یا سچ مگر کہے گا کہ ہمارے مخصوص اعضاء کی تصویریں زوم کرکے نکالی گئیں اور کیا میں اور اعظم سواتی اب شلوار پہن لیں؟ ۔ بلوچ ، سندھی ، پشتون ، مہاجر اور سرائیکی اپنا رونا روئیں گے۔

پھر ہتھیار اٹھانے والوں کو مذہبی اور قومی جذبہ کی بنیاد پر بہت لوگ مل سکیںگے۔ اگر کرایہ پر بھی کافی لوگوں کو بھرتی کریں تو جس طرح فوجی جوان ، کشتی میں مرنے اور کنٹینروںمیں گھٹنے والے اپنی مجبوری سے خطرات مول لیتے ہیں تو جہاں غریبوں کو کچھ ملتا ہو تو پھر بھرتی ہوجاتے ہیںاسلئے کہ پاک فوج کے جوانوں سے زیادہ وہ محفوظ ہوتے ہیں۔
بڑے لوگوں کو قتل وغارت کی قیمت کا پتہ اسلئے نہیں چلتا کہ ان کے اپنے بچے نہیں مرتے۔اپنے بچے مرتے تو پھر یہ جنگیں کب سے ختم کردیتے۔

 

یرسل علیکما شواظ من نارٍ ونحاس فلا تنصران

اللہ نے عالمی قوتوں کو ایٹمی جنگ سے ڈرایا کہ: ”تم پر ایک دوسرے پر برسنے والے بغیر دھویں کے آگ کے شعلے بھیجے جائیں گے اور دھواں ! پھر تمہاری دونوں کی مدد نہیں ہوگی۔(الرحمن:35)

ایٹم بم سے پہلے بغیر دھویں کی آگ پھر دھواں پھیل جاتاہے۔ قرآن ذرہ برابرظلم وجبر کا روادار نہیں۔ہر بے اعتدالی اور عدم توازن کو روکتا ہے۔
وکنتم علی شفا حفرةٍ من النار فانقذکم منھا ” اور تم آگ کے گڑھے کے کنارہ پرتھے تو اس نے تمہیں نکال دیا اس سے” (آل عمران:103) ہم سیاسی، معاشی، معاشرتی ، ریاستی، لسانی، مذہبی، بین الاقوامی اور علا قائی دہشتگردی کے شکار ہیں۔

رسول اللہ ۖ اورحضرت ابوبکر نے ضرورت سے زیادہ مال نہیں رکھا۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا خرچ کریںتو اللہ فرمایا” کہہ دو ضرورت سے زیادہ”۔ حکمرانوں کو چھوڑو، علماء نبیۖ اور خلفاء راشدین کے جانشین بھی غریب غرباء کی زکوٰة خیرات سے بڑی بڑی گاڑیوں اور جائیداد کے مالک بن گئے۔اشرافیہ پر ناجائز دولت اور طاقت کے حصول کا بھوت سوار ہو تو معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ پھر غریب انکے نقش قدم پر چلتا ہے ۔ مملکت خداداد پاکستان تو شروع دن سے اس راہ پر گامزن ہے اور معاملہ دہشتگردی تک پہنچ چکا ہے۔

علاج قرآن وسنت میں سود ، مزارعت کا خاتمہ ہے ۔ منصب کے بھوکے کو محروم کرنے کی احادیث ہیں۔اسی نے قوم کو تباہ کیا ہے۔
نبیۖ نے مزارعین کی دنیا جنت بنائی اور انکی دولت نے تاجروں کو بادشاہ بنادیا۔ شاہ عنایت کو سندھ میں ہزاروں ساتھیوں سمیت اسلئے شہیدکردیا گیا کہ یہ نعرہ لگایا تھاکہ” جو بوئے گا وہ کھائے گا”۔

مبارک علی نے کہا: ”یوپی کے ملازم اور سندھ کے جاگیردارطبقہ نے مفاد کیلئے پاکستان کو سپورٹ کیا تھاتاکہ اقتدارتک رسائی اور جاگیرمحفوظ ہو”۔

رسول اللہ ۖ نے سود کو ختم کرنے کا خطبہ حجة الوداع میں اعلان فرمایا۔ سب سے پہلے چچا عباس کاسود ختم کردیا۔ ایک عورت دونوں ہاتھ اور پیروں سے کھلی جگہ ناچ رہی تھی۔تماش بینوں میں نبیۖ شریک ہوگئے۔ عمر کی آمد پر عورت بھاگی تو نبیۖ نے فرمایا: شیطان عمر سے بھاگتا ہے۔(مشکوٰة)

منبر پرچندہ کیلئے اسلام کا حلیہ بگاڑنے والوں سے بہتر تومغرب کی سڑکوں پرڈانسر بھکارن ہیں۔

اگر سود ختم ہوا تو امریکہ، روس، چین، بھارت، جاپان سب اسی خاتون کی طرح رقص کریں گے۔ پھر ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے سبھی اپنی خدمات انجام دیں گے اور دو دوباغ والے گھر، سردی گرمی سے بچاؤ کیلئے عالم انسانیت دنیا کو جنت بنانے پر متفق ہوجائے گی۔
بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم اور ہر شعبہ زندگی کے ماہرین دنیا کی تباہی وبربادی نہیں فلاح وبہبود کیلئے اپنی اپنی صلاحیتوں کا استعمال بھی کریں گے اور دنیا و آخرت میں عزت پائیںگے۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہوگا۔ مرد سے زیادہ عورت کو تحفظ کیلئے قرآن نے حقوق دئیے ۔ مفتی طارق مسعود نے کہا ” بیوی کسی اور سے منہ کالا کرتی ہے اور پھر عدالت سے خلع لیتی ہے”۔کوئی اتنا بھی دلا ، بے غیرت ہوگا کہ بیوی کسی اور سے منہ کالا کرے یا اس کو یقین یا گمان ہو اور پھر بھی بیوی سے چمٹارہے؟۔ بیوی کو عدالت نہیں ویسے اسلام نے خلع کا حق دیا ہے۔
سورہ النسائ19تا21میں خلع وطلاق کا اختیار اورعورت کے حق کو مالی تحفظ دیا گیاہے ۔اسرائیل فلسطین کیساتھ وہ ظلم وجبر روانہیں رکھتا ہے جو عورت سے اسلام کے نام پر فقہاء نے جاری رکھاہواہے۔ قرآن چھوڑ کر علماء بھول بھلیوں میں پھنس گئے ۔

 

لمن خاف مقام ربہ جنتان

قدرتی نظام میں پانی کا60فیصد سمندر کو جانا چاہیے ۔ موسمیاتی تبدیلی کے شکار40ملین سال کی جگہ ہم2سوسال میں پہنچے۔ اثریٰ حق و احمد سعید کیساتھ آبی ماہر ڈاکٹر حسن عباس کو سن لیں۔ چین، بھارت، پاکستان اورافغانستان کو سونے سے زیادہ قیمتی دریائے سندھ اور اس کی شاخوں سے وسط ایشا تک کوجنت بنایا جاسکتاہے۔اگر پائپ سسٹم سے دریا سے پانی نکالا جائے توپانی کا40فیصد چین، بھارت، افغانستان اور پاکستان کے علاوہ دریائے سندھ سے وسطی ایشائی ممالک کی تمام ضروریات نہ صرف پوری ہوں گی بلکہ بڑے ڈیم کی تمناؤں کو بھی زبردست طریقے سے پورا کیا جاسکتاہے۔

اگر سورہ رحمن کے مطابق پائپ نظام سے دودو باغ دودو چشموں اور دو دوفواروں والے گھروں کو ڈیزائن کرکے آبادی کو منصوبہ بندی سے پھیلائیں اور ترتیب کیساتھ زرعی زمین، باغات اور جنگلات کے بعد انڈسٹریل زون ہوں تو بغیر موٹر کے پانی ٹینکوں میں چڑھایا جاسکتاہے۔
جدید تعمیراتی نظام سے سردی گرمی سے بچاؤ ، بجلی کا کم سے کم استعمال، ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان دنیا میں امام بن سکتاہے۔ ملازمین اور ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے دیانت اور قربانی کی بدولت اعلیٰ کوالٹی کے مستحق ہوں ۔ غریب ،باصلاحیت اور مخلص لوگ ریاست کیخلاف پھر ہتھیاررکھ دیںگے۔

مولانا فضل الرحمن نے افغانستان ، قبائلی علاقہ جات اور خیبرپختونخواہ میں دو قسم کی معدنیات کا ذکر قومی اسمبلی میں کیا۔ ایک پیٹرول، گیس، چاندی اور سونا وغیرہ۔ اور دوسری دھات جو خلائی شٹل میں بھی استعمال ہوتی ہے جو ساڑھے4سو کی ہیٹ پر تحلیل نہیں ہوتی اور اتنی ہی ٹھنڈ میں منجمد نہیں ہوتی۔ جس دن سب کو اچھے حال اور مستقبل کی نوید سنادی گئی تو ہتھیار سے لیس طبقہ بھی ہتھیار رکھ دے گا اور سرکاری ملازمین بھی دلجمعی کیساتھ کام کریں گے اور ہرشعبہ زندگی کے افراد کے مردہ جسم میں نئی روح آجائے گی۔مردہ زمین کی طرح شادابی آتی ہے۔

تسخیر کائنات کا داعی قرآن خلائی شٹل سے دنیا کو زمین اور آسمانوں کے کناروں سے نکلنے کا پیغام سلطان سے دے گیا۔ پاکستان میں کہیں تو ایک شہر کی زمین اسکوائر فٹ میں لاکھوں تو کہیں کوڑیوں کے بھاؤ ہے۔جب گھروں کو پھیلایا جائے تو پورا پاکستان سونے کی قیمت کا ہوگا۔ بحریہ ٹاؤن نہیں پورا پاکستان امریکہ سے زیادہ قیمتی بن جائے گا۔ ڈیفنس کراچی میں پانی ٹینکروں سے جاتا ہے لیکن جب ہر گھر کے دوباغ اور دو فوارے یا چشمے ہوں گے ۔تو ملیر اور لیاری کی ندیاں شفاف دریاؤں کی طرح بہہ رہے ہوں گے۔

جب پانی کا نظام صحیح ہوگا تو وافر مقدار میں بجلی بھی پیدا ہوگی اور ٹریفک کا سارا نظام پیٹرول کی جگہ الیکٹرک پر کردیا جائے تو فضائی آلودگی ختم ہوجائے گی۔ پھر قدرت کا پورا نظام دوبارہ لوٹ آئے گا۔

زمین پر فضا میں سات زون ہیں اللہ نے فرمایا: وجلعنا فوقکم سبعًا شداد”اور ہم نے تم پر سات سخت(زون) بنادئیے ہیں”۔(سورہ نبائ)

1: ٹروپو: زمین پر8سے15کلومیٹرتک ہے جہاں موسمی نظام بادل بارش طوفان ہوتا ہے۔

2: سڑیٹو: 15سے50کلومیٹر خطرناک سورج کی شعاعوں کو جذب کرتی ہے۔اس طرح مزید

ٹروپواورسٹریٹو پر اثرات:کاربن ڈائی اکسائیڈ، میتھین اور دیگرگرین ہاؤس گیسیزکی زیادتی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت بڑھ رہاہے۔ کلوروفلورو کاربنز اور دیگر کیمیکلز کی وجہ سے جلد

کے کینسر اور آنکھوں کی بیماریاں بڑھ رہی ہے۔

 

و من دونھما جنتان

نبی ۖ نے خلافت کی پیشگوئی فرمائی جس پر آسمان اور زمین والے دونوں خوش ہوں گے۔
پاکستان کی سیاسی ، فوجی، مذہبی، قومی، لسانی اور تعلیمی لیڈر شپ کے علاوہ تمام ماہرین فن کو میدان میںلاکر تعمیر نو کا اعلان کریں۔ کسی ایک بندے کو اپنا خلیفہ مقرر کیا جائے۔ جس کو بھلے مغرب میں رکھیں تاکہ کسی کو خدشات اور خطرات لاحق نہیں ہوں۔

پھردنیا کے تمام مسلم ممالک اور غیرمسلموں کیلئے خلافت میں شمولیت کی اوپن ممبر شپ رکھی جائے۔ مسلم سالانہ2.50فیصد زکوٰة اور غیرمسلم اتناہی ٹیکس دیں۔ مزارعت میں سالانہ20اور10فیصد خمس وعشر وصول کیا جائے۔کراچی کے میمن نے کہا کہ ہم تربوز،کیلا، مالٹا اور سبزیاں خریدتے ہیں تو انکے چھلکے3سے10فیصد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ پھرسالانہ ڈھائی فیصد زکوٰة میں کیا مشکل ہے؟۔ امیروں سے غریبوں کے کھاتے میں جائے گاتو پھر غریب غریب بھی نہیں رہے گا ۔ دنیا میں زکوٰة لینے والا ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔

اگر خلافت راشدہ کے دورمیں مسلمانوں کے اندر فتنہ وفساد اور لڑائی جھگڑے نہ ہوتے ۔ خلافت مورثیت میں نہ بدلتی تو اسلام غلامی کو ختم کردیتا۔

جب سود کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تونبی کریم ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا۔ جس کی وجہ سے جاگیردار محنت کش بن گیا اور محنت کے ہاتھ میں دولت آگئی۔ غیر آباد زمینیں بھی آباد ہوگئی تھیں۔ جس نے نبیۖ سے زمین مانگ کر لی اور آباد نہیں کی تو حضرت عمر نے اس سے وہ زمین چھین لی۔ مفتی منیر شاکر کی ایک ویڈیو میں ہے کہ میراث کی آیات قرآن میں ہیں اور حضرت ابوبکر نے نبیۖ سے سنا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی تو قرآن کو چھوڑ کر نبیۖ کی خبر واحد پر عمل کیا تھا۔

حالانکہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ خبر واحد پر بھی قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا ہے اور ہونا یہ چاہیے کہ قرآن سے متصادم میں خبر متواتر کی بھی حیثیت نہیں ہو اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبیۖ قرآن کی مخالفت کریں؟۔ اس پر قرآن میں واضح وعیدیں ہیں۔

جب قرآن کو معیار بنایا جائے گا اور حدیث اس کی تائید وتشریح کیلئے ہو تب مسلمانوں میں تفریق و انتشار بھی ختم ہوگا اور قرآن پر عمل بھی ہوگا۔ اگر کوئی بڑی ڈاڑھی رکھ کر آنسو بہاتا ہو لیکن جھوٹ، تعصب اور بدکرداری میں غرق ہو تو وہ اللہ سے نہیں ڈرتا۔ حقوق العباد کا تحفظ کرنے والا اللہ سے ڈرتا ہے۔

جب اچھے کردار والے تمام لوگوں کو دنیا میں دو دوباغات کے گھروں کا مالک بنایا جائے گا تو پھر یہ ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنے میں زبردست معاون ثابت ہوگا۔ سورہ رحمان میں جن نعمتوں کا ذکر ہے ، سورہ واقعہ میں بھی اصحاب الیمین کیلئے بہت سی نعمتوں کا ذکر ہے جن میں قد کے برابر گاڑی ہیں۔

زمین پر سات زون کا ذکر قرآن میں بھی ہے ۔

3:میسو: یہ50سے85کلومیٹر کی بلندی پر ہوتی ہے۔اس میں درجہ حرارت بہت کم ہوتا ہے اور زیادہ تر شہاب ثاقب اسی میں جل جاتے ہیں۔

4:تھیریمو: 85 سے600کلومیٹر کی بلندی پر اس کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوسکتا ہے اسلئے کہ سورج کی شعاعیں براہ راست اس پر پڑتی ہیں۔ اس میں آئنو شامل ہوتی ہے جو ریڈیو ویوز کو

نعکس کرتی ہے۔

5: ایکسو: 600سے10,000کلومیٹر۔یہ آخری تہہ یہاں ہوا کے ذرات کم ہیں۔ جو خلا میں تحلیل ہوتی ہے۔ اضافی طور پر دواور زون شامل ۔

6: آئنو: 60سے1000کلومیٹر، برقی چارج ذرات ریڈیو سگنلز کی مدد گار۔

7: میگنیٹو یہ زمین کے مقناطیسی اثر کا علاقہ ہے۔جو زمین کو شمسی طوفافوں اور مہلک تابکاری سے بچاتاہے۔

 

یعرف المجرمون بسیما

”مجرم اپنے نشان سے پہچانے جائیں گے تو ان کو پکڑلیا جائے گا پیشانی کے بالوں اور قدموں سے”
پوری دنیا مجرموں کے مجرمانہ جرائم سے تنگ ہے لیکن عدالتی نظام مجرموں کو طاقت اور پیسوں کی بنیاد پر کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے سہولت کار بن چکا ہے۔ ایسے میں غریب طبقات کے مجرم بھی سہولت پالیتے ہیں۔ مجرم مجرم ہوتا ہے خواہ وہ کوئی طاقتور ہو، امیر ہو یا پھرغریب ۔مفتی منیر شاکر شہید کو آج بھی ایک مولوی اس بنیاد پر واجب القتل کہتا ہے اور اس کا قتل غیرت کا تقاضہ سمجھتا ہے کہ حضرت عائشہ کی6سالہ عمر میں نکاح اور9سال میں شادی کو کیوں نہیں مانتا؟۔ اگر انصاف کی عدالت قائم ہو تب بھی یہ پتہ نہیں چل سکے گا کہ دہشت گردی کے قتل میں اس کے خیالات اور جذبات مجرمانہ ہیں یا صداقت کا تقاضہ ؟۔لیکن کوئی نظام انصاف ہوتا تو پھر دلائل وبراہین سے گفتگو ہوتی اور جرم کو پکڑنے کیلئے جدید نظام کا سہارا لیا جاتا۔ قرآن نے دنیا کی زندگی میں بھی رو بہ عمل ہونا ہے۔

جب پوری دنیا میں بااثر اور چھپے ہوئے مجرموں کو بھی کٹہرے میں لایا جائیگا۔ کسی کو طاقتور ملک اور ریاستی ادارے کا تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔ مذہب کے نام کوئی اپنی مجرمانہ سر گرمیوں کو معصومیت کے لہجے میں نہیں چھپا سکے گا۔ کونے کھانچے سے بھی مجرم کو نکالا جائے اور اس کو قرار واقعی سزا دی جائیگی اور کرپشن کا راستہ مکمل رک جائے گا۔ پھر ان کے ٹھکانے دنیا میں انڈیسریل زون میں ہوں گے۔

جب دنیا کی آبادی تین حصوں میں تقسیم ہوگی ۔ دوقسم ایک ایک گھر کے دودو باغ اور تیسری قسم کے لوگ انڈیسٹریل زون میں رہیں گے تو موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے علاوہ جزا اور سزا کی زبردست تعبیر بھی سامنے آجائے گی۔

گاڑیوں سے دھویں کے اخراج اور فیکٹریوں سے نکلنے والے آلودہ ذرات سے اسموگ بنتی ہے۔ جو انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ جس کا حل یہ ہے کہ صاف توانائی (شمسی،ہوا اور ہاہیڈرو پاور) کا استعمال بڑھایا جائے۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں کے اخراج کیلئے سخت قوانین بنائے جائیں۔اور درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ تعمیرات میں ایسی جدت لائی جائے جہاں سردی اور گرمی سے قدرتی طور پر زیادہ سے بچنے کا انتظام ہو۔کم آلودگی والی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔

الیکٹرک گاڑیوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور کم سے کم انرجی لینے والی گاڑیوں کا استعمال یقینی ہو۔

باغات اور جنگلات اور جنگلی حیات کا بہت بڑا ماحول بنایا جائے۔ اور ماہرین فن کے ذریعے نئی نئی تحقیقات اورایجادات سے فضائی آلودگی اور آنے والی نسلوں کو نت نئی بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے اور پانی کی مقدار، رفتار اور کوالٹی کو بھی یقینی بنانے میں ایک زبردست نظام تشکیل دیا جاسکتاہے۔

غسل خانوں اور گٹر لائن کو الگ کیا جائے تو پھر گٹر کو صاف کرنے والے کیڑوں کی بقاء سے گٹر کا پانی بھی خودکار انتظام سے صاف رہتا ہے۔ سبزی اور جنگلات کیلئے گھروں سے نکلنے والے پانی کا بھی زبردست انتظام ہوسکتا ہے۔ کانیگرم وزیرستان کی بڑی آبادی کا ایک قطرہ بھی آلودہ پانی نالے اور ندی میں نہیں جاتا تھا ۔پاکستان کو واقعی پاک بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر ہر چیز میں پاکیزگی لانی ہوگی۔

جب کھانے پینے اور ہگنے موتنے کا نظام ایک ہوجائے تو کہاں سے اچھی ذہنیت والے لوگ پیدا ہوں گے؟۔ جب اپنے محلات، بینک بیلنس، ھل من مزید کی حرص، بیرون ملک اثاثے کی دوڑاور زمینیں اور جائیدادیں بڑھانے کی حرص دل ودماغ پرسوار ہو تو قوم وملک کی ترقی کا خواب پورا نہ ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

سورۂ النباء میں فتح مکہ،دنیا کی جنت وعذاب اور عذابِ قبرکا ذکر
سورہ رحمن میں عظیم خوشخبری
درباری علماء کے سرکاری مدارس VS علماء حق کا مساجد میں درس