پوسٹ تلاش کریں

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟ اخبار: نوشتہ دیوار

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نے قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کا مسئلہ سب سے زیادہ واضح کردیا ہے۔اس کے ایک ایک پہلو سے بہت ہی فصیح وبلیغ انداز میں ایسا پردہ اٹھایا ہے کہ اس میں ابہام کی کوئی بھی صورت بالکل بھی نہیں چھوڑی ہے۔ تاہم بدقسمت اُمت مسلمہ نے قرآن سے ایسا موڑ دیا ہے کہ اتنے واضح مسائل کی طرف بھی علماء کرام ، مفتیانِ عظام اور عوام الناس کی توجہ نہیں گئی ہے۔ یہ ایک بہت دیرینہ بیماری ہے کہ بعض لوگ جب خود کوضرورت سے زیادہ ہوشیار سمجھنے لگتے ہیں تو وہ قرآن کی موٹی موٹی باتوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنی ذہنی موشگافیوں کا شکار کھیلتے ہیں،جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کی ہستی کو عام لوگوں سے امتیازی حیثیت کا حامل سمجھا جائے۔ اس بدفطرتی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں غوروفکر اور تدبر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہاں پر وہ اپنے ذہن کی رسائی کا کمال دکھانا چاہتے ہیں۔جس سے کچھ لوگ اس کو بڑا دانشور مان لیتے ہیں لیکن وہ اللہ کی واضح اور موٹی موٹی باتوں کے سمجھنے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیات222سے232تک طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ واضح کرنے کیلئے بہت کافی ہیں اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی انہی آیات کا زبردست خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ متعدد بارپہلے بھی سمجھانے کی کچھ کوشش کی تھی اور اب ایک مرتبہ پھر اللہ کے عربی پیغام کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
آیت222میں حیض سے متعلق سوال اور اس کا جواب ہے۔ اللہ نے فرمایاَ: حیض اذیت ہے اور حیض کی حالت میں عورتوں کے قریب مت جاؤ ،یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں اور جب وہ پاک ہوجائیں تو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے ویسے ان عورتوں کے پاس آؤ۔ بیشک اللہ توبہ کرنے اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتاہے ۔
اس آیت میں دوچیزوں کی حیض سے متعلق وضاحت ہے ۔ایک اذیت اور دوسری عدم طہارت۔ جس چیز سے بھی عورت کو اذیت ہو تو شوہر کو اس سے اجتناب برتنا ہوگا اور اسی طرح طہارت کا بھی مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس آیت میں اللہ نے عورت کی اذیت کو مقدم کرکے یہ درس دیا ہے کہ عورت کی اذیت کا خیال رکھنا ہے۔
آیت223کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنے شوہروں کا اثاثہ (ایسٹ) قرار دیا ہے۔ جس طرح سائنس کی زبان میں عناصر کی صفات کو ان کا اثاثہ قرار دیا جاتا ہے اور عناصر سے اس کی صفات الگ نہیں ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح مردوں کا اپنی عورتوں کیساتھ رشتہ انتہائی مضبوط اور یگانگت والا اللہ نے بتادیا ہے۔ اس ضمن میں بہت فضول قسم کی باتیں جن کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آیت224طلاق کے اس مذہبی تصور کی بیخ کنی کیلئے سب سے بڑا بنیادی مقدمہ ہے جس میں شوہر کسی قسم کے بھی الفاظ ادا کرتا ہے اور پھر اس پر یہ فتویٰ دیدیا جاتا ہے کہ اب تمہارے مذہب نے رجوع کا دروازہ بند کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں اس بات کی نفی کردی ہے کہ اللہ کو ڈھال بناکر نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا جو راستہ روکا جاتا ہے تو یہ بالکل غلط اور لغو بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست الفاظ میں اس کی نفی کردی ہے۔
میاں بیوی کے درمیان صلح سے بڑھ کر نیکی اور تقویٰ کا ماحول پیدا کرنے اور کیا بات ہوسکتی ہے؟۔ یمین کے کئی معانی ہیں۔ کام کرنے کے عہد کو یمین کہتے ہیں اور نہ کرنے کے عہد کو بھی یمین کہتے ہیں۔حلف کو بھی یمین کہتے ہیں اور طلاق اور اسکے متعلق تمام الفاظ کو بھی یمین کہتے ہیں۔ یہاں کی آیات طلاق کا مقدمہ ہیں لیکن مفسرین اور اصول فقہ والوں نے خوامخواہ حلف کی بحث چھیڑ دی ہے۔ جبکہ سورہ مائدہ میں کفارۂ یمین کیساتھ اذا حلفتم کی بھی بھرپور وضاحت ہے۔
آیت225میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ ” اللہ تمہیں لغو یمین ( طلاق کے الفاظ) پر نہیں پکڑتا ہے مگرتمہیں پکڑتا ہے بسبب جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔
اس میں طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے تمام الفاظ شامل ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”تین چیزیں مذاق اور سنجیدگی میں معتبر ہیں۔ طلاق، عتاق اور رجعت”۔ طلاق اور رجعت میں سنجیدگی اور مذاق اس وقت معتبر ہے جب عورت کی طرف سے اس پر ایکشن بھی لیا جائے۔ اگر شوہر طلاق یارجوع کے الفاظ استعمال کرے اور عورت اس پر پکڑ کرے تو وہ کرسکتی ہے لیکن اللہ کی طرف سے اس پر پکڑ نہیں ہے اور آیت میں باہمی رضامندی سے طلاق کے بعد رجوع کا مقدمہ پیش کیا گیاہے۔
آیت226میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ ” جو لوگ اپنی عورتوں سے لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں ان کیلئے چار ماہ ہیں ۔ پھر اگر انہوں نے آپس میں رجوع کرلیا تو اللہ غفور رحیم ہے”۔ اس آیت میں یہ واضح ہے کہ جب شوہر نے طلاق کا اظہار نہیں کیا ہو تو عورت ساری زندگی اس کے آسرے میں بیٹھنے پر مجبور نہیں ہے بلکہ چارماہ تک انتظار ہے اور پھر اگر باہمی رضامندی سے رجوع کرلیا تو ٹھیک ہے۔
یہ اس معاشرتی مسئلے کا حل ہے جس میں شوہر بیوی کو غیر اعلانیہ طور پر طلاق کے بغیر آسرے میں بٹھا کر رکھتا ہے۔ طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت تین ماہ یا تین طہرو حیض ہیں۔ اور طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عدت ایک ماہ تک اللہ نے بڑھادی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کیا ہے کہ مدتوں تک شوہر کے انتظار میں عورت کو بیٹھنے پر مجبور کیا جائے۔ اگر طلاق کا عزم ہو اور اس کا اظہار نہ کرے تو پھر یہ دل کا وہی گناہ ہے جس پر پکڑ کی وضاحت آیت225اور227میں ہے۔
آیت227میں ہے کہ ” اگر ان کا طلاق کا عزم ہو تو پھر اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ طلاق کا اظہار کئے بغیر بھی وہ دل کے عزم کوسنتا سمجھتا ہے۔اس دل کے گناہ پر پکڑتا ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت ایک ماہ مزید بڑھ گئی۔ اللہ نے ایک ماہ کی مدت بڑھانے پر دل کے گناہ اور اس پر پکڑنے کی وضاحت کی ہے لیکن مولوی حضرات عورتوں کو برسوں بٹھائے رکھنے کو بھی دین سمجھ رہے ہیں۔
آیت228میں ہے کہ ” طلاق والی عورتیں تین قروء (طہروحیض) تک انتظار کریں۔ اور نہ چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے ،اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں ”۔
حمل کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ حیض والی عورت کی عدت تین طہرو حیض ہیں اور اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کمی وبیشی کا شبہ ہو تو پھرعدت تین ماہ ہے۔ چونکہ طلاق سے رجوع کا تعلق اللہ نے حیض کی تعداد سے نہیں رکھا ہے بلکہ اصلاح کی شرط پر عدت کا پورا پورا دورانیہ رکھا ہے۔ حمل کی صورت میں اور جب حیض نہ آتا ہو تو پھر تین ادوار یا تین مرحلوں کی گنتی نہیں ہوسکتی ہے۔ لیکن حیض کی صورت میں تین ادوار یا تین مراحل کی گنتی ہوسکتی ہے۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق صرف اور صرف تین طہرو حیض کی صورت ہی سے عملی طور پر ہے۔ حمل کی صورت میں نہ تین مراحل ہیں اور نہ تین مرتبہ طلاق کی نوبت آسکتی ہے۔ عربی میں مرة کا تعلق ایک فعل سے جو ایک زمانے کیساتھ خاص ہے۔ جب عورت طہر کی حالت میں ہوتی ہے تو اس پر ایک مرتبہ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے کہ جب اس کے بعد حیض آجائے۔ دوسری مرتبہ طلاق کا تعلق دوسرے طہرو حیض کے مرحلے سے ہے اور تیسری مرتبہ طلاق کا تعلق تیسرے طہرو حیض کے مرحلے سے ہے۔ اگلی آیت میں اللہ نے مزید سمجھایا:
آیت229میں ہے کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے………..”۔
یہ تین ادوار یا تین مراحل تک عورت کے انتظار اور شوہر کی طرف سے طلاق کے تین مرتبہ فعل کی وضاحت ہے۔ نبیۖ سے صحابی نے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا” تسریح باحسان یعنی تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ کی طلاق ہے”۔ قرآن کی ان آیات میں عدت کے تینوں مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فعل بالکل طے شدہ معاملہ ہے۔ جس طرح دن رات میں ایک مرتبہ ایک روزہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک طہر میں عورت سے پرہیز کرنے کا فعل ایک مرتبہ کی طلاق ہے۔ پھر دوسرے طہرمیں عورت سے پرہیز کا عمل دوسری مرتبہ کی طلاق ہے یہاں تک کہ دوسرا حیض آجائے اور تیسرے طہرمیں تیسری مرتبہ پرہیز کا عمل تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ یہاں تک کہ تیسراحیض آجائے ۔
سورۂ طلاق میں بھی عدت میں طلاق کے عمل کو اس طرح گنتی شمار کرکے پورا کرنے کا عمل سمجھایا ہے۔ جب نبیۖ کو حضرت عمر نے اطلاع دی کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ حیض میں تین طلاق دئیے ہیں تو رسول اللہ ۖاس پر بہت غضبناک ہوگئے کہ میری موجودگی میں تم لوگ قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ نبیۖ نے اس کو بلانے کا حکم دیا اور پھر سمجھایا کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلو۔ پھر اگر طلاق دینا چاہو تو طہر میں اسے رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں رکھو یہاں تک کہ اسے حیض آجائے اور پھر تیسری مرتبہ طہر آئے تو اگر رجوع کرنا چاہو تو رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہو تو چھوڑ دو، یہ ہے وہ عدت جس کا اللہ نے قرآن میں اس طرح سے حکم دیا ہے۔ نبیۖ کا ابن عمر پر بہت غضبناک ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کی وضاحتوں کو نہ سمجھنا ایک بہت بڑی کم عقلی کا مظاہرہ تھا۔ غضبنا ک ہونا اس بات کا ثبوت نہیںتھا کہ اب حلالہ کے بغیر رجوع بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت عمر اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ شدید تھے اسلئے اس کو نبیۖ کے غضبناک ہونے پر قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ نبیۖ کو معلوم تھا کہ قرآن کیساتھ یہ امت بھی وہی حشر کرے گی جو پہلوں نے اپنی کتابوں کیساتھ کیا تھا اسلئے حیض میں اور ایک ساتھ تین طلاق پر غضبناک ہونا فطری بات تھی۔
حضرت ا بن عمر کے حوالے سے یہ روایت الفاظ کی کمی بیشی کیساتھ صحیح بخاری کی کتاب التفسیر سورہ ٔطلاق اور صحیح مسلم کے علاوہ احادیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ فقہاء کے ایک طبقہ نے اس سے یہ بھی اخذ کیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی ۔ جس طرح دن کی حالت میں روزہ ہوتا ہے لیکن رات میں روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر کا یہ قول نقل ہے کہ ” نبی ۖ نے ایک مرتبہ طلاق کے بعد مجھے بیوی کے پاس لوٹنے کا حکم دیا اور اگر میں دومرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دیتا تو مجھے رجوع کا حکم نہ دیتے”۔ اور اس زبردست وضاحت کے بعد کم عقلی اور کم علمی کی یہ انتہاء ہے جس کی مت ماری گئی ہو کہ پھر اس سے تین طلاق کی تعداد مراد لی جائے۔ طلاق کی تعداد اور طلاق کے فعل میں واضح فرق ہے۔ تین روٹیاں کھانے اور تین مرتبہ روٹی کھانے میں جو فرق نہیں کرسکتا ہے وہ گدھا ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس سے قرآن وسنت کے معاملے میں فتوے کی رہنمائی لی جائے اور امت اس ہوس پرست گدھے یا چالاک کتے سے اپنی خواتین کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر لٹوائے۔ حضرت حسن بصری نے کہا کہ ابن عمر نے تین طلاق دی تھی ۔ بیس سال تک کوئی مستند شخص ایسا نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو ، بیس سال بعد زیادہ مستندشخص نے بتایا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم)
احادیث کی کتابوں میں جھوٹی اور من گھڑت روایات کی بھرمار کرنے والوں کا پتہ لگانا ہو تو صحیح الاسناد احادیث کے مقابلے میں ضعیف ومن گھڑت روایات کی ایک جھلک ہی دیکھ لی جائے۔ پورے ذخیرہ احادیث میں امام شافعی کو ایک ساتھ تین طلاق کے جواز کیلئے ایک عویمر عجلانی کی طرف سے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق کے الفاظ نکالنے پر تکیہ کیا ہے اور وہ بھی احناف اور مالکیہ کے نزدیک لعان کے بعد استدلال کے قابل نہیں ہے اور مولانا سیدانورشاہ کشمیری نے بخاری کی شرح ”فیض الباری” میں لکھ دیا ہے کہ ” ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی ہو”۔ قرآن میں ویسے بھی فحاشی پر عدت کے مراحل میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بجائے ایک دم فارغ کرنے کی وضاحت ہے۔
رفاعی القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا بھی احادیث میں ذکر ہے اور مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی بھی وضاحت ہے۔ بخاری کی ایک روایت میں اجمال اور دوسری روایت میں تفصیل ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے لکھ دیا کہ ”ایک روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہے اور دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مراحلہ وار تین مرتبہ طلاق دینا چاہیے۔ کیونکہ احناف کا مؤقف یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں اور سنت یہ ہے کہ مرحلہ وار تین طلاق دینا چاہیے”۔ (کشف الباری)
علامہ ابوبکر جصاص رازی نے بھی احکام القرآن میں یہی روش اختیار کی ہے کہ ایک طرف جب طلاق کا سنت طریقہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ”الطلاق مرتان سے طلاق کے دوعدد مراد نہیں ہوسکتے ۔ جس طرح دو روپیہ کو دو مرتبہ روپیہ نہیں کہا جاسکتا ہے ،اسی طرح دو مرتبہ طلاق سے طلاق کے دو عدد مراد نہیں لئے جاسکتے”۔ دوسری طرف جب علامہ ابوبکرجصاص رازی یہ مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں تو پھر وہ کہتے ہیں کہ” جب الگ الگ مجالس میں تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں تو ایک ساتھ تین مرتبہ طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ ایک باریک مسئلہ ہے جو سمجھ میں نہیں آتا ہے لیکن ایک مرتبہ میں بھی تین مرتبہ طلاق واقع ہوجاتی ہیں”۔( احکام القرآن)
علامہ ابوبکر جصاص رازی اور علامہ سید انور شاہ کشمیری نے قرآن واحادیث پر اپنی انفرادیت اور علمیت بھی جمانے کی کوشش فرمائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کیلئے قرآن وسنت کی ایسی غلط اور متضاد تعبیر کردی ہے جس کا عدل وانصاف اور فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علامہ کشمیری نے اپنی عمر ضائع کرنے کی وضاحت فرمائی اور علامہ جصاص کا بھی خاتمہ بالخیر ہوا ہوگا۔ لیکن قرآن کی اچھی وضاحت کے بعد مسلک کی حفاظت میں اپنی خدمت ضائع کردی۔
سابقہ ادوار میں اپنے اپنے فقہی مسلک سے انحراف بھی بہت بڑا گھمبیر مسئلہ ہوتا تھا جس پر جان ومال اور عزت کے لالے پڑتے تھے۔ آج بھی مختلف علماء کی طرف سے بات سمجھنے کے پیغامات مل رہے ہیں لیکن جب انقلاب آئے گا تو پھر اس حمام میں بہت سے ننگوں کاپتہ چل جائے گا کہ کس کس نے حلالہ اور اپنے ذاتی اغراض کی خاطر قرآن وسنت کو قبول نہ کرکے خواتین کی عزتیں لٹوانے میں کردار ادا کیا تھا۔ البتہ کچھ لوگ اچھے ہونے کے باوجود معذور لگتے ہیں ۔دلائل کی الٹی سیدھی بھرمار اور جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں اب قرآن کے فطری حقائق کو سمجھنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ ہم بار بار اس مسئلے کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ بند دماغوں کی گتھیاں سلجھ جائیں اور امت کو قرآنی تعلیم سے پھر دنیا میں زندہ کیا جائے۔ قرآن زندہ ہے لیکن امت مسلمہ کے اجتماعی مردہ ضمیرکوپھر زندہ کرنا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں