یہود کا توراۃ،علماء کاقرآن سے انحراف اور خلافت
مارچ 7, 2017
اللہ نے فرمایا:’’ اور یہ کیسے آپ (ﷺ) کو فیصلہ سپرد کرینگے؟اور انکے پاس توراۃ ہے جس میں اللہ کا حکم ہے ۔پھر انہوں نے اس سے منہ موڑلیا، اور یہ ایمان لانے والے نہیں۔ بیشک ہم نے توراۃ اتارا۔ اس میں ہدایت اور نور ہے،اسکے ذریعے انبیاء فیصلے کرتے، یہود میں ان لوگوں کیلئے جوسرتسلیم خم تھے، اسی طرح ربّانی مشائخ و علماء بھی انبیاء کی وراثت کا حق ادا کرتے ہوئے عوام کے درمیان فیصلے کرتے تھے بسبب اسکے کہ ان کو اللہ کی کتاب پر نگران مقرر کیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس (اے علماء ومشائخ ) لوگوں سے مت ڈرو، تم مجھ سے ڈرو اور میری آیات تھوڑی قیمت کے عوض فروخت نہ کرواور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تووہی لوگ کافر ہیں۔(مذہبی لوگو! سوچئے)
اور ہم نے ان پر لکھا جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ہے اور جس نے معاف کردیا تو یہ اس کیلئے کفارہ ہے۔ اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔(حکمرانو! ذرا سوچئے)
اور ہم نے پھر انکے آثار کے نقش پر چلایا عیسیٰ ابن مریم کو ، تصدیق کرنے والا توراۃ میں جو تھا، اور ہم نے ان کو انجیل دی ، جس میں ہدایت اور نور ہے ، جو تصدیق کرتاہے جو توراۃ میں ہے اور ہدایت اور نصیحت پرہیزگاروں کیلئے اور فیصلہ کریں اہل انجیل جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ فاسق ہیں۔(عوام الناس ! ذرا سوچئے)
اور (اے خاتم الانبیاءﷺ) ہم نے تیری طرف کتاب نازل کی حق کے ساتھ جو تصدیق کرتی ہے (پہلے سے نازل شدہ) الکتاب کی اور اسکی محافظت کرتی ہے۔ پس انکے درمیان فیصلہ کریں اس پر جو اللہ نے نازل کیا۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اس سے جو حق تیرے پاس آچکاہے۔ ہرایک کیلئے تم میں سے ہم نے شریعت اور طریقۂ کار بنایا۔ اگر اللہ چاہتا تو ایک ہی امت تم کو بناتا لیکن وہ تمہیں آزمانا چاہتاہے جو کچھ تمہیں دیاہے اس میں۔ پس بھلائی میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرو۔ اللہ کی طرف ہی تمہارا ٹھکانہ ہے۔پس وہ بتادیگا ،جس پر تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
اور پس (یا نبی!)انکے درمیان اللہ کے نازل کردہ کیمطابق فیصلہ کرواور انکی خواہشات پر نہ چلو اوربچوان سے کہ آپکو آپکی طرف نازل کردہ بعض احکام سے فتنہ میں نہ ڈالیں اوراگرو ہ پھریں تو سمجھ لو کہ اللہ چاہتا ہے کہ انکے بعض گناہوں کے بدلے انکو پہنچے۔ بیشک لوگوں میں اکثر فاسق ہیں، کیا یہ جاہلیت کا حکم ڈھونڈتے ہیں اور اللہ سے اچھا حکم کس کاہے؟، اس قوم کیلئے جو یقین رکھتے ہیں۔اے ایمان والو!یہود و نصاریٰ کو اپنے فیصلے اولیاء مت بناؤ، یہ بعض بعض کے ولی ہیں۔جو ان کو اپنا سرپرست بنالے تو وہ انہی سے ہے۔ بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتاہے۔ (المائدہ: آیات:43تا51)
1: پہلی بات یہود کے بارے میں ہے ’’یہ کیسے آپﷺ کو فیصلہ کا اختیار دینگے؟۔ انکے پاس توراۃ میں اللہ کا حکم ہے ، حفاظت کی ذمہ داری انکے علماء ومشائخ پر ڈالی گئی اور جان کے بدلے جان ۔آنکھ، ناک، دانت، کان اور زخموں کے بدلے کا حکم تھا۔ اللہ کے احکام میں تحریف کرکے کفر کا راستہ اپنایا اور انصاف کے تقاضوں پر عمل نہ کرکے ظالم بن گئے۔ اگر انہوں نے انصاف کرنا ہوتا تو آج بھی کرسکتے ہیں لیکن جب اپنے ہاں واضح انصاف کے تقاضہ پر عمل نہیں کرتے تو آپﷺ سے کیسے انصاف مانگنے کیلئے آئیں گے؟‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ نے توراۃ اور قرآن کیمطابق جان کے بدلے جان کا مسلک قائم رکھا، ورنہ باقی امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد حنبلؒ جمہور نے بھی یہود کی طرح انحراف کیا تھا کہ کافر کے بدلے مسلم کو قتل نہ کیا جائیگا۔آج دنیا کی سطح پر قرآن، توراۃ اور حنفی مکتب کی بنیاد پر عادلانہ نظام قائم ہوسکتا ہے۔ کوئی ملک بھی اس سے کھل کر انحراف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ پاکستان سے کینیڈا، بیت اللہ سے بیت المقدس ،امریکہ سے ایران، فرانس سے چین، بھارت سے افریقہ دنیا بھرشمال ،جنوب ، مشرق اور مغرب کااس پر اتحادہوسکتاہے۔
2:دوسری بات یہ ہے کہ ’’ اللہ نے علماء ومشائخ اور حکمرانوں پر عام لوگوں کی نسبت سخت فتوے لگادےئے ۔ ہم نے پہلے ’’پاکستان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز‘‘ نامی کتابچے میں اسکی بھرپور وضاحت بھی کی تھی جس کو تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے تائید سے نوازا تھا۔ علماء ومشائخ اگر اللہ کے احکام کے برعکس تھوڑی قیمت کے بدلے دین کو بیچ دینگے تو ان پر کفر کا فتویٰ لگا ہے اور اگر حکمران اللہ کی کتاب پر انصاف نہ کریں تو ان پر ظالم کا فتویٰ لگا ہے اور عوام اللہ کے احکام پر نہ چلنے کا فیصلہ نہ کریں تو ان پر فاسق کا فتویٰ لگا ہے‘‘۔
3:تیسری بات ان آیات میں ہے کہ ’’ یہود نے احکام میں خواہش سے تحریف کی ،قرآن میں اللہ کے احکام محفوظ ہیں، اگر انکی خواہش پران کو بھی قرآن کے مطابق فیصلہ نہ دیا تو ہم قرآن کے بعض احکام سے بھی فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ اگر یہود ہمیں اپناحاکم بنالیں تو ہم نے قرآن ہی پر فیصلہ کرنا ہے، قتل، آنکھ، ناک ، کان اور زخموں کا بدلہ تو توراۃ وقرآن میں یکساں تھا اسلئے انصاف کے تقاضے پر عمل کرکے فیصلہ کرنا ہوگا لیکن کوڑے اور سنگساری کی سزا میں فرق ہے۔ ہم نے ان کی خواہش پر ان کو بھی سنگسار نہیں کرناہے۔
جب ان کی کتاب کے مطابق ہم ان کیلئے فیصلہ نہ کرنے کے پابند ہیں تو ان کو اپنے فیصلے کا اختیار دینے کی ولایت کیسے سپرد کرسکتے ہیں؟۔ اولیاء سے مراد دوست نہیں بلکہ والی وسرپرست ہے، جیسے عورت کا سرپرست اس کا ولی ہوتاہے، اہل کتاب کی خواتین سے شادی کی اجازت ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا دوستی ہے؟۔داعش عورت کوسنگسار کرنے کی سزا قرآن نہیں توراۃ کے مطابق دیتی ہے اور دنیا میں بدنام اسلام ہورہاہے۔ عوام کو بتانا ہوگا کہ بے نمازی کی خود ساختہ سزا کا تصور غلط ہے ۔زنا، بہتان، چوری ، قتل ، آنکھ، ناک وغیرہ کے بدلہ سزا پر عمل نہیں ہورہا،صرف حلالہ کی سزا کیلئے ہر راستہ اپنایاہے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان کے حوالہ سے پرویزی ٹولے نے اسلامی مساوات کی بیخ کنی کرکے فرقہ واریت کا بیچ بودیاہے جس کا خمیازہ پاکستان بھگت رہاہے۔
مسلم اُمہ قرآن اور حقائق سے روشناس ہو تو فرقہ واریت کا خاتمہ بھی ہوسکے گا اور نبیﷺ کی پیش گوئی کے مطابق دنیا میں طرزِ نبوت کی خلافت بھی جلد سے جلد وجود میں آجائیگی۔علماء ومشائخ اور مسلم ریاستوں کا ہٹ دھرمی پر قائم رہنامشکل ہے لیکن اسلام کا درست تصور اجاگر کرنا ہوگا ۔عتیق گیلانی
لوگوں کی راۓ