علماء حق کی بڑی تعداد نے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کا علمی مسئلہ قبول کیا۔ الحمدللہ
مئی 17, 2025

تمام فقہائے کرام امام ابو حنیفہ ، امام جعفر صادق اور امام مالک، امام شافعی،امام احمد بن حنبلاس پر متفق تھے کہ فقہ کا پہلا اصول قرآن ہے ۔ قرآن کی آیت سے متصادم کوئی حدیث قابل قبول نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ ودیگر اہل سنت کے ائمہ اپنے اصول قرآن اور احادیث کو سمجھتے ہیں اور اہل تشیع قرآن و اہل بیت ہی کو شریعت کا بنیادی منبع سمجھتے ہیں۔
اگر اہل سنت کی کوئی غلطی ثابت ہوگئی تو قیامت نہیں آئے گی اسلئے کہ دوسری صدی ہجری میں بھی چار فقہی امام کے علاوہ بہت سارے ائمہ تھے جن کا ایک دوسرے سے بنیادی اختلاف تھا مگر شیعہ کے ائمہ اہل بیت حضرت علی سے مہدی غائب اور ان کے غیبت صغریٰ میں خلیفہ اول عثمان عمری اور خلیفہ دوم محمد بن عثمان عمری تک ڈھائی سے تین سو سال کا ایک طویل زمانہ ہے ۔اگر وہ اس میں بھی قرآن کی بنیادی تعلیمات کو اپنی شیعہ قوم کو نہیں سمجھا سکے توپھر یہ بہت بڑی قیامت برپا کردے گی۔ اہل سنت کی احادیث صحاح ستہ تیسری صدی ہجری کی ہیں اور اہل تشیع کی صحاح اربعہ چوتھی صدی ہجری کی ہیں۔
سیاسی اعتبار سے امیر معاویہ نے امام حسن اور امام حسین کے تعاون سے 20سالہ اقتدار کیاتھااور فاطمی خلفاء کے مقابلے میں اثناعشریہ کے ائمہ نے عباسی خلفاء کا ساتھ دیا اور مامون الرشید نے امام رضا کو اپنا جانشین اور داماد بھی بنایا ،ایک مزارہے۔
اصول فقہ کا سبق: حتی تنکح زوجًا غیرہ ” یہاں تک کہ عورت کسی اور سے نکاح کرے”۔
اس میں عورت کو آزادی کا پروانہ دیا گیا ہے۔ اپنی مرضی سے جس کیساتھ اور جہاں مفاد ہو تو نکاح کرسکتی ہے۔ ہم اس پر ابھی بڑے لیول کی بات کو نظرانداز کردیتے ہیں اسلئے کہ موٹی موٹی باتوں کا بھی احاطہ نہیں ہوسکے گا۔ کیا معاشرے میں طلاق کے بعد عورت کو آزادی دینے کا حق مل گیا؟۔ جب لیڈی ڈیانا کو طلاق دی گئی تو پیریس فرانس میں بھی اس کی حادثاتی موت کو طلاق دینے والے شہزادہ چارلس پر کیس کیا گیا کہ آزادی سے نکاح کو روکنے کیلئے غیرت سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔
آج بھی طلاق کے باوجود بہت ساری خواتین کو آزادی سے نکاح کرنے کا حق نہیں دیا جاتا ہے اور صحابہ کرام کے دور میں حضرت سعد بن عبادہ کے حوالہ سے بھی بخاری میں ایک حدیث ہے۔
ایک طرف قرآن آزادی کا پروانہ عورت کو دیتا ہے تو دوسری طرف اس کی روح پر عمل نہیں ہوتاہے اور اس کی سب سے بڑی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اس آیت کو متنازع بنادیا گیا ہے۔ فقہ حنفی نے شوہر سے آزادی کو فراموش کرتے ہوئے مقابلہ میں یہ حدیث مسترد کردی کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے اور باطل ہے”۔ اسی طرح کی تقریباً200احادیث ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح نہیں ہے اسلئے جمہور ائمہ اہل سنت ، محدثین اور فقہاء حضرت طلاق شدہ عورت کو نکاح کیلئے اپنے ولی کی اجازت کا پابند سمجھتے ہیںلیکن حنفی حدیث کو قرآن کی اس آیت سے متصاد م اور ناقابل عمل سمجھتے ہیں۔
جب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتا تھا تو ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان تھے جو مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن کے بھی استاذ تھے۔ میں نے عرض کیا کہ ”حنفی مسلک کی اصل یہ ہے کہ جب قرآن اور حدیث میں تطبیق ہوسکے تو تطبیق کی جائے بلکہ بڑی ضعیف حدیث کو بھی ممکن ہو تو اس کو رد کرنے کے بجائے تطبیق کردی جائے ۔ اس آیت میں طلاق شدہ کی بات ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے۔ اسلئے کہ کنواری اور طلاق شدہ کے شرعی احکام بھی مختلف ہیں”۔ استاذ کو میری بات میں بہت وزن لگا اور حوصلہ افزائی فرمائی کہ اس مسئلے کو اپنی تعلیم مکمل کرکے حل کرسکتے ہیں۔
طلاق شدہ کے مقابلے میں قرآن کے اندر بیوہ کو واضح الفاظ میں خود مختار بنادیا گیا ہے۔ جس سے جمہور ائمہ فقہ اور محدثین کو سمجھایا جاسکتا ہے کہ طلاق شدہ اور بیوہ پر حدیث میں کوئی پابندی نہیں ہے اور ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد اس کا سرپرست اس کا شوہر بنتا ہے اور طلاق شدہ اور بیوہ خود مختار بن جاتی ہے۔
اس بحث سے قارئین اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ حنفی مسلک کا عورت کی آزادی و خود مختاری میں بڑا کردار ہے اور عدالتوں میں جتنی کورٹ میرج کا سلسلہ ہے یہ حنفی مسلک کا فیض ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ لیکن کیا حنفی مسلک قرآن سے متعلق دیگر آیات پر بھی یہ کردار رکھتا ہے؟۔
مثلاً اللہ نے فرمایا: وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح کی شرط پر زیادہ لوٹانے کا حق رکھتے ہیں”۔ (البقرہ : آیت228)
اب اللہ اس آیت میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر شوہر کو عورت کے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیتا ہے۔ کیا کوئی ایک بھی ایسی حدیث ہے جو اس آیت سے متصادم ہو کہ کسی شخص نے نبیۖ کو بتایا ہو کہ میں نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اب ہم باہمی اصلاح سے رجوع کرنا چاہتے ہیں؟۔ اور پھر نبی ۖ نے فرمایا ہو کہ جس نے اکٹھی تین مرتبہ طلاق دی تو اب عدت میں صلح وا صلاح کی شرط پر بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے، رجوع نہیں کرسکتا ہے ۔ رجوع نہیں کرسکتا ہے؟۔ اگر بالفرض کوئی حدیث ایسی ہوتی بھی تو حنفی مسلک کا تقاضہ تھا کہ قرآن پر عمل کیا جاتا اور حدیث کی تردید کردی جاتی ۔
حالانکہ تمام ذخیرہ احادیث میں ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ہے۔ بخاری نے اکٹھی تین طلاق پر جو رفاعہ القرظی کی بیوی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے اس میں بھی یہ نہیں ہے کہ نبیۖ اس کو عدت میں رجوع سے منع کررہے تھے بلکہ وہ تو کسی اور کے نکاح میں تھی اور اس پر الزام لگاکر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے اور یہ بھی بخاری کی دوسری حدیث میں ہے کہ نبیۖ سے اس کے شوہر نے عرض کیا کہ میں اپنی مردانہ قوت سے اس کی چمڑی ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔ اس میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ رفاعہ نے اس کو دوبارہ لینے کا پروگرام بنایاتھا اور عدت کے اندر اندر اس حدیث سے حلالے کے فتوے انتہائی غلط بات ہے۔ امام شافعی اکٹھی تین طلاق کو سنت سمجھتے تھے اور وہ بھی اس حدیث کو اپنی دلیل نہیں مانتے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف یہ روایت ایک دلیل ہے کہ عویر عجلانی نے لعان کے بعد بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ لیکن کیا اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے آیت ناقابل عمل ہوگی؟۔ حالانکہ اس میں رجوع کا کوئی پروگرام نہیں تھا تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآنی آیت اس سے منسوخ ہوگئی؟۔یہ حدیث سورہ طلاق کی تفسیر ہے کہ فحاشی کا ارتکاب بیوی کرے تو عدت کا انتظار کئے بغیر بھی فارغ کرسکتے ہیں۔ جبکہ ام رکانہ کو ابورکانہ نے تین طلاقیں دی تھیں اور سورہ طلاق کے مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ دی تھیں۔ پھر بھی نبی ۖ نے سورہ طلاق کی تلاوت کرتے ہوئے حلالہ کے بغیر رجوع کے حوالہ سے وضاحت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف)
امام شافعی اور دیگر ائمہ کا یہ کہنا کہ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ رجوع کا دروازہ باہمی اصلاح کے باوجود بھی بند ہوجاتا ہے بلکہ جس کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی تو پھر عورت بدستور شوہر کے نکاح میں رہے گی۔ یہ بڑا کم مارجن عورت کو دیا گیا ہے جو درست ہے ۔ اس سے بڑھ کر اگر ایک طلاق بھی دی جائے تو واقع ہوجاتی ہے اور عدت کے بعد عورت دوسرے سے شادی کرسکتی ہے۔جنہوں نے تین طلاق کے بعد رجوع کا یک طرفہ اختیار دے دیا تو بہت بڑے ظلم کی بات ہے۔ ایک طلاق کیا ایلاء میں جہاں شوہر طلاق کا اظہار بھی نہ کرے تب بھی وہ رجوع نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اللہ نے بار بار صلح واصلاح اور معروف طریقے سے جو رجوع کی اجازت دی ہے تو اس پر پابندی لگ جاتی ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کو گناہ، ناجائز، بدعت قرار دینے والے حنفی مالکی مسلک کے نزدیک ایک حدیث ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص نے نبی ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہے تو رسول اللہۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔جس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔
اس روایت کو امام شافعی نہیں مانتے لیکن اس میں یہ بھی نہیں ہے کہ نبیۖ نے رجوع سے منع فرمایا ہو اور اگر منع فرمایا ہوتا تو تب بھی حنفی مسلک کو قرآن کے مقابلہ میں حدیث قبول نہیں ہوتی؟۔
ناراضگی کا مطلب یہی تھا کہ جب مرحلہ وار ہی طلاق دینی ہے تو اکٹھی تین طلاق دینے کی جرأت کیوں کی؟۔ جس کے نتائج معاشرے کیلئے تباہ کن ہیں؟۔ روایات میں واضح ہے کہ طلاق دینے والا عبداللہ بن عمر اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے تین طلاقیں دی تھیں اور بخاری میں ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی تو نبیۖ اس پر غضبناک ہوگئے اور پھر مراجعت کا حکم دیا اور اس طرح طلاق کا طریقہ سمجھایا کہ پہلے طہر یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرا طہر یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں رجوع اور چھوڑنا ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دے۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا امر فرمایا ہے۔
بڑے سیاسی قائدین کا مشہور ہے کہ لوگ حلالہ شوق سے کرواتے تھے اور مفتی اور شیخ الحدیث بھی نفسانی خواہشات رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کی وجہ سے مجرد زندگی گزاری اور شادی نہیں کی مگر جب حلالہ والی ہاتھ نہیں لگتی تھی تو اپنے ہاتھوں کے ساتھ بھی نکاح کو جائز قرار دے دیا۔ مسلمانوں کی زندگیاں حلالہ سے تباہ کردی ہیں لیکن الحمد للہ اب علماء اور عوام کو معاملہ بالکل سمجھ میں آرہا ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ