پوسٹ تلاش کریں

علماء حق، حکومت وریاست اور خواتین وحضرات قرآن اور انسان کی طرف متوجہ ہوں :خوشگوار انقلاب عظیم آسکتا ہے

علماء حق، حکومت وریاست اور خواتین وحضرات قرآن اور انسان کی طرف متوجہ ہوں :خوشگوار انقلاب عظیم آسکتا ہے اخبار: نوشتہ دیوار

فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ(البقرہ230) ” پس اگر اس نے طلاق دی تووہ حلال نہیں یہاں تک کسی اور شوہرسے نکاح کرلے ”۔
وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا(البقرہ:228) ”اور انکے شوہر اس عدت میں انکے لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں اگر باہمی ا صلاح کریں”۔

ابتدائی طلبہ کو مدارس میں پڑھاتے ہیں کہ قرآن میںہے: حتی تنکح زوجًا غیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرے”۔اللہ نے عورت کو خود مختاربنادیا ۔ حدیث ہے: ایما امرأةنکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحہا باطل باطل باطل” جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے ،باطل ہے ،باطل ہے”۔
حدیث عورت کو قرآن کے برعکس ولی کی اجازت کا محتاج بناتی ہے، یہ خبر واحد ہے جو قرآن سے متصادم ہو تو حنفی مسلک میں قرآن پر عمل اور حدیث کو ترک کردیا جائے گا۔ ہاں اگر ضعیف حدیث کی تطبیق ممکن ہوتو پھر مسترد نہیں کی جائے گی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن میں پڑھتا تھا تو مولانا بدیع الزمان سے عرض کیا کہ فقہ حنفی کے مطابق تطبیق ممکن ہے۔ قرآن سے طلاق شدہ مراد ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے۔کیونکہ ان دونوں کے احکام بھی شریعت،احادیث اور عوام میں جدا ہیں۔
استاذ محترم کا چہرہ چمک اٹھا، فرمایا کہ ” اگلی کتابیں پڑھ لو تو راستہ نکالنے میں کامیابی مل سکتی ہے،بات میں بڑا وزن ہے”۔
قرآن نے بیوہ کو عدت کے بعدواضح اختیار دیا ہے۔ حنفی احادیث کو تسلیم نہ کرنے پر گمراہی کا شکار ہیں تو جمہور طلاق شدہ وبیوہ کا اختیار سلب کرنے پر زیادہ بڑی گمراہی کے شکار ہیں۔
سورہ نور آیات32،33میں طلاق شدہ وبیوہ اور غلام ولونڈی اور کنواری لڑکیوں کے نکاح کا مسئلہ ہے لیکن افسوس کہ انتہائی غلط ترجمہ وتفاسیر کی گئی۔ نابالغ بچیوں اور جبری نکاح پر مفتی تقی عثمانی کی ”فتاویٰ عثمانی جلد2” کے مسائل پرپوری انسانیت چیخ اٹھے گی۔ لوگوں کا ضمیر جگانے کی ضرورت ہے۔
BBC رپورٹ: برطانیہ میں50%جبری نکاح کاتعلق پاکستانیوں سے جن میں لڑکیوں سے زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے اور لڑکیوں کو قتل اور انکے سر کی قیمت رکھی جاتی ہے۔ بظاہر بڑا خوشنما ، خوش آئند اور دنیا کیلئے قابل قبول لگتا ہے کہ حنفی نے حدیث پر قرآن کو فوقیت دیکر آزادیٔ نسواں کاپرچار کیا ہے مگر حقائق اسکے بالکل برعکس ہیں۔ قرآنی آیات میں جو اختیار بھی عورت کو دیا گیا اسکے حنفی بھی دوسرے مذہبی طبقات کی طرح بالکل منکر ہیںاور قرآن میں اکثراختلافات کا تقریباً سبب یہی ہے کہ اللہ نے عورت کو واضح الفاظ میں جو اختیارات دئیے ہیں ان کو خاطر میں لانے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان کا اختیار سلب کرنے کا اب تک کسی نے احساس تک اجاگر نہیں کیا ہے اور اگر حقائق کی طرف توجہ ہوتی تو اتفاق میں دیر نہ لگتی۔
اگر مدارس میں حنفی مسلک کے مطابق آیت228البقرہ تعلیم دی جاتی کہ ” واضح الفاظ میں طلاق کے بعد عدت کے اندر باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے ” ۔کیا اس آیت سے حلالہ کی لعنت کا خاتمہ نہیں ہونا چاہیے تھا؟۔اس آیت کے دو بنیادی مقاصد تھے ۔ایک اکٹھی تین طلاق کے بعد حلالہ کا خاتمہ اسلئے کہ واضح الفاظ میں عدت واصلاح کو بنیاد بناکر رجوع کی اجازت دی گئی۔دوسرا طلاق رجعی کا خاتمہ جس میں عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق ملا ہواتھا۔
حضرت عمر نے صحیح فیصلہ کیا اسلئے کہ اکٹھی3طلاق پر شوہر اور بیوی میں رجوع پرتنازع تھا۔ حضرت عمریہ فیصلہ نہ دیتے تو قرآن کی مخالفت ہوجاتی اسلئے کہ صلح اور معروف کے بغیر اللہ نے شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا۔ حضرت عمر نے قرآن پرفیصلہ کرلیا اور دنیا کی کسی بھی عدالت اور مذہب میں قرآن کا اور حضرت عمر کا یہ فیصلہ لے جایا جائے تو یہی فیصلہ دیں گے۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر نے غلط فیصلہ کیا تو وہ قرآن کو نہیں سمجھتے۔ قرآن طلاق کے بعد باہمی صلح کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دیتا۔ تین طلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہو تو رجوع کی اجازت دینا کتنی بڑی گمراہی ہے جس میں شیعہ، اہلحدیث اور حنفی مبتلا ہیں جو طلاق رجعی کا قرآن و سنت اور فطرت کیخلاف غیرمشروط تصور رکھتے ہیں۔ عوام کو پتہ نہیں کہ مذہبی طبقے نے پوٹی سے کیسے اپنی شلواریں بھر دی ہیں؟۔ شوہر نے بیوی سے کہا: تجھے3طلاق پھر مکر گیا۔ عورت کے پاس گواہ نہ تھے اور شوہر نے حلف اٹھایا تو عورت خلع لے گی اور شوہر خلع نہ دے تو پھر وہ حرامکاری پر مجبور ہے جب شوہرجماع کرے تو وہ لذت نہ اٹھائے۔ (حیلہ ناجزہ : مولانا اشرف علی تھانوی)
قرآن کہتا ہے ” جنہوں نے قرآن کو بوٹیاں بوٹیاں کردیا تو ان سب سے اللہ پوچھے گا”۔ رسول ۖ کویہ شکایت ہوگی کہ ”رسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ قرآن کو بوٹیاں کرنے والی قوم قصائی جعلسازقریشی،صدیقی، فاروقی، عثمانی ،غامدی وغیرہ ہیں۔ مسند اقتدار پر بنو امیہ، بنوعباس ، خلافت عثمانیہ کا قبضہ تھا۔ انہوں نے جعلی مذہب اورنسب ناموں سے دین کا بیڑہ غرق کردیاہے۔
قرآن کے واضح متن کیخلاف متضاد روایات گھڑ دیں اور فقہی تضادات کی بھرمار کردی۔اب بدترین فراڈ سے قرآن و حدیث کے واضح احکام کیخلاف اسلامی بینکاری کے نام پر اللہ اور اسکے رسولۖ سے جنگ سودی نظام کو جائز قرار دیاہے۔
٭٭٭

الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان البقرہ229”طلاق دو بار ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یااحسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”

اللہ کو علم تھا کہ امت مسلمہ کو کیسے الجھا کر گمراہ کیا جائیگا؟۔ اسلئے واضح الفاظ میں فرمایا کہ” طلاق دو بار ہے”۔ کسی بھی زبان میں دو اور دوبار میں فرق ہے۔ دو گاجر کھائے کہنا درست ہے لیکن دو حلوے کھائے نہیں کہہ سکتے بلکہ دومرتبہ حلوہ کھایا۔
2گاجر2عدد ہیں ۔2بار حلوہ کھانا2الگ الگ فعل ہیں۔10گاجر اکھٹی لیکن2مرتبہ ملاقات الگ الگ ہی کرنا ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ حضرت عمر نے کیسے اکٹھی3 طلاق پر فیصلہ دیدیا؟۔ جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر فیصلہ نہیں دیا بلکہ اس طلاق کے بعدعورت رجوع پر راضی نہ تھی۔
شوہر نے بیوی کو حرام کہا ۔عورت صلح پر راضی ہوئی، حضرت عمر نے رجوع کا فیصلہ کیا۔ شوہر نے بیوی کو حرام کہا اور عورت صلح پر راضی نہ تھی تو حضرت علی نے رجوع کو حرام قرار دیا۔ اختلاف عمر وعلی میں نہیں تھا بلکہ جن عورتوں کو حرام کہا گیا تھا ان کی مرضی میں فرق تھا۔ طلاق ، حرام ، ایلاء اور علیحدگی کے ہرلفظ پر عورت کا اختیار واضح ہے۔یہ بالکل غلط کہاگیا کہ حضرت علی کے نزدیک حرام3طلاق یا تیسری طلاق ہے اورحضرت عمر کے نزدیک حرام کا لفظ ایک طلاق رجعی ہے۔یہ گھڑا گیا ہے۔
دوبارطلاق رجعی کا تصور غلط ہے۔228البقرہ میں باہمی اصلاح کی شرط پرعدت میں رجوع ہے۔229البقرہ میں معروف کی شرط پر رجوع ہے۔اگر عورت راضی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے ۔ یہی باہمی اصلاح اور معروف طریقہ ہے ۔
قرآنی مفہوم چھوڑ دیا تو حنفی کے نزدیک شہوت کی نظر غلطی سے پڑنے پر نیت نہ ہو تو بھی رجوع ہے اور شافعی کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع سے بھی رجوع نہیں ہے۔قرآن کا معروف منکرات سے بدل دیا اور بنیادی وجہ عورت کے اس اختیار کو ختم کیا جس کو اللہ نے مسلسل ان آیات میں بہت واضح کیا ہے۔
3چیزیں سنجیدگی اور مذاق میں معتبر ہیں۔ طلاق ، عتاق اور رجعت۔(حدیث) عورت رجوع پر راضی نہ ہو تو مذاق معتبر ہے ۔ رجوع پر راضی ہو توسنجیدہ طلاق پر بھی رجوع معتبر ہے ۔ اصل معاملہ انسانی حق کا ہے۔ طلاق میں عورت کے مالی حقوق خلع کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ خلع پر عورت کو گھر ، غیر منقولہ جائیداد زمین، باغ،دکان سے دستبردار ہونا ہو گا لیکن منقولہ دی ہوئی چیزیں زیورات، گاڑی میں بعض بھی نہیں لی جا سکتی ہیں۔ طلاق میں خزانہ بھی نہیں لے سکتے۔النسائ:19،20اور21
طلاق سے شوہر مکر گیااور بیوی کے پاس گواہ نہ تھے تو حلف پر خلع کا حق ملے گا جو طلاق کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔
٭٭٭

فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ(البقرہ230) ” پس اگر اس نے طلاق دی تووہ حلال نہیں یہاں تک کسی اور شوہرسے نکاح کرلے ”۔
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف (البقرہ231) جب عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو معروف طریقے سے روک لو۔

صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ ” دومرتبہ طلاق کے بعد آیت229البقرہ میں تیسری مرتبہ احسان کیساتھ چھوڑ ناہی تیسری طلاق ہے”۔ (کشف الباری مولانا سلیم اللہ خانو نعم الباری علامہ سعیدی)
اس آیت میں اللہ نے تین مرتبہ طلاق کے بعد فرمایا ہے کہ ”اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لومگر جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے اور ( فیصلہ کرنے والو!) اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے تو دونوں پر حرج نہیں عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں….”۔
نظم قرآن کے جاوید احمد غامدی اور مولانا موددی کی تفسیر تفہیم القرآن پر تعجب ہے کہ آیت کا کتنا غلط ترجمہ لکھ دیا؟۔اس بات کی وضاحت تو ہوچکی ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد شوہر اپنا دیا ہوا مال واپس نہیں لے سکتا مگر جب آپس میں رابطے اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو جو جنسی سکینڈل ہے تویہ دی ہوئی چیز عورت قربان کردے تو دونوں پر حرج نہیں۔ فدیہ فدائی خود کش حملہ کی طرح عورت کیلئے اپنی عزت بچانے کی راہ ہے۔ لیکن اس سے خلع مراد لینا؟۔ اللہ نے عورت کومالی تحفظ دیا تو اس کو خلع کے ذریعے بلیک میل کرنے سے بہتر تھا کہ علم و سمجھ کی جگہ ہیرہ منڈی کے سامنے گدھے ڈھینچوڈھینچو کرتے۔
فقہ حنفی میں البقرہ آیت230میںفان طلقہا کی طلاق کا تعلق فدیہ سے ہے جس کی بنیادپر حنفی عالم علامہ تمناعمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” لکھ ڈالی۔ علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب زادالمعاد میں ابن عباس کا قول نقل کیا کہ اس طلاق کا تعلق الگ الگ مرتبہ اور فدیہ کی صورت سے سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ جس سے مروجہ حلالہ کی بیخ کنی ہوجاتی ہے۔ لیکن اصل بات کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی ہے اور وہ ہے کہ طلاق کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ شوہر طلاق دے ۔ عورت خلع لے اور دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ طلاق کے بعد دونوں میں رابطہ کیلئے چیز باقی نہ رہے۔ تیسری صورت اس آیت230کی طلاق سے پہلے بالکل واضح ہے۔
طلاق کے بعد عورت مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی تھی تو اللہ نے بہت بڑا مسئلہ حل کردیا کہ” جس سے مرضی نکاح کرے”۔ اجازتِ ولی کی حدیث کو غلط مدمقابل لایا گیا۔ شہزادہ چارلس کو طلاق کے بعد لیڈی ڈیانا کارشتہ برداشت نہیں تھا۔ جو فرانس کے شہر پیرس میں قتل کی گئی۔خاور مانیکا کو بھی تکلیف ہے؟۔
اگر اللہ تعالیٰ کا مقصد تیسری طلاق پر حلالہ کی لعنت ہوتی تو پھر آیت231البقرہ میں عدت کی تکمیل پر، آیت232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت بلکہ بہت واضح ترغیب کیوں دیتے؟۔ مولوی کی عقل اتنی ماری گئی کہ آیت231البقرہ کو بھی عورت کے اختیار کو سلب کرنے اور غیر مشروط طلاق رجعی کیلئے استعمال کرتا ہے۔ معروف کی شرط کانا دجال نہیں دیکھتا۔
سورہ الطلاق میں ان تمام آیات کا خلاصہ ہے۔ عوام کیلئے تو سورہ الطلاق ہے اور قانون سازی کیلئے سورہ بقرہ کی ان آیات کی تفصیل تھی۔ ملاجیون پر ایک طرف شیخ چلی سے زیادہ بڑے احمقانہ لطیفے بیان کئے جاتے ہیں اور پھر اصول فقہ کی نورالانوار بھی انہی کی پڑھائی جاتی ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت کو باربار دوہرایا۔
فقہاء نے فتویٰ لکھ دیا کہ ”اگر بچہ نصف سے زیادہ ماں کے پیٹ سے نکل چکا ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا اور نصف سے کم نکلا ہو توپھر رجوع ہوسکتا ہے”۔اگرمفتی اعظم اور شیخ اسلام نے بیوی کو طلاق کے بعد اس وقت رجوع کیا ہو کہ جب بچہ ففٹی ففٹی ہو تو پھر اس کا رجوع کرنا حلال کاری ہوگی یا حرامکاری ہوگی؟۔
شیخ الہند نے مالٹا کی جیل کے بعد کہا کہ” امت کے زوال کے دو سبب ہیں۔قرآن سے دُوری اور فرقہ واریت”۔ مفتی اعظم مفتی شفیع نے لکھا کہ” فرقہ واریت قرآن سے دوری کے سبب ہے اسلئے ایک سبب ہے قرآن سے دوری”۔ گاؤں کے سردار نے فیصلہ کیا میراثیوں کوگاؤں سے نکالنا ہے تو مراثیوں نے بھی ڈنڈے اٹھائے۔ مولانا تھانوی ، مولانا کشمیری ، مفتی عزیزالرحمن عثمانی، علامہ شبیراحمد عثمانی ، مولانا مدنیاور قاری محمد طیب اور مفتی شفیع جیسے لوگوں کیلئے تو شیخ الہند نے فرمایا تھا۔ پھر علامہ انور شاہ کشمیری نے آخری وقت میں یہ کہا کہ ”مدارس میں ساری زندگی ضائع کی۔قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہ کی”۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ” مولوی کو کوڑھ دماغ اپنا نصاب بناتا ہے۔اگر اصول فقہ پر کسی عقل والے کی نظر پڑگئی تو سارا نظام دھڑام سے گر جائیگا لیکن علماء نے نہیں مانا”۔ علامہ یوسف بنوری نے اپنا مدرسہ طلبہ کیلئے نہیں علماء کو قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم دینے کیلئے بنایا۔ مفتی کا کورس پہلے نہ تھا۔ مدرسہ کی بنیاد تقویٰ پر رکھی ۔ مجھے اللہ نے وہاں تعلیم کی توفیق دیدی۔ مولانا الیاس کی محنت نے مدارس کو علماء وطلبہ سے بھر دیا ۔تبلیغی جماعت کو حلالہ کی لعنت میں عزت لٹوانے کے سوا کچھ نہیں ملا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

کیادنیا اسلام سے خوفزدہ ہے کہ خلافت قائم ہوگی تو کفار کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو لونڈیاں بنالیا جائیگا؟
اسلام کی نشاة ثانیہ اور کانیگرم :پیر عابد
برصغیرمیں دو نظام تعلیم ہیں:ایک لارڈ میکالے اور دوسرا مدارس1866ء سے دارالعلوم دیوبندکا ۔مولانا فضل الرحمن