مفتی رشید ، مفتی حنیف قریشی اورمفتی طارق مسعود کیلئے تحریری تحفہ
اپریل 6, 2025

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑرکھا تھا”(الفرقان)اورفرمایا” جیسا ہم نے تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی کردیاہے”(الحجر)۔ علماء کا طلاق و دیگر مسائل پر یہی کردار ہے۔
جو علماء ومفتیان قرآن، سنت اور خلفاء راشدین پر متفق ہیں اورمسئلہ طلاق پر قرآن میں ڈھیر ساری وضاحتوں کے باوجود متفق نہیں ہیں اور دجالی میڈیا پر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں تویہ بتادیں کہ قرآن پر متفق کیوں نہیں ہوتے؟۔ قرآن کو کیوں چھوڑ رکھا ہے اور قرآن کو چھوڑ کر تیسری صدی ہجری میں لکھی جانے والی روایات وحدیث کی کتابوں میں کیوں امت کو الجھاتے ہیں؟۔ روایات سے قرآن کو بوٹی بوٹی بنانے کے جرم کے مرتکب کیوں بنتے ہیں؟۔
قرآن میں عدت تین مراحل یا بچے کی پیدائش ہے اور اس میں شوہر کو باہمی اصلاح کی بنیاد پر اللہ نے رجوع کا حق واضح کیا ہے۔ (البقرہ: 228)
جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ صلح کے بغیر شوہر عدت میں ایک طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دومرتبہ طلاق کے بعد بھی معروف طریقے رجوع کرنے یا رخصت کرنے کی اجازت واضح کردی۔ (البقرہ: 229)
اللہ کا حکم معروف رجوع واضح ہے کہ صلح اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے قرآن میں تضاد نہیں۔
حنفی اور شافعی مسالک کے نام پر قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیاگیا۔ حنفی کے نزدیک نیت نہیں ہو تب بھی شہوت کی نظر پڑگئی تو رجوع ہے اور شافعی کے ہاں نیت نہ ہو تو جماع سے بھی رجوع نہیں ہوگا۔ قرآن میں باہمی صلح واصلاح اور معروف کو کتوں کی طرح نوچ نوچ کر بوٹی بوٹی بنادیا ہے۔ TV کے اینکر اور یہ مولوی سب مل کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔
مولانا سلیم اللہ خان ، علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی اپنی بخاری کی شرح”کشف الباری” اور ”نعم الباری ” میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت تمیم داری نے نبی ۖ سے پوچھا کہ ” قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟۔ تونبیۖ نے فرمایا کہ آیت 229 البقرہ میں دو مرتبہ طلاق اور معروف یا تسریح باحسان اچھے انداز میں رخصت کرنا تیسری طلاق ہے”۔ آیت 228 میں عدت کے تین ادوار کی وضاحت ہے اور آیت 229 میں عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔
سورہ طلاق میں کی پہلی آیت میں بھی عدت کے 3 مراحل میں 3 مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔
کتاب التفسیر ، کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت صحیح بخاری میں نبیۖ نے واضح کیا کہ 3مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے3ادوار سے ہے۔ جب اللہ نے رجوع کا تعلق عدت سے قرار دیا ہے اور نبیۖ نے بھی یہ سمجھایا ہے تو پھر مجہول روایات سے عورتوں کی عزتیں برباد کرنے کا دھندہ کیوں نہیں چھوڑا جاتا ہے؟۔
جامعة الرشید کے مفتی رشیدنے کہا کہ ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوگئے فرمایا کہ کیا تم اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کررہے ہو ۔ جب کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔
1:اس حدیث کا ذکر بخاری ومسلم میں نہیں۔
2:یہ واحد حدیث ہے جو حنفی مسلک میںاکٹھی تین طلاق کو بدعت اور گناہ قرار دینے کی دلیل ہے جس کو شافعی تسلیم نہیں کرتے۔
3:شافعی کے ہاں واحددلیل عویمر عجلانی کا واقعہ ہے جس سے اکٹھی تین طلاق کو سنت قرار دیتے ہیں جس کو حنفی نہیں مانتے۔
4:اس حدیث میں مجہول شخص عبداللہ بن عمر اور قتل کی پیشکش والے حضرت عمر تھے۔
5:یہ واقعہ بخاری میں زیادہ واضح ہے جہاں رسول اللہۖ غضبناک ہوئے اور رجوع کا حکم بھی دے دیا اور یہ بھی واضح فرمادیا کہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل ہے۔
6:صحیح مسلم میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھ تک ایک مستند راوی سے یہ بات پہنچی کہ عبداللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں ۔پھر 20 سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔ اسکے بعد ایک زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ جس سے یہ واضح ہوا کہ منصوبہ بندی سے ہی روایات مستند لوگوں نے بگاڑے اور اگر نام بتائے جاتے تو سب ہی اس پر تبصرہ کرتے۔کیا اس کی وجہ سے قرآن پر قصائی کاٹوکا چلایا جا سکتا ہے؟۔
اگر ہم مان لیں کہ مجہول حدیث حقائق کے بغیر درست ہے تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ وہ شخص رجوع کرنا چاہتا تھا اور نبیۖ نے حلالہ کرنے حکم دے دیا۔ اگر وہ رجوع چاہتا تو نبیۖ آیت 228 البقرہ اور سورہ الطلاق کے مطابق پھر بھی بغیر حلالہ کے رجوع کا حکم فرماتے۔
جہاں تک بخاری کی روایت ہے کہ رفاعہ نے بیوی کو تین طلاق دی، پھر اس نے عبدالرحمن القرظی سے نکاح کیا اور نبیۖ کی خدمت میں عرض کیا کہ اسکے پاس کپڑے کے پلو جیسا ہے۔نبیۖ نے فرمایا کہ آپ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو ؟ اور نہیں جاسکتی یہاں تک آپ اس کا شہد چکھ لو جیسے کہ پہلے شوہر کا شہد چکھا اور وہ بھی تیرا شہد چکھ لے۔
بخاری نے اس کو اکٹھی تین کیلئے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
1:چاروں مسالک بخاری کی اس بھونڈی حرکت کو تسلیم نہیں کرتے کہ ایک ساتھ تین طلاق کیلئے یہ حدیث دلیل ہے۔
2:بخاری میں بھی اسکے برعکس دو حدثیوں میں یہ نقل ہے۔ ایک میں یہ واضح ہے کہ رفاعہ نے الگ الگ طلاقیں دی تھیں۔ دوسری میں عبدالرحمن بن زبیرالقرظی نے کہا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں اس کی چمڑی مردانہ طاقت سے ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔
3:نامرد سے حلالے کا کوئی بھی قائل نہیں تو نبیۖ کی طرف اس ظلم کو منسوب کرنا بہت بڑی گستاخی ہے۔
بخاری کو غلط پیمپر پہنانے ، خواتین کی عزتوں کو تار تار کرنے اور لوگوں کے اموال کو ناجائز طریقے سے کھانے کیلئے ان علماء ومفتیان نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ یہ سارے دلائل اور اس سے کہیں بڑھ کر ہم بار بار دے چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے مسلکوں کے دنیادار لوگوں سے مال بٹورنا ہے اور غریبوں کا عقیدت کے نام پر استحصال کرنا ہے۔
اکابرصحابہ اور تابعین کی طرف من گھڑت قصے نقل کئے گئے ہیں۔ حضرت عمر نے تنازعہ کی وجہ سے اکٹھی تین طلاق پر ٹھیک فیصلہ دیا اسلئے کہ جب ایک طلاق کے بعد بھی عورت راضی نہ ہوتو صلح کے بغیر قرآن نے رجوع کو منع کردیا ہے۔ حضرت عمر مفتی نہیں حکمران تھے ۔جو لوگوں کے درمیان قرآن پر فیصلہ کرتے تھے۔ علی برسراقتدارآگئے تو ایک شخص نے بیوی کو حرام کہا تھا۔عورت صلح پر راضی نہیں تھی تو علی نے فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا، قرآن کا یہی تقاضا تھا۔ عمرنے حرام کے لفظ پر رجوع کا فیصلہ دیا تھا، اسلئے کہ عورت راضی ہوگئی تھی۔ قرآن ہی نہیں روایات و صحابہکے فیصلوں کا بھی کباڑہ کیا ہواہے۔
قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ میں تضادات نہیں ہیں۔ صرف اور صرف ایک حدیث ہے جس کو امام شافعی نے طلاق سنت کی دلیل بنایا ہے اور وہ لعان کے بعد عویمر عجلانی کی حدیث ہے۔ اس میں حلالہ کا کوئی سوال نہیں بلکہ قرآن کی تفسیر ہے کہ اگر عورت نے فحاشی کا کھلا ارتکاب کیا تو عدت میں بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ جیسے سورہ طلاق میں واضح ہے۔
متقدمیں علماء میں حلالہ کا چکر نہیں تھا، ان کا اس بات پر اختلاف تھا کہ اکٹھی تین طلاق کا دینا سنت ہے یا بدعت؟۔اسلئے کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو یہ مصلحت کے خلاف ہے۔ پھر تنازع بڑھا تو سنت وبدعت میں بٹ گئے۔ مزید معاملہ بڑھاپھر حضرت عمر پر سوال اٹھ گیا؟۔پھر آخرکار حلالہ تک نوبت پہنچ گئی اور آج یہ کاروبارہم خرما وہم ثواب ۔
فاطمہ بنت قیس کے متعلق احادیث میں مرحلہ وار طلاقوں کاذکر ہے اور اکٹھی3 طلاق کا بھی۔ جن میں تطبیق یہ ہے کہ ناگوار صورت کی وجہ سے اچانک تین طلاق دی اور پھر مرحلہ طلاقیں دیں ۔ عدت نابیناحضرت عبداللہ بن مکتوم کے پاس گزاری۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ” فاطمہ بنت قیس اپنے حق سے محرومی کی بات نہ کرتی تو یہی اس کیلئے بہتر ہوتا۔ عبداللہ بن عباس کے شاگردوں کا اختلاف بھی اس بنیاد پر تھا کہ جب تین طلاق کے بعد عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تو رجوع کا فتویٰ دیا اور عورت راضی نہ ہوتی تو عدم رجوع کا دیتے۔
البقرہ آیت 229 میں تین مرتبہ طلاق کے بعد دیا ہوا مال واپس لینا حلال نہیں مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کو خدشہ ہے کہ اس سے رابطہ ہوگا تو دونوں جنسی تعلق سے اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ فدیہ عوض اور خلع نہیں ہوسکتا بلکہ فدائی حملے کی طرح قربانی مراد ہے ۔تاکہ عورت کی عزت محفوظ ہو۔ پھر رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسلئے اسکے بعد اللہ نے فرمایا: ”پس اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاںتک وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے” (البقرہ آیت:230)
اس کے بعد البقرہ آیات 231 اور 232 میں معروف اور باہمی رضامندی کی شرط پر عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی ہے بلکہ اس کی زبردست تاکید سے وضاحت فرمائی ہے۔
سورہ تحریم میں بیوی کو حرام قرار دینے کی بڑی وضاحت ہے لیکن فقہاء نے چارخلفائ ، چار ائمہ اور ایک درجن دیگر تضادات سے اس کی 20 بوٹیاں بنادی ہیں جو ابن قیم کی کتاب زارالمعاد میں ہیں۔
جس سے قرآن کی پہلی FIR ثابت ہوگئی۔
وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھٰذا لقراٰن مھجورًاO(سورة الفرقان:30)
”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔
سورہ تحریم کو دیکھتے تو اجتہادی غلطیاں نہ کرتے اور قرآن چھوڑنے کے جرم کا ارتکاب سرزد نہ ہوتا۔
قرآن کی دوسری FIR بھی ثابت ہوگئی۔
لا تمدن عینیک الٰی ما متعنا بہ ازاوجًا منھم ولاتحزن علیھم واحفض جناحک للمؤمنین O وقل انی انا النذیر المبین O کما انزالنا علی المقتسمین O الذین جعلوا القراٰن عضین O فوربک لنسالنھم اجمعین O عما کانوا یعملونO فالصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین O انا کفیناک المستھزئین O الذین یجعلون مع اللہ الٰھًااٰخر فسوف یعلمونO
”اپنی آنکھیں اٹھاکربھی مت دیکھو جو ہم نے ان کو چیزیںدے رکھی ہیں۔اپنے بازومؤمنوں کیلئے جھکائیںاورکہو کہ میں کھلا ڈرانے والا ہوں۔ جیساہم نے بٹوارہ کرنیوالوں پر نازل کیا،جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا۔پس تیرے رب کی قسم ہم ضروربضروران سے پوچھیں گے جو وہ کرتے تھے۔پس آپ دھماکہ کردو جس کا تجھے حکم ہے اور مشرکوں سے پہلوتہی برت لو”۔( حجر:88تا94)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ