پوسٹ تلاش کریں

شہداء31مئی 2007ء کو18 برس ہوگئے۔ بفضل تعالیٰ بہت بڑابریک تھرو ہوگیا۔ عبدالواحد نے آخرکارایک بہت بڑا”راز ” بتایا جس سے سراغ مل سکتا ہے!

شہداء31مئی 2007ء کو18 برس ہوگئے۔ بفضل تعالیٰ بہت بڑابریک تھرو ہوگیا۔ عبدالواحد نے آخرکارایک بہت بڑا”راز ” بتایا جس سے سراغ مل سکتا ہے! اخبار: نوشتہ دیوار

یکم جون 2007ء کو جٹہ قلعہ گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان ایک واقعہ قومی اخبارات میں شہ سرخیوں کیساتھ جنگ، ڈان ، مشرق اور تمام اخبارات میں رپوٹ ہوا کہ ”نامعلوم افراد نے 30اور 31مئی کی درمیانی شب خودکار اسلحہ بموں سے پولیٹیکل ایجنٹ خیبرایجنسی سیدامیر الدین شاہ کے گھرپر حملہ کرکے 14افراد کو ہلاک اور دوافراد کو زخمی کیا ،جن میں ایک بھائی پیراورنگزیب شاہ،بھتیجاارشد حسین ،ایک بہن، ایک بھانجی ، ماموں ازادحسام الدین شاہ،خالہ زاد پیررفیق شاہ ، امام مسجد حافظ عبدالقادر، خادم قاسم مروت، ایک محسود، ایک تبلیغی جٹ عالم دین اور خالد اوردو باپ بیٹے سمیت 3آفریدی شامل تھے”۔ افراد13تھے 14 رپوٹ ہوئے۔

حملہ آور 2 مارے گئے ۔ جب تک ممکنہ سہولت کاروں کا تذکرہ نہیں کیا تو چالبازی سے کچھ لوگ ہمیں گھمانے اور کچھ کے ملوث ہونے کی بات کرتے تھے ۔ میں نے پیر کریم کو اخبار میں اتنا پوچھا کہ وقوعہ سے پہلے معاملے کا ادراک تھا یا نہیں؟۔ کیونکہ اگر ادراک کے باوجود ہمیں نہیں بتایا تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہونی چاہیے۔ پیرداؤد شاہ کا شک تھا کہ واقعہ سے پہلے گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے۔اب عبدالواحد نئی بات سامنے لایا کہ ” کریم کے بیٹے نعمان کو واقعہ کی رات 11بجے مشکوک فون آیا تھا۔ جہاں مجھے رات گزارنے کیلئے عبدالرحیم نے لانا تھا”۔ لیکن پروگرام تو وڑ گیا تھا؟۔

جہانزیب نے کہا کہ مظہر کو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کام نہیں کرسکتا ہے اور کریم کا بیٹا نعمان اس کا دوست ہے جس کا ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ واقعہ کی رات دونوں ساجد لوگوں کے پاس تھے ۔ جب ایک طرف سے یہ رپوٹ ہو کہ مشکوک ہیں اور دوسری طرف سے نہیں تو اسکے علاوہ کوئی بات نہیں تھی۔ مجھے شہریار نے بتایا تھا کہ ” واقعہ سے پہلے طالبان سے میٹنگ ہوئی اور ان کو ورغلایا گیا کہ ”یہ بڑے ظالم ہیں لوگوں کی بیویاں بچے چھین لئے ہیں”۔ یہ خیبر ہاؤس پشاور کی پہلی ملاقات میں بتایا اور مجھے وقوعہ کے روز بتایا گیاکہ ”یوسف شاہ کی بہن نے کہا کہ اگر عتیق الرحمن گھر میں ہے تو اس کو نکالو ،طالبان گھس رہے ہیںاور ہمارا نام خدا کیلئے مت لو ،ورنہ ہمیں اٹھا لے جائیںگے”۔

میں نے عورت کی عزت کیلئے مسئلہ الجھایا اوریہ کہ پتہ چلنا چاہیے کہ قاتل ، سہولت کار اور منصوبہ ساز کون ہے؟۔

مجھے اغواء برائے تاوان کا خدشہ تھااسلئے کہ اورنگزیب نے اظہار کیا تھا کہ ”مجھے قتل سے خوف نہیں ہے، اغواء سے ڈرتا ہوں اسلئے اغواء بہت بڑی بے عزتی ہے”۔

عبدالرحیم ،عبدالواحد نے بتایاکہ ”سبھی کے دماغ میں ہے کہ دوبئی میں ہماری جائیدادیں ہیں ۔ ماموں اور اپنے بھائیوں کے گھر والیاں کہتی ہیں”۔ کوئی اور ہوتا تو دماغ اس طرف جاتا کہ ”سارا مسئلہ گھر میں ہے اور سازش کا دائرہ ہو تو ماموں اور اپنے گھر کے گرد گھومتا ہے”۔یہ ایک زبردست ماحولیاتی آلودگی بنائی گئی تھی۔اتنی بات تو کنفرم تھی کہ ”اورنگزیب کا کراچی میں کاروبار تھا اور عبدالرؤف و نور علی کو کاروبار ختم کرنے کیلئے کہہ دیا تھا اور ناصر سے ڈن ہوا تھا۔ جس کا صرف عبدالرحیم اور بھائی امیرالدین کو ہی پتہ تھا”۔

پھر عبداللہ شاہ ایڈوکیٹ نے کہا تھا کہ ”میرے تینوں بھائی فراڈ کررہے ہیں ۔ عبدالرحیم اور نور علی کا خفیہ کاروبار نکلے گا۔عبدالرؤف کو بھی انہوں نے دھوکہ دیا ہے”۔ جب عبدالواحد نے کہا کہ ”منہاج زمین کے مسئلے پر سازش کررہا ہے۔ اکبرعلی کو بھی ساتھ کیا ہے۔ پہلے بھی ہمیں استعمال کیا اور پھر اپنے پیسے لوٹادئیے”۔تو میں نے نہیں کہا کہ ”تم کوئی گل چاہت ہو کہ تبلیغی جماعت پر الزام دھردیا کہ کسی نے نہ چھوڑا،جنسی خواہش پوری کی۔جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا تو تم بھی منہاج کی طرح دلباری نانا کو پیسہ واپس لوٹاتے؟”۔

میری ایک تحریک ہے۔اگر اسلام اپنے آپ، اپنے گھر اور عزیزواقارب سے شروع کیا جائے تو سارے فتنے ایک دن میں ختم ہوسکتے ہیں۔ چوری کا علاج تبلیغی جماعت میں سہ روزہ، چلہ، چارماہ ، سال اور ڈیڑھ سال لگانا نہیں بلکہ وہ نظام ہے جس میں چور کیلئے ہاتھ کاٹنے کی سزا کا قانون ہو۔ بہنوں اور بٹیوں کی قیمت لگاکر بیچنا ایک ماحول ہو اور اسلام کا بھی جھنڈا اٹھالیا ہو تو یہ اسلام اپنے ساتھ دھوکہ ہے۔

مولانا طارق جمیل کو بتایا کہ ”اسلام اور اقتدار دو جڑواں بھائی ہیں۔ ایکدوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتا”تو اس نے کہا تھا کہ ”یہ حدیث نہیں مانتا”۔ جماعت دو ٹکڑے ہوئی ۔ بنگلہ دیش میں قتل ،اب مولانا طارق جمیل کو منافق قرار دینا۔

اسلام کا اقتصادی اور معاشرتی نظام رائج کئے بغیر حکومتی نظام آئے بھی تو خاطر خواہ فائدہ نہیں ۔ جماعت اسلامی نے ریاستی قوت کیلئے ساکھ ختم کردی ۔ قابل لوگ نذر ہوگئے اور اسلام اور عوام کو فائدے کی جگہ نقصان پہنچا۔ لوگ مذہبی، مسلکی ، فرقہ وارانہ اور جماعت پرستانہ تعصبات کو ہوا دیتے ہیں میں اس کا کبھی قائل نہیں رہا ہوں۔ سیدایوب شاہ کی وجہ سے1970ء میں پہلا جھنڈا جماعت اسلامی کا تھاما تھا۔

مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس ، مولانا انور شاہ کشمیری، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ اور مولانا عبیداللہ سندھی سے میرے اپنے دادا سیدمحمد امیر شاہ بڑے عالم تھے اور مولانا قاسم نانوتوی ومولانا رشیداحمد گنگوہیاور انکے پیر حاجی امداداللہ مہاجر مکی اور ا نکے شاگرد شیخ الہند اور انکے استاذ مولانا مملوک علی سے میرے پردادا سید حسن شاہ بابو بڑے عالم دین اورزیادہ قدآور شخصیت تھے۔ شاہ اسماعیل شہید، شاہ عبدالعزیز،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی سے زیادہ میرے اجدادسیدمحمود حسن دیداری سیدمحمدابوبکر ذاکر اور سید شاہ محمد کبیرالاولیائ کانیگرم جنوبی وزیرستان اپنے علم وعمل میں دیندار اور بڑے لوگ تھے۔

مولانا اشرف خان فاضل دارالعلوم دیوبند، مولانا شادا جان فاضل پنج پیراور مولانا محمد زمان کانیگرم کے علماء سے میرے والد پیرمقیم شاہ عام انسان صرف انسانیت کے حوالہ سے نہیں بلکہ قرآن وسنت اور اسلام کی سمجھ کے حوالہ سے اچھا فہم رکھتے تھے بلکہ چچاسید محمدانور شاہ بھی علم اور سیدمحمد صدیق شاہ ان سے زیادہ عمل کے بہت عمدہ نمونے تھے۔

مولانا محمد زمان وزیرستان کے500علماء کے امیرتھے اور مفتی عبدالغنی برکی محسودی پشتو میں قرآن کا ترجمہ کررہا ہے لیکن ان کے دین کی سمجھ ہماری پھوپھی ریاض شاہ کی والدہ سے بہت کم درجہ کی تھی۔ میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ”ازالة الخفاعن الخفاء ” میں لکھا ہے کہ اللہ اپنے رسول ۖ کے ساتھ پوری دنیامیں اسلام کے غلبے کا وعدہ کیا ہے لیظہرہ علی الدین کلہ ”تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے”۔نبیۖ کے بعد قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو شکست خلفاء راشدین کے ہاتھوں ہوئی اور آئندہ پوری دنیا میں اسلام کے غلبے کا وعدہ پورا ہونا ہے”۔(ازالة الخفا عن الخفاء ۔ شاہ ولی اللہ )

یہ کفر ہوتاتو فتویٰ مجھ پر نہیں شاہ ولی اللہ پر لگتا۔ میری پھوپھی پڑھی لکھی سمجھ دار تھیں۔ میں جیل میں تھا تو بتایا گیا کہ والدہ کو پتہ نہ تھا۔پھوپھی خالد کی شادی میں خوشیاں منانے پرافسردہ تھیں۔خوددار لوگ مفاد پرست نہیں ہوتے مگر دودھ پینے والے مجنون مفاد کی خاطر کٹورہ لئے پھرتے ہیں۔

مولانا اشرف خان نے اس عبارت کی وجہ سے بتایا کہ علماء نے کفر کا فتویٰ لگایا ۔ میں نے کہا کہ اگر آپ 5 منٹ میں نہ مانے کہ یہ اسلام ہے تو میں مرتد کی سزا میں خود کشی ہی کرلوں گا لیکن اگر آپ مان گئے کہ تو جس نے فتویٰ لگایا ہے اس پر توت کا ایک ڈنڈا مار مار کر توڑوں گا۔ اس نے کہا کہ دین تو اللہ نے مکمل کیا ہے تو پھر اس کا کیا مطلب ہے؟۔ میں نے بتایا کہ دین کے نزول کی تکمیل ہوگئی ہے اور اس کا غلبہ ابھی باقی ہے۔ جس پر اس نے کہا کہ اب بات سمجھ گیا۔ مفتی عبدالغنی برکی نے بات سمجھ لی تو کہا کہ ”میں نے کتاب لکھی تھی ۔یہ اللہ کاشکر ہے کہ وہ چھاپی نہیں ہے”۔

سیدابولاعلیٰ مودودی ایک داڑھی منڈے صحافی الطاف بھائی (قائدایم کیوایم) کی طرح تھے۔ نامی گرامی علماء کرام ان کی قیادت میں اکٹھے ہوگئے۔ جن میں مولانا ابوالحسن علی ندوی ، مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا مسعود عالم ندوی جیسے لوگ شامل تھے۔ مولانا موددی نے لکھا ہے کہ ”مجھے پتہ ہے کہ جس آون دستے میں میں نے اپنا سر دیا ہے کہ دور سے اس کی دھمک کی آواز سن کر یہ بکھشو بھاگ جائیں گے”۔

مولانا راحت گل نے پشاور یونیورسٹی کے نزد اپنے مرکز مدرسہ راحت آباد میں میری تحریک کی وجہ سے تمام جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد،مولانا سمیع الحق ، مولانا اکرم اعوان،صوفی محمداور ڈاکٹر اسرار احمدوغیرہ کواخبارات کے اشتہارات میں میرے نام کیساتھ بلایا تھا تو قائد خود نہیں آئے مگر ان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔

ضلع ٹانک ، پختونخواہ اورپاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے بڑی تائیدات کی تھیں۔

لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام عباسی نے میرے پاس چند دن قیام کیا۔ ٹانک سفید مسجد مولانا فتح خان اورگل امام مولانا عبدالرؤف کے ہاں ان کی تقاریر بھی کرائی تھیں۔ واقعہ پر بیت اللہ محسود نے قصاص کا فیصلہ کیا اور محسود قوم کو ساتھ لیکر تگڑی معافی مانگ لی۔ مولانا فضل الرحمن نے حملہ آوروں کیخلاف ابن ماجہ کی حدیث خطاب جمعہ میں پیش کی کہ یہ خراسان کے دجال کا لشکر ہے۔ عبداللہ محسود اس واقعہ کے غم میں افغانستان سے آگیا۔ وزیر طالبان کے امیر مولوی نذیر نے اسی دن بیان دیا تھا کہ یہ کاروائی کرنے والے امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ قاری حسین نے بیت اللہ محسود سے اس بنیاد پر جان چھڑائی کہ تمہارے حکم پر ہم نے شریف انسان ملک خاندان کو گھر کی خواتین سمیت 7افراد کو شہید کیا تھا۔ ملک خاندان اور علی وزیر کے والد کو ایک ہی دن میں شہید کیا گیا۔ علی وزیر نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ”ہمارے خاندان نے ریاست پاکستان اور پاک فوج ہی کیلئے قربانیاں دی ہیں”۔ ان کے17افراد شہید ہوئے۔

دہشتگردی میں بہت لوگ مارے گئے تو ہمارا مسئلہ کسی شمار وقطارمیں بھی نہیں جبکہ ہماری بہت مرہم پٹی، عزت اور ساکھ کا بھی خیال رکھاگیا۔ پاک فوج نے بھی اس کے بعد بھرپور طریقے سے آپریشن کئے اور طالبان نے بھی معافی مانگ لی۔ ایسی عزت دہشت گردی کی پوری جنگ میں کسی کو بھی نہیں ملی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اصل مجرموں کے چہروں سے نقاب کھل جائیں اور اس میں پاک فوج اور طالبان دونوں کابہت ہی بڑا فائدہ ہے۔

محسن داوڑ جیسے لوگوں کا خیال ہے کہ پاک آرمی اور افغان طالبان حکومت اور TTPسمیت سارا گیم امریکہ کے ایماء پر چل رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن افغان طالبان کے بارے میں اچھی سوچ رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں وہ دہشتگردی کے فروغ اور افغان طالبان سے معاملات کو بگاڑنے میں امریکہ کے ایماء پرسخت غلطی قرار دیتے ہیں۔

میڈیا کے بیانات میں یہ چیزیں بالکل روز روشن کی طرح واضح ہیں۔حیات پریغال نے اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ” گڈ طالبان اور بیڈ طالبان ایک دوسرے کے رشتہ داروں کو اغواء کررہے ہیں جس سے عوام کو نقصان پہنچ رہاہے اور دہشت گرد ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے بدلے میں قتل بھی کرتے ہیں اور چھوڑتے بھی ہیں ۔اس پالیسی سے دہشتگردی کو فروغ مل رہاہے۔

اگر ہمارا واقعہ اور دوسرے واقعات کے اصل مجرم کوئی اور نکل آئے توپھر پاک فوج اور طالبان دونوں بری الذمہ ہوں گے ان گناہوں سے جن میں ان کا کوئی عمل نہیں ہے اور عبدالواحد نے پتہ نہیں کس کا کہا کہ ”وہ لوگ کہتے ہیں کہ ISIسے مل کر عتیق الرحمن نے خود حملہ کروادیا ہے”۔

عبدالرحیم نے پیر زاہد کو طعنہ دیا کہ دل بند کو مروایا اور نوکری پر قبضہ کیا۔ اس سے خسیس ذہنیت کا اندازہ لگ سکتا ہے۔انگریز نے دل بند شاہ کو پٹھان کوٹ اور ان کو جٹہ قلعہ میں آباد کیا؟۔ خالد اور عبدالخالق کو ایک آنکھ کی وجہ سے نہیں عمل کی وجہ سے دجال کہا جاتا تھا۔ اکبر علی سے عبدالخالق کی مسجد میں لڑائی ہوئی عبدالرحیم نے میرا کہا” 10سال پہلے پہچاناتھا”۔اکبر علی کو نور علی کی بنیادپر جہانزیب سے لڑا دینا اور جہانزیب سے نثار کے قتل کی بات کا فلسفہ میں سمجھتا تھا۔

سبحان شاہ کے بیٹے سیداکبر کو سمجھنے کیلئے عبدالخالق شاہ کی علت کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور ماموں کی اپنے شریف ترین پڑوسی سے لڑائی کو بڑھاوا دیا جارہاتھا تو پیر نور علی شاہ کہتا تھا کہ ”غیاث الدین دیگ ہے اور عبدالخالق اس کا چمچہ ہے”۔ عبدالخالق بڈھی بڈھی بکریاں مہمانوں کو کھلانے کیلئے سستے دام گاڑی بھر کر لاتا تھا جس سے خرچہ تو کم ہوتا تھا لیکن ناک کٹ رہی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ واذ زین لھم الشیطان أعمالھم و قال لا غالب لکم الیوم من الناس وانی جار لکم ”اور جب کہ شیطان نے انکے کاموں کو اچھادکھایا اور کہا کہ آج کے دن تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا، میں تمہارا پڑوسی ہوں۔جب اس نے دیکھا کہ دونوں لشکر مقابل ہونے والے ہیں تو اپنی پچھاڑیوں کے بل اپنا رُخ تبدیل کردیااور کہا کہ میں جو دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔اور اللہ بہت سخت عذاب والا ہے”۔ (سورہ انفال آیت48)

ایک روایت ہے کہ شیطان سراقہ ابن مالک کی شکل میں آیا پھر رفو چکر ہوا۔مگر یہ بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ قرآن نے انسانی شیطان کا ذکر کیا۔ ابولہب اور اس کی بیوی کیخلاف سورة نازل ہوئی لیکن وہ اور اسکے بچے غزوہ بدر میں نہیں گئے۔عباس اور ابوطالب کا بیٹا طالب گئے۔

جب ریاض شاہ کیساتھ جھگڑا تھا تو غیاث الدین نے کہا تھا کہ ”پہلے اس کے باپ کو مجھ سے خراب کروایا ،اب اس کو کھڑا کردیا”۔ نور علی پر منافقت کی تہمت لگائی گئی تھی تو اشرف علی نے کہا کہ ”بھائیوں میں سب سے اچھا عزیزوں کیلئے نور علی ہے لیکن پتہ نہیں کیوں شک کیا جاتا ہے؟”۔

ریاض کے والد کیساتھ نور علی نہیں چمچہ عبدالخالق لڑا سکتا تھا۔ ریاض عبدالخالق کے ہاں جوتے چھوڑ کر ترکش مرغی کی ٹانگ سے بھاگا ؟ ریاض نے کہاکہ غیاث الدین نے زمین کاشت کیلئے لی پھر بدمعاشی سے قابض ہوا۔ عبد الخالق نے ریاض اور ڈاکٹر آفتاب کو غیرت کی بنیاد پر خون ریزی کرنی تھی لیکن اللہ نے مجھے وسیلہ بنادیا۔مینک برکی کی زمین کے مسئلے میں بھی ممتاز بھائی کے گھر پر لشکر کی طرح چڑھائی میں عبدالخالق کے علاوہ کسی اور کا بنیادی کردار نہیں ہوسکتا۔

عبدالرؤف ، حاجی سریر اور ڈاکٹر عبدالحمید میں شیطانی چالوں کا کوئی تصور نہیں ہے البتہ بہت بڑا مغالطہ کھا سکتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ”مؤمن دھوکہ کھانے والا اور معاف کرنے والا ہوتاہے”۔ یعنی دھوکہ دیتا نہیں ہے۔

ریاض نے کہا کہ ”مینک کی زمین کے پیسے دو بار دئیے اور میری بہن عبدالخالق کی بیوی کا 2ہزار حق مہر بھی یاد کیا ” میں نے سوچا کہ سہیل کی والدہ کا حق مہر2ہزار تھا وہ تو پرانی بات تھی؟۔پھر ہماری بہن کا حق مہر الٹا ہمارے خلاف کیسے حساب کیا؟۔عبدالوہاب سے کہا کہ ریاض سے لکھواؤ۔ مگر اس نے لکھ کر دینے سے انکار کیا جو عبدالخالق کی کہانی تھی۔

مجھے لگتا ہے کہ غیاث الدین کو پیر ملنگ کے خلاف بھی سراقہ بن مالک کی طرح عبدالخالق نے ہی اکسایا ہوگا مگر جب معاملہ جانچ لیا تو کہا کہ ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں۔ ارشد حسین شہید کو ڈنڈوں کی بوچھاڑ میں اکیلا چھوڑنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی بلکہ پولیس کی طاقت پر فخر تھا۔

عبدالرحیم مجھے مجھ پر فائرنگ کے بعد پشاور چھوڑ نے جارہاتھا تو کسی کی طرف سے پیچھا کرنے کا احساس ہوا اور عبدالرحیم نے کہا کہ ہنگو چلتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ بھائی DCOہے اور ہم گنڈیالی فضل کریم کے گھر گئے۔پہلے پنڈی کی طرف گئے تو آگے نکل گئے۔ واپسی پر ہم گنڈیالی کی طرف گئے تو پیچھا کرنے والی گاڑی پنڈی کی طرف نکل گئی۔ اسکے باوجود عبدالرحیم نے بھائی کو فون کرکے بلایا جو موت کے منہ میں دھکیلنے والی بات تھی۔

واقعہ سے پہلے بھائی اور عبدالرحیم کراچی آئے ۔ بھائی نے کہا کہ کوئی بااعتماد دوست ہو کاروبار کیلئے تو میں نے ناصر کے ساتھ بات ڈن کردی۔ عبدالرحیم نے کہا کہ حاجی اورنگزیب کو عبدالرؤف اور نور علی پر شک ہے کہ عمرے کس کے پیسے پر کئے ہیں؟۔ہوسکتا ہے کہ حاجی اورنگزیب کو اتنا منافع نہیں دیا ہو کہ وہ بھی عمرے کرتا۔ عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار نورعلی کو آتا ہے عبدالرؤف کو نہیں تھا۔ میں نے نہیں کہا کہ بی جمالو! یہ اس کا کام ہے کہ کس پر اعتماد کرے یا نہیں کرے۔ عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار بہت کامیاب جا رہاہے۔ ایک فلیٹ بک کرایا ہے ،لوگ16لاکھ میں ابھی ادھورا مانگ رہے ہیں۔مجھے اس سے کیا غرض تھی؟۔ میں سمجھتا تھا کہ جب اعتماد کا فقدان ہو تو پھر اصرار کرنا غیرت کے منافی ہے اور ناصر نے دھوکے کھائے، دئیے نہیں۔

جب واقعہ ہوگیا تو عبدالرحیم نے کہا کہ میرامشورہ ہے کہ اب کاروبار چالو رکھتے ہیں میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میرے لئے کاروبار میں 30لاکھ رکھے۔میں نے مانگے تو بہت تھکادیا۔ نور علی سے کہا کہ میں تو کتے کے گاؤں سے گزر چکا۔ اس نے کہا کہ میں گدھے کے گاؤں سے بھی گزر چکا۔ میں نے کہا کہ تم اپنی وجہ سے اور میں تمہاری وجہ خوار ہورہاہوں۔ پھر عبدالرحیم کو فلیٹ کا کہا ۔پہلے ادھر ادھر کی کررہاتھا۔ آخر میں کہا کہ اس ٹائم پر اس طرح ساتھی کو کہو کہ پہنچ جائے۔ میں نے کہا کہ جس کی بات کررہے ہو ! یہ کاغذات ہیں یا گیدڑ ہے جو بھاگ جائے گا۔ اس نے کہا کہ میں میراثی بن کر پیغام رسانی کرکے ذلیل ہوتا ہوں۔ میرا کیا کام اور مفاد ہے؟۔ میں نے کہا کہ بات ایسی ہوتو سوال اٹھے گا۔ اس نے کہا کہ میرا کام پیغام کو ویسے پہنچانا ہے۔ اور فون بند کردیا۔ پوچھا تو فلیٹ ڈیڑھ لاکھ کا تھا۔ میں نے بھی اچھے وقت کیلئے بطور نشانی ویسے ہی چھوڑ دیا۔

خالد نے بتایا کہ کرش پلانٹ پر اس کا35لاکھ قرضہ ہے۔ اعجاز نے بتایا کہ تین، ساڑھے تین اور بہت ہی زیادہ ہو تو5لاکھ ہوگا۔میں نے بھائی سے کہا کہ حساب ان کے ساتھ صاف رکھو۔ اس نے غصہ میں کہا کہ پھر تجھے بلالوں گا اور یاسر کو شکایت تھی۔عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار کے بعد ہم نے ایک ایک روپے کا صاف شفاف حساب رکھا ہے۔ فلاں فلاں موقع پر 10،10لاکھ بھائی جان کو ویسے بھی دیتے رہے ہیں اور اپنی ماں کو بھی کہا کہ تیرے بھائی کا ہاتھ تنگ ہے تو وہ بھی خوش ہوگئی۔ میں نے دل میں سوچا کہ میرے گارڈن ڈیکور کے5لاکھ کا سامان 3لاکھ میں خریدا اور پھر صرف ڈیڑھ لاکھ دئیے اور ساتھ میں شیڈ کے ڈیڑھ لاکھ کے پائپ بھی لیکر گئے تو کیا بات کروں؟۔

میری بھتیجی ایک دن رورہی تھی تو پوچھنے پر بتایا کہ بھابھی خالد کی بھانجی نے کہا کہ تمہاراوالد خالد پالتا ہے۔

پہلے مجھے اسلام آباد میں پلاٹ دیا گیا۔ پھر عبدالرحیم نے بتایا کہ وہ یاسر کو دے دیا ۔ آپ کو پشاور میں دیا۔ خالد کو جنریٹر کیلئے پیسہ چاہیے تھا۔ پشاور کا ایک پلاٹ بیچا اور بعد میں کہا کہ جنریٹر تو میں نے قسطوں پر لیا ہے۔ یعنی پلاٹ کو ہی غائب کردیا۔ عامر نے بتایا کہ کرش پلانٹ کیلئے پیسہ تو بہت پہلے لیا تھا مگر کام بہت دیر سے اس پر شروع کیا تھا۔

رات کو چاروں بھائی اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے کہا کہ ڈائری لاؤ۔ خالد نے کہا کہ کرش پر 35 لاکھ ایک قرضہ ہے اور کچھ اور بھی ہے۔ میں نے کہا کہ ڈائری لاؤ۔ وہ ڈائری لانے کے بجائے بکتا جارہاتھا۔ اس نے کہا کہ میرے قرضے کی وجہ سے جو مجھے نقصان ہوا ہے وہ بھی حساب کروں گا اور جو فائدہ نہیں کماسکا تو وہ بھی لوں گا۔ میں نے کہا کہ ”اچھا مجھے یہ لکھوادو”۔ اس نے جب اپنا بیانیہ لکھوادیا اور میں نے پڑھ کر سنادیا اور اس نے OK کیا تو میں نے کہا کہ کاروباری لوگوں کو بلالیںگے۔ آپ حساب کتاب کلیئر کرکے بتاؤگے۔پھر ان سے پوچھ لیں کہ کیا حساب بنتا ہے۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ یاسر کے پلاٹ پر کروڑوں روپے بینک سے لئے ہیں ،اس کا بھی فیصلہ کرنے والوں کے سامنے حساب رکھ لیںگے۔ تو مجھے کہا کہ کاغذ دکھاؤ اور ہاتھ میں لیکر پھاڑدیا۔

عبداللہ نے کہا کہ اس بھائی (خالد ) کیلئے لیٹرین بھی سر پررکھ کر اٹھالوں گا۔ میں نے کہا کہ میں نے اگر بھائی کاتھوڑا بھی غلط ساتھ دیا تو اس کے دل سے اتر جاؤں گا۔ آخر عبدالرحیم کے حکم پر ڈائری لائی تو نئی سیاہی اور قلم سے موٹی موٹی رقم لکھی تھی۔ خالد نے کہا تھا کہ کرش پلانٹ میں مفت شامل کیا تھا اور جب بیچ میں کام رک گیا تو کچھ پیسے دئیے اور کام شروع ہونے سے پہلے لوٹادئیے۔ میں نے کہا کہ ڈائری میں تاریخ کا پتہ نہیں چلتا تو کسی رجسٹرڈ پر لکھا ہو تو وہ لانا ۔ آخرمیں سب چلے گئے۔واحد، خالد اور میں رہ گئے۔ رجسٹرڈ پر ایک قلم سے لکھائی تھی۔ کئی دفعہ اپنی یاداشت سے مزید رقم مختلف جگہ پر بڑھائی اور پھر بھی پوری نہیں ہورہی تھی تو میں نے کہا کہ قلم بھی تیرا ہے اور زیرو ڈال رہے ہو تو بس چھوڑ دو ۔مجھے نہیں دیکھنا۔ کرش پلانٹ چلنے تک کی رقم غالباً 60لاکھ تھی اور جب میں فجر کی نماز کیلئے وضو کرنے گیا اور پھر اصرار کیا تو میں نے کہا کہ چھوڑ دو۔ پھر کہا کہ بس دیکھ لو تو رقم ایک کروڑ 20لاکھ تک پہنچادی تھی جو اس تاریخ کے بعد دی تھی وہ بھی اس تاریخ تک پوری کردی۔ میں نے کہا کہ بس چھوڑدو۔ واحد نے کہا کہ تیرا مقصد تو ہماری صفائی ہے؟۔ میں نے کہا کہ اگر یہ ڈائری اس طرح وہ مان جائیں تو بڑا احسان ہوگا۔

خالد نے کہا کہ جمرود کے ٹھیکے میں ایک روپیہ نہیں دیا تھا اور میں نے 14لاکھ کی گاڑی لیکر دی۔ میں نے کہا کہ یہ پیغام پہنچادوں گا۔ اس نے یونس آفریدی کیلئے بالکل ہی متضاد کہانیاں شروع کردیں۔ پھر جب عامر سے پوچھا تو اس نے کہا کہ 23لاکھ اس نے دئیے اور یونس آفریدی آیا تو اس نے کہا کہ 43لاکھ اس کے تھے اور خالد کا ایک بھی روپیہ نہیں تھا۔ دوسرے دن خالد کی ماں نے پشاور میں کہا کہ خالد نے بتایا کہ عتیق الرحمن کو ایسا کردیا کہ اسکے ہاتھ لکھے ہوئے اپنے کاغذ اس نے پھاڑ دئیے۔ جب اس کو بتایا تو شرمندہ تو شاید نہیں ہوئی ہوگی اسلئے کہ شوہر کی ایک گاڑی ٹھیکے میں کھو دی تھی اور قحط زدہ بچے لینڈ لارڈ بن گئے تو اور کیا چاہیے؟۔ منہاج کی ماں کا توجوان بیٹا شہید ہوا تھا اور یہ میرا کہتی تھی کہ حوالے کردیتے تو اچھا تھا۔ اورنگزیب کو بھی خدا بخشے ،اپنی عمر گزار چکا تھا اسلئے سب اچھا ہے۔

ابولہب کو ابوسفیان کی بہن ام جمیل نے بنادیا اور اس کو اپنے شوہر نے بنادیا۔بھائی نثار سے عبدالخالق نے کہا کہ ”تمہاری بھتیجی سے شادی کیلئے عبدالرحیم راضی نہیں ” تو نثار حیران ہوا ؟۔مگر عبدالخالق تو بھانجی کو آزاد کرنے کیلئے نثار کو ساتھ رکھنا چاہتا تھا اور غیرت کی اس میں بو تک نہیں تھی۔

جب عبدالرحیم میرے پاس آیا اور گالیاں دے رہاتھا کہ ان کو اعلانیہ کہتا ہوں۔ میں فساد اور بے عزتی سے بہتر سمجھا کہ میں بھی ساتھ دوں اور خفیہ لیکر آئیں۔ فساد ٹل جائے گا اور زیادہ سے زیادہ مجھے قتل کیا جائے گا تو فساد، بے عزتی اور ایک لڑکی کے حق کیلئے میری جان کا سودا سستا ہے۔ عبدالرحیم نے کہا کہ ایک منہاج کو نہیں کہنا۔ میں نے کہا کہ منہاج نہیں کسی کو بھی نہیں کہوں گا۔ اس کا مقصد تھا کہ باقی ڈھنڈورا پٹ جائے۔ میں نے منہاج سے کہا کہ اگر دلہن لانی پڑی تو اس نے کہا کہ پھر چلے جائیں گے۔ میں نے عبدالرحیم کو کہا کہ وہ جانے کیلئے تیار ہے مگر مجھے بولنا نہ تھا۔آپ کا ذہن صاف کرنا تھا۔ جب وہاں پہنچے تو خالد نور علی ، ضیاء الدین اور فیاض کو لایا تھا۔اور کہہ رہاتھا کہ ان کو بھی پھنسادیا۔ یہی سازشی ذہیت ہوتی ہے۔

میں نے سمجھا کہ قاری احمد حسن شہید نے فیصلہ کیا تھا تو جب پتہ چلے گا کہ رشتہ ہوگیا تو بہت خوش ہوگالیکن جب بتایا تو قاری صاحب سخت پریشان ہوگئے ۔کہا کہ عبدالخالق نے بہت غلط کیا ہے ، اس سے وعدہ لیا تو اس نے کہا کہ ہم دو بہنیں پہلے لے چکے ہیں اس پر بھی نادم ہیں،پھر اس نے چھوڑدیا ہے۔ یہ تو معاملہ خراب ہوگیا۔ عبدالرحیم کو بتایا تووہ قاری کو گالیاں دینے لگا۔ میں نے کہا کہ وہ اچھا آدمی ہے، اس نے جو فیصلہ کیا ہے تو وہی بولنا ہے۔عبدالرحیم اس پر بھی ناراض تھا کہ ”ہم بکرا کیوں لے گئے ،اسی طرح ہم ہی پر معاملہ پڑے گا”۔ یہ بے غیرتی کا انتہائی خمیر تھا مگر…

عبدالواحد نے کہا کہ ” عثمان فیک اکاؤنٹ میں نہیں ہے۔ میں نے اس کو کہا کہ مظہر لوگوں کے خلاف تیرے بھائی نے گواہی دی تھی ۔ نعمان کے پاس مشکو ک فون آیا تھا اور عمرشاہ گواہ ہے کہ اسفندیار نے والد سے کہا کہ تمہیں کتنے پیسے دئیے؟۔ اس نے کہا کہ ایک کروڑ90لاکھ۔ اور شہریار غصہ ہوا کہ کیوں یہ سوال تم نے پوچھا ہے”۔

واحد اس سے حاصل کیا کرنا چاہتا ہے؟۔ مظہر لوگوں کے ساتھ کرکٹ کے مسئلے پر بھی اور سرکاری سروے پر بھی جہانزیب کو واحد سعود شاہ کیخلاف کیوں استعمال کرنا چاہتا تھا؟۔ ساجد، ابراہیم اور جعفر نے سعود شاہ کے قتل پرنعمان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انکے شر سے بھتیجوں کوبچانا فرض سمجھتا ہوں۔ باقی واحد نے قاتل کا تو نہیں بتایا مگر یہ کہا کہ گالیاں بھی مزید دوں اور ماروں بھی تو خیر ہے۔ لیکن میرا پتہ لگانے کیلئے اس نے بیٹی کا رشتہ توڑنے کا ڈرامہ رچایا۔ اگر میں قتل ہوتا اور میرا فون دینے والوں کو ٹریس کرکے اسرار کو اٹھایا جاتا جس کے نمبر سے مجھے گالیاں دی گئی تھیں اور گل شیر اور واحد کی بیوی کو اٹھالیا جاتا تو واحد کا مقصد ہی پورا ہوجاتا کہ دوسری بیوی ہے تو اس جان چھوٹے۔ بے عزتی تو گل چاہت کو کچھ لگتی نہیں۔ عبدالرؤف کو یہی لوگ جان بوجھ کر ذلیل کررہے ہیں اور نام منہاج کا لیتے ہیں۔ میں نے یہ روائیداد اسلئے بتائی کہ عبدالرحیم کے علاوہ میرا کسی کو معلوم نہیں تھا تو کوڑ تک بات کس نے پہنچائی؟۔ یہ جھوٹ کیوں بولا کہ حاجی قریب برکی نے نثار کے سینے پر ہاتھ مار کر کہا کہ ”عبدالرزاق پیر کے بیٹے شامل ہیں؟”۔ حالانکہ نثار سے میں نے پوچھا تھا تو اس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کی ہے اس نے۔ پھر پہلے حاجی لطیف لوگوں کی طرف معاملہ موڑ دیا لیکن جب میں نے سختی سے انکار کیا تو دوسری طرف مظہر لوگوں پر کہانی ڈال دی۔ میں نے تو اب بھی ڈاکٹر ظفر علی کے گھر کی سخت پریشانی کو ختم کرنے کیلئے معاملہ اٹھایا جو عابد پیر لوگوں کے گھر کی طرف سے آئی تھی۔ عبدالواحد نے پہلے کہا تھا کہ” عبداللہ کی عثمان کیساتھ فیس بک پر تصویر دیکھ کر عبدالرحیم نے کہا تھا کہ پھاڑ دوں گا۔ تو اس نے کہاکہ کہیں اتفاقی ملاقات میں سلفی لی پاگل ہوں کہ اس سے تعلق رکھوں؟”۔ پھرعبداللہ پر عثمان نے گولی چلائی تو داؤد نے عثمان کو گالیاں دیں ۔ مگر عبدالواحد نے شاہجان سے کہاکہ ”داؤد بڑااچھا ہے عثمان کو ایسی گالیاں دیں”۔ داؤدواقعی اچھا لیکن تمہاری بہن جو ادھر ادھر ہنکاہتی ہے تو وہ اچھا نہیں کرتی ہے۔ میں لوگوں کی فطرت کو سمجھتا ہوں۔

عبد الرحیم نے یوسف شاہ کی ڈاکٹر بیٹی مانگی جس سے بچوں کی امید نہ تھی ۔پیٹ اور رزق کیلئے بھی معاملہ ہوسکتا ہے لیکن یوسف شاہ نے گاڑی بیچ دی۔ پیسہ کہاں گیا اور عبدالرحیم یوسف شاہ اور عبدالواحد سے پوچھ سکتا ہے کہ کہاں کہاں لنک مل سکتے ہیں؟۔ ویسے تو بڑی خوش آئند بات ہے کہ یوسف شاہ کی قیادت میں عورت پر غیرت کی جنگ لڑرہے تھے اور سعود شاہ اور عثمان شاہ کی قیادت میں بہادری کے جوہر دکھارہے تھے۔ اگر 13افراد کے بدلے 13لاکھ بھی قتل کرتا تو دل کو اتنی ٹھنڈک نہیں مل سکتی تھی جتنی اس وجہ سے ملی کہ جن کے آباء کو دھوکہ دیکر قتل کروایا۔ نوکری بھی دھوکے سے چھین لی۔ پھر اپنے مقتولین کو شریک بھی نہیں کیا۔زمین کی تقسیم میں بھی واضح دوپنجہ کی بنیاد پر دنیا کے سارے قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیں اور پھر بھی دل ٹھنڈا نہیں ہوا اور زبردستی ذلیل کرکے ان کی زمین پر قبضہ کیا۔ آج ان کی قیادت پر میرا دل خوشی سے کھل گیا ہے۔ میں تو ایسا بدلہ نہیں دے سکتا تھا لیکن خدا نے تم سے خود ہی ان کا بدلہ لیکر سرور شاہ ، کرم حیدر شاہ ، مظفرشاہ اور فیروز شاہ کے ساتھ اور ان کی اولاد کے ساتھ جو ظلم کیا تھا تو اس طرح قدرت پرقربان جاؤں کہ کمال کا انتقام لیا۔

گل چاہت اور مہر ملک کے اوقات بدل گئے۔لیکن ان کا فن اور کمانے کا طرز بھی عبدالرحیم اور عبدالواحد سے بہت اچھا ہے۔ اسلئے عبدالواحد کو گل چاہت اور عبدالرحیم کو مہرملک قرار دینا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ خوب شرارت بھی کرلی اور اپنی فطرت بھی دکھادی لیکن جس کمال مہارت سے خدا عزوجل نے بے نقاب کردیا تو پتہ نہیں کہ کس کس شرات کا بدلہ خدا نے اتارا ہوگا؟۔ میں اتنا پاگل نہیں تھا کہ مظفرشاہ وغیرہ کی بے گناہ موت کے بعد ان کی اولادوں پر بھی ہاتھ ڈالتا۔ مجھے اصل مجرموں کو ان کا چہرہ دکھانا تھا۔

میری والد ہ نے میرے دادا سے پوچھا تھاتو لیلة القدر کی شب مجرموں کو الگ کرنے کی بشارت بتائی۔ پاکستان بھی اسی رات کو بنا تھا۔ حاجی عثمانکی خلافت کا تعلق بھی لیلة القدر سے تھا اور مولانا عبید اللہ سندھی نے بھی سورة القدر کی تفسیر میں اس خطے سے انقلاب کی خوشخبری دی تھی۔ زیرو سے لینڈلارڈ نے چچا عبدالرؤف کو بھی زیروکیا اور اب بھی اسلام آباد کا مکان خالی کرنے کیلئے جس طرح کی بے شرمی سے جترالن کو آگے کیاتھا۔الحفیظ و الامان۔

جہانزیب نے منہاج سے کہا کہ تم ہماری تذلیل کرنا چاہتے ہو لیکن اصل میں عبدالخالق سے لیکر عبدالواحد تک کا مسئلہ ہے ، یہ اپنے مفاد کیلئے جس انداز کی منافقت کرتے ہیں ان کی حقیقت واضح کرنے سے دنیا کی اصلاح ممکن بن سکتی ہے۔مجرموں کا چہرہ کھل کر سامنے آئیگا۔ انشاء اللہ

ان بھائیوں میں عزت، غیرت اور ضمیر نام کی چیز نہیں تو سبھی انکے مفاد پر قربان ہوں؟ ۔ جہانزیب کو کرکٹ کیلئے استعمال کیا۔ دو نوںطرف ایک ایک چوتڑ رکھنے کی کوشش کو میں نے سید حسن شاہ بابو کے جھنڈے پر چڑھادیا۔ہاہاہا…

عبدالرحیم نے بتایا کہ”واحد اکساتا تو مارتا اور پھر پیسہ دیتا کہ والد کو مت بتاؤ۔ پھر سمجھ گیا کہ یہ جان بوجھ کرتا ہے تو میں نے خوب مارا اور پھر یہ ہمت نہیںکی”۔ جون کا مہینہ قریب تھا، عبدالواحد گل شیر کے مقابلے میں ولید کیلئے چکر میں تھا۔ کرش پلانٹ کا خزانہ واحد کی بہن کاخواب کانیگرم کی زمین کیلئے میری بھتیجی کا خواب تھا ۔ واحد نے کہا تھا کہ یہ خواب گھڑدیتے ہیں۔ خالد ایک طرف طالبان کی مدد کرتا تھا اور دوسری طرف کہتا تھا کہ امریکن ڈرون سے مارے جاتے ہیں تو دل ٹھنڈا ہوتا ہے۔ یہ منافقوں کا ٹولہ ہے۔

نوٹ… اس آرٹیکل کے بعد مزید تفصیلات جاننے کیلئے درج ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

(1)…”خاندانی بے غیرتی…. سحر ہونے تک ……تحریر: ڈاکٹر عبدالقدیرخان
(2)…”غیرت اور حیاء کی کوئی حدود نہیں ، یہ دلیل اوراسکے شواہد ہیں۔دنیا پرست خاندانی بے غیرت ہے جس کاکوئی ضمیر ہے اور نہ اس پر روک ٹوک”۔سورہ بلدکا عملی مظاہرہ نبیۖ نے ہند ابوسفیان کوپناہ دی تویزید پلیدنکلا۔ حسن شاہ بابو نے صنوبر شاہ کے یتیموں کو تحفظ دیاتویہ بلیلا نکلا۔ نبیۖ نے عبداللہ بن ابی سرح مرتد کا فرمایا : ” غلافِ کعبہ سے لپٹے تو بھی قتل کردو”۔ عثمان کی سفارش پر معافی قتل عثمان بن گئی !۔

اگلا آرٹیکل: غیرت ، حیاء اور سورہ بلد

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

شہداء31مئی 2007ء کو18 برس ہوگئے۔ بفضل تعالیٰ بہت بڑابریک تھرو ہوگیا۔ عبدالواحد نے آخرکارایک بہت بڑا”راز ” بتایا جس سے سراغ مل سکتا ہے!
چین نے پاکستان و افغانستان کی صلح کرادی: پاکستان نے چین و بھارت کی صلح کرادی تو امام بن جائیگا
قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن نے قرآنی آیت کی بہت کھل کرتحریف کردی ،مذہبی طبقے کی خاموشی جہالت ہے یا مفاد پرستی؟،فوری توبہ اور اصلاح کا اعلان کریں ورنہ پھر مجبوراً عدالتی کیس کرنا پڑے گا