پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کیلئے عدل و انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں
جولائی 16, 2018
نوشتۂ دیوارکے ایڈیٹر اجمل ملک نے کہا: کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور کٹھ پتلی بیانیہ رکھنے والی جماعتوں کے درمیان عدل وانصاف کے پیمانے مختلف ہیں۔ نوازشریف نے ساری زندگی کٹھ پتلی کی طرح گزاری، اب بھی شہباز شریف کو ن لیگ کا صدر بناکر کٹھ پتلی بننے کی راہ ہی ہموار کررہا ہے۔ 2013کے الیکشن میں ٹی وی چینل پرNA1پشاور سے دھاندلی کی خبر آئی اور گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی تمام جماعتیں کہتی تھیں کہ کھلا دھاندلا ہوا۔ اب تو انتخابات سے قبل ہی شور برپاہے۔ شہبازشریف طالبان سے کہتا کہ پنجاب میں دھماکے نہ کرو، ہم تمہارے ساتھی ہیں اور عمران خان ضرب عضب کے بعد تک پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالہ کرنے کی بات کرتا تھا۔ بڑی مشکل سے آرمی پبلک سکول واقعہ پرشمالی وزیرستان آپریشن کیلئے اتفاق رائے پیدا ہوا۔ اور اب بے شرمی سے دہشتگردی کے خاتمے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ جنکو دہشتگردوں کی حمایت پر چوکوں پر لٹکانا چاہیے تھا انکو باری باری اقتدار دیا جارہاہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا کمال ہے جو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ہے۔ ’’یہ جوسیاست گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘۔ بلوچوں کے بعد پختونوں کو کھودیا گیا تو پاکستان کا نقشہ بدل جائیگا۔ جبر کی زنجیر سے امریکہ بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آزادی کے بعد سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ نے نالائق سیاستدانوں کے ذریعے سے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کردیا ۔بیویوں سے وفا نہ کرنیوالا پاکستان سے کیا وفا کرے گا؟۔ مخلص کارکنوں، جماعت کے رہنماؤں اور قائدین سے جس نے وفا نہیں کی وہ ملک وقوم کا کیسے وفادار ہوسکتا ہے؟۔ووٹ اور نوٹ کی خاطر کونسا ڈرامہ نہیں رچایا ہے؟۔ غریب کارکنوں ، نظریاتی قائدین اور اے ٹی ایم مشینوں تک سے کوئی طبقہ وہ نہیں ہے جس سے بے وفائی کا مظاہرہ نہیں کیا ہو؟۔ وزیراعظم بننے کیلئے طالبان سے وہ بریلوی مکتب کی طرف بھی یوٹرن لے لیتا ہے۔ لوٹوں کے طوفان میں لٹو بننے والا نظریاتی نہیں ہوسکتا ہے۔ ہر الیکشن میں اس نے نظریے سے یوٹرن لیا ہے اور پھر پشیمانی کا اظہار بھی کرتا رہاہے۔ میجر رجنرل ظہیر الاسلام عباسی سیدعتیق الرحمن گیلانی کے پاس گومل گئے تھے تو وہاں ایوب خان بیٹنی سے ملاقات ہوئی۔ عباسی صاحب نے ایوب بیٹنی سے کہاکہ آپ نے عمران یہودی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا؟۔ عتیق گیلانی نے عباسی صاحب سے کہا کہ ضلع ٹانک میں JUIکا سب سے بڑا مرکز مولانا فتح خان کی جامع مسجد ہے اور جو دونوں کا مشترکہ مرکز تھا۔ مشکل حالات میں ایوب بیٹنی نے عمران خان کا ساتھ دیا تھا ،اگر آزاد حیثیت سے وہ الیکشن لڑتے تو جیت جاتے مگر عمران خان کیلئے خود کو ہرادیا۔ پھر ٹانک سے تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن داور خان کو ٹکٹ دیدیا اور ایوب بیٹنی سے ناطہ توڑ لیا۔داورخان کنڈی بھی شریف انسان ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی سیاستدانوں کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ نوازشریف70سالہ عمر میں محمود خان اچکزئی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ ’’اب میں بھی 100%نظریاتی ہوگیا ہوں‘‘۔ 70سالہ ہجڑا کہے اب میں پیٹ سے ہوں تو ممکن ہے کہ ہو مگر کٹھ پتلی 70بار جنم بھومی کے عقیدے کے مطابق بھی کبھی نظریاتی نہیں بن سکتاہے۔ البتہ نظریاتی لوگوں کو خراب کرنے کی بیماری لگا سکتاہے۔
لوگوں کی راۓ