عمران خان پاک فوج کے منہ پر کالک مل رہا ہے، اشرف میمن
مئی 24, 2018
پبلشر نوشتۂ دیوار تحریک انصاف کے سینئر صوبائی سابق صدر اورامیدوار قومی اسمبلی محمد اشرف میمن نے کہا ہے کہ عمران خان میں شرم اور غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ ایک طرف وہ پرویزمشرف کی بدنامِ زمانہ ریفرنڈم کا حامی تھا اور دوسری طرف امریکہ کے آگے فوج کے جھکنے کی مخالفت اور طالبان کی طرف سے فوج اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کھل کرحمایت کررہا تھا۔ جب فوج پر قومی ، اخلاقی اوربین الاقوامی دباؤ تھا تو عمران خان اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی طرح پاک فوج کا مورال گرانا چاہتا تھا۔ مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے جب مشرکین کی جہالت اور طاقت کا پلڑہ بھاری تھا اور امیر حمزہؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ جیسی بہادر شخصیات نے اسلام قبول کرلیا تو اللہ نے قتال کا حکم نہیں دیا اور اولی العزم صحابہؓ نے طعنہ زنی نہیں کی کہ اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں جو بزدلی اور مشرکین کے آگے سر جھکانا ہے بلکہ صلح حدیبیہ کے معاہدے پر کوئی بھی راضی نہ تھامگر صحابہؓ نے اپنی سیاست نہیں چمکائی تھی۔
یہ بہادری نہیں منافقت تھی کہ دہشتگردی کا دور دورہ تھا تو عمران خان ، نوازشریف اور شہباز شریف مولوی اور۔
تف ہے ایسی سیاست اور حماقت پر۔ تحریک انصاف آج کل پاک فوج کی عائشہ گلالی بنی ہوئی ہے۔ وہ تو پھر تحریک انصاف کا اپنا چہرہ تھا اور ایک پُر کشش خاتون تھی ، سیاست کے میدان میں فواد چوہدری اور دیگر ان سے کئی درجہ پارٹی بدلنے والے وہ کردار ہیں جو وقت اور حالات کیساتھ بدلتے بدلتے بے شرم و بے غیرت بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان پہلے زرداری کے تقدس کی قسمیں کھاتا تھا اور اب عمران خان کی کھاتا ہے لیکن وہ ایک پروفیشنل وکیل بھی ہے۔ وکیل ، صحافی اور سیاستدان سب ہی شرم وحیاء کے پہاڑ کو عبور کرکے غیرت کا جنازہ نکالتے ہیں اور عظیم اخلاقیات اور قومی اقدار کو تعفن کی فضاء میں دفن کرتے ہیں تو قوم کا انجام کیا ہوگا؟۔ جب قوم کی اخلاقی قدریں بحال نہیں رہتیں تو ایک بہت بڑا انقلاب قوموں کو سدھار سکتا ہے۔
نوازشریف پارلیمنٹ میں تحریری بیان پڑھ کر سناتا ہے کہ یہ ہیں اللہ کے فضل و کرم سے وہ اثاثے جن سے لندن کے فلیٹ خرید لئے۔ کورٹ میں قطری شہزادے کا عجیب خط آجاتاہے ۔ لیگی رہنما کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں استثنی حاصل ہے کہ جھوٹ پر اس کی پکڑ نہ ہوگی۔ جس پارلیمنٹ نے صادق و امین کو ضروری قرار دیا ہو وہاں جھوٹ کا استثنیٰ کیسے ہوسکتا تھا؟۔ آئین میں کردار اور کریکٹر کو بھی ضروری قرار دیا گیاہے لیکن یہ سمجھا جارہاہے کہ کریکٹر سے مراد کرکٹر ہے؟۔عمران خان واقعی کرکٹر تو ہے۔ بہادری کی بات کرتاہے توکراچی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے جس طرح بھاگنے پر مجبور کیا تھا اسکا میں چشم دید گواہ ہوں۔ طالبان دہشتگردوں نے نہ صرف فوج بلکہ پختون قوم اور تمام ریاستی اداروں کو جتنے بڑے پیمانے پر بہت بڑا نقصان پہنچایا، جس کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔ عمران خان نے ہمیشہ ان غنڈوں کی حمایت جاری رکھی۔ آج بھی طالبان کا غلبہ ہوجائے تو یہ فوج کیخلاف کھڑا ہوگا اور طالبان پسپا ہوجائیں تو فوج کیساتھ کھڑا ہے، منظور پشتین نے PTMکے پلیٹ فارم آواز اٹھائی تو پاک فوج نے چیک پوسٹوں پر نرمی کا مظاہرہ کیا، پھر عمران خان منظور پشتین کی حمایت کررہاتھا اور جب فضانے رخ بدلا تو آل راؤنڈر نے بیٹنگ کے بجائے بالنگ شروع کی، یہ وقت ایسا نہیں کہ پاکستان کی قیادت انتہائی نااہل اورناقابل اعتبار افراد کے سپرد کرنے کی حماقت کی جائے۔ جو عمران خان طالبان کے وقت میں فوج کے دفاع میں ایک لفظ بولنے سے بھی خوف کھاتا تھا، خدانخواستہ اگر بین الاقوامی سازش کا بحران آگیا تو عمران خان اور لوٹا سیاسی قیادت کوئی قربانی نہیں دینگے بلکہ جہاں طاقت ہوگی وہاں عمران خان کھڑا ہوگا۔نوازشریف اور شہباز شریف کے علاوہ زرداری بھی پاکستان کی سیاست ہی کو اپنی تجارت سمجھ رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کو ن لیگ کیلئے خفیہ طور پر پراکسی بنالیا ہے، سراج الحق نے بھی اپنے مفاد میں اسکو قبول کرلیا ہے۔ مینار پاکستان میں لاہوری اتنی بڑی تعداد میں پہنچ گئے تو یہ مذہبی جماعتوں کے ووٹر نہ تھے بلکہ نوازشریف کے چاہنے والوں کا جمع غفیر تھا۔ مولوی نکاح ، نمازِ جنازہ بھی پیسوں کی خاطر پڑھاتے ہیں ۔کالج ویونیورسٹی کے طلبہ کے ذریعے عوام میں ایک عظیم الشان تحریک برپا کرنیکی سخت ضرورت ہے۔ سیاسی سر گرمیوں کیلئے گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی محنت کی جائے تو عوام میں ایک شعور والے انقلاب کی تحریک اٹھ سکتی ہے، کھولی سیاست کا دور خود بخود ختم ہوگیاہے۔
لوگوں کی راۓ