منظور پشتین شدت پسندی کے تدارک کیلئے کام کریں
ستمبر 2, 2018
طالبان تبلیغی جماعت میں ایمان ویقین کی باتیں اور حوروں کے احوال سن کر خود کُش کیلئے تیار ہوتے تھے۔دہشتگردی کے عروج کے دور میں تبلیغی جماعت اور دہشتگردوں کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ اب شاید تعلقات وہ نہیں رہے ہیں۔ منظور پشین بھی تبلیغی جماعت کا کارکن اور شاگرد معلوم ہوتا ہے، پشتو کی ایک تقریر میں کہتا ہے کہ ’’ آرمی اور اسکے اداروں نے ہماری دنیا تباہ کی اور عقیدہ بھی خراب کرکے آخرت برباد کی ہے۔ ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت صرف اللہ کی ذات دیتی ہے مگر اب ہمارے لوگوں کا عقیدہ خراب ہوگیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی اور آئی ایس آئی کے ہاتھوں میں ہماری زندگی اور موت ہے‘‘۔
منظور پشتین جاہل دیندار ہے، یہ سبق تبلیغی اساتذہ سے سیکھا ۔ قرآن وسنت میںیہ عقیدہ و ایمان نہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے نمرود سے کہا کہ ’’میرا اللہ زندگی اور موت دیتا ہے‘‘ تو نمرود نے ایک بے گناہ کوقتل کیا اور گناہگار کو چھوڑ دیا اور کہا کہ یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ پھر ابراہیم ؑ نے کہا کہ میرا ربّ سورج کو مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب کرتا ہے تو کفر والا مبہوت ہوگیا۔ جادو گر موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر ایمان لائے تو فرعون نے دھمکی دی کہ میں تمہیں سولی پر چڑھاؤں گا، ہاتھ پیر کاٹوں گا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’ تم ہماری اس زندگی کا فیصلہ کرسکتے ہو، آخرت اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم نے آخرت خراب نہیں کرنی ہے‘‘۔ تبلیغی اکابر دہشتگردوں کے سامنے بھی حق بات نہ کرسکے تھے ۔
موسیٰ علیہ السلام کا ایمان نبوت و معجزات سے وہ نہ بن سکا جو تبلیغی جماعت کے پنجابی حاجی عبدالوہاب عوام کا بنانا چاہتا ہے جسے قابلِ اعتماد محسود دوست نے دھوکہ دیا۔ نبیﷺ نے چھپ کر ہجرت فرمائی،قرآن وسنت کا ایمان وعقیدہ یہ نہیں۔ منظور پشتین میری بات نہ مانیں لیکن مکین وزیرستان کے مولانا حفیظ اللہ صاحب مرحوم پہلے پکے تبلیغی تھے اور پھر ایک پختون پیر کے مرید بن گئے اور غلط عقیدہ وایمان پر تبلیغی جماعت کو کافرکہا۔ مسلمان کا عقیدہ وایمان قرآن وسنت کی تعلیمات میں موجود ہے۔اللہ کے احکام قرآن میں ہیں کسی کے فرمودات نہیں۔
منظور پشتین کو غلط عقیدے وایمان سے اعلانیہ توبہ کرنے کیساتھ اپنی خواتین کی عزتیں بچانے کیلئے حلالہ کے مسئلہ پر بھی قرآن وسنت کے مطابق باہمی صلح پر رجوع کیلئے اپنی پشتون قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔ مولانا گل نصیب خان سینیٹرJUI نے کہا کہ ’’ فوجی ہماری خواتین کی عزتوں کو لوٹنے کیلئے اغواء کرتے ہیں‘‘۔ اگر یہ سچ ہے تو اس میں ملوث لوگوں کو قرارِ واقعی سزا دی جائے لیکن جب تم نے لوگوں کو حلالہ کا عادی بناکر بے غیرت اور لعنتی بنادیا ہے تو اپنے قصور پر بھی ضرور غور کرو۔ خان عبدالغار خان عرف باچا خان کے دور میں پختون خواتین کی منڈی لگتی تھی ۔ گائے بھینس کی طرح خریدی گئی خواتین وزیرستان کے شہر کانیگرم میں بھی تھیں۔ باچا خان نے اسکے خلاف کبھی آواز اٹھائی ہو، مہم چلائی ہو، تحریک اُٹھائی تو لا الہ الا اللہ کے بعد تم محمد رسول اللہ کے بجائے باچا خان رسول اللہ کہتے، اسلامستان کے بجائے پختونستان بناتے اسلئے کہ کلمہ گو ایکدوسرے کو کافر، مشرک اور گستاخان کہتے ہیں اور پشتوفلسفہ میں حلالہ کی بے غیرتی بھی ختم ہوتی مگر باچا خان نے تو یہ معمولی کام بھی نہ کیا، جرمنی کے فنڈز سے کانگریس کی تحریک میں مالی مفادات تھے اور اس کی وجہ سے عبدالصمد اچکزئی اور غفار خان کے خاندان عروج پر تھے۔ عوام پیٹ بھرنے کی فکر سے آزاد نہ تھی اور یہ لوگ لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ عوام کے سامنے سارے حقائق کھول کر لائے بغیر کام نہیں چلے گا۔
اجتہادات کا تعلق شرعی مسائل سے نہیں بلکہ عدالتی احکام سے ہے۔ قاضی یا جج دو فریق کے درمیان فیصلہ کرنے میں قرآن وسنت کی رہنمائی نہیں پاتا اور اپنی ذہنی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے انصاف فراہم کرے تو یہ اجتہاد ہے۔ 14 اگست کو ایک غیرملکی خاتون سیاح نے اپنے انداز میں پاکستان کی یومِ آزادی کی مناسبت سے ہری قمیص اور سفید شلوار پہن کر جھنڈے کے ساتھ رقص کیا تونیب کے چےئرمین جسٹس ریٹائرڈ نے توہین جھنڈے کی کرپشن کا نوٹس لے لیا۔ لوگ حیران تھے کہ نیب کے چےئرمین کو ہوا کیا ہے؟۔ جس بات پر پاکستانیوں کو خوشی ہو اس پر ناراضگی کا کیاتُک بنتا ہے۔سابق چیف جسٹس کی ذہنی کیفیت اتنی گھٹیا ہوتو تھانے کی پولیس اور فوجی سپاہیوں کی ذہنی حالت کیا ہوگی جو اس قوم کو روزانہ کی بنیاد پر ڈیل کرتے ہیں؟ الیکشن کمشنر سردار رضا اور چےئرمین ہلال مفتی منیب کا کردار سوالیہ نشان ہیں۔ الیکشن کی وجہ سے پوری قوم ڈسٹرب رہی لیکن دوسرے اور تیسرے دن بھی نتائج کا نہیں گنتی کا عمل بھی جاری رہا ۔ ایسے میں سردار رضا کو اپنا استعفیٰ دینا چاہیے تھا۔ پوری دنیا میں حج ایک ہی ہوتا ہے لیکن ہماری قربانی کی عید بھی دنیا سے الگ ہوتی ہے۔ عالمِ اسلام کی امامت کرنے کے قابل پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں نے طوفانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔
منظور پشتین نے بی بی سی پشتو سروس کو انٹرویو سے اپنا گراف گرایا، نہ یہ کہہ سکا کہ میری اجازت سے الیکشن میں حصہ لیا، نہ یہ کہہ سکا کہ میری نافرمانی کرکے الیکشن میں شرکت کی۔ گومگوں سے بہتر تھا کہ کھلے الفاظ میں کہتا کہ ’’ علی وزیرنے پہلے بھی الیکشن لڑا، PTMکو یہ حق نہ تھا کہ اس کو منع کرتی۔ محسن داوڑ کی پوزیشن ایسی تھی کہ جیت سکتے تھے اسلئے انکا فیصلہ درست تھا، الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ اسلئے نہ کیا تھا کہ دوسری پارٹیوں کے ووٹ تقسیم کرکے مخالفت کی فضاء اپنے لئے نہیں بنانا چاہتے تھے، میں ذاتی طور پر الیکشن میں حصہ لیتا تو کامیاب نہ ہوتا‘‘ ۔ منظور پشتین ساتھیوں کی عزت بڑھاتا، اب سینیٹر بن کر غلطی کا ازالہ کرنا چاہیے۔ انسان غلطی کا پتلا اور غلطی سے سیکھتاہے۔ہم معلوم و نامعلوم، مذہبی وسیاسی، تمام پرانی اور نومولودتحریکوں کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
محسن داوڑ نے میرانشاہ کے بڑے اجتماع میں احتجاج کی پاداشت میں شہید ہونے والے کانام لیکر کہا کہ ’’ اس نے اپنی قوم ، اپنی مٹی اور اپنے وطن کیلئے قربانی دی اور اس کی قربانی کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج ہمارے دھرنے کو اتنا وقت ہوا ہے لیکن اس پُر امن احتجاج میں ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹا ‘‘ ۔ محسن داوڑ کی تقریر میں کھلا تضاد تھا۔ احتجاج کے دوران یہ سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے کہ مظاہرین توڑ پھوڑ کررہے تھے اور پھر فوجی سپاہیوں کی چوکی پر چڑھ دوڑنے کی کوشش کی۔ اگر وہ گولی نہ مارتے تو مظاہرین کے ہاتھوں مارے جاتے۔ محسن داوڑ اپنے لئے پُرامن احتجاج اور عوام کیلئے چوکی پر چڑھنے کو سراہتے ہیں تو یہ کھلا تضاد ہے۔ یہ سمجھانا چاہیے تھا کہ تم لوگوں نے مجھے منتخب کیا، جب میں اپنے لئے چوکیوں پر چڑھ دوڑنا پسند نہیں کرتا توتمہاری حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا۔ یہ کونسی شہادت ہے کہ چوکیوں پر چڑ ھ دوڑو اور گولیاں لگ جائیں تو واپس لوٹ کر سمجھو کہ ہم کامیاب ہیں، فوجیوں کو اشتعال دلایا ،وہ بدنام اور تم نیک نام ہو۔یہ گھٹیا حرکت ہے، ایسی مزاحمت کرتے کہ خاتون پر ہاتھ ڈالاگیا یا ناحق کسی پر ظلم کیا تو جر أتمندی کا مظاہرہ کرکے شہید ہوگئے!کیا قوم خلعت افغانیت سے عاری ؟
لوگوں کی راۓ