پاکستان کی نظریاتی ریاست ( حقائق کے تناظرمیں)
جولائی 16, 2018
پاکستان کے دامن میں خلوص کے سوا کچھ نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ ہندوؤں کا متعصبانہ رویہ دیکھ کر مسلم لیگ کی کیمپ میں شامل ہوگئے۔ مسلم لیگ کیا تھی؟۔ نفرت پھیلانے میں انگریز سرکار کی ایک وفادار کٹھ پتلی جماعت!۔ البتہ اس میں نظرےۂ خلافت کے علم بردار محمد علی جوہر اور علامہ اقبال جیسے جدوجہد کرنے والے مخلص لوگ بھی تھے۔ قائداعظم نے بھی کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کردی۔ فرقہ وارانہ اور سیاسی مذہبی جماعتوں نے کھل کر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے کی زبردست مخالفت شروع کی۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں لاالہ الااللہ
مشرقی اور مغربی پاکستان وجود میں آگیا، کیونکہ ایک طرف ایک قومی نظریہ تھا جو متحدہ ہندوستان کا تقاضہ کررہاتھا اور دوسری طرف دوقومی نظریہ تھا، ہندومسلم دو الگ الگ ملتیں ہیں جو ہندوستان کی تقسیم اور نظریۂ پاکستان کا تقاضہ کررہاتھا۔ 2013ء کے الیکشن پر تحریک انصاف کا الزام تھا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چوہدری افتخار کی قیادت میں فوج اور عدلیہ نے مل کر ن لیگ کو دھاندلی سے جتوایا اور اب ن لیگ الزام لگارہی ہے کہ فوج اور عدلیہ مل کر ن لیگ کو آؤٹ اور تحریکِ انصاف کو اقتدار میں اِن کررہی ہے۔ 2013ء میں دونوں میں کانٹے کا مقابلہ ہورہاتھا اسلئے پتہ نہیں چل رہاتھا کہ اقتدار ن لیگ کو ملے گا یاتحریک انصاف کو مگر دونوں اسٹیبلشمنٹ کی منظورِنظر جماعتیں تھیں۔ طالبان کے جگری یار وں میں پتہ نہیں چل رہاتھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا گودی بچہ کون بنے گا؟۔ ایم کیوایم، پیپلزپارٹی، اے این پی اور طالبان کی سرپرست سمجھی جانے والی مذہبی جماعتوں جمعیت علماء اسلام اور جماعتِ اسلامی کی قیادت بھی دہشت گردوں کے نشانے پر تھیں۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور اسٹیبلشمنٹ کٹھ پتلی بیانیہ ہمیشہ رہاہے مگر اس کو حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب پاکستان بن گیا تو سیاسی قیادت محمد علی جناح، فاطمہ جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان اور بیگم راعنا لیاقت علی خان پر مشتمل تھی۔ قائد اعظم فوت ہوگئے۔ لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ پاکستان پر سول بیوروکریسی کی حکومت تھی۔پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔ مہاجر بڑی تعداد میں بھارت سے آئے تھے، بعض نے محسوس کیا کہ اسلام محض دھوکہ تھا اور جنکے پاس باہر جانے کی گنجائش تھی وہ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔ ہندؤں کی جگہ زمین و مکان کے غلط کلیموں و قبضہ نے پاکستان میں بے ایمانی ، بے انصافی اور دھوکہ بازی کی بنیاد رکھ دی۔انگریز کی بدترین غلام سول وملٹری بیوروکریسی کو اقتدار مل گیا، نااہل لوگ بڑی پوسٹوں پرآئے جسکے نتیجے میں سیاسی ، نظریاتی اور اسلامی لوگوں کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ انگریز نے بھی وہ مظالم نہ کئے ۔ ختم نبوت کی تحریک میں شامل لوگوں کو غیرمسلم و غدار قرار دیا گیا ۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو خوف کے مارے داڑھی منڈوانی پڑگئی۔ لیگی علماء ومفتیان نے ختم نبوت والوں کو کانگریس کا ایجنٹ، ملک اور اسلام کا غدار کہنا شروع کیا تھا۔
حبیب جالب اور مولانا عبدالستار خان نیازی کی دوستی تھی، حبیب جالب کی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ’’ مولانا عبدالستار خان نیازی میرے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں فرمایا کہ’’ جالب کو میرا سلام دینا‘‘۔ حبیب جالب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ بھٹو نے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ شراب پر پابندی لگائی تھی اور اس کی سزا اس کو مل گئی، کیونکہ شراب واحد وسیلہ تھا کہ جو پی کر آمروں اور ظالموں کے سامنے حق کی آواز بلند کی جاسکتی تھی‘‘۔ جبکہ قرآن میں شراب کے اندر منافع کا ذکر ہے اور ابتدائے اسلام میں اس پر پابندی نہیں تھی اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے سے بڑا فائدہ شراب کا نہیں ہوسکتا ۔
جب پاکستان میں سول بیوروکریسی نے انصاف اور اسلام کا کباڑہ کیا تھا تو جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے لیکن اگر وہ اقتدار پر قابض ہوں تو اچھی ریاست ، سیاست اور صحافت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ فاطمہ جناح پر بھی ایجنٹ کے الزامات لگے۔ سول بیوروکریسی میں مہاجرین اکثریت تھی اور سیاست ولی خان، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد خان اچکزئی شہید، عطاء اللہ مینگل ، حاکم علی زرداری ، جالب اور نوابزادہ نصر اللہ خان ومفتی محمود جیسے قائدین کے ہاتھوں میں تھی۔جنرل ایوب کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو میدان میں لایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور مہاجرین کی سول اسٹیبلشمنٹ کا ناطہ توڑ کر سندھ اور پنجاب کا گٹھ جوڑ کرادیا۔ مہاجروں کی سول بیوروکریسی کو بڑے پیمانے پر اقتدار سے باہر کیا۔ بھٹونے غلام سول بیوروکریسی کے قبضے سے اقتدار چھڑانے کیلئے میرٹ کا بھی خاتمہ کردیا۔ کوٹہ سسٹم سے نالائق طبقوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا۔ پھر بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرلی اور بھٹو نے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا، بڑی تعداد میں قید ہونے والی پاک فوج کو بھارت کی قید سے آزادی دلائی گئی۔
قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو قائدِعوام کا خطاب ملا۔ بھٹونے قادیانی کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا، اسلامی کانفرنس سے اُمہ کو اکٹھا کرنے کا آغاز کیا، اتوار کی جگہ جمعہ کی سرکاری چھٹی کی، افغانستان میں روس کیخلاف مجاہدین کی تربیت شروع کی، ایٹم بنانے کا اقدام اورسیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی دہلیزتک پہنچاکر دم لیا مگر ایک آمر کا تربیت یافتہ جمہوری کیسے بن سکتاتھا؟، الیکشن میں لاڑکانہ سے اپنے خلاف کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے پر جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالد کھرل کے ذریعے اٹھاکر بند کرادیا ۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ اُلٹ دیا تو تمام سیاسی جماعتوں کے قائد بغاوت کے مقدمے میں قیدو بند کی زندگی گزار رہے تھے۔ جنرل ضیاء نے رہائی دلائی تو جنرل ضیاء الحق نے قائد جمہوریت کے نام پر محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا اور پھر خود ہی اس کی حکومت کو تحلیل بھی کردیا۔ سیاسی جماعتوں نے ایم آر ڈی بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی۔ جنرل ضیاء حادثی موت کا شکار ہوگئے تو بینظیر بھٹو کو اقتدار مل گیا لیکن اس نے صدارتی امیدوار کیلئے نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو نوازشریف کیساتھ مل کر سپورٹ کیا۔ غلام اسحاق نے پہلے بینظیر بھٹو اورپھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نواز شریف کی حکومت کو چلتا کردیا، پھر پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو اپنے صدر فاروق لغاری نے بینظیر کو چلتا کردیا اور پھر دو تہائی اکثریت سے ن لیگ کی حکومت آئی تو جنرل مشرف کو ہٹایا گیا لیکن جنرل ضیاء الدین بٹ کو گرفتار کرکے ن لیگ کی حکومت ختم کردی گئی۔
پھر جنرل پرویز مشرف کے ریفرینڈم نے عمران خان کا تحفہ پاکستان کو دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کی تباہی اور کوٹہ سسٹم سے مہاجر تحریک کی بنیاد رکھ دی، جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کی حمایت کرکے طالبان دہشت گردوں کی بنیاد رکھ دی۔ ضیاء الحق نے افغان مجاہدین اور نصیراللہ بابر نے طالبان بنائے تھے۔
لوگوں کی راۓ