منظور پشتین مظلوم پنجابیوں کیلئے تحریک اٹھاتا تو کامیاب ہوجاتا: امین اللہ کوئٹہ
اپریل 18, 2018
جنوبی وزیرستان کے منظور پشتین میں انسانیت کا درد ہے مگر تعصب نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محسود قبائل نے یہ درد محسوس کیااور ساتھ دیا، دوسروں سے زیادتی کا پتہ چلا تو محسود تحفظ موومنٹ کوپختون تحفظ موومنٹ میں بدل دیا۔ سوات سے کوئٹہ تک دُکھے دلوں کی آواز منظور پشتین کہتا ہے کہ طالبان ظلم کریں یا ریاستی ادارے، میں ہر ظالم پر لعنت بھیجتاہوں۔ قبائل تاریخی مظالم میں پس چکے۔ اگر اس تکلیف، مصیبت، درد، ظلم، جبر، بے عزتی،جان، مال اور عزتوں کی لوٹ مار سے کوئی دوسری قوم دوچار ہوتی تو اس کی نسلیں بھی نہیں اُٹھ سکتی تھیں۔ اسلام کی نشاۃ اول کے وقت پہلی ہجرت حبشہ اور دوسری مدینہ ہوئی تھی۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کی خوب عزت افزائی کی۔ انصار مدینہ نے مہاجرین کیلئے بھائی چارے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنیوالے انگریز کی جگہ اقتدار کا مالک بنے، مہاجر افغان کی دنیا بھر نے خوب مدد کی لیکن وزیرستان سے ہجرت پر مجبور ہونیوالوں سے انتہائی بدسلوک روا رکھا گیا۔
سید عتیق الرحمن گیلانی کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ ایک گھر والی سندھی اور دوسری بلوچ ہیں۔ اکثر بچوں کی پیدائش شکار پور اور کراچی میں ہوئی۔ معروف ماہنامہ ضرب حق کراچی کے 10سال تک چیف ایڈیٹر رہے، کئی کتابوں کی تصنیف کے علاوہ ملک بھر سے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام ، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی تائید، سندھ پولیس و بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران کی تحریری و شائع شدہ تائید رہی۔ چین کیلئے پولیس سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی تھا ۔ ڈان اخبار میں تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ عتیق گیلانی پر ٹانک سے جاتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور اسکے بعد کراچی مستقل رہائش اختیار کرلی تھی،تمام اخبارات میں خبر لگی تھی کہ پیر عتیق گیلانی کے گھر پر طالبان نے حملہ کیا اور 13افراد شہید کردئیے۔ ٹی وی چینل، اخبارات کے علاوہ دنیا بھر کی میڈیا میں خبر رپورٹ ہوئی لیکن اسکے باوجود جس طرح طالبان نے رات کی تاریکی میں شبِ خون مارا۔ پاکستان کے لائق انٹیلی جنس اداروں نے اپنے لاؤ ولشکرکے ساتھ عتیق گیلانی کے گھر پر چھاپہ مارا۔ پورا علاقہ گھیرے میں لیا اور بلڈنگ کی دونوں لفٹوں کو بھی قبضہ میں لے لیا تھا۔
گھروالوں کے دل ودماغ سے طالبان کا خوفناک حملہ نہیں مٹا تھا کہ ’’ یہ بہادر گھر میں گھس گئے اور سید حمزہ کو ایک قدآور پولیس انٹیلی جنس افسر یا سپاہی نے زور دار تھپڑ رسید کیا اور پوچھا کہ’’ تمہارا باپ کہاں ہے‘‘ ۔یہ ظلم و جبر کی تاریخ رقم کرنے والی بزدل ریاست کے ظالم اہلکار کاوہ ہاتھ تھا جس نے انگریز کے بعد غلامانہ ذہنیت کا طوق اپنی گردن سے نہیں اتارا ہے، جسکے وزیراعظم کوآج ننگا کیا جاتاہے تو قانون کی پاسداری قرار دیتاہے۔ جسکے جوان عتیق کوامریکی اتاشی اسلام آباد میں سگنل توڑ کر اڑادیتا ہے لیکن پولیس اس کو چھوڑ دیتی ہے اور ہمارا دفتر خارجہ صرف احتجاج ہی کرتا ہے۔
عتیق گیلانی نے اپنے صاحبزادے کا نام حمزہ رکھاہے اور جب ان کو زور دار تھپڑ مارا گیا تو وہ حواس باختہ نہیں ہوا۔ بلکہ تھپڑ مارنے والے ظالم سے ڈٹ کر کہا کہ جب تک تم نہیں بتاؤ کہ مجھے تھپڑکیوں مارا ہے ،اس وقت تک تم نے جو کچھ بھی کرنا ہے کرلو، میں کچھ بھی نہیں بتاؤں گا۔
یہ قصہ اسلئے لکھ دیا کہ منظور پشتین غیرملکی ایجنڈے پر کام نہیں کررہا بلکہ بے گناہ لوگوں کیساتھ جو زیادتیاں ہوگئی ہیں اسکا سلسلہ روکا جائے۔ عتیق گیلانی کیساتھ یہ معاملہ ہواتھا تو دوسروں کیساتھ کیا نہ ہوا ہوگا؟۔ البتہ ریاستی اہلکار اخلاقیات سے عاری ہیں ، ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام نہیں ۔ نااہل نوازشریف نے پارلیمنٹ میں اقرار کیا کہ اثاثوں کا اللہ کے فضل وکرم سے میرے پاس تمام ثبوت ہیں، فیصلے چوکوں پر نہیں عدالتوں میں ہوتے ہیں اور حسین نواز نے بھی میڈیا پر کہا تھا کہ ’’میں عدالت میں اپنا ثبوت پیش کروں گا‘‘۔ ڈکٹیٹر شپ میں میڈیا پر پابندی لگتی ہے اور ملزم اپنا ثبوت و ریکارڈ میڈیا پر بھی پیش نہیں کرسکتا۔ ن لیگ کی حکومت ہے اور میڈیاکو حکومتی اشتہارات سے خرید اہے اور صحافی صحافت کے بجائے وکالت کرتے ہیں۔ذہنی پستی کا شکار جمہوریت کا نام لیکرقیادت کرپشن کی لڑائی میں کہہ رہا ہو کہ’’ پارلیمنٹ کی تقریر اور قطری شہزادے کے خط سے جو کالک اپنے منہ پر ملی تھی واجد ضیاء اس کو صاف کررہاہے‘‘ لیکن پھر بھی اپنے حواری اور مشرف کے لوٹے ہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن، حاصل بزنجو، اسفندیار ولی ، اچکزئی بھی اس بیانیہ کو سپورٹ کررہے ہوں۔ متحدہ مجلس عمل کو بھی زکوٰۃ و خیرات سے اپنا ٹاؤٹ بنالیا تو قوم کہاں جائے گی؟۔ باقی سیاسی قیادتوں اور برساتی مینڈکوں کا حال بھی مختلف نہیں۔ عمران خان کے دور میں واقعی تبدیلی آ نہیں رہی ہے بلکہ تبدیلی آگئی ہے۔ پہلے سینٹ کیلئے ارکان بکتے تھے ۔ عمران خان نے اپنے ارکان کو اسلئے پیسے دینے شروع کئے کہ دوسرے خریدلیں تو ہم اپنے ارکان کو خود ہی خرید لیں۔ اس دلالی میں اپنا اُلو بھی سیدھا کرلیا لیکن بعض ارکان نے شاید پھر بھی دھوکا دیدیا۔
آصف زرداری نے محسوس کیا کہ ن لیگ کو سہارا نہیں دیا جارہاہے تو اعلان کردیا کہ’’ میں اسے گراکر دکھاؤں گا‘‘۔ طاہرالقادری کے اسٹیج کیلئے اس بے غیرتی کو بھی برداشت کرلیا کہ عمران خان سے پہلے اپنا منحوس چہرہ اسٹیج سے غائب کردونگا۔ اگر لاہوری باربار طاہرالقادری کو اینویں (پنجابی میں ایسے ہی) ڈگڈی بجاتے ، بندر ناچ گاتے نہ دیکھ چکے ہوتے تو اس ڈرامہ کو کامیابی مل سکتی تھی۔ ڈرامہ کامیاب ہوتا تو زرداری نے کہتا کہ ’’ میں نے حکومت گراکر دکھائی ہے‘‘ جب سیاستدان اس قدر گھٹیا بن جائیں بلکہ گھٹیالوگوں کے ہاتھوں میں قیادت آئے تو یہ قیامت کی علامات ہیں اور اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ سیاستدانوں کی بہت گھٹیا حرکتوں کی وجہ سے سیاست کا بہترین شعبہ بدنام ہوا ہے۔
پنجاب میں اصولوں، اعلیٰ اخلاقی اقدار ، بہترین روایات اور انسانیت کے اعلیٰ معیار کی کمی نہیں۔ ناکارہ اور لاوارث گدھا بھی کوئی غلطی سے مار دے توپٹھان قیمت وصول کرتا ہے۔ 80سال کی بوڑھی ماری جائے جسکا شوہر 20سال پہلے مرچکا ہو تو وارث یہ دعویٰ کرنے سے نہیں شرماتے کہ ایکسیڈنٹ پر غریب ڈرائیور دو افراد کی دیت دے، بڑھیا کے پیٹ میں بچہ بھی تھا۔ پنجاب میں اکلوتا بیٹا غلطی سے ماردیا جائے تو غریب باپ ایک پیسہ لئے بغیر معاف کردیتا ہے اور معاف کرنے میں احسان کا احساس بھی نہیں رکھتا، اس کو اللہ کی مرضی اور مقتول کا مقدر قرار دیتا ہے۔ آصف زرداری بے غیرت سیاسی قیادت کا ایک بے غیرت کھلاڑی ہے لیکن پرویزمشرف کو چلتا کرنے میں پنجاب کی حکومت کا موقع گنوادیا، شہبازشریف کی گالی برداشت کی، نوازشریف سے کہا تھا پہلے آپ کی باری ہے، کابینہ کا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو بنایا۔ رات کی تاریکی میں شہبازاورجنرل کیانی کی ملاقاتوں سے تنگ آکر کئی بار کہا کہ صدارتی محل سے میری لاش ایمبولینس میں جائیگی۔ ن لیگ کیلئے پھر ان کی مشکلات کے دور میں پنجاب کے وفادار ساتھیوں کی ناراضگی مول لیکر سہارا بننے سے دریغ نہ کیا۔ نوازشریف کی بے وفائی کو خاطر میں نہ لایا ۔ 18ویں ترمیم میں صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کردئیے۔ دوتہائی نہیں 75فیصد ووٹ حاصل کرکے تین تہائی ووٹوں سے صدر مملکت بن گئے۔ ووٹ کو عزت دینے کی ڈگڈگی بجانے والا نوازشریف غیرت، حمیت، اقدار ، رسم وروایت سے اتنا عاری ہے کہ سندھی صدر مملکت جب نوازشریف کے بھائی عباس شریف کی تعزیت کیلئے جانا چاہ رہاتھا تو نوازشریف نے تعزیت کیلئے بھی آنے سے منع کیا۔واہ واہ۔
اسٹیبلشمنٹ نے چن چن کر بے غیرتوں کا انتخاب سوچی سمجھی سازش کے تحت اپنے مفاد کیلئے کیا تاکہ ذلت ورسوائی کی آخری حدوں کو پار کرسکیں۔ منظور پشتین نام مظلوم تحفظ موومنٹ رکھ دیں اور پنجاب کے غیور عوام کی عزتوں کو بے غیرت نسل کے بدمعاشوں سے تحفظ فراہم کریں۔ جن کا پیشہ یہ ہے کہ اقتدار ، اختیار، کرپشن اور شہرت حاصل کرلو، عزت کی بات نہیں، عزت تو شوہر کے ہوتے ہوئے لٹ جانا معمول ہے جبکہ طاہرہ سید اور بشری بی بی کی کہانیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ نوازشریف کی قیادت نے عوام میں یہ جذبہ پیدا کردیا کہ لاہور میں ڈاکٹر نے ایک عیسائی خاتون کو تھپڑ مارا۔ احتجاج پر ڈنڈوں سے ایک عیسائی کو مار ڈالا، اس سے پہلے بھی میاں بیوی عیسائی جوڑے کو آگ کی بٹی میں جلا ڈالا گیا تھا۔ گوجرانوالہ میں ایک شخص نے کھانا میں دیر کرنے پر اپنی دادی اور بہن کو ڈنڈے مار مار کر قتل کیا اور دوسری بہن کو زخمی کردیا۔ سندھ کے شاہ رخ جتوئی کا قصہ بھی موجود تھا کہ دوسرے جتوئی نے گانیوالی کو ناچنے کا حکم دیکر مار ڈالا۔ یہ ذولفقار علی بھٹو کا شہر ہے جہاں حبیب جالب کی آواز گونجتی ہے کہ ’’ لاڑکانہ چلو، ورنہ تھانہ چلو‘‘۔ پختون قوم سردار اور کسی لیڈر کو نہیں مانتی ۔ قوم کا اجتماعی شعور فیصلہ کرلے تو کوئی قائد بن سکتا ہے۔ قیادت کی اہمیت بالکل بھی نہیں ہوتی ہے۔
منظور پشتین سے معذرت کیساتھ PTMکی مثال کتیا کے پیچھے جمع ہونے ہونیوالے ریلے سے مختلف نہیں، جو کوئی خطرہ بن سکے۔ پنجاب کے مظلوموں کیلئے اٹھتے تو نظریاتی لوگ مل سکتے تھے۔ شک نہیں کہ تعصبات کی آگ خطرہ ہوتی ہے لیکن پٹھانوں کو تعصبات کی آگ میں جھونکا گیا تو آپس میں ہی ہڈی ڈالنے پر لڑپڑینگے۔ پختون قوم خیر کاکام کرے تو اس کو بہت راست آئیگا۔ طالبان کے بعد لسانی تعصب کو ہوا دینا بہت غلط ہے۔ محمود اچکزئی اور اسفندیار ولی نے آخر اسوقت نوازشریف کی گود میں پناہ لی جب کشتی ڈوب گئی۔
لوگوں کی راۓ