پوسٹ تلاش کریں

اسٹیبلشمنٹ مخالف اور اسٹیبلشمنٹ سے ہمدردانہ بیانیہ

اسٹیبلشمنٹ مخالف اور اسٹیبلشمنٹ سے ہمدردانہ بیانیہ اخبار: نوشتہ دیوار

such-tv-tehreek-e-khilafat-maulana-abul-kalam-azad-liaquat-ali-khan-shaykh-ul-islam-ptm-ahle-bait-fatawa-alamgiri-khilafat-e-usmania-ameer-muawiya-maulana-fazal-ur-rehman-mustafa-kamal

برصغیر پاک وہند کا قبضہ انگریز اسٹیبلشمنٹ نے چھوڑا ۔ ووٹ کی طاقت سے اس کو تقسیم کیا ۔ MQM کے خالد مقبول صدیقی نے الیکشن مہم کی آخری تقریر میں کہا کہ ’’ قربانیاں مہاجروں مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی،سر سید احمد ۔۔۔ نے دی اور فوائد انگریز کے بہترین غلاموں نے اٹھائے۔ بہترین غلام ہی بدترین حاکم ہوتا ہے۔ انگریز کے غلام ہم پر اقتدار کیلئے مسلط ہوگئے ہیں‘‘۔
سچ ٹی وی کے نصرت مرزا نے لکھاکہ ’’ برطانوی سامراج نے ملک کی تقسیم کو اپنے مفاد میں اسلئے سمجھا کہ مغربی پاکستان کے ذریعے روس کا رستہ روکناتھا‘‘۔ تحریک آزادی چل رہی تھی تو کانگریس و مسلم لیگ میدان میں تھے۔ اسفندیار ولی کے دادا باچا خان سرحدی گاندھی اور محمود اچکزئی کے والد عبد الصمد خان شہید بلوچستان کے گاندھی کہلاتے تھے۔ جمعیت علماء ہند کانگریس کی حامی جماعت تھی اور مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کا نظریہ بھی جمعیت علماء ہند والا تھا ، بقول انکے پاکستان بنانے اور ہند کو تقسیم کرنے کے گناہ میں وہ شریک نہ تھے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی کا نظریہ نہیں بلکہ ملک کی خدمت اور استحکام انکا فرض ہوتا ہے ۔ آزادی سے پہلے پاک وہند کی فوج ایک جان اور ایک قالب تھے۔ ہماری فوج انگریز کی غلام نہیں بلکہ انگریز حکمران تھا اور فوج اس کی ملازم تھی البتہ برصغیر پاک وہند پر انگریز کا قبضہ تھا اور اس میں مقامی فوج اور گورے ملازم ہوا کرتے تھے۔ پاکستان آزاد ہوا تو پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔انگریز کیخلاف جن لوگوں نے قربانی دی، ان میں گانگریس ، جمعیت علماء ہند، تحریک خلافت، احرار،حر، خاکسار اور مرزا علی خان فقیر اے پی،وزیر محسودقبائل اور بلوچ وپنجابی قبائل شامل تھے۔
آزادی کیلئے برطانیہ نے جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کو شرط قرار دیا تو برصغیر کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کا اس پر اپنا اپنا مؤقف تھا۔ انگریز مخالف اور آزادی کیلئے قربانی دینے والے کھل کر جرمنی کیخلاف انگریز کی مدد کرنے میں کیا کردار ادا کرتے؟ جبکہ ان کو انگریز کیخلاف مالی سپورٹ بھی جرمنی کی طرف سے ملتی تھی؟۔جو انگریز کیخلاف عدمِ تشدد کی جنگ لڑرہے تھے وہ جرمنی کیخلاف جہاد کرنے کا اعلان نہیں کرسکتے تھے۔ برصغیر کی فوج آزادی کے جذبے سے گئی یا یہ ملازمت کی مجبوری تھی یاانعام واکرام کی طمع تھی جو غرض تھی سوتھی ۔ فوجیوں کا فلسفیانہ نہیں شارٹ کٹ دماغ ہوتا ہے، جرمنی کو شکست ہوئی تو انگریز نے برصغیر پاک وہند کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ عدمِ تشدد کی تحریک انگریز کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اسلئے کہ پردیسی حکمران کہہ سکتے تھے کہ ’’جب تم مقبوضہ ہوکر نہیں شرماتے تو ہم قابض ہوکر کس بات سے شرم کھائیں؟‘‘۔ ہمارے عزیز پیرکرم حیدر شاہ مرحوم فوج میں جرمنی سے لڑنے گئے تھے ۔ نیک ،سادہ اور پاکستان سے انتہائی محبت رکھتے تھے۔یورپ سے ٹیپ ریکارڈر لائے اور مولوی صاحب سے پوچھا کہ یہ ممکن ہے کہ آواز ٹیپ ہوسکے تو مولوی نے اس کو کفرکا فکرکہا۔ مولوی نے مشاہدہ کرلیا تو اس کو جادو قرار دیدیا۔ سائنس کی ترقی سے اسلام پر اثر نہیں پڑتا بلکہ مزید مضبوط ہوتاہے مگر مولوی کا خود ساختہ اسلام سائنسی علوم سے دباؤ میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے سلیم صافی نے پوچھ لیا کہ ’’ تصویر جائز نہیں تو آپ کی محفل میں تصاویر ہیں؟‘‘۔ مولانا نے کہا کہ ’’ تصویر حرام ہے اور قطعی حرام ہے مگر بعض علماء نے کیمرے کی تصویر کے جواز کی گنجائش نکالی اور ہم اسکا فائدہ اُٹھاتے ہیں‘‘ مولانا فضل الرحمن اور شرکاء مجلس نے اس برجستہ جواب پر خوب قہقہہ بھی لگایا۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور علامہ سید سلیمان ندویؒ نے پہلے کیمرے کی تصویر کو جائز قرار دیا اور پھر رجوع کرلیا۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنے ہاتھ سے پیر کرم حیدر شاہ مرحوم کو اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن ‘‘ کا نسخہ دستخط کرکے دیاتھا، بھارت میں کانگریس نے اقتدار سنبھالا تو وائس رائے ، سول و ملٹری بیوروکریسی کی بھاگ دوڑ میں ہاتھ نہ ڈالا۔ جمہوری لیڈرشپ کی وجہ سے آج تک جمہوری نظام وہاں مضبوط ہے۔ جبکہ پاکستان کی برسراقتدارسیاسی قیادت پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنی بیگم رعنا لیاقت علی خان کو اعزازی طور پر درجہ اول کے فوجی جرنیلوں میں شامل کردیا ، سیاسی قیادت جمہوری نظام کی پوزیشن میں نہ تھی۔ جرمنی کی شکست اور آزادی کے بعد جن سیاسی جماعتوں کا نظریہ متحدہ ہندوستان تھا، ان کو غدار کہا جانے لگا۔ جرمنی کی مدد بند ہوچکی تھی، کانگریس وجمعیت علماء ہند کی قیادت بھارت تک محدود تھی، تقسیم کے بعد فوج پاک وہند میں میں بٹ گئی۔ مسلم لیگی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے سہارے قائم تھی، وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا جنکا باقی مسلم لیگیوں سے یہ جھگڑا تھا کہ سرکاری عہدے کیساتھ مسلم لیگ کی صدارت کا عہدہ مت رکھو۔ جمہوریت کا دور دور بھی کوئی نام ونشان نہ تھا، پہلے سول بیوروکریسی کا قبضہ تھا پھر جنرل ایوب خان نے بنگال کے معروف غدار نواب میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا کو صدارت سے ہٹایا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ فوج براہِ راست اقتدار کررہی تھی تو وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو بنایا۔ جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کیلئے AD اور BDکے ممبر بنائے تھے۔ فاطمہ جناح نے بھی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھالیکن مادرملت پر غداری اور غیرملکی آقاؤں کی ایجنٹ کے الزامات لگائے گئے تھے۔
آخر میں ایوب خان کو جمہوری قیادت کے ہاتھوں صدارت چھوڑ نا پڑی ۔ مولانا مودودیؒ نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، مفتی محمودؒ غیر جانبدارتھے مگر مشہور تھا کہ مفتی محمود عائلی قوانین کے حق میں ووٹ ایک لاکھ روپے میں بیچا ، پھر بھٹو سے مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما نے اسلام آباد میں پلاٹ کو قبول نہیں کیا۔ سرحد میں نیپ کی اکثریت تھی اور بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی اکثریت تھی۔ بے اصول سیاسی قیادت نے اقلیت کا وزیراعلیٰ مفتی محمودؒ اور سردار عطاء اللہ مینگل کو بنایا۔ بھٹو نے جمہوریت پر شبِ خون مارا، بلوچستان حکومت کو چلتا کردیا اور مفتی محمود کو جانا پڑگیا۔ سیاست اور مذہب کو مفادات کیلئے استعمال کرنے کا کھیل یزید اور پہلے شیخ الاسلام قاضی القضاۃ امام ابویوسف ؒ سے شروع ہوا تھا، رسول اللہﷺخودکو اسلام کا پیغمبر، نبی، رسول اور اللہ کا بندہ کہتے تھے، حلال حرام، فرض اور کسی چیز کی تخلیق میں کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن درباری علماء نے شیخ الاسلام کے القاب بھی اپنانے شروع کیے۔ مزارعت سے لیکر سودی نظام تک اسلام کو مسخ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے تویہ شیخ الاسلامی ہے۔ نبیﷺ نے اسلام کے اجنبی ہونے کی پیش گوئی فرمائی تھی۔
مرحومین علماء ومفتیان کیساتھ رح کانشان اس وجہ سے ضروری ہے کہ اسکے بغیر پتہ نہیں چلتا کہ کون صاحب ہیں ،دوسرا یہ کہ ان کیلئے مغفرت ورحمت کی دعا بہت ضروری ہے، اسلام کیلئے انکا زبردست کردار ہوسکتا تھا مگر توجہ نہ دے سکے۔ ایصالِ ثواب کیلئے ان کی اولاد اور لواحقین غفلت برتنے کے بجائے قرآنی احکام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے معاشرے میں اپنا زبردست کردار ادا کریں۔ ہمارا اپنا گھرانہ بھی سیاست، مسجد اور خانقاہ کا محور تھا اور عوام تک حقائق پہچانا ہونگے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟