اسلام مشرق و مغرب کی تہذیب سے بالاتر دین ہے: عتیق گیلانی
جون 5, 2020
جب دنیا میں جہالت کی اندھیر نگری تھی تو خانہ کعبہ کا ننگا طواف کیا جاتا تھا۔ لونڈیوں کا لباس ناف سے رانوں تک اور حسن نساء (سینے کے ابھار) تک محدود ہوا کرتا تھا۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا غیرت کا تقاضہ سمجھتے تھے ۔ مظالم کی کوئی حد طاقتور لوگوں کیلئے نہیں ہوتی تھی۔ فرقہ پرستی اور قوم پرستی نے انسانیت کا بٹوارہ کر رکھا تھا۔ عرب عجم، سفید فام و حبشی اور کالے گورے کی بنیاد پر نسل آدم تقسیم تھی۔
اسلام نے لوگوں کے اقدار بدل دئیے۔ رسول ۖ نے فرمایا کہ لوگ چار وجوہات کی بنیاد پر اپنے لئے بیگمات کا انتخاب کرتے ہیں۔1: نسل و نسب کی بنیاد پر ۔ 2: مال و دولت کی بنیادپر۔ 3: حسن و جمال کی بنیاد پر ۔ 4: کردار کی بنیاد پر۔ تیری ناک خاک آلودہ ہو آپ کردار کو ترجیح دو۔
یہ روایت صحیح بخاری میں ہے اور وفاق المدارس کے صدر محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان بانی جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا ہے کہ یہ چاروں خوبیاں عورت میں موجود ہونی چاہئیں ۔ (کشف الباری)۔ حالانکہ اس حدیث میں لوگوں کے فطری رجحانات کا ذکر ہے۔ کوئی مالی کمزوری کو دور کرنے کیلئے مالدار عورت کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی حسن و جمال کو ترجیح دیتا ہے، کوئی نسب کو ترجیح دیتا ہے اور کوئی کردار کو ترجیح دیتا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ تمہیں کردار کو ترجیح دینی چاہیے۔ جب کردار کو ترجیح دی جائے گی تو مالدار ، حسن و جمال اور اعلیٰ نسب والے اپنے کردار کو ہی بدلیں گے۔ جس سے معاشرے کی اقدار بدل جائیں گی۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اسلام کی درست تشریح کریں گے وہی اسلام کی تعلیمات کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں جب علم ہی درست نہ ہوگا تو کردار سازی کہاں ہوگی؟۔ مگر جب علم درست ہوگا تو کردار سازی کیلئے مضبوط بنیادیں ہم فراہم کرسکیں گے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مذہبی طبقات کی ہی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ ہم مذہبی طبقات کی جہالتوں پر تنقید کرکے اپنی جانوں کے سروں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔
جو لوگ ”میرا جسم میری مرضی” کے نام پر خواتین کے خلاف مہم جوئی کررہے ہیں وہ اپنی دانست میں درست ہی کررہے ہونگے۔ لیکن جو خواتین اپنے حقوق کا علم بلند کئے ہوئے ہیں انکی بات کو غلط رنگ دینے کے بجائے درست توجیہہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو عورت چیخ رہی ہے، چلا رہی ہے اور غیظ و غضب کا اظہار کررہی ہے کہ مجھے رستے میں آتے جاتے تاڑ کر مت دیکھو، کہنیاں مت مارو، ریپ مت کرو، ریاست ہمیں تحفظ دے تو اسکے خلاف یہ کہنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ہم لوگوں کو اپنا جسم ہی پیش کرکے دنیا میں رہنا چاہتی ہیں۔ مینار پاکستان پارک لاہور کے قریب ہیرا منڈی ہے اور وہاں آئے روز مذہبی و سیاسی لوگ جلسے جلوس کرتے رہتے ہیں مگر مجال ہے کہ کبھی انہوں نے ہیرا منڈی کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔ اب تو یہ معاملہ فیس بک کے آن لائن شاپوں سے بڑے بڑے عالی شان بنگلوں تک کھلے عام پھیلا ہوا ہے۔ ایک عورت بگڑتی ہے تو آس پاس کا پورا معاشرہ بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ عورتوں میں قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی حفاظت کا بڑا مادہ رکھا ہے۔ قرآن میں اس کو اللہ کی حفاظت کا نام دیا ہے۔
اسلامی جمہوری اتحاد پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا گیا تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر پیپلز پارٹی کے رہنما غلام مصطفی جتوئی ہی تھے۔ نائب صدر مولانا سمیع الحق تھے اور اس اتحاد کے نتیجے میں میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ مولانا سمیع الحق کے خلاف میڈم طاہرہ کا وہ اسکینڈل اخبارات کی زینت بنا جس سے علماء اور اسلامی جمہوری اتحاد کا بھانڈہ پھوٹ گیا۔ میاں نواز شریف پر بھی طاہرہ سید ایکس وائف نعیم بخاری رہنما پی ٹی آئی کے حوالہ سے اسیکنڈل تھا۔ رہ گئے موجودہ امیر المؤمنین عمران خان نیازی تو ریحام خان کی طلاق کے بعد صحافیوں نے پوچھ لیا کہ تیسری شادی کا ارادہ ہے؟، عمران خان نے کہا کہ ہاں ! پھر صحافی نے پوچھا کوئی نظر میں ہے؟ ۔ عمران خان نے پھر جواب دیا کہ ہاں!۔ صحافی نے کہا کہ اسکے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں کہ وہ کون ہے؟۔ عمران خان نے کہا کہ نہیں!۔ صحافی نے پھر پوچھا کہ کنواری ہے، طلاق شدہ ہے یا بیوہ؟ مگر عمران خان نے اس پر مسکرا کر جواب ٹال دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ بی بی بشریٰ نے خلع لیکر نکاح کرلیا۔ جیو کے تحقیقی صحافی نے میڈیا پر بتایا کہ اس وقت وہ عدت میں تھی۔ اب اس سے بڑھ کر ”میرا جسم میری مرضی” کا تصور ہوسکتا ہے؟ مگر طاقتور کیلئے قانون کچھ اور کمزور کیلئے کچھ اور ہے۔
صحیح حدیث میں آتا ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے اور سعودی عرب و دیگر ائمہ مجتہدین کے نزدیک حدیث پر عمل ہوتا ہے لیکن احناف اس حدیث کو قرآن سے متصادم سمجھ کر رد کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حدیث قرآن سے متصادم نہیں ہے اور حنفی اصولوں کے مطابق بھی احناف کیلئے قطعی قابل قبول ہونا چاہیے۔ جس کے مضبوط دلائل بھی ہیں۔
میر شکیل الرحمن نے روزنامہ جنگ میں مولانا حامد سعید کاظمی کے خلاف بالکل جھوٹی خبر لگائی تھی اور پھر کاظمی نے ایک بے گناہ قید بھی کاٹی ۔ جنگ اور جیو کے ملازمین اس گناہ کا کیا کفارہ ادا کریں گے؟ ۔ میر شکیل الرحمن کی قید ؟ ۔ وکالت کیلئے وکیل کے پاس قانونی لائسنس ہوتا ہے مگر صحافی کیلئے کسی کی وکالت یا کسی کی بے جا مخالفت صحافت پر بڑا دھبہ ہے جو قانون کیخلاف ہے۔ صحافت کا کام قوم کا شعور بیدار کرنا ہے نہ یہ کہ بلیک میلنگ کے ذریعے سے اپنے اشتہارات کے مسائل حل کرنا۔ جن صحافتی اداروں پر ذرہ برابر بھی جانبداری کا شبہ ہو تو ان کو قانون کے شکنجے میں لاکر بند کردینا چاہیے۔ کیونکہ صحافت کیلئے یہی قانون ہے۔ ہمارا کام قوم ، ملک ، ریاست اور حکومت میں شعور بیدار کرنا ہے۔
لوگوں کی راۓ