اپوزیشن کی سیاست ، میڈیا کا کردار،مذہب کی پاسبانی. تحریر: عتیق گیلانی
نومبر 12, 2020
مریم نواز نے کہا کہ ”بلوچستان میں راتوں رات باپ پارٹی بنی اور دوسرے دن صبح اوزیر اعلیٰ کو جنم دیا”۔ نواز شریف کو بھی جنرلوںنے جنم دیا اور اسلامی جمہوری اتحاد سے آبیاری ہوئی ۔ مولانا اویس نورانی نے محفل کو جوش دلانے کی غرض سے کہا کہ ”بلوچستان کو آزاد ریاست دیکھنا چاہتے ہیں”۔پھر اس کو زبان کی پھسلن قرار دیا۔ بلاول بھٹو زرداری اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کیلئے جلسے میں نہیں آیا پھر اس نے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے والی بات مسنگ پرسن کا ذکر جوش و خروش سے کیا۔
حکومتی اتحادی اختر مینگل نے اپوزیشن کے جلسے میں کراچی کے بعد کوئٹہ میں بھی شرکت کی اور محمود اچکزئی کے نظرئیے پر کاری ضرب لگاکر کہا کہ افغان سے آئے لوگوںکو بے دخل کیا جائے۔ اچکزئی نے پاکستان و افغانستان میں پاسپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن پر باڑاکھاڑ پھینکنے کی بات کی۔ منتشر ذہنیت کے جلسے کو گرمانے کی کوشش ہر سیاسی خطیب اور نظریاتی رقیب نے کی اور ساتھ ساتھ اسٹیج پر شور و غل کو خاموش کرنے پر بھی برہمی کے اظہار تک پہنچے۔ اے این پی کے میاں افتخار حسین نے پی ڈی ایم کی قرار داد پیش کی اور امیرحیدر خان ہوتی نے محمود خان اچکزئی چچا کو جواب دیا کہ کراچی کے جلسے میں گلہ تھا کہ سلیکٹڈ کا نام لیا مگر سلیکٹر کا نام نہیں لیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کراچی کے جلسے میں بھی حکومت کیساتھ اپوزیشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ ”جن کو لوگ چور اور کرپٹ کہتے تھے اس حکومت کی وجہ سے لوگ پھر انہی چوروں اور کرپٹوں کی طرف مائل ہوگئے ”۔ اور عمران خان پربھی وار کیا کہ ”عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف نے فون کرکے اپنی ہار جیت میں تبدیل کی۔ یہ نادان دوستوں کا کام ہے”۔
مذہب کی دھاک پر اچکزئی نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کا فلسفہ اپوزیشن کو سمجھایا۔ آذان دینے والا مؤذن تنخواہ دار ہوتا ہے اور آذان بھی کسی کی اجازت سے دیتا ہے اسلئے اس کی آذان میں طاقت نہیں ہوتی۔ مریم نواز کا کردار اپوزیشن کی آذانوں کیلئے متولی (خاکم بدہن مسجد کے زمینی مالک) کی حیثیت رکھتا ہے۔ نواز شریف کو کسی کے گریبان میں ہاتھ ڈالتے ہوئے دیر نہیں لگتی لیکن گریبان میں ہاتھ ڈالتے ڈالتے اسکے ارادے بدل کر پیروں کو پکڑنے تک پہنچنے میں بھی وقت نہیں لگتاہے۔
پی ڈی ایم کا اصل ہدف فوج کا حکومت سازی میں کردار کا خاتمہ ہے۔ باقی جماعتیں شروع سے اس کردار کے خلاف ہیں مگرنوازشریف کے بعد جب سے فوج نے ایک نیا بچہ پال لیا ہے اور ن لیگ کو گائے نے دودھ چھڑادیا ہے تو بچھڑا روتا پھر رہاہے کہ مجھے کیوں نکالا؟۔ ووٹ کو عزت دو۔ شہبازشریف نے جمعیت کے اسلام آباد دھرنے میں بھی واضح طور سے کہا تھا کہ ” فوج کی جتنی مدد عمران خان کو حاصل ہے ،اگر اس کا 10%بھی مجھے مل جائے تو ہر خدمت کروں گا”۔ اب فوج کو اپنے دونوں بچھڑوں سے ہی سب سے زیادہ خطرہ ہے اسلئے کہ گائے کا بچہ بیل بن کر اپنی ماں پر بھی چڑھ دوڑتا ہے۔ باقی صوبوں میں فوج سے بغاوت کے جذبات کسی کام کے نہیں لیکن پنجاب سے بغاوت اُٹھ گئی تو فوج کو سرحدات پر جانے کی نہیں بلکہ بڑا خونی انقلاب آسکتا ہے۔ پاکستان کی ریاست کا دارمدار صرف اور صرف فوج ہی کی طاقت پر منحصر ہے۔ اگر پنجاب میں ن لیگ اور ق لیگ نے حکومت بنالی اور مرکز میںاتحادی بدل گئے تو عمران خان نوازشریف سے زیادہ بڑا باغی بچہ ہوگا۔ پی ڈی ایم کی روحِ رواں مریم نواز شریف سے جان چھوٹ سکتی ہے اور بعید نہیں کہ ن لیگ پھر فوج سے زیادہ وفاداری کا ثبوت دے اسلئے کہ یہ شرماتے ہیں نہ گھبراتے ہیں۔
اصل مسئلہ سوشل میڈیا اور پنجابی قوم ہے، بھوکے ننگے عوام ہیں، سودی قرضہ اور مہنگائی ہے۔ مہنگی گیس اور بجلی ہے۔ وسائل پر لڑنے والے مسائل حل نہیں کرسکتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاویدباجوہ نے دہشتگردی پر جیسے تیسے مگر قابو پالیا۔ جنگ کے کالم نگار ارشاد احمد حقانی حکومت ساز تھے، اسی نے پرویزمشرف اور مقتدر قوت کو مشورہ دیا کہ ” اگر امریکہ کی مدد ہم نہ کریں تو یہ کام بھارت کرلے گا”۔ ہم نے اس وقت بھی شدید الفاظ میں حقانی کی مخالفت کی تھی۔پھر پاکستان میں جس طرح دہشتگرد کاروائیوں کے باجود طالبان کی حمایت کا سلسلہ جاری رہاتھا۔ مولانا فضل الرحمن نے 2007ء میں ان کو خراسان کے دجال کا لشکر قراردیا مگر میڈیانے یہ خبر نہیں دی۔ پورا پختونخواہ دہشت گردوں کی لپیٹ میں تھا مگر خونی انقلاب نہیں آیا اور سارے پختون طالبان بن گئے تھے لیکن بہت سے غیرتمند ان کی حمایت سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔ پختونوں میں بے غیرت لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ جب ہمارے ساتھ بڑا واقعہ ہوا تب بھی ہمارے عزیز طالبان کو پراٹھے کھلاتے تھے ۔ آئی ایس آئی نے میرے ماموں کے گھر سے طالبان کی پک اپ برآمد کرکے بارود سے اڑادی۔ پاک فوج نے سہولت کاروں کو پکڑا تو ہمارے والوں کی ہمدردیاں سہولت کاروں ہی کے ساتھ تھیں۔ پنجابی ایسے نہیں ۔ پختونوں کے دل ودماغ میں جب طالبان بہت برے ٹھہرے تب بھی خوف کے مارے ان کو عزت دیتے رہے۔ طالبان نے اقرار کیا کہ مجرم ہمارے لوگ ہیں لیکن پوری محسود قوم اور ہمارے اکثر عزیزوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ نامعلوم کوہم نے معلوم کرنے کا اسٹینڈ لیا مگر قوم نے ہمت نہیں کی۔
مولانا فضل الرحمن نے یورپ کو بھی پاکستانی ووٹر سمجھ رکھا ہے تو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرے۔ فرانس کا ملعون حکمران یہ کہہ سکتا ہے کہ” مولانا ! جب میں بامیان کے آثار قدیمہ کیلئے دست بستہ رعایت مانگ رہا تھا تو میں عیسائی ہوں ، بدھ مت کے مجسموں سے کوئی سروکار نہیں رکھتا مگر آپ نے دنیا بھر کے جذبات کو محض اسلئے ٹھکرادیا کہ یہ تمہارا مذہبی جذبہ تھا۔ دوسری طرف مولانا سمیع الحق کہتا تھا کہ پیسے لیکر ان آثار قدیمہ کو فروخت کردیا جائے تو آپ اس کو بت فروش کہتے تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جن مسلمانوں کے جذبات کا یہ عالم ہو کہ دوسروں کو ٹھیس پہنچا کر اس کی شریعت مکمل ہوتی ہو اور پھر یہ جذبہ کرائے پر استعمال بھی ہوتا ہو اور رکتا بھی ہو تو بڑا خطرناک ہے۔ ہم نے سوچ سمجھ کر اس کا جڑ سے خاتمہ کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ کرائے کے جہادی اور جذباتی سے ہم نے دنیا کو نہیں تو کم از کم اپنے اپنے ملکوں کو صاف کرنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ہماری استدعا کو آپ نے نہیں سنا تو مجھ سے کیوں اور کس بنیاد پر رعایت کی بھیک مانگ رہے ہو؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ کو اپنا مذہب اتنا ہی پیارا ہے تو ترقی یافتہ ممالک سے جہاں لوگوں کے ہاں اپنے مذہب کا معاملہ بھی اتنا حساس نہیں ہے مسلمان بلا کیوں نہیں لیتے ؟جو ہمارے سروں پر پڑا ہوا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے شر سے بچنے کیلئے جن مرزائیوں نے بڑے پیمانے پر ہمارے ہاں پناہ لی ہے ان کا قصور یہ ہے کہ وہ ختم نبوت کے منکر ہیں تو ہمارے نزدیک حضرت عیسیٰ کے بعد مسلمان بھی منکرختم نبوت اور جھوٹے دعویدار ہیں اسلئے حقائق کو سمجھو۔چھٹی بات یہ ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیداکرتے ہیں، اگر ہم نے ان کو نہیں نکالا تو کچھ عرصہ بعد ہم اقلیت میں بدل جائیںگے اسلئے توہین کا بہانہ کرکے مسلمانوں کو یورپ بدر کرنا چاہتے ہیں۔ساتویں بات یہ ہے کہ جب تمہارا مفاد ہوتا ہے تو کرپشن بھی جائز اور سودی بینکاری بھی اسلامی تو ہمارے لئے کیوں غلط جذبہ رکھتے ہو؟۔ جب ہم بھی اپنے مذاہب سے کھلے عام دستبردار ہیں تو تم کیوں سرِ عام منافقت کرتے ہو؟”۔یہ اسلامی دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
لوگوں کی راۓ