اہل تشیع دوسروں کے اکابرین پر کھلے دل سے تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں مگر جاہلوں کو برداشت کا درس نہیں ملتا!
فروری 11, 2021
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ن لیگ کے دور میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شخص نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خوب باتیں سنائی تھیں!
عمران خان میں اپوزیشن کیساتھ بیٹھنے کی سکت نہیں، جب اسمبلی میں واپس آیا تو خواجہ آصف نے کوئی شرم بھی ہوتی ہے….سنایا
شیعہ سنی مسئلہ آج کا نہیں بلکہ یہ تاریخ کے ہر دور میں گھمبیر رہا ہے۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ، عمر، عثمان ، معاویہ ، بنی امیہ کے اکثر خلفاء صرف معاویہ بن یزید اور عمر بن عبدالعزیز کو چھوڑ کر ، بنوعباس، سلطنت عثمانیہ کے خلفاء ،صلاح الدین ایوبی ، مغل سلطنت ، جنرل ضیاء الحق و فضل الحق اور اسٹیبلشمنٹ ان کو منصوبہ بندی سے نشانہ بنا رہی ہے۔ جنرل پرویزمشرف، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور عمران خانی دور میں ظلم وزیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جب ہزارہ برادری کے پاس ن لیگی دورمیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ گئے تو ہزارہ سے تعلق رکھنے والے شہری نے آرمی چیف کو کھلی کھلی سنائیں۔ جلیلہ حیدر کا مؤقف واضح تھا، سوشل میڈیا پر اے آر وائی (ARY)چینل کا کلپ ہے جس میں کاشف عباسی سے وزیراعظم عمران نے کہا کہ ”سپاہ صحابہ والے خودمیرے پاس آئے کہ شیعہ سے ہماری صلح کروادو۔ آئی ایس آئی (ISI) والے ہمیں ان سے لڑادیتے ہیں اور ہماری خوامخواہ کی ان سے دشمنی بن گئی ہے”۔
بلوچستان میں مچھ شدت پسند سپاہ صحابہ والوں کا گڑھ ہے۔ پاکستان کی آبادی میں شیعہ یا سنی شدت پسند ہوں تو ان کو ریاست تباہ نہیں کرسکتی ہے۔ حکومت و ریاست کا تعلق اسی معاشرے سے ہے۔ شیعہ سنی سب ریاستی اداروں میں شامل ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی ادارہ کسی شدت پسند کی حمایت کرے لیکن افراد میں انفرادی طور پر شدت پسندی کے جراثیم ہوسکتے ہیں۔
پاک فوج نے اپنے افسران کو جاسوسی کے ثبوت میں سزائے موت اور قید کی سزا دی۔ انفرادی حیثیت میں چھپ کر جیسے قادیانی مذہب سے لگاؤ کا مظاہرہ کرکے کسی سازش میں انفرادی طور پر ملوث ہوسکتے ہیں، اسی طرح شیعہ اور سنی اہلکار، افسر بھی اپنے ذاتی اثر ورسوخ سے کوئی کام دکھاسکتے ہیں۔ یہاں ایران و سعودیہ کی پراکسی وار چلی آج بھی یہ خارج از امکان نہیں مگراسکا تعلق اداروں کے ساتھ ہرگز نہیں، سعودیہ میں میرے شیعہ دوست کا بیٹا پاک فوج کی طرف سے ڈیوٹی پر تعینات تھا۔ اگر فوج میں شیعہ سنی مسئلہ ہوتا تو پھر ایک شیعہ کو سعودی عرب کیسے بھیجتے؟
کچھ عرصہ قبل دوبئی سے شیعہ کو نکالا گیا۔میرے سنی ساتھی ناصر علی کو نام کی وجہ سے دوبئی ائرپورٹ پر مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا، حالانکہ وہ برسہابرس سے دوبئی میں رہائش پذیر تھا اور آسٹریلیا کا نیشنل تھا، اب آسٹریلیا میں ہے۔ اسلام آباد میں شیعہ دوست کے جاننے والے کی دکان دیکھی جو دوبئی سے نکالا گیا تھا۔ ہمارا شیعہ سنی مسئلہ قدیم دور سے چلا آرہاہے اور یہ حکومتوں کے بس کی بات نہیں اور جب تک اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی جائے ، خطرے کی تلوار سب کی گردن پر ہمیشہ لٹکی رہے گی۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ جن صحابہ کے احترام پر ان کو مجبور کیا جاتا ہے ان کی عزت وتوقیر انکے ایمان کے منافی ہے اور اہلسنت سمجھتے ہیں کہ ان اکابر کی توہین ہمارے عقیدے پر ضرب کاری ہے اور اہل تشیع بھی اپنے اکابر کی ذرا بھی توہین کیا اختلاف بھی برداشت نہیں کرتے ہیں ۔
قرآن میں نبیۖ کی طرف ”ذنب” کی نسبت کو سنی مکتبۂ فکر کے معتبر علماء نے اجتہادی خطاء یا لغزش قرار دیا ہے مگر اس پر کسی نے شور نہیںکیا۔ حضرت آدم کا جنت میں ممنوعہ درخت کے پاس جانا بھی علماء کے نزدیک خطاء ہے لیکن اہل تشیع نے کبھی اس پر نہ شور کیا اور نہ غور کیا لیکن دوسروں کے اکابرکی توہین کرکے دل چھلنی کرنیوالا طبقہ خود علمی بحث بھی برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ جس طرح وہ اپنوں کو چارج کرتے ہیں اسی طرح دوسرے بھی اپنوں کو ان سے زیادہ چارج کرنے کا بھرپور حق بھی رکھتے ہیں۔
تحریک لبیک کے علامہ آصف جلالی نے یہ کہا کہ حضرت بی بی فاطمہ نے حضرت ابوبکر کے مقابلے میں اجتہادی خطاء کی تھی تو شیعہ نے طوفان کھڑا کیا اور کافی عرصہ اس کو جیل میں گزارنا پڑا ۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے عالم دین نے کہا کہ ”علامہ آصف جلالی کمال کا علم رکھتے ہیں لیکن ان کا طریقہ درست نہ تھا ”۔ جب کسی کی جان پر پڑے تو سب اسی کو غلط ٹھہراتے ہیں۔ جنید جمشید کی جان پر پڑگئی تو مولانا طارق جمیل نے برأت کا اعلان کیا تھا۔ ہمارے گھر پر طالبان نے حملہ کرکے ظلم کی اس حد تک انتہاء کردی کہ ”طالبان رہنماؤں نے کہا کہ اتناظلم تو یزید نے کربلا اور یہود نے فلسطین میں بھی نہیں کیا جتنا سخت ظلم طالبان نے یہاںکیا۔ اور تو اور خاندان کے لوگ بھی طالبان کو صحابہ اورمجھے غلط ٹھہرارہے تھے، بھائی اورنگزیب شہید نے گھر میں گھسنے والے امیرطالبان کوتھپڑ مارا کہ یہ ہمت کیسے ہوئی ،جس کی جرأت کو زمین کے جنات اور آسمان کے فرشتے سلام کرتے ہونگے لیکن اپنے خاندان والے نے کہا کہ یہ تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا۔
میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تھا تو ہمارے استاذپرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ناظم تعلیمات تھے، جامعہ کی چھٹی بھی نہیںکرائی تھی ۔ سواداعظم کے اکابر مولانا سلیم اللہ خان ، مولانا اسفندیارخان اپنے مدارس سے طلبہ لیکر آئے تھے کہ ہم شیعہ کے جلوس کو یہاں سے گزرنے نہ دینگے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ” فسادی آئے ہیں”۔ مولانا یوسف بنوری ماتم کے جلوس کے شرکاء کیلئے مسجد کے مٹکے پانی سے بھرواکر رکھتے تھے۔ شیعہ کے جلوس کو روکنا ہمارے مدرسے کی روایت کے خلاف ہے۔ آپ لوگ ان فسادیوں سے دور رہو”۔
جامعہ فاروقیہ وغیرہ کے طلبہ نے مسجد کی دکانوں کی چھت پر چڑھ کر پتھر مارنا شروع کئے تو پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے۔پھر لوگ بیہوش ہونا شروع ہوگئے تو ہم نے مدد کی۔ دوسرے دن ڈاکٹر صاحب نے مجھے مخاطب کرکے ڈانٹا کہ تم لوگ منع نہیں ہوئے۔ ہمارے یہاں بال بچے ہیں۔سب کو تکلیف میں ڈال دیا”۔ ہم میں صفائی پیش کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔
پھر جامعہ سے شیعہ کو قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دینے کافتویٰ کتابی شکل میں جاری ہوا، پھر مجھے پتہ چلا کہ حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگایا گیا تو جامعہ والے اسکے خلاف تھے لیکن فسادی اصلاح والوں پر غالب تھے۔ پھر مولانا سید محمد بنوری کو گھر میں شہید کیا، پہلے جنگ اخبار میں خود کشی کی خبر چلی جب شہادت ثابت ہوگئی تو ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب پر الزام لگاناشروع کیا۔ ہم نے لکھا تھاکہ استاذ جی نے کبھی مکھی نہیں ماری۔شرپسند مدرسہ پر قبضہ چاہتے ہیں۔ شہید بنوری کا تعلق جمعیت ف سے تھا۔ مولانا فضل الرحمن سے انہوں نے کہا تھا کہ مجھے قتل کردیا جائیگا مگرمولانا نے کہاکہ” تم ڈرامہ کر رہے ہو”۔ خود کشی کی خبرجنگ میں شائع کرنیوالا مفتی جمیل خان اس وقت مولانا فضل الرحمن کیساتھ تھا۔ آج نواز شریف خرچہ اٹھا رہاہے،اس وقت مفتی جمیل خرچہ اُٹھاتا تھا۔اسلئے مولانا محمد خان شیرانی نے پاکستان کو کرائے کا چوک قرار دیا تھا۔
NAWISHTA E DIWAR February Special Edition 2021
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat #imam_e_zamana
لوگوں کی راۓ