ایم کیو ایم کی طرح کسی سیاسی جماعت سے رویہ رکھا گیا تو نظر نہیں آئیگی، اجمل ملک
اگست 10, 2016
مسلم لیگ (ن)سے یہ رویہ رکھا گیا تو اس مرتبہ شہباز شریف کا وہی کردار ہوگا جو سید مصطفی کمال کا ہے، 12مئی کے واقعہ پر پرویز مشرف نے مکا دکھایا اگر ہاتھ مروڑا ..
پاکستان میں ریاستی اداروں کی نظر کرم ہوجائے یا نظر بد لگ جائے تو اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے سوات کے طالبان سے لیکر کراچی کے ایم کیو ایم تک …
چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کی بازیابی بہت خوش آئند لیکن گدا گری کے پیشے کیلئے اغواء کئے جانے والے غریب کے بچے اور بچیاں بھی انسان ہیں کتے کے بچے نہیں ہیں
ایم کیو ایم نے اپنے خلاف لوگوں سے بولنے کا حق نہ چھینا ہوتا اور کراچی میں قانون کے ذریعے سے سزا دلانے کی روایت کو فروغ ملتا تو آج یہ دن انکو دیکھنے نہ پڑتے
کراچی (نمائندہ خصوصی) ماہنامہ ضرب حق کراچی ، کتاب جوہری دھماکہ اور ابر رحمت کے پبلشر اجمل ملک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی پالیسی ، نظرئیے اور رویوں سے سب کو اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آجکل جس عتاب کی ایم کیو ایم شکار ہے اگر کسی اور جماعت سے یہ رویہ رکھا گیا تو اسکے آثار قدیمہ بھی نظر نہیں آئینگے۔ رینجرز کی نگرانی میں میڈیا کی پرزور مخالفت کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا نوزایدہ امیدوار ایم کیو ایم میں شامل ہوگیا، ن لیگ کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو نواز شریف معاہدہ کرکے بھاگا۔ واپسی پر کارکنوں نے استقبال میں نعرے لگائے تو برا مان گئے اور کہا کہ ’’چپ کرو ! جب مجھے ہتھکڑی پہنا کر لیجایا جارہا تھا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی ایک بھی نہیں تھا‘‘۔ چوہدری شجاعت ، شیخ رشید ، دانیال عزیز سے لیکر عطا ء مانیکا تک کتنے بدل گئے؟۔ جبکہ اسحٰق ڈار نے عدالت کے سامنے بیان دیا ’’میں نے نواز شریف کیلئے منی لانڈرنگ کی ہے‘‘۔
میڈیا میں اس بحث اور بکواس کا سلسلہ جاری رہتا ہے کہ نواز شریف نے کرپشن کی یا نہیں؟ ، یہ ایسا ہے جیسے کوئی سورج یا چاند تاروں پر بحث کرے کہ ہیں یا نہیں؟۔ کوئی حقیقی انقلاب آئے تو سب سے پہلے بکواس کرنے والوں کو میڈیا کے اوپر ہی عوام کے سامنے مرغا بنایا جائے۔ ایم کیو ایم کی طرح اگر مسلم لیگ (ن) سے برتاؤ کیا گیا تو مصطفی کمال کیطرح شہباز شریف بھی کردار ادا کریگا۔ 12مئی کو پرویز مشرف نے مکا دکھایا تھا اسکا بازو مروڑ دیا جاتا تو بھی انصاف نظر آتا تھا، ایم کیو ایم اپنے اعمال اور روئیے کی خود جوابدہ ہے، اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے انبیاء ؑ کی رہنمائی کرتا ہے تو کسی بھی عام انسان کو جو خود کو مسلمان کہتاہو یہ قطعاً نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ مثلاً کراچی کے سابق ناظم پاکستان سر زمین پارٹی کے قائد سید مصطفی کمال کو ہی لے لیجئے ۔ پہلے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کیلئے جن جذبات کا اظہار کرتے تھے اب اس کا بالکل ہی برعکس رویہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سید ضعیم قادری جسکی سرکاری ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ دوسرا کوئی بولے تو یہ بھی بکنا شروع کردے تاکہ دوسرے کی بات کوئی سن نہ سکے۔ جب اس نے ایم کیو ایم کے قائد کیخلاف کچھ بولا تو سید مصطفی کمال نے کہا کہ تمہیں لاہور میں بھی گھر سے نہیں نکلنے دینگے۔ سید مصطفی کمال پر ڈاکٹر عامر لیاقت نے فتویٰ لگایا کہ وہ تجدید ایمان کرلے ، اس لئے کہ مصطفی کمال نے اقرار کیا ہے کہ ہم الطاف حسین کو خدا مانتے تھے۔ حالانکہ فرشتوں نے بھی جنت میں اللہ سے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش پر سوال اٹھادیا مگر مصطفی کمال اپنے قائد کیلئے سوال اٹھانے کو بھی برداشت نہ کرتے تھے، اسلئے خدا کا لفظ بھی کم تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار جو بہت معتدل مزاج سمجھے جاتے ہیں جب مولانا فضل الرحمن نے اجمل پہاڑی کا صرف نام لیا تو ڈاکٹر صاحب نے مولانا ڈیزل سے لیکر اسکی ایسی کم تیسی کرکے وہ حال کردیا کہ اللہ کی پناہ۔ یہ تو مولانا کا دل گردہ تھا کہ پھر بھی نائن زیرو گئے ورنہ تو کوئی چھوٹے دل والا کبھی وہاں جانے نہ پاتا۔
کوئی عتاب میں ہو تو مرے پر سو دُرے لگانا انتہائی بے غیرتی اور بے ضمیری ہے۔ تاہم اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کے محرکات کیا ہیں؟۔ بلدیاتی انتخاب میں جمہوریت کی بنیاد کا پتہ چلتا ہے ، پاکستان کی ساری برسر اقتدار سیاسی جماعتیں بلدیاتی الیکشن کی علمبردار نہیں ، اسلئے کہ وزیر اعلیٰ بننے میں بھی قائدین کو دلچسپی نہیں ہوتی، وہ تو صرف وزیر اعظم کا خواب ہی دیکھتے ہیں البتہ پیپلز پارٹی نے سندھ اور مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنا بیس بنانے کیلئے مستقل قبضہ جما رکھا ہے۔ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کے علاوہ پاکستان میں ساری قومیتوں کو متحد کرکے انقلاب کی صلاحیت رکھتی تھی جو لوگ ایم کیو ایم کے مظالم پر سینہ کوبی کررہے ہیں انکی اکثریت دہشت گردی پھیلانے والے طالبان کی حامی تھی جیسے مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام وغیرہ۔ طالبان ریاستی اداروں کے اہل کاروں کو بھی حصہ دیتے تھے مگر ایم کیو ایم کا بھتے میں کوئی حصہ دار نہیں تھا۔
ریاستی ادارے بیورو کریسی انتظامیہ ، عدلیہ ، پولیس اور فوج کی نظرکرم ہوجائے تو اُلو بھی تیتر اور چکور بن جائے اور کائیں کائیں کرنے والے کوے شاہین بن جائیں اور نظر بد ہوجائے تو ہیرو بھی زیرو بن جائیں۔ سوات کے طالبان سے کراچی کے ایم کیو ایم اور گوادر سے لاہور تک ایک ایک معاملہ دیکھا جائے تو متضاد پالیسیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایسے میں ریاستی اہلکاروں کا کوئی بھروسہ اور اعتبار نہیں ہوتا کہ کب کیا سے کیا ہوجائے؟۔ وزیر اعظم کبھی لندن سے واپس ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور کبھی لاہور سے اسلام آباد جانے میں خدشات کے انبار لگتے ہیں۔ ایسے ملک کا وزیر اعظم بننا بھی بہت بڑے درجے کی رسوائی سے کم نہیں۔ نواز شریف نے تو انتہائی نااہلی کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کی اوقات بدلے ہیں اسلئے بار بار وزیر اعظم بننے کی قربانی بھی دیتے ہیں۔ اسکے باپ کا نام شریف تھا ورنہ شرافت رکھنے والا کوئی شریف اتنی ذلت کے بعد کاروبار کیلئے یہ قربانی کب دے سکتا تھا؟۔ ایم کیو ایم وہ جماعت ہے جس نے مہاجر قوم اور پاکستان کی تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ اسی نعرے کی گونج میں پاک سر زمین پارٹی کے رہنماؤں کی پرورش ہوئی۔ مصطفی کمال یہ کہہ دیتے کہ’’ ایک مرتبہ مجھے سرزنش ہوئی تو آسمان کے تارے نظر آنے لگے۔ سوچا کہ دوسروں پر مظالم، ذلت، رسوائی کے پہاڑتوڑ دیتے تھے، قتل وغارتگری کے مرتکب ہوجاتے تھے، زبردستی کی بنیاد پر جلسوں میں لے جاتے تھے، 12مئی کو ساری پارٹیوں کے برعکس چیف جسٹس کو ائرپورٹ سے نہ نکلنے دیا،معمولی گستاخانہ لہجہ برداشت نہیں کرتے تھے۔ ساری قوموں سے بھڑے ، اپنوں سے لڑے اور مہاجر سے متحدہ تک کا طویل سفر بچپن سے جوانی تک جس طرح سے طے کیا اور پھر ایک محفل میں بپھرے ہوئے کارکنوں کے روئیے سے نالاں ہوکر بھاگے ، یہ ہم پر قرض تھا کہ اپنی قوم سے معافی مانگتے ، ریاستی اداروں سے بھی معافی مانگتے اور دوسروں سے بھی معافی مانگتے تاکہ دنیا تو جو برباد ہونا تھی سو ہوئی مگر آخرت میں مغفرت کی کوئی سبیل نکلے‘‘ ۔اس طرح کے بیانات کے کوئی خاطر خواہ نتائج بھی نکلتے۔ یہ کونسی بات ہے کہ الطاف حسین اور اس کی جماعت را کی ایجنٹ ہے ، کہنے والا سابقہ راکا ایجنٹ۔ اگر ایم کیو ایم اور اسکی متاثرین کی اصلاح کرنی ہو تو اسکا یہ طریقہ نہیں کہ دوسرے ذرائع سے ان پر الزام لگایا جائے اور کل ماحول بدل جائے تو عامر خان کی طرح ایم کیو ایم کے زانوں میں اپنا سر دیدے۔ ایم کیو ایم کی اصل غلطی یہی تھی کہ مخالفین کو بولنے بھی نہ دیتے تھے۔ مخالفین کے بولنے سے کچھ بگڑتا نہیں بلکہ قیادت اور جماعت کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ آج بھی مکا چوک کے قریب لٹنے والوں کو ایم کیو ایم سے ہی گلہ ہے ، کراچی میں ایک کرائم سے پاک معاشرہ وجود میں آتا تو اسکا سارا کریڈٹ ایم کیو ایم کو جاتا۔ زبردستی سے تبدیلی کی ذلت میں کوئی اچھا پہلو ہوتا تو کراچی سے وزیرستان تک لوگ خوشیاں بانٹنے کیلئے جوق درجوق آتے۔
لوگوں کی راۓ