تقرر ِامام ہمارے اندورنی وبیرونی حالات کے تقاضے: عتیق گیلانی
دسمبر 12, 2020
تقرر ِامام ہمارے اندورنی وبیرونی حالات کے تقاضے
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
مولانا محمد خان شیرانی نے علامہ سید جواد نقوی کیساتھ ایک تقریب میں بیٹھ کر نصبِ امام کا ذکر کیا ہے۔ شیعہ سنی کی اکثریت اس بات کو نہیں سمجھ رہی ہے کہ ایران میں شیعہ حکومت قائم ہونے کے بعد امام مہدی غیب کے پردہ سے نکل کر تشریف نہیں لارہے ہیں اور سنی عقیدہ رکھنے والے امامت کا تقرر کرتے ہیں تو اس کو سب سے بڑا جرم اور بغاوت کا جھنڈا سمجھا جاتا ہے۔ اگر پاکستان حکومت کی سطح پر تقرر امام کا اعلان کرے اور اس پر شیعہ سنی متفق ہوجائیں۔ مولانا شیرانی نے امام تنظیم کا ذکر کیا ہے جس سے مراد ” اتحاد ملت اسلامیہ محاذ” ہے۔ عمران خان نے شیعہ لابی کی وجہ سے پاکستان کو سعودیہ سے دور کرکے ایران کے قریب کردیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں مولانا فضل الرحمن کیساتھ مولانا اویس نورانی کے علاوہ تحریک جعفریہ بھی شامل تھی لیکن پی ڈی ایم (PDM)کے محاذ میں اہل تشیع عمران خان کے خلاف اپوزیشن کا حصہ نہیں ہیں اور مولانا شیرانی بھی مولانا فضل الرحمن سے ناراض ہیں اسلئے امام کی طرف گئے ہیں۔
جب انجمن سپاہِ صحابہ کے مولانا حق نواز جھنگوی شہید جے یوآئی پنجاب کے نائب امیر تھے تو جمعیت کے اسٹیج سے شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگاتے تھے لیکن مولانا شیرانی کا انجمن سپاہِ صحابہ کو الگ ذیلی تنظیم کی حیثیت سے جمعیت میں شمولیت پر اتفاق نہیں تھا اور پھر آخر مولانا شیرانی کا مؤقف درست ثابت ہوا۔ سپاہ صحابہ پے درپے قیادت سے محروم ہوگئی تو مولانا فضل الرحمن کے خلاف نعرہ لگایا کہ شیعہ کافر جو نہ بولے وہ بھی کافر۔ مولانا شیرانی نے انتخابی سیاست چھوڑ کر انقلابی سیاست پر جمعیت علماء اسلام کو قائل کیا تھا اور ڈیرہ اسماعیل خان سے باقاعدہ مولانا فضل الرحمن نے مشاورت کے فیصلے کا بھی اعلان کیا لیکن جب لاہور مینارِ پاکستان میں عوام کو بڑے پیمانے پر خوشخبری سنانے اور انقلابی سیاست کا آغاز کرنے کیلئے بلایا گیا تو مولانا فضل الرحمن نے پاک فوج کے افسران کی دھونس سے اعلان کو مؤخر کرکے عظیم اجتماع کو ٹال دیا تھا۔ آج مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اسٹیبلیشمنٹ سے مکمل آزادسیاست کیلئے گیارہ جماعتوں کا اتحاد ہے اور اس کیلئے مریم نواز نے آر یا پار کا اعلان کررکھاہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی تیار ہیں۔نتیجہ جو بھی نکلے وہ کچھ دنوں میں عوام کے سامنے آئیگا۔ پیپلزپارٹی اقتدار کی قربانی دے گی یا نہیں لیکن وہ اس ایجنڈے کے حق میں ہے۔ محمود خان اچکزئی مشن کے روح رواں اور باقی جماعتوں کے میا ں افتخار، اخترمینگل ، عبدالمالک ، آفتاب شیرپاؤ ،علامہ ساجد میر اور مولانا اویس نورانی سب اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے بے دخل کرنے پر متفق ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ایک مضبوط سیکشن کی طرف سے وزیراعظم ، اسپیکر قومی اسمبلی اور سینٹ کے چیئرمین کی تبدیلی کی آفر ہے جو پی ڈی ایم (PDM)نے رد کردی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے گودی سیاستدانوں کا سلسلہ ختم کرنے کا عندیہ ہے، جسکا اظہار پروفیسر احمد رفیق اختر کے ایک دوست نے ٹیلی فون پر مجھ سے کیا ہے۔سعودی ایران جھگڑے کی زد میں آیا ہوا پاکستان لسانی ، نظریاتی اور مفادات کی سیاست کا بھی بری طرح شکار ہے۔
میرا ایک ایسا کزن ہے جو نیشنلسٹ ہے اور افغان بادشاہ امیر امان اللہ خان ہی کو مانتا ہے جسکے علامہ اقبال بھی مداح تھے جو انگریز کا مخالف تھا اور جرمنی کا حامی تھا۔ وہ خیبر پختونخواہ کے ترقی یافتہ اضلاع پشاور ، چارسدہ، سوات، دیر، بنیر اور صوابی وغیرہ کو پشتو اسپیکنگ پنجابی سمجھتا ہے اور وزیرستان کے محسود اور وزیر کو بھی پنجابی قرار دیتا ہے جنہوں نے بڑے پیمانے پر طالبان کو سپورٹ کیا اور افغانستان کے پشتونوں کو بھی پنجابی ذہنیت قرار دیتا ہے۔ پنجابیوں سے مراد اسکے نزدیک انگریز کے وفادار ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ محسود اور وزیر بھی اس قابل ہیں کہ مچھر کے اسپرے سے ان کو مار دیا جائے۔ یہ بہت پرانی روایت ہے کہ انگریز مخالف برصغیر پاک وہند کے حریت پسندوں کو بیرونی ایجنٹ قرار دیا جاتا تھا اور اس میں کچھ نہ کچھ صداقت اسلئے تھی کہ جرمنی حریت پسندوں کا فیورٹ ہوتا تھا جہاں سے لیڈروں کو تحریک کیلئے بڑے پیمانے پر خفیہ امداد بھی ملتی تھی۔
جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو مہاجرین وانصار اور قریش واہلبیت میں یہ اختلاف ہوا کہ خلافت کا حقدار کون ہے؟۔ حضرت ابوبکر وعمر کے بعد حضرت عثمان اور حضرت علی نے شہادت پائی۔ حضرت امام حسن دستبردار اور حضرت حسین یزید کے لشکر کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ بنوامیہ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ تک موروثی اقتدار عروج پر رہا ۔ فاطمیہ ،مغل ، خاندانِ غلاماں موروثی اقتدار کے بعد انگریز نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اچھے برے سب طرح کے حکمرانوں نے اپنی اپنی جگہ اقتدار کیا۔ محمودغزنوی، احمد شاہ ابدالی اور شیرشاہ سوری نے بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ انگریز کے جانے کے بعد سول وملٹری بیوروکریسی نے آزادی کی خاطر قربانی دینے والوں کو غدار اور گودی لے پالکوں کو وفادار کے سرٹیفکیٹ جاری کئے یہاں تک کہ فاطمہ جناح نے کہا کہ پاکستان کو نہیں بننا چاہیے تھا۔ اسلئے ان پر غداری کے الزامات عائد کئے گئے۔ نوازشریف نے جس طرح بھٹو کی پھانسی سے یوسف رضاگیلانی کی برطرفی تک اسٹیبلشمنٹ کے پالتو کتے کا کردار ادا کیا۔ پھر ملتان کے جلسے میں کٹھ پتلی کی تاریخ بیان کرکے مریم نواز نے نوازشریف کو ہیرو قرار دیا تو لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے اور آصفہ بھٹو کی مختصر گفتگو بہت اچھی اسلئے لگی کہ چرب زبانی کے گفتار کا جواب تاریخی کردار سے دیا گیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے کرونا کی وجہ سے مسجد میں نماز اور تراویح کو خیرباد کہا تھا تو ہم نے اس کو سراہا تھا اور اب اپوزیشن کی وجہ سے کرونا کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے تو یہ اس کی اپنی سیاست ہے۔ غربت سے تنگ عوام ریاست کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی تو بھی خون خرابہ ہوگا اور سیاسی مفادات کیلئے عوام کو ریاست سے لڑایا گیا تو بھی خون خرابہ ہوگا اوریہ اللہ کاشکر ہے کہ پی ٹی ایم (PTM)کو پی ڈی ایم (PDM) سے باہر کیا۔ طالبان کے نام پرقربانی دینے والی قوم پہلے ہی بہت مصائب کا شکار ہے۔محسود اور وزیر لشکری قوم ہے ، اگرچہ پی ٹی ایم (PTM) کو وزیرستان میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے لیکن اگر پی ڈی ایم (PDM)کیساتھ ملکر لاہور کی طرف لانگ مارچ ہوتا تو اس کے بہت خراب نتائج نکل سکتے تھے۔ کیونکہ کسی انقلاب کی بجائے یہ مریم نواز کے مفاد کی بھینٹ چڑھتے۔ قبائل کے باشعور طبقات کو یہ گلہ ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کیلئے قربانیاں دیتے رہے ہیں لیکن ہمارے مفاد کیلئے کوئی بھی نہیں آیا ہے۔ جب قبائل کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا تو بادشاہی خان محسود نے ان سے گلہ کیا تھا کہ کراچی سے مہاجروں نے آکر ہمارے لئے پناہ گزینوں کیلئے خیمے اور امدادپہنچائی مگر آپ لوگوں نے ان مشکلات میں ہمیں یاد کرنے کی کوئی زحمت نہیں کی تھی۔
لوگوں کی راۓ