جمعیت علماء اسلام ہے یایہ جمعیت جہلاء بے ایمان؟؟
جنوری 9, 2021
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جب ہندوستان کو انگریز چھوڑ کر اپنی جان چھڑا رہا تھا تو جمعیت علماء ہند نے متحدہ ہندوستان میں کانگریس کیلئے بی (B)ٹیم کا کردار ادا کیا۔ اور جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کیلئے بی (B)ٹیم کا کردار ادا کیا تھا۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی جمعیت علماء ہند کے صدر اور مہاتماگاندھی کے دُم چھلہ تھے۔ شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی قائداعظم محمد علی جناح کے دم چھلہ تھے۔ کوئی ہندوؤں کا دُم چھلہ اور کوئی شیعہ کا دُم چھلہ۔کیا علماء میں امامت کی اہلیت نہیں تھی؟۔ پاکستان میں جب جمعیت علماء ہند والے جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوگئے تو جمعیت علماء ہند والوں نے جمعیت علماء اسلام والوں کو اسلئے پچھاڑ دیا کہ ایکدوسرے پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ امارت ایسی بلا ہے جس نے تبلیغی جماعت کو بھی سرکٹی لاش بنادیا ۔انصار ومہاجرین اورقریش واہلبیت کو قرون اولیٰ کے ادوار میں بھی فتنوں کا شکار کردیا ۔ دارالعلوم دیوبند بھی تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کا سیاسی نظام فردوس عاشق اعوان ، فیاض الحسن چوہان ، عمران خان ،شبلی فراز اور مراد سعید سے چلنے والا نہیں۔ لال کرتیوں والے فوج کی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتے اور لال حویلی والا شیخ رشید کس قسم کا بندہ ہے جتنی پارٹیاں بدلی ہیں کیا جی ایچ کیو (GHQ)کے گیٹ نمبرچار(4)کیلئے بدلی ہیں؟۔اور اب پانچ (5)نمبر پر ہے؟۔
نظام کی تبدیلی میں اہم چیز عقیدے اورنظرئیے کیلئے افکار کا کردار ہوتا ہے۔ بھارت نے بغل میں چھرا اور منہ میں رام رام کا کردار ادا کرتے ہوئے سیکولر حکومت قائم کی تو متعصب ہندو کا نشانہ بن کرگاندھی قتل ہوگیا۔ پاکستان اسلام کے نام بنا تھا لیکن مدارس کا نصابِ تعلیم اسلامی تو بہت دور کی بات ہے بدترین درجے کا کافرانہ ہے۔ قصر ناز کراچی میں مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا عطاء الرحمن سے اپنی ملاقات کا حال لکھ چکا ہوں۔ پاکستان کا مذاق اُڑانے والوں سے مدارس کے نصاب میں قرآن کی تحریف کا حوالہ دیا تو مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ ”بھوکے کو روٹی نہیں مل رہی تھی تو سادہ آدمی کہنے لگا کہ پھر وہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا؟۔ ہم پاکستان کا رونا رو رہے تھے اور اس نے اپنا مطلب بھی حاصل کرلیا”۔ مولوی مدارس کے نصاب پر بات کرنے سے بھی بھاگ رہا ہو تو وہ کسی دوسرے کا دُم چھلہ نہیں بنے گا تو اور کیا کرے گا؟۔ ہماری چاہت ہے کہ پاکستان کا غیر اسلامی نظام بدلے اور اسلامی نظام نافذ ہوجائے۔یہ مارشل لاء کی پیداوار کٹھ پتلی سیاستدانوں اور کسی مولوی کا کام نہیں ہے۔ ان کو حصہ بقدر جثہ چاہیے اور اسی پر ان کی لڑائی ہے۔
ایک غریب پنجابی ، سندھی ، پشتون اور بلوچ کو کروڑوں روپے دیدو تو وہ کبھی اپنی بہن، بیٹی، بہو اور ماں کو مریم نواز کی طرح میک اپ کرکے مردوں کے اسٹیج پر نہیں چڑھائے گا۔ مسئلہ پنجابی اور پختون کا نہیں ہے، بیگم نسیم ولی کس زمانے میں یہ سیاست کرتی تھی؟۔ بشریٰ گوہر نے کس کٹ کے بال رکھے ہیں؟۔ ہمیں عورت پر اعتراض نہیں کہ سیاسی کردار کیوں ادا کرتی ہے؟۔ بلکہ پنجابی پختون تعصب کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ فرعون کی بیگم حضرت آسیہ علیہا السلام کتنی بہادر خاتون تھی ؟جس نے اپنے بادشاہ شوہر کے خلاف مظلوموں اور حق کا ساتھ دیا اور حضرت نوح و لوط کی بیگمات ظالموں کیساتھ تھیں اسلئے مردوں اور عورت کا مسئلہ بھی نہیں۔ حضرت مریم نے بھی اپنا کردار ادا کیا اورام المؤمنین حضرت عائشہنے حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اور حضرت زینبدختر علی نے بھی کربلا کے بعد اپنا کردار ادا کیا تھا۔
اسلام وہ عظیم دین ہے کہ حضرت عائشہ پر بدکاری کا بدترین بہتان لگا تھا تو بہتان لگانے والوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بجائے اسی اسی (80، 80)کوڑے کی سزادی گئی اور اگر کسی عام جھاڑو کش عورت پر بھی یہی بہتان لگتا تو یہی سزا دی جاتی۔ آج پاکستان میں غریب کیساتھ کیا ہوتا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیںرینگتی ہے مگر جب مریم نواز کے شوہر کو پی سی (PC)ہوٹل کراچی سے گرفتار کیا گیا توسندھ پولیس احتجاجاً چھٹی پر چلی گئی۔ فوج نے اپنے افسروں کے خلاف کاروائی کی ۔ قائداعظم کے مزار کا غم ہوتا تو اے آر وائی (ARY)کے اقرار الحسن نے اپنے پروگرام میں کتنا شرمناک معاملہ پیش کیا لیکن کوئی جنرل جذباتی نہیں ہوا۔ سیاست کے جذبات ایسے ہوتے ہیں جیسے غیر سیاسی بچے سردی میں منہ سے نکلنے والے بخارات کو مزے سے سگریٹ کا دھواں قرار دیتے ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی کی بات درست ہے کہ سچوں کیساتھ ہوجاؤ یہ قرآن کا حکم ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ پر سب تگنی کا ناچ عوام کو نچارہے ہیں۔
مولوی اور پٹھان کے علاوہ سندھی، بلوچ اور پنجابی کی بھی یہ فطرت ہے کہ وہ عزت کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہندوستان اور مہاجروں سمیت یہ دنیا کا دستور ہے کہ عزت ہر چیز پر مقدم ہوتی ہے۔ لاڑکانہ چلو نہیں تو تھانہ چلو میں اداکارہ نے بھٹو کے شاہی مہمانوں کیلئے گیت نہیں گایا تھا تو حبیب جالب نے نظم لکھ ڈالی۔ اگر پاکستان سے ہتک عزت کا یہ قانون ختم کیا جائے کہ کرپٹ لوگوں کی عزت اس ملک کے قانون اور عدالتی نظام کے مطابق اربوں میں ہو اور غریب کی عزت ٹکے کی بھی نہ ہو تو اس ملک کو اس کا اپنا نظام دیمک کی طرح چاٹ لے گا۔اس کھوکھلے نظام کو اپنی روح کے مطابق زندہ دفن کرنے کیلئے اسلامی نظام کی ضرورت ہے اور علماء ، طلباء اور مدارس کا اسلامی نظام نہیں جسے یہ خود دیمک کی طرح چاٹ چکے ہیں بلکہ قرآن وحدیث کے مطابق ۔ غلام احمد پرویز نے صرف احادیث کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ تعلیم یافتہ لوگوں میں جہالت کی روح پھونک دی تھی کہ قرآن میں بہتان کی سزا حضرت عائشہ کے حوالے سے بخاری ومسلم کی احادیث میں اہل تشیع کی ہی سازش ہے۔ حضرت عائشہ پر بہتان لگایا جاتا تو وہ صحابہ واجب القتل ہوتے۔ یہ حدیث کا انکار نہیں بلکہ قرآن کی روح اور مساوات کا بھی انکار ہے۔ قادیانی نبوت کا دعویدار کافر وگمراہ تھا جس نے قرآن وحدیث کی روح سے انکار کیا تھا اور اس کے دو گروہ بن گئے تھے لاہوری اس کو نبی نہیں مہدی مانتے تھے ، قادیانی نبی مانتے تھے۔ پرویز پر بھی علماء نے یہی فتویٰ لگایا تھا۔ پنجابی پرویزی بلوچستان کے ذکریوں کی طرح سے نماز نہیں پڑھتے اور نہ مانتے ہیں اور پٹھان پرویزی بھی نماز پڑھتے ہیں۔
علماء کی جان اسٹیبلشمنٹ اور بھٹو نے قادیانیوں سے چھڑائی ہے مگر پرویزی تو جاہلوں کی جان ہیں۔ چٹ بھی گمراہوں کی ہے اور پٹ بھی گمراہوں کی ہے ۔علماء استنجوں کے ڈھیلوں کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور پھینک دئیے جاتے ہیں اور انکا اپنا نصاب سب سے زیادہ گمراہی کا شکار ہے۔ اگر نصاب کو درست کرلیا اور عملی شکل دیدی تو قادیانیوں اور پرویزیوں کے علاوہ تمام مسلمان بھی رشد وہدایت پائیںگے اورمساجد کے ائمہ آسمان کے نیچے حدیث کے مطابق بدترین مخلوق نہیں ہونگے بلکہ بہترین مخلوق ہونگے، مقتدی گمراہ نہیں مہدی ہونگے۔ مدارس کے مفتی صاحبان نہ خود گمراہ ہونگے نہ پوچھنے والوں کو گمراہ کرینگے۔ پاکستان میں اسلامی نظام آجائے تو فوج بیرکوں میں خدمت انجام دیگی۔ اچھے سیاستدان سیاست کرینگے ۔ میڈیا فلاح وبہبود اور انسانیت کی خدمت کریگا۔ عدالتیں جلد سے جلد عوام کو انصاف فراہم کرینگی۔ پولیس لوٹ مار کی بجائے عوام کو تحفظ فراہم کریگی، سول بیوروکریسی عوام کا خون نچوڑنے کے بجائے خدمت کریگی اورپاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا۔ پڑوسی اور مختلف زبان اورمذہب والے ایک دوسرے سے محبت کریںگے۔دنیا میں پاکستان انسانیت کی امامت کریگااورسبھی خوشحال ہونگے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ