پوسٹ تلاش کریں

پاکستان میں جمہوری اسلامی انقلاب کیلئے اِس قابلِ قبول منشور کی ضرورت

پاکستان میں جمہوری اسلامی انقلاب کیلئے اِس قابلِ قبول منشور کی ضرورت اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

نمبر….1 ……
نظامِ عدل کی جلد از جلد فراہمی۔ دنیا میں اقتدار کا اصل تعلق نظامِ عدل سے ہے ۔انسانوں اور جانوروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جانور میں طاقتور سے حساب نہیں لیا جاتا اور انسانوں میں کمزور کو تحفظ ملتا ہے طاقتور کیخلاف
پاکستان میں یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو انصاف نہیں ملتا ہے کیونکہ انصاف کیلئے طاقتور ہونا بھی ضروری ہے اور انصاف کے حصول کیلئے اچھے خاصے پیسے بھی!!
پارلیمنٹ تک پہنچنے کیلئے طاقتور طبقے کی حمایت اورپیسوں کی ضرورت ہے اور پارلیمنٹ میں کمزور طبقے اور غریب کیلئے قانون سازی نہیں ہوتی ہے جسکے نتیجے میں حالت بھی بگڑ گئی ہے
نظامِ عدل کیلئے چند بنیادی باتوں کو سمجھنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔

(1) پاکستان اسلام کے نام پر بناہے اور پاکستان کا آئین جمہوری ہے۔ اگر اسلام میں جمہوریت کی گنجائش نہ ہو تو پھر پاکستان کی بنیاد غلط ہے۔ اسلام نے ہی دنیا میں جمہوریت کی روح پھونک دی ہے۔ اسلام دین ہے اور دین میں جبر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لااکراہ فی الدین( القرآن) جب مکہ میں جاہل مشرکوں نے اسلام کے خلاف دشمنی کی انتہاء کردی تو جبری نظام کے ذریعے سے جاہلوں کا قلع قمع کرکے مکہ میں انقلاب برپا کیا جاسکتا تھا۔ حضرت سیدالشہداء امیر حمزہ، حضرت علی اور حضرت عمرفاروق اعظم کی قیادت میں چھاپہ مار کاروائی کے ذریعے سے ابولہب، ابوجہل اور ابوسفیان کو قتل کردیا جاتا تو سب اہل مکہ رام ہوسکتے تھے اسلئے کہ بنوہاشم کا خانوادہ ایک طاقتور اور شریف گھرانہ تھا جو انقلاب کے ذریعے حکومت قائم کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں عدمِ تشدد کی پالیسی پر مسلمانوں کو گامزن رکھا۔ اپنے گھربار، شہروعلاقہ اور وطن کو چھوڑ کر ہجرت کا حکم دیدیا۔
ریاستِ مدینہ کی بنیاد بھی اسلام نے انقلابی نہیں جمہوریت کو بنالیا تھا۔ داخلہ پالیسی میں یہود کیساتھ میثاقِ مدینہ اور خارجہ پالیسی میں صلح حدیبیہ کی بنیاد بھی خالصتاً جمہوری بنیادوں پر تھیں۔ دنیا کو اسلام نے جمہوری بنایا ہے۔

(2) اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان حکمت بین الناس فاحکم بالعدل ”اگر آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف کیساتھ فیصلہ کرو”۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف حکمران ، جج اور قاضی کو عدل کیساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے تو دوسری طرف حکمران سے اختلاف کرنے کی گنجائش بھی رکھی ہے۔ فرمایا:” اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول (ۖ) کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہو ،اس کی اطاعت کرو اور اگر تمہارا آپس میں کسی چیز پر اختلاف ہوجائے تو اس کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹادو”۔ (القرآن)
حضرت عمر نے غزوہ بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور حدیث قرطاس میں رسول اللہۖ سے اختلاف کیا تھا۔ قرآن وسنت میں جب رسول اللہۖ اولی الامر تھے تو بعض معاملات میں صحابہ کرام نے اولی الامر کی حیثیت سے رسول اللہۖ سے اختلاف کیا ہے۔ سنی مکتبۂ فکر کا اسلام جمہوری ہے اسلئے پاکستان میں جمہوری انقلاب کی ضرورت ہے۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے بعد جن لوگوں نے اپنی تائید سے ان تین خلفاء راشدین کو منتخب کیا تھا ، انہوں نے حضرت علی کو بھی منتخب کیا تھا۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی نے خود بھی اپنے لئے یہ حوالہ دیا ہے۔ ایران میں انقلاب کے ذریعے ہی سے بادشاہت ختم ہوگئی لیکن پھر جمہوری نظام ہی کو بعد میں اختیار کیا گیا۔

(3)خلافت راشدہ کے دور میں عوامی جمہوریت کی طاقت مضبوط تھی لیکن اس کا غلط استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے حضرت عثمان مسندِ خلافت پر شہید کئے گئے اورپھر بھی خلافتِ راشدہ کا تسلسل جاری رہا۔ پھر یزید کے دور میں آمریت نے کربلا اور دوسرے سانحات سے جمہوریت کی بنیاد ختم کردی تھی تو بنوامیہ کے بعد بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کا اقتدار قائم ہوامگر خلافت نہیں قائم ہوسکی۔ آج پھر جمہوریت ہی کے ذریعے بادشاہت اور امارت نہیں خلافت کے قیام کی سخت ضرورت ہے۔ جمہوری نظام مغرب میں کافی مدت بعد آیا۔ جمہورِ امت، جمہورائمہ حدیث، جمہورائمہ فقہ اور جمہور کی اصطلاح بہت پرانی ہے۔ رسول اللہۖ کے وصال کے بعد انصار ومہاجر اور قریش واہلبیت کے درمیان خلافت کا مسئلہ جمہوریت ہی کی بنیاد پر حل ہوا تھا۔ حضرت علی ، حسن و حسین نے خلافتِ راشدہ میں اولی الامر کیساتھ اپنے اختلاف کی روح زندہ رکھی لیکن جب یزید نے اختلاف رائے کا حق چھین لیا تو باقی ائمہ اہلبیت نے امام مہدی کے خروج اور قرب قیامت تک سکوت اختیار کرلیا ۔ امام خمینی نے انقلاب برپا کرکے اہل تشیع کو ایک نئی جہت سے بھی آگاہ کردیا ہے۔
رحمن ملک نے چھ ہزارافراد کا داعش میں جنوبی پنجاب سے بھرتی ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ اس سے پہلے بلیک واٹر نے کیا کیا؟،وہ بھی قابل غور ہے۔

(4) پاکستان میں جمہوریت، مارشل لاء اور اس سے پہلے سول ایڈمنسٹریشن کا حال سب نے دیکھ لیا ہے۔ غریب عوام مایوس ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے تاریک ماضی کی بدولت صرف پیسوں کی بنیاد پر انقلاب نہیں لاسکتی ہیں اسلئے پہلے قومی اتحاد کے نو(9)ستاروں نے مفتی محمود کی قیادت میں تحریک کو نظام مصطفی کا نام دیا اور پھر مارشل لاء لگ گیا۔ اب نو (9)اوردو(2)گیارہ جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میںپی ڈی ایم (PDM)تشکیل دیا ہے۔ جمہوریت کیساتھ مذہبی رنگ نہ ہو تو عوام قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ پہلے پاک فوج پر تو عوام کو اعتماد تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اسلام کی بنیاد پر تحریک کامیاب ہوئی اور اس کا فائدہ جنرل ضیاء الحق نے اٹھایا۔ اب پاک فوج پر خلائی مخلوق، محکمہ زراعت کے بعد پاپا جونز کے پیزا نے عوام کا اعتماد ختم کردیا ہے۔ پاک فوج جبر سے کام نہ لے تو ہلڑبازی پر تحریک انصاف قابو نہیں پاسکتی ہے اور اگر جبر سے کام لیا گیا توملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ریاست کیلئے انواع واقسام کی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ عوام کو اقتدار نہیں انصاف اور دو وقت کی روٹی چاہیے ۔ حکومت نے گردشی سودی قرضے لیکر ریاست کو بھی اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر چل سکے۔ اغیار کی بیساکھیوں پر چلنے سے حکمرانوں نے امیر کوامیرتر اور غریب کو غریب تر بنادیا ہے اور بس!۔

نمبر….2 ……
غیر اسلامی نظام اور اسلامی نظام میں معیشت کا بہت ہی بڑا فرق ہے۔ سودی نظام کو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولۖ کیساتھ اعلان جنگ قرار دیا جبکہ اسلام زکوٰة سے سود کے برعکس بھتہ خورکے مقابلہ میں حاجت مند کی مدد کرتاہے
قدیم دور میں جاگیردارانہ نظام ہی سودی نظام اور انسانی غلامی کی سب سے بڑی بنیاد تھا۔ اسلام نے سودی نظام کیساتھ ساتھ جاگیردارانہ سودی نظام کا بھی مکمل خاتمہ کرکے رکھ دیاتھا
جب سود کی حرمت کی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے زمین کو مزارعت پر دینے کو بھی سود قرار دیدیا۔ فقہ کے ائمہ امام ابوحنیفہ، امام مالک ،امام شافعی نے مزارعت کوسود قرار دیا تھا۔

(1)آج اگر پاکستان پر سودی قرضے نہ ہوتے توہمارے حکمران کسی کے بھی غلام نہ ہوتے۔ حکمرانوں کے دل چھلنی ہوجاتے ہیں جب وہ پٹرول اور اشیاء خورد کی قیمتوں پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف(IMF) سے قرضہ اسی شرط پر ملتا ہے جب بجلی،گیس اور دیگر اشیاء مہنگی کردی جائیں۔
مہنگائی کے دور میں اچھے بھلے لوگوں کا بھی جینا دوبھر ہوجاتا ہے ۔ غریب لوگوں کا تصور کرنا بھی دل ودماغ پر بوجھ بنتا ہے کہ وہ کس طرح سے گزارے کی زندگی بسر کررہے ہوںگے؟۔ کسانوں کے نام پر جو اربوں کی سبسڈیاں حکومت کی طرف سے ملتی ہیں وہ بھی آٹے ، چینی مافیاز کی نذر ہوجاتی ہیں۔
پاکستان میں بڑی نعمت پانی کا بہاؤ ہے۔ جس سے زراعت اور سستی بجلی کی پیداوارمیں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر عوام کو مفت کی زمین مہیا کرکے کاشت کیلئے دی جائے تو لاکھوں خاندانوں کو فوری طور پرروز گار ملے گا۔ جاگیردارانہ نظام میں مزارعین کی حیثیت غلاموں اور لونڈیوں کی تھی اور اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کرکے انسان کو انسان کی غلامی سے نکالنے کا سامان فراہم کردیا۔ مدینہ کے مالکی فقہا ء کرام نے شروع میں ان حنفی فقہاء حضرات کی سخت مخالفت کی جنہوں نے حیلے سے مزارعت کے نظام کو امام ابوحنیفہ کے مسلک سے بغاوت اختیار کرکے جائز قرار دیا تھا۔ شافعی مسلک کے فقہاء کرام نے بھی بھرپور مزاحمت کی تھی لیکن رفتہ رفتہ اہل اقتدار اور شیخ الاسلاموں کی ملی بھگت سے جاگیردارانہ نظام جائز قرار پایا۔ مزارعین اپنی روٹی، اپنے جسم اور اپنے مفادات کے مالک بھی نہیں ہوتے تھے۔جاگیردارانہ نظام کی زکوٰة و خیرات پر پلتے تھے۔ علماء وفقہاء بھی اسی جاگیردارانہ نظام کی اسی زکوٰة پر پلتے تھے جو درحقیقت سود ہوتا تھا۔
جس طرح بینکوں کے سود سے زکوٰة کٹتی تھی جس کو مفتی محمود نے سود قرار دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن اس کوشراب کی بوتل پر آبِ زم زم کا لیبل قرار دیتے تھے مگر پھر بینظیربھٹو کے دور میں شریکِ اقتدار ہوگئے تو جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں کو زکوٰة چیئرمین کے عہدوں پر فائز کردیا۔ اب تو علماء ومفتیان کا وہی طبقہ مسلط ہے اور وہی معتبر کہلاتا ہے جنہوں نے اپنے اسلاف وجمہور سے اختلاف بلکہ ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے بینکنگ کے سودی نظام کو جواز بخشا ہے۔ علماء حق پہلے کی طرح موجودہ دور میں دب کر رہ گئے ہیں۔

(2) علامہ اقبال نے ”فرشتوں کا گیت” کے عنوان سے لکھ دیا تھا کہ
اُٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے دَر و دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
تحریک خلافت کے معمار مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی صحافت کامریڈ کے نام سے کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے بھی مندرجہ بالا گیت روس کے نظام سے متأثر ہوکر لکھی تھی۔ اگر قرآن وحدیث اور جمہور فقہاء کیخلاف جاگیردارانہ نظام کو جواز نہ بخشا جاتا تو کارل مارکس اور لنین کے کمیونزم نظام کی دنیا کو ضرورت بھی پیش نہ آتی۔ جمعیت علماء ہند اور مجلس احرار الاسلام بھی امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں روسی نظام کو اسلام کے قریب سمجھتے تھے۔پاکستان میں جمعیت علماء ہند اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں نے اتحاد کرلیا تو جمعیت علماء ہند کی فکر رکھنے والوں پر دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ لگایا گیا۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان، مولانا رسول خان ہزاروی،مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ کے فتوؤں کی زد میں مفتی محمودوغیرہ آگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا لیکن علماء ومفتیان نے ان کی درست رہنمائی نہیں کی تھی۔ اگر اسلام کے مطابق مزارعت کے حوالے سے درست فیصلہ کیا جاتا تو خلقِ خدا مشکلات سے نکل سکتی تھی۔
جب بھٹو نے نعرہ لگایا کہ مزدور کسان ملوں اور کھیتوں پر قابض ہوجائیں تو پختونخواہ کے ترقی یافتہ علاقے سوات، دیر،مالاکنڈ میںایک طرف علاقائی نظامِ عدل کا خاتمہ کردیا گیا تودوسری طرف کسانوں نے زمینوں پر قبضہ کیا۔ جس کے نتیجے میں بڑے لوگ قتل ہوگئے اور وہ رپورٹ بھی نہیں ہوتے تھے۔ والئی سوات کے دور میں سوات اور بونیر میں مثالی امن ہوتا تھا دشمنیوں کا کوئی تصور تک نہیں ہوتاتھا۔ جب کوئی کسی کو قتل کردیتا تھا تو اس کے گاؤں میں ہی والئی سوات کی فورس پہنچ جاتی۔ قاتل خاندان کے ذمے فورس کو کھانا فراہم کرنا ہوتا تھا۔ دو چار دنوں میں قاتل کا بھائی اپنے قاتل بھائی کو خود ہی حاضر کردیتا تھا۔ مقتول کے وارثوں سے پوچھا جاتا تھا کہ معاف کرنا ہے، بدلہ لینا ہے یا دیت لینی ہے؟۔ وارث جو فیصلہ کرتا تھا اس پر فوری طور پر عمل ہوتا تھا۔

(3) اگر پورے پاکستان میں مزارعین کو مفت زمینیں فراہم کی جائیںتو یہ اسلامی انقلاب کی ابتداء ہوگی۔ مالاکنڈمیں مزارع زمینوں پر قابض ہوگئے۔ مالکوں نے ایک چوتھائی زمینیں دینے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے لیکن پاکستان کے عدالتی نظام نے مالکوں کو انصاف دینے میں بڑے عرصہ سے تاخیر کر رکھی ہے اور کافی عرصہ سے ان کو اپنی جان کے بھی لالے پڑے ہیں۔ سوات میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت اور تحریک طالبان کے پیچھے اسلامی نظام کے امنگوں کا بڑا عمل دخل تھا جس کو اے این پی کی حکومت نے بھی مان لیا تھا۔
اگر پورے پاکستان میں غریب مزارعین کو مفت زمینیں نہیں دی گئیں تو پھر داعش میں بھرتی ہونے کی خبروں میں صداقت ہو یا نہ ہو لیکن ایک دن وہ افراتفری پھیل جائے گی کہ جسکے بعد انقلابِ فرانس کو بھی لوگ بھول جائیں گے۔ بڑے پیمانے پر حرام کمانے والے سیاستدانوں، ججوں ، جرنیلوں ،سول بیوروکریٹوں اور مختلف طبقات نے اپنے باہر ٹھکانے بنارکھے ہیں لیکن جب طوفان اُٹھے گا تو حضرت نوح علیہ السلام کے اس بیٹے کی طرح جس کوقرآن نے ”عمل غیر صالح ” قرار دیکر فرمایا کہ ”وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے”۔ کوئی بھی شاید نکل کر بھاگنے میں پھر کامیاب نہ ہو۔ وہ کہتا تھا کہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا لیکن موجوں نے اس کو غرقاب کردیا تھا۔
پاکستان کے مسائل تو کسی نے حل نہ کئے لیکن مسائل پیدا کرنے والے وسائل پر لڑ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مالاکنڈ کے لوگوں کو اپنی زمینوں سے ہی محروم کردیا اور خود سندھ کی سرکاری زمینوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ یہی صورتحال نہ صرف مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام کی ہے بلکہ ریاستی اداروں میں بڑے اثرو رسوخ کے مالک بھی یہی کام کررہے ہیں۔ ہوس ختم ہونے کا نام نہ ہو تو اس کا انجام کیا ہوگا؟۔ لوگوں کو انکے آپس میں لڑنے مرنے سے کوئی سروکار نہیں ۔ منتظرہیں کہ ایکدوسرے سے ٹکراکرعوام کی جان کب چھوڑیں گے؟۔
جب عوام کی جان،مال اور عزتیں محفوظ ہوں گی تو سیاستدانوں اور اپنے حکمرانوں سے ان کو محبت اور ہمدردیاں بھی ہوں گی۔ حکومت وریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ عوام کی جان وعزت کو تحفظ دے سکیں بلکہ ان کو اپنے تحفظ پر ہی سارے وسائل خرچ کرکے بھی تسلی نہیں ہوتی ہے کہ ہوسکتا ہے کسی وقت بھی ان کو نقصان پہنچانے والے اپنے مقاصد پورے کرلیں۔

(4) عزیز ہم وطنو !کا نعرہ ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر لگتا رہاہے۔ایک مرتبہ پارلیمنٹ سے یہ آواز بلند کی جائے کہ مدینہ کی ریاست کا نظام لانے کی ابتداء ہوگئی ہے۔ زمین پر قبضہ مافیا فوری طور پر ناجائز قبضے کو چھوڑ دے۔ جس نے ناجائز قبضہ یا دعویٰ کیا ہو تو اس کو سخت سے سخت سزادی جائے گی۔ جج غلط فیصلہ اور وکیل غلط وکالت کریں تو ان کو بھی الٹا لٹکایا جائے گا۔
جاگیردار جتنی زمین کاشت کرسکتے ہوں اتنی خود کاشت کریں اور اسکے علاوہ جس کو مرضی دیں مگر مفت دیں تو غربت کی لکیر سے عوام کو اوپر لانے میں زیادہ دیرنہیں لگے گی۔دریاؤں اور نہروں پر پن بجلی کے ذریعے چھوٹے بڑے یونٹ کی بجلی پیدا کرکے عوام کو رینٹل پاور سے مہنگی بجلی اور حکومت کو سبسڈی دینے کی مشکل سے آزاد کیا جائے۔ سستی بجلی کے ذریعے سے غریب اور فیکٹری ومل مالکان کو نہ صرف بجلی چوری سے روکا جاسکتا ہے بلکہ بڑے پیمانے پر بجلی کے استعمال سے ریاست کو ٹیکس کی مد میں بہت کچھ مل سکتا ہے۔ محنت کش عوام ، تاجر اور اشیائِ ضرورت کے خریدار عوام کے درمیان سے دلّالوں کا کردار ختم کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے مگر ہمارے اہل اقتدار خود مافیا ہوتے ہیں۔ عمران خان کو اقتدار کی دہلیزتک لانے اور پہنچانے والے بھی یہی تھے۔
خیبر پختونخواہ کے لوگوں میں بڑی طاقت ہے۔ مزدور کسانوں نے قبضہ مافیا کا کردارمالاکنڈمیں اس وقت ادا کیا جب ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو شئے دی۔ طالبان کو بینظیر بھٹو نے امریکہ کے حکم پر تشکیل دیا تو وزیرستان کے لوگوں نے امریکہ کی طرف مشکلات کھڑی کرنے پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ جب پچھلے الیکشن عدلیہ نے کروائے تو آصف علی زرداری نے آراوز کا الزام لگایا کہ سلیکشن ہوئی ہے۔ پھر فوج نے الیکشن کروائے تو فوج پر دھاندلی کے الزام لگ گئے۔ الیکشن میں مقررہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے اور بدمعاش طبقہ الیکشن میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
جب ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے کارکنوں نے پارلیمنٹ کے سامنے قبضہ کیا ، عدالت کو دھوبی گھاٹ بنایا، پولیس کی دھلائی کردی، پی ٹی وی(PTV) پرقبضہ کیا تو پولیس کے اندر سیاسی کارکنوں کو قابو کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ فیض آباد دھرنے کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی فوج پر اعتماد کیا گیا۔ ملک میں اگر انارکی پھیل جائے تو فوج کے بغیر چارہ نہیں ہوتا لیکن معاملہ بگڑ رہاہے۔

نمبر….3 ……
صحافت کی آزادی سے سچ و جھوٹ کے درمیان تفریق واضح ہوجائے گی۔ جب حق آتا ہے تو باطل مٹ جاتاہے اور زنا کی سزا قرآن میںسو(100)کوڑے ہیں جبکہ بہتان کی سزا اسی (80)کوڑے ہیں،جھوٹ پر گرفت ضروری ہے۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خواہشات اور پیسوں کی بنیاد پروکالت اورجھوٹ کی فیکٹریوں کا خاتمہ کرنا ضروری ہے جس نے قوم کو بالکل گمراہ کرکے رکھ دیا۔سچ کو قومی شعار بنانا ہوگا۔
ہٹ دھرمی اور فضول کی بکواس نے قومی مرض کی شکل اختیار کرلی ہے، حدیث خیرالکلام ماقل ودل ”بہترین کلام وہ ہے جو مختصر ہو اور نشاندہی کرے” پر صحافیوں کو عمل کرنا پڑے گا

(1)الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو جھوٹ کے بازار کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

تخریب کاری اور صحافت میں بڑافرق ہے۔ تخریب کاری یہ ہے کہ ایک فریق کی وکالت کرکے دوسرے سے صحافت کے نام پر دشمنی کی جائے اور یہ سب سے بڑی خطرناک تخریب کاری ہے۔ الیکٹرانک، پرنٹ ، سوشل میڈیا کے صحافیوں میں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ، چمن کی زینت انہی کی مرہونِ منت ہے۔اللہ زندہ وتابندہ اور ہمیشہ جیتا اور ہنستا بستا رکھے ۔ قوم کو شعورسے مالامال کرنے والی صحافت ہماری دنیا اور عاقبت کابہت بڑا سرمایہ ہے ۔لیکن صحافت اور وکالت میں بہت بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ وکیل کو قانون نے اجازت دی ہے کہ وہ مجرم کو بھی بے گناہ ثابت کرے لیکن صحافی کیلئے کسی کی بھی وکالت کرنا ایک بہت بڑا مجرمانہ فعل ہے۔ قانون میں کسی سیاسی پارٹی کو اپنا چینل، اخبار اور سوشل میڈیا نیٹ ورک کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ہم سے اخبار کی رجسٹریشن میں سیاسی وابستگی نہ ہونے کی صفائی بھی مانگی گئی۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا کہ میتوں سے بلیک میل نہیں ہوںگے ۔ ہزارہ اور شیعہ پاکستان میں اقلیت شمار ہوتے ہیں لیکن بریلوی مکتبۂ فکر کی بہت بڑی اکثریت ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے دھرنا دیا تو تحریک لبیک کیساتھ وعدہ کیا گیا کہ ”فرانس کے سفیر کو ملک بدر کردیںگے”۔ وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت بلیک میل ہوگئی تھی یا دل کی گہرائیوں سے سچا وعدہ دیا تھا؟۔ صحافت کو فریق کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ جب فرانس کے خلاف اشتعال تھا تو تحریک لبیک نے اپنا مؤقف وقتی طور پر ٹال دیا تھا لیکن جب عوام کا اشتعال نہیں رہا تو لوگوں سے اپیل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے ہیں۔
حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسن کے درمیان معاہدہ تھا کہ امیرمعاویہ کی وفات کے بعد اقتدار یزید کو نہیں حضرت حسن کو منتقل کیا جائیگا۔ جب حضرت حسن کا انتقال پہلے ہوگیا توحضرت معاویہ نے یزید کو نامزد کردیا تھا۔

(2)اُمت مسلمہ کو اعتدال کے راستے پر لانے کی سخت ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر شیعہ اور سنی علماء کے درمیان ایکدوسرے کے خلاف جس انداز سے گفتگو ہورہی ہے یہ شیعہ سنی فسادات کا بڑا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے اور یہ بڑی عاقبت نااندیشی ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں یہ آگ جلانے والے پاکستان کو اپنا میدانِ جنگ بنارہے ہیں۔پاکستان کی ریاست شیعہ سنی فسادات کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ شیعہ سنی کے علاوہ دیوبندی بریلوی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ فرقہ واریت کے پیچھے جہاں مذہبی جذبہ ہے وہاں سب کا اپنا اپنا مفاد بھی ہے۔ باہرسے پیسوں کا کھیل ختم ہوجائے تو بھی اچھا ہوگالیکن جب ماچس اور تیل کا ایندھن موجود ہو تو فرقہ واریت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
جب حضرت عثمان نے بھرے شہر میں شہادت پائی تو حضرت عائشہ نے گھر سے نکل کر شامی لشکر کی قیادت فرمائی۔ جب حضرت حسین نے کربلامیں شہادت پائی تو تحریک کا پرچم بی بی زینب علیہاالسلام نے اٹھالیا۔ اُم المؤمنین کے کردار سے سیاسی اختلاف اپنے وقت کے مسلمانوں نے بھی کیا اور آج تو اس اختلاف پر شیعہ فرقہ وجود میں آیا ہے لیکن ”گھر میں بند رہنے کے حکم” کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔ جب صلح حدیبیہ میں حضرت عثمان کی شہادت پر بیعت لی گئی تو رضوان کی سند مل گئی، جب خبر جھوٹی نکلی اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے پر نبیۖ نے صحابہ کے رویے پر مایوسی کا اظہار فرمایاتواُم المؤمنین نے مشورہ دیا کہ بال مومڈلیں ،جسکے بعد صحابہنے فوراً بال مونڈدیئے تھے۔
صحابہ کرام نے جس مشکل صورتحال میں آپس کی جنگیں کرکے ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتاردئیے تھے،اب اگر مشکل حالات پیدا کئے گئے پھر لاکھوں اور کروڑوں تک بات پہنچنے سے بھی نہیں رُکے گی۔ اہل تشیع کو اپنے عقائد کا پورا پورا حق ہے لیکن جس طرح وہ اپنے ائمہ کرام کیلئے احترام چاہتے ہیں اور گستاخی برداشت نہیں کرسکتے ہیں اسی طرح اہلسنت کے جذبات بھی مجروح ہوتے ہیں،دلائل کا سب کو حق ہے لیکن گستاخی سے معاملہ بگڑے گا۔

(3) صحافت سے خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کرلیا کہ اقتدار سے پہلے حقائق معلوم نہیں تھے۔ جب دہشتگردی کی فضاء میں آصف زرداری ہزارہ برادری کے دکھ درد میں اسلئے شریک نہیں ہوسکتے تھے کہ صدر مملکت کا اپنا پروٹوکول ہے اور اپوزیشن کے رہنما عمران خان اس سے واقف نہیں تھے تو یہ ناواقفیت تھی لیکن جب خود وزیراعظم بن گئے تو حالات کا پتہ چل گیا۔ ہزارہ برادری والوں نے عمران خان کی اپوزیشن کا کردار دیکھا تھا جب وہ اہل اقتدار کو آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے اور انکے کردار کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بات کررہے تھے۔ شہبازشریف نے ملک اسحاق اور اسکے بیٹے کو ساتھیوں سمیت پولیس مقابلہ میں مروابھی دیا۔ جب عمران خان نے کہاتھا کہ سپاہ صحابہ والوں نے مجھ سے کہا کہ شیعہ سے صلح کرادو، آئی ایس آئی (ISI)جب چاہتی ہے ہمیں لڑا دیتی ہے، جب عمران خان کہتا تھا کہ میں نوے (90) دن میں دہشتگردی ختم کردوں گا اور یہ الزام نہیں لگاؤں گا کہ بھارت سے دہشتگردی ہورہی ہے بلکہ اندر سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کروں گا۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا غلط تھا کہ میں نے سب مطالبات مان لئے ہیں جبکہ ہزارہ برادری کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ میت دفن ہونے سے پہلے عمران خان کو آنا ہوگا۔ عمران خان نے انکے سارے مطالبات مان کر بلیک میلنگ قبول کرلی لیکن غلط بیانی سے کام لیا۔ ہزارہ کی آڑ میں سب شیعہ دہشتگردوں کو چھوڑنا کونسا جائز مطالبہ تھا؟۔وزیراعظم کو شاید پہلے یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ دھرنے کے علاوہ کسی خاص جگہ پر بھی میت کے لواحقین سے مل سکتے ہیں لیکن جب یہ پتہ چل گیا تو اسامہ ستی کے والد کو بھی وہاں بلالیا جہاں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی (ISI)سے ایک دن پہلے ملاقات کی تھی۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ آرمی چیف نے مچھ میں غفلت کے مرتکب افسران کو برطرف کردیا ہے۔ مچھ دور دراز کا وہ علاقہ ہے جہاں مزدوروں کے قتل کا شاید کسی کو اندیشہ نہ تھا۔

(4) اعتمادکی فضاء پیدا کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔

جب اہل مدارس کو اپنے علم پر بھی اعتماد نہ ہو اور علم کی روشنی پھیلانے کو ہی اپنی موت سمجھتے ہوں تو پھر جہالتوں سے خیر کی کیا توقع ہوسکتی ہے؟۔ ریاست جیسی تیسی بھی ہے اس پر اعتماد کرنا ہوگا، سیاست جیسی تیسی بھی ہے اس پر اعتماد کرنا ہوگا، مدارس جیسے تیسے بھی ہیں ان پر اعتماد کرنا ہوگا، صحافت جیسی تیسی بھی ہے اس پر اعتماد کرنا ہوگا، عدالت جیسی تیسی بھی ہے اس پر اعتماد کرنا ہوگا۔
رسول اللہۖ کی شخصیت پر اعتماد کیا گیا تو عرب کی جاہلیت روشنی میں بدل گئی۔ پہلے دو خلفاء راشدین پر اعتماد کیا گیا تو اسلامی سلطنت نے استحکام پکڑ لیا اور جب حضرت عثمان اور حضرت علی سے قوم بدظن ہوگئی تو صحابہ نے فتنوں اور فسادات میں بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ اعتماد کی بنیاد پر قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ میڈیا نے جہاں قوم کے اعتماد کو بہت ٹھیس پہنچانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے وہاں قوم کے اعتماد کو بحال کرنے میں اس سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ البتہ میڈیا کو بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنا ہوگا۔ یہ زیادہ اہمیت کی بات نہیں تھی کہ ہزارہ شہداء کی میتیں دس (10)ہیں یا گیارہ(11)ہیں لیکن یہ تو نہیں تھا کہ غلطی سے ایک فِگر جاری ہوگیا تو اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی تھی۔ مجال ہے کہ ایک دفعہ کسی ہٹ دھرم چینل کے سکرین پر فِگر آجائے کہ پھر اپنی غلطی کی اصلاح کرلیں۔ یہ رویہ بہت غلط اور قابلِ مذمت ہے ۔
صحافت کو مٹھاس، اعتماد اور خوشگوار فضاء بنانے کیلئے استعمال کیا جائے تو پاکستان کے پاس غم کھانے کیلئے بیدردی سے شرمناک حرکت کرتے ہوئے بچیوں ، بچوں، خواتین اور خواجہ سراؤں کو قتل کرنے کا غم کھانے اور اس کے تدارک کرنے کیلئے کوئی موقع ملے گا۔ وسائل پر لڑنے والے عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ میڈیا اپنا سارا وقت اور لوگوں کا وقت ایک ایک بات کو چباچبا کر اور مرچ مصالحے لگالگاکر پیش کرتی ہے تو لوگ اسی کو مسئلہ سمجھنے لگتے ہیں۔ صحافت کو اپنا سنجیدہ کردار ادا کرنیکی ضرورت ہے۔
نمبر….4 ……
ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ہاتھوں قتل کئے جانے والے افراد مسلم لیگ ن کے کردار پر دھبہ ہے یا عمران خان کی بے بسی کا شاخسانہ ہے؟۔ یہ پولیس گردی ہے، سیاست گردی ہے ، عدالت گردی ہے؟قوم کو کچھ تو پتہ چلے گا؟۔
معاشرے میں یہ نعرہ بڑامشہور اور مقبول ہوا کہ ”یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” لیکن ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کا سراغ ابھی تک نہ مل سکا کہ نامعلوم کیا اور معلوم کیا ہے؟۔
اگر ہماری حکومت اور ہماری ریاست میں سزاؤں کا تصور واضح ہوتا تو غلط نعرے نہ لگتے اور معاشرے میں مجرم چھپائے نہ جاتے تو بڑے پیمانے پرمسنگ پرسن کا کوئی معاملہ نہ ہوتا۔
(1) جب مرکز میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں شہبازشریف کی حکومت تھی توڈاکٹر طاہرالقادری نے کینیڈا سے آکر انقلاب برپا کرنا چاہا۔ کراچی میں ایم کیوایم کے الطاف حسین نے بھی اس کیلئے ایک جلسے کا اہتمام کیاتھا۔ لیکن آصف زرداری نے اپنی حکمت عملی سے ناکام بنایا تھا۔لاہور سے انقلاب کا سفر شروع ہوا ، اسلام آبادمیں خواتین اور بچوں سمیت ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہلّہ بول دینا تھا مگر پھر قمر زمان کائرہ نے اس کی نقل اُتارنے کے بعد نہ صرف اسکے غبارے سے ہوا نکال دی بلکہ مذاکرات کرکے آرام سے بھیج بھی دیا ۔
پھر جب پنجاب اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت تھی تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے پھرسے آنے کی تیاری شروع کردی۔ تیاری سے پہلے ن لیگ نے لاہور ماڈل ٹاؤن میں اسکے لشکر کو نشانہ بنایا اورچودہ(14)افراد شہید کردئیے۔ حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے جہاز کو اسلام آباد کے بجائے لاہور میں اتار دیا تو اس نے جہاز سے اترنے سے انکار کردیا کہ فوج مجھے لینے آجائے ، حکومت مجھے مار سکتی ہے۔ پھر اس وقت موجودہ پنجاب کے گورنر پر اعتماد کیا گیا ۔پھر عمران خان کیساتھ مل کر اسلام آباد کا دھرنا دیا۔ جس میں آخر کار طاہر القادری نے دھرنے سے چھٹی کرلی اور عمران خان نے کہہ دیا کہ میں نے رشتہ تو نہیں مانگا تھا؟۔ آج ڈاکٹر طاہرالقادری انصاف لینے بھی نہیں آرہے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب شروع کررکھا تھا۔ میرانشاہ میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی مخالفت میں ن لیگی حکومت، صحافی طبقے کی اکثریت ، جماعت اسلامی اور عمران خان وغیرہ وغیرہ پیش پیش تھے لیکن جب آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ ہوا تو عمران خان نے دھرنے کی چھٹی کی اور قومی ایکشن پلان پر پاک فوج اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق ہوا تھا۔ ردِ عمل میں کراچی ائرپورٹ، سہون شریف اور شاہ نورانی کے دربار پر بھی حملے ہوگئے۔ نوازشریف اور اسکے بچے پانامہ لیکس، پارلیمنٹ کی تحریری تقریر اور میڈیا کے بیانات میں پھنس گئے۔ الزام فوج پر ڈال دیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ردالفساد کے نام سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ انڈیا کی سرحد پر بڑا پاکستانی جھنڈا لہرانے کا پروگرام کیا اور افغانستان میں گھس کر بھی دہشت گردوں سے بدلہ لے لیا۔ جب سب نے مل کر اس کیلئے آئین میں ترمیم کر ڈالی اور ن لیگ کو عدالت میں سپورٹ نہیں دی تو ن لیگ نے مولانا فضل الرحمن کیساتھ مل کر توپوں کا رُخ اِدھر کردیا۔

(2) محسود قوم کیساتھ بہت بڑی زیادتی اور کچھ اس کی اپنی غلطیاں تھیں

جنوبی وزیرستان میں محسود قوم کے ایک طرف شمالی وزیرستان کے وزیر اور داوڑ ہیں تو دوسری طرف جنوبی وزیرستان میں وزیر اورسلیمان خیل ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہوشیار پرندہ پھنستا نہیں لیکن جب پھنس جاتا ہے تو شکنجے میں اسکے دونوں پاؤں پھنس جاتے ہیں۔وانا جنوبی وزیرستان میں وزیر قوم نے شروع میں طالبان کو خوب سپورٹ کیااور شمالی وزیرستان میں بھی وزیر قوم نے ان کو خوب سپورٹ کیا۔ طالبان کے ذریعے بدمعاشوں اور اثرو رسوخ رکھنے والی قیادت کو نیست ونابود کردیا۔ عوام بڑے خوش تھے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے اس دہشت گردی کی بلا کے بعد۔ جنوبی وزیرستان میں بھی وزیر قوم نے ازبک مہمانوں کیساتھ حسن سلوک کیا ، رشتے ناتے بھی کئے لیکن پھر جب ازبکوں کی بدمعاشی حد سے بڑھ گئی تو وزیر قوم نے اپنے مجاہدین اور پاک فوج کی امداد سے ان کو شکست دیدی اور اپنے علاقہ سے مار بھگایا۔ پہلے وزیر کہتے تھے کہ اس دور میں ازبک صحابہ کرام کی طرح نیک اور مجاہد ہیں لیکن مخالف ہوگئے تو کہتے تھے کہ ”ہم نے ایک ازبک کو بیٹی دی ہوتی تھی اور یہ چھ چھ اور آٹھ آٹھ اس بیچاری کو استعمال کرتے تھے”۔ سچ اور جھوٹ بر گردن راوی۔
ہمارا بیانیہ تھا کہ پہلے بھی وزیر جھوٹ کہتے تھے کہ صحابہ کی مانند ہیں اور پھر اب بھی جھوٹ بولتے ہیں کہ جانوروں جیسا سلوک عورتوں سے روا رکھتے تھے لیکن ہمارا مقصد عوام کو اعتدال پر لانا تھا۔ قاری محمد حسن شکوی شہید نے خود مجھے کہا تھا کہ ”القاعدہ کے لوگ بہت نیک ہیں۔ عبادات میں مشغول اور شکل سے بہت معصوم لگتے ہیں” ۔انہوں نے اپنے مدرسہ میں ان کو جگہ دیدی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ان بیچاروں کو شاید معلوم بھی نہ ہو لیکن امریکہ کی سازش اور خواہش پر اس علاقہ کو تباہ کر نے کیلئے ان کو یہاں لایا گیا ہے۔ پھر قاری صاحب نے میری بات کا یقین کرلیا اور ان کو شہید بھی کیا گیاتھا۔
جب ازبکوں کو وزیر قوم نے اپنے ہاں سے بھگایا تو محسود قوم میں جگہ دی گئی ۔ امریکہ سیٹلائٹ سے اسامہ بن لادن کا پیچھا کرسکتا ہے تو دہشتگردوں کو بھی نیست ونابود کرسکتا تھا لیکن اتنی انسانی جانوں کو قتل کرنا بھی بہت بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ازبکوں کو محسود قوم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بسایا تھا اور ازبک کے پاس بے پناہ دولت بھی تھی۔ غریب طبقہ نے طالبان بن کر نہ صرف مال کمایا بلکہ پورے پاکستان کو بھی سرپر اٹھالیا تھا۔

(3) محسود تحفظ موومنٹ سے لیکر پشتون تحفظ موومنٹ تک

کوئٹہ سے سوات تک طالبان پورے پشتون خطے میں موجود تھے اور انکو سب کی ہمدردی بھی حاصل تھی۔ بہت ساری زیادتیوں کے باوجود بھی سب نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔بیت اللہ محسود،قاری حسین اور حکیم اللہ محسود پاکستان میں دہشت کی علامت بن چکے تھے۔ عبداللہ محسود نے بھی لنگڑے پیر سے سب کو پریشان کررکھا تھا۔ پاک فوج جب محسود علاقہ میں آپریشن کرنا شروع کرتی تو طالبان آس پاس کے وزیر علاقہ میں منتقل ہوجاتے۔ آپریشن ختم ہونے کے بعد دوبارہ جب لوگ آتے تو وہ بھی آجاتے۔ اس سے پہلے گورنر پختونخواہ جنرل جان محمداورکزئی کے دور میں ایسا بھی ہوا تھا کہ علاقائی طالبان کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا اور قریب میں ازبک کے کیمپ کو ویڈیو بنانے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ جب گورنر نے قبائلی عمائدین کو بلایا اور شکایت کی کہ آپ لوگوں نے ازبکوں کو ٹھکانے دئیے ہیں تو مولانا عصام الدین محسود نے گورنر سے عرض کیا کہ” صاحب ! جان کی امان چاہتاہوں ،جو معلومات ازبک سے متعلق آپ نے دی ہیں یہ تو ہمارے پاس بھی نہیں لیکن پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ جب آپ ازبک کے پیچھے آئے تھے تو مقامی طالبان کے کیمپ کو کیوں کر نشانہ بنایا گیا؟۔پھر تو ازبک کو نشانہ بنانا چاہیے تھا”۔ گورنر اورکزئی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا بس یہ کہہ دیا کہ ” اگر ہم نا مارتے تو امریکہ تمہیں مارتا”۔ اس کے بعدیا اس سے پہلے طالبان کے پاس قبائلی نمائندے بھیجے گئے تھے اور پیچھے سے گولہ باری کرکے ان کو شہید کیا گیا تھا۔ ہم نے لکھ دیا تھا کہ محسود قوم کو چاہیے کہ حکومت سے اس کا معاوضہ لینے سے انکار کردے لیکن انہوں نے معاوضہ لے لیا۔ لالچ بری بلا ہے اور اس سے قوم تباہ ہوتی ہے۔
جب بار بار محسود قوم کے علاقہ میں آپریشن کیا گیا اور طالبان آس پاس کے علاقہ میں نکل جاتے تھے اور پھر قوم آجاتی تو طالبان بھی آجاتے تھے توہوا یہ کہ جب راحیل شریف نے آپریشن شروع کردیا تو پھر بھی کافی لوگوں نے اس کو گپ شپ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ جب رات کو وہ آگ یا دئیے جلاتے تو پاک فوج دہشت گرد سمجھ کر ان پر بمباری کرتی۔ اسلئے منظور پشتین نے اپنے ضمیر کے مطابق اپنی قوم کیلئے تحریک شروع کردی اور محسود تحفظ موومنٹ کے ساتھ دوسروں نے ہمدردی کا اظہار کیا تو اس کو پشتون تحفظ موومنٹ میں بدل دیا۔ علی وزیر کراچی میں بھڑکیاں مارتا ہے لیکن اس کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔

(4) محسود قوم میں بالخصوص اور وزیر قوم میں بالعموم بڑی صلاحیتیں ہیں۔

والئی سوات، نواب آف دیر اور نواب آف ٹانک سے لیکر بلوچستان کے پشتون اور بلوچ سرداروں اور نوابوں تک عوام کا مزاج الگ ہے ۔ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقہ جات کا مزاج بالکل دوسرا ہے۔ اگر محسود قوم کچھ معاملات سے ابتداء کرلے تو پورے پاکستان کو بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کیلئے طالبان کی طرح بہت زیادہ قربانی اور بربادی کی ضرورت نہیں۔
محسود قوم آزاد منش ہے۔ پیر، ملا اور سردار کی غلام نہیں ہے۔ علی وزیر کا دادا کریم خان ایک نامی گرامی شخصیت تھی۔ منظور پشتین کا تعلق ایک عام اور غریب گھرانہ سے ہے۔ محسود بہادر، آزاد منش، بااعتماد، سخی، متحرک، ہوشیار، غیرتمند اوربہت سی ان خوبیوں سے مالامال ہے جو کسی دوسری قوم میں نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے محسود قوم نے اپنے صدر مقام مکین جنوبی وزیرستان میں فیصلہ کیا کہ”منشیات پر پابندی ہوگی”۔ محسودقوم میں یہ خوبی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ بھی اپنی قوم پر منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب ایسی قوم شرپسندی پر آئے تو بھی اپنی شرپسندی میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ طالبان سے پہلے محسود قوم کے جوان طبقے نے ٹی ٹی ایف (TTF)کے نام سے ایک بدمعاش کی قیادت میں تحریک اُٹھائی تو اس نے بڑی مثال قائم کردی۔ پھر اسکے بعد گل ساخان کی قیادت میں چوروں اور ڈکیتیوں کے خلاف تحریک چلائی تو پھر کمال کرکے دکھادیا۔
اب ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو فیصلوں پر معاوضہ ” خالوت” کو ختم کردے۔ سارے جوان، بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے لوگ اس برائی کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ غریب لوگوں سے زبردستی فیصلوں کے نام پر لاکھوں روپے بٹورے جاتے ہیں اور یہ دہشتگردی سے بھی بڑا ناسور ہے۔ ذاتی مفادات کی بنیاد پر مجبور لوگوں سے فائدہ اُٹھانے سے بڑا حرامی پن کوئی نہیں ہے جس کو وہ شرافت کے لبادے میں مجبور اور غریب لوگوں پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔
اسلام کا شعور شروع کیا جائے تو علماء ، تبلیغی جماعت اورپیرانِ طریقت کو وزیرستان میں انقلابی اقدامات اُٹھانے کی توفیق ملے گی۔ جس کے بعد پورا پاکستان بھی بدلے گا اور پوری دنیا بھی بدلے گی۔ علامہ اقبال نے ” محراب گل افغان” کے تخیل سے محسود اور وزیر قوم کو انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیا تھا۔ علامہ اقبال دوسروں سے مایوس اسلئے تھے کہ وہ آزاد منش نہیں رہے تھے۔
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتہ ٔسلطانی وملائی وپیری
نمبر….5 ……
پاکستان کا بیڑہ کیوں غرق ہے اور مشکلات سے یہ کیسے نکل سکتا ہے؟۔بیماری کی تشخیص کے بعد اس کا علاج بہت ضروری ہے۔ سودی قرضے لیتے جاتا ہے، لیتے جاتا ہے ، لیتے جاتا ہے اور کھاتا جاتا ہے، کھاتا جاتاہے اور ……
کرونا سے بچنے کیلئے کسی موٹے سے بچے کا اشتہار یاد پڑتا ہے جو ہاتھ دھوتے جاؤ، دھوتے جاؤ، دھوتے جاؤ ، دھوتے جاؤ کی رٹ لگاتا تھا، پاکستان کا بھی قرضہ لینے کا وہی حال ہے
قرآن میں سود کو اللہ اور اسکے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے اور حدیث میںتہتر(73)گناہوں میں سے کم ازکم گناہ اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر گناہ قرار دیا گیا مگر ہم سنجیدہ نہیں۔

(1) شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کی حالت دیکھ لیجئے گا۔

جامعہ دارالعلوم کراچی میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کے داماداور خلیفۂ مجاز مفتی عبدالرؤف سکھروی کے مواعظ کتابی صورت میں شائع ہیں جن میں لکھا ہے کہ ” ہمارے ہاں شادی بیاہ کی رسم نیوتہ میں لفافے کی لین دین کو علماء ومفتیان نے سود قرار دیا ہے۔ حدیث میں سود کے ستر سے زیادہ گناہ ہیں اور اس کا کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے”۔ مفتی عبدالرؤف نے شادی بیاہ کی تصاویر پربھی احادیث کی وعیدیں سنائی ہیں اور وہ اپنی تصویر سے بھی گریز کرتے ہیں، جب ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار میں مفتی تقی عثمانی کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ایک شخص نے ان سے پوچھ لیا۔ جس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی نے بتایا کہ ہمارا مقصد ہندوستان میں ہندو انہ رسم ورواج تھا ، جبکہ مسلمانوں کے ہاں یہ تحفہ ہے اور مفتی صاحب خود بھی دیتے ہیں۔ ہمارا کہا کہ ان سے اس بات کا ذکر بھی کریں ورنہ وہ پھر کچھ الٹا سیدھا بولیںگے۔
اگر پاکستان سودی قرضے لینے کو حیلہ کے نام سے اسلامی قرار دے تو پھر کیا ہمارے حکمرانوں کا یہ فعل اپنی ماں ریاست کیساتھ زیادتی نہیں ہوگا؟۔ سینٹ وقومی اسمبلی کامشترکہ اجلاس پارلیمنٹ میں طلب کیا جائے اور پورے ملک سے جید علماء ومفتیان کو بھی بلایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ اگر ریاست اپنے تحفظ کیلئے جہادی تنظیمیں، لیاری ایکشن کمیٹی اور اسلام کا بیڑہ غرق کرنے والے علماء ومفتیان کو پالے گی تو پھر کبھی پاکستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
آج بہترین موقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان جانے سے پہلے پہلے اس اقدام کی جرأت کریں۔ دنیا میں سود کی شرح کم سے کم اور ہمارے ہاں زیادہ سے زیادہ ہے مگر کیا اس سے پوری قوم کی ماں چُد جانے سے بچ جائے گی؟۔ حدیث میں سودکی بنیاد پر ماں کی گالی اسلئے دی گئی ہے تاکہ کوئی شخص اور کوئی قوم اس قسم کی غلطی کا ارتکاب بھولے سے بھی نہ کرے۔ ریاستِ مدینہ نے تو پہلے حق کی آواز بلند کرنے اور گالی دینے سے ہی سودی نظام کا قلع قمع کیا تھا۔ قرآن نے سود کو اللہ اور اسکے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا لیکن پھر بھی حس بیدار نہیں ہورہی تھی اسلئے رسول اللہ ۖ کو یہ الفاظ کہنے پڑے تھے۔

(2) سودی نظام اور اسکے بدترین نتائج کا پاکستان کو سامنا ہے۔

جب پرویزمشرف نے ڈالر لے کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی تک کو بیچ ڈالا تھا تو امریکہ میں یہ آواز اُٹھی تھی کہ ”پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں”۔ اگر پاکستان سودی قرضے تلے بے ضمیری کا عادی نہ بنتا تو ہماری غیرتمند پاک فوج کے سربراہ کو کم ازکم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوامریکہ کے حوالے کرنے پر تھوڑی بہت مزاحمت کرنے کی ہمت ہوتی۔ زرداری اور نوازشریف کے دور میں جو بیرونی گردشی قرضہ گیارہ(11)سوارب ڈالر تھا ،اب نیازی نے چوبیس (24)سو ارب ڈالر کر دیا ہے اور گراؤنڈ میں کچھ کام بھی نظر نہیں آرہاہے۔ پانچ سال پورے کرنے پر بات کہاں تک پہنچے گی؟۔ چوروں کو پکڑنے کے دعویدار نے سزایافتہ مجرم کو علاج کیلئے باہر جانے دیدیا۔ اگر چوہدری شجاعت مولانا فضل الرحمن کے دل کا آپریشن کرنے کیلئے قادیانی ڈاکٹر مبشرکو امریکہ سے بلاسکتا تھا تو نوازشریف کیلئے بھی بیرونِ ملک سے ڈاکٹر بلائے جاسکتے تھے اور نہیں تو کم ازکم عدالت کو مطلوب حسن نواز، حسین نواز کو بلانے کی شرط پر اجازت دینی تھی۔
مدینہ کی ریاست نے زمینوں کو مفت دینے سے سودی نظام کے خاتمے کی ابتداء کی اور جب حجاز پر اقتدار مستحکم ہوگیا تو رسول اللہۖ نے پہلے پہلے اپنے چچا عباس کا سود معاف کردیا اور اپنے خاندان سے خونِ جاہلیت معاف کرنے کی ابتداء فرمائی ۔ جب غریب لوگوں کو مفت میں زمینیں دی جائیں گی تو وہاں سے قابل ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ ، سائنسدان اور ہرشعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پیدا ہوںگے۔ پہلے ڈاکٹر وغیرہ بننے کیلئے قابلیت کی ضرورت ہوتی تھی اور اب پیسوں کی بنیاد پر گدھے بھی ڈاکٹر وغیرہ بن رہے ہیں جس سے ہماری قوم کا بیڑہ غرق ہورہاہے۔ قوم اس وقت ترقی کرتی ہے جب دماغ میں بھوسہ رکھنے والے مضبوط صحت کے لوگوں سے ہاتھ پیر کا کام لیا جائے اور صحتمند دماغ رکھنے والوں کو دماغ کے کام کیلئے تعلیم وتربیت دیدی جائے۔ ترقی یافتہ دنیا کے انسانوں اور ہمارے اشرافیہ نے فارمی مرغیوں کی حیثیت حاصل کرلی ہے اور پسماندہ مسلمانوں کی حیثیت دنیا میں اصلی مرغوں کی ہے جس سے فارمی طبقہ خوفزدہ ہے اسلئے غریبوں کو مذہب اور قومیت کی بنیاد پر ختم کرنے کے منصوبے دُنیا تیار کرتی ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے۔

(3) غلط علم غلط عمل کے فساد کیلئے سب سے بڑی بنیاد بنتا ہے۔

پہلے مذہبی طبقات جمعیت علماء اسلام، تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی اور جماعت اسلامی وتنظیم اسلامی کے اچھے لوگ عوام میں مذہب کا جذبہ بیدار کیا کرتے تھے۔ مدارس اور مساجد میں بینک کے سائے سے بھی نہ گزرنے کی تبلیغ کی جاتی تھی لیکن اسلامی بینکاری کے نام سے شیخ الاسلاموں نے اسلام کی روح چھین لی ہے۔ حلیہ کے اعتبار سے رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ”یہود کی طرح اپنی سفید داڑھیاں مت چمکاؤ”۔ اہلحدیث اس وجہ سے داڑھیوں کو رنگتے ہیں۔ حلیہ کے اعتبار سے احادیث کے ذخیرے میں سب سے زیادہ مضبوط روایت یہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا محمد خان شیرانی، مولانا عبدالواسع، مفتی کفایت اللہ اور مولانا پیر ذوالفقار کی سفید داڑھیوں میں کوئی کشش اسلئے نہیں ہے کہ مذہب کو اپنی درویشی کا کاروبار بنایا گیا ہے۔
حلالہ کی لعنت سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت وناموس کی دھجیاں بکھیر دی گئیں لیکن ان لوگوں کو اپنی لیڈری اور بزرگی کی پڑی ہوئی ہے۔جب کسی کو معلوم نہیں تھا تو کسی کا قصور بھی نہیں تھا لیکن جب اتمامِ حجت ہوگئی ہے اور پھر بھی گونگے شیطان بنے ہوئے ہیں تو یہود کے علماء ومشائخ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ حضرت علی ، حضرت حسن اور حضرت حسین سے ناصبیت کو بغض کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اقتدار کی طلب رکھتے تھے۔ ضلع ٹانک کے تمام بڑے علماء کرام جمعیت علماء اسلام ف اور س کے ضلعی امیر، جنرل سیکرٹری، سرپرست اور ختم نبوت کے ضلعی امیر کے علاوہ پاکستان بھر سے اکابر علماء نے بھی ہماری تائید کی تھی لیکن پھر بھی ہمارے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا اور پھر شکست بھی ان کو کھانی پڑی تھی۔ چلو علماء خود بھی ایکدوسرے کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔
لیکن جب حلالہ کی لعنت سے سادہ لوح عوام کی جان چھڑانے کیلئے چار کتابیں لکھ ڈالیں اور بڑے مدارس کے بڑے مفتیان اعتراف بھی کررہے ہیں تو سادہ لوح عوام کی عزتوں سے کھیلنا کونسی شرافت اور اسلام کا تقاضہ ہے اور اس کیلئے حق کی آواز اُٹھانے میں موت کیوں نظر آرہی ہے؟۔ اسلام کسی نے ٹھیکے پر ان کو تھوڑی دیا ہے؟۔ طالبان نے امریکہ کیخلاف ہتھیار اٹھالیا اور اپنوں پر استعمال کرلیا۔ مولوی اپنے عقیدتمندوں کی عزتیں لوٹ رہاہے۔

(4) اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین اور طریقت کا تزکیہ۔

تبلیغی جماعت اور طریقت کے نام پر لوگوں میں روحانیت کی فضاء قائم کی جاتی ہے۔ جب کوئی جذباتی تبلیغی یا صوفی ایک دَم اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور پھر اپنے فعل پر پچھتاتا ہے تو مدارس سے حلالہ کی لعنت کا فتویٰ لے لیتا ہے۔ مفتی صاحب شرعی گواہوں کی موجودگی کی شرط لگاکر یہ تأثر دیتا ہے کہ باشرع گواہوں کی صورت میں یہ کام ہوسکتا ہے جو مدارس کے علاوہ شاید کسی اور جگہ میسر نہ ہوں ۔ فتوے کیلئے قرآن وحدیث کی غلط تشریح کا حوالہ دیکر اس کو مرغوب کردیتا ہے اور فقہ کی کتابوں سے التقاء الختانین کی شرط سے واضح کردیتا ہے کہ یہ کام ہمارے کرنے کا ہے کسی اور سے نہیں ہوگا۔
جامعہ دارالعلوم کراچی سے اس قسم کے فتوے نکلتے ہیں جو ہم نے شائع بھی کردئیے ہیں۔ وہاں کے کچھ علماء ومفتیان نے طلاق کا فتویٰ دیناچھوڑ دیا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو زبانی فتویٰ دیتے ہیں کہ حلالہ کی ضرورت نہیں اور جب سائل کو تشفی نہیں ہوتی ہے تو ہمارے پاس تحریری فتوے کیلئے بھیج دیتے ہیں۔
جنگ گروپ کے اخبارِ جہاں میں” آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں ” مفتی محمد حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی ایک مدت تک حلالے کا فتوی دیتے رہے مگر جب ان سے ملاقات ہوئی اور دلائل پر بحث ہوئی تووہ اب ہمارے فتوے کی تائید فرماتے ہیں۔ صرف اسرائیل کے سوا باقی پوری دنیا کے تقریباً سارے مشہور ممالک سے ہمارے پاس استفتاء آئے ہیں اور ہم نے ان کو قرآن وسنت اور حنفی مسلک کے مطابق حلالہ کے بغیر فتوے دیئے۔ پاکستان کے کئی شہروں سے علماء کرام نے عوام کو ہماری طرف فتوی لینے کیلئے متوجہ کیا ہے۔ اگر بڑے بڑے حق کا کھل کر ساتھ نہیں دیںگے تو بہت سے لوگوں کی عزتیں خاک میں مل جائیںگی۔ مولانا طارق جمیل و تبلیغی جماعت کو کردار ادا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ نہ تو حلالہ میں کامیابی کا یقین ہوسکتا ہے اور نہ بچوں کو برباد کرکے بیوی کو چھوڑنے میں کامیابی کا یقین آسکتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ اسلام اجنبی بن گیا۔ پہلے لوگ طلاق دیتے نہ تھے اور دیتے تو حلالہ کی لعنت میں ملوث نہیں ہوتے تھے، اب طلاق کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اور حلالہ کی لعنت میں ملوث مدارس نے کاروبار بنالیا ہے۔
نمبر….6 ……
اگر علماء کرام ومفتیان عظام ، مذہبی سیاسی جماعتیںجمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان اور جمعیت اہلحدیث صرف نکاح و طلاق کے مسئلے کو خود سمجھ کر دوسروں کو سمجھانا شروع کردینگے تو بہت بڑا انقلاب آئیگا
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کو واضح کردیا ہے جس کی کسی بھی صحیح حدیث میں کوئی تردید نہیں ہوئی ہے
حضرت عمر کا فیصلہ اور ائمہ اربعہ کا فتویٰ قرآن کے مطابق سوفیصد درست اسلئے تھا کہ عدت میں بھی صلح کے بغیر تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا لیکن صلح کی صورت میں ہوسکتاہے

(1) درسِ نظامی کی تعلیمات اور امام ابوحنیفہ کے مسلک کا فتویٰ۔

درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کے قواعد پڑھائے جاتے ہیں لیکن بحث اور مباحثہ صرف اور صرف جزیات سے متعلق ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کایہ مسلک پڑھایا جاتا ہے کہ اگر صحیح حدیث بھی قرآن کے خلاف ہو تو اس پر عمل نہ ہوگا۔
قرآن میں حتی تنکح زوجًا غیرہ ( یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے)کے مقابلے میںحدیث ہے کہ ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔
جمہور کے نزدیک حدیث صحیح ہے ، عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ احناف کے نزدیک قرآن میں طلاق کے بعد عورت کو نکاح کیلئے خود مختار قرار دیا گیا ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ قرآن وحدیث دونوں میں پہلے تطبیق کی کوشش کی جائے ،اگر تطبیق نہ ہو تو حدیث پر عمل نہیں۔
ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تھے تو اصولِ فقہ کا یہ پہلا سبق مولانا بدیع الزمان نے پڑھایاتو میں نے اسی وقت عرض کیاتھا کہ قرآن میں طلاق شدہ اور حدیث سے کنواری مراد ہے۔جس پرمولانا بدیع الزمان نے حوصلہ افزائی فرمائی اور الحمدللہ استاذ کے حکم کے مطابق اچھے نتیجے پر پہنچ گیاہوں۔
:المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء …. و بعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور طلاق والی تین ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں۔ …… اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کرنا چاہتے ہوں”۔(البقرہ:228)
جب اللہ نے اصلاح کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے تو کوئی صحیح حدیث بھی اسکے مقابلے میں ہوتی تو احناف کے اصول کے مطابق اس کو قابلِ عمل قرار دینا غلط ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا ہے کہ قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے لہٰذا کوئی ایسی آیت بھی نہیں ہوسکتی ہے کہ اصلاح کی شرط کے باجود اللہ نے رجوع کی گنجائش کو عدت میں ختم کردیا ہو۔ اگلی آیت(229) میں عدت کے تین ادوار کی مزید وضاحت ہے کہ پہلے دو ادوار میں دومرتبہ طلاق کے بعدعدت کے تیسرے دورمیں معروف طریقے سے رجوع یا پھر احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ حدیث میں اسی کو تیسری مرتبہ طلاق قرار دیا گیا ہے اور طہروحیض کے تین ادوار میں طلاق کو واضح کیا گیا ہے۔

(2) تین طلاق کے حوالے سے بہت بڑے مغالطے کا بہترین حل۔

زمانہ جاہلیت میں ایک ساتھ تین طلاق کا تصور تھا اور عدت میں بار بار طلاق کے بعد غیر متناہی رجوع کا تصور بھی تھا۔ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا اور بار بار ایک طلاق دیکر عورت کو زندگی بھر کیلئے نکاح میں رکھنے اور دوسری جگہ نکاح سے روکنے کا بھی تصور تھا۔
اللہ نے عدت میں باہمی رضامندی کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھول دیا تو ایک طرف ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کا معاملہ ختم کردیا تو دوسری طرف رجوع کیلئے اصلاح کی شرط بتاکر بار بار نہیں ایک بار بھی تنگ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ صحابہ کرام نے قرآن کے مطابق اس پر عمل کیا۔ جب ایک صحابی کا پتہ چلا کہ ایک ساتھ تین طلاق دئیے ہیں تو ناراضگی کا اظہار فرمایا لیکن اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ قرآن نے رجوع کا دروازہ بند کررکھا تھا بلکہ اسلئے کہ مرحلہ وار طلاق دینے کے بجائے قرآن کے خلاف یکبارگی کی طلاق جاہلیت کا عمل تھا۔ جب عویمر عجلانی نے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق دئیے تو نبیۖنے اس پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک ساتھ تین طلاق دئیے یا حیض میں طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوگئے اور ان کو بلاکر رجوع کا حکم دیا اور طہرو حیض کے تین ادوار میں طلاق اور رجوع کا معاملہ سمجھایا۔جس شخص پر ایک ساتھ تین (3) طلاق کی اطلاع پر غضبناک ہونے کا ذکر ہے وہ بھی یہی عبداللہ بن عمر تھے۔
اگر عبداللہ بن عمر کی بیگم رجوع کیلئے راضی نہ ہوتی تو ایک طلاق کے بعد بھی نبیۖ رجوع کا نہ دیتے اور نہ قرآن میں اس کی گنجائش تھی۔ حضرت عمر کے دور میں ایک معاملہ پہنچا ۔ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی تھی اور وہ پھر اس کو لوٹانا چاہتا تھا۔ عورت راضی ہوتی تو مسئلہ نہیں تھا لیکن جب عورت راضی نہیں تھی تو حضرت عمر نے قرآن کے مطابق جدائی کا فیصلہ دینا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اللہ نے جو گنجائش دی اسکا غلط فائدہ اٹھایا۔
جب یہ بحث چھڑگئی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں یا نہیں ؟۔ تو اسکے جواب ائمہ اربعہ اور جمہور محدثین نے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں لیکن اسکا مقصد عورت کی جان چھڑاناتھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ قرآن کے خلاف باہمی رضامندی سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

(3) فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ

قبائلی معاشرے میں تو آج بھی یہ رسم ہے کہ عورت کو طلاق کے بعد اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتے لیکن جب برطانوی شہزادہ چارلس نے بھی لیڈی ڈیانا کو طلاق دی تو دوسرے کیساتھ اس کا تعلق اپنی غیرت کے منافی لگا تھا اسلئے فرانس کے شہر میں لیڈی ڈیانا اور دودی الفاید کے حادثے پر قتل کاشبہ ظاہر کرکے عدالت میں کیس چلایا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان اصلاح کاتوازن قائم کیا ہے جس پر ترازو کی طرح میاں بیوی کی طلاق اور رجوع کا انحصار ہے۔ صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور صلح کی شرط کے بغیر عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے آیت(228)البقرہ میں صلح کی شرط پر عدت میں رجوع کو واضح کیا۔ مرد کے موٹے دماغ میں صلح کی شرط غائب ہوگئی۔ اللہ نے مزید واضح کردیا کہ عدت کے تین مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ میں معروف کی شرط پر رجوع ہے یا احسان کیساتھ رخصتی ہے۔ لیکن معروف یعنی صلح واصلاح کی شرط نظر انداز کردی گئی۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ شوہر کو دومرتبہ طلاق رجعی کا غیرمشروط حق دیا گیا۔ قرآن کی آیت میں تین ادوار کو حدیث میں طہرو حیض کے حوالہ سے سمجھایا گیا مگر وہ بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔
حدیث میں یہ بتایا گیا کہ آیت(229)میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق کا ذکر ہے لیکن مجال ہے کہ قرآن وحدیث کی طرف کسی کا دل ودماغ جاتا، پھر تیسری طلاق کے بعد اللہ نے یہ واضح کیا کہ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو……….”۔ پھر اس کے بعد آیت(230)میں طلاق کے بعد اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ باہوش و حواس عدت کے تین مراحل میں طلاق کے بعد جب واپسی کا ارادہ نہ ہو توپھر ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ عورت کو اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرنے دیا جائے۔ اس کے مقابلے میں ولی کی اجازت والی روایت لانا بھی درست نہیں ہے اسلئے کہ پابندی اور غیرت کا مسئلہ طلاق کے بعد بھی شوہر بناتا ہے اور شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کیلئے یہ جملہ ایک تریاق کی حیثیت رکھتا ہے اور بعض لوگ تو حلالہ بھی زبردستی سے کرواتے ہیں۔ بنوں میں کچھ عرصہ پہلے ایک واقعہ سوشل میڈیا پر آیا تھا جس میں مولوی کو جیل بھی بھیج دیا گیا ہے۔

(4) آیت(230)البقرہ کے سیاق وسباق کی آیات کو دیکھا جائے۔

مدارس کے مفتیان ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس میں رفاعة القرظی نے اپنی بیگم کو مرحلہ وار تین طلاق دیکر فارغ کیا تھا۔ اس نے پھر عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے شادی کی تھی۔ بخاری میں اس روایت کی تفصیل ہے کہ نبیۖ کے پاس وہ عورت آئی ،اس نے اپنا جسم حضرت عائشہ کو دکھایا تھا کہ شوہر نے اس طرح سے مارا ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اس کے جسم پر اسکے کپڑے کی طرح ہرے رنگ کے نیل پڑے تھے، میں نے آج تک کسی پر اتنا تشدد نہیں دیکھا ہے۔ اس عورت نے نبیۖ سے شکایت کی کہ شوہر نامرد ہے۔ اس کا شوہر بھی اپنے بچوں کو لیکر آیا۔ اس نے عورت کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں نامرد نہیں ہوں، یہ جھوٹ بولتی ہے۔ میں اس کی چمڑی ادھیڑتا ہوں۔ نبیۖ نے اس کے بچوں کو دیکھ کر عورت کی بات کو غلط سمجھا اور اس کو لوٹ کر جانے کا حکم دیا۔ صحیح بخاری میں واقعہ کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ علماء ومفتیان درست حدیث کو چھپارہے ہیں۔
جب قرآن کی آیات (228)اور (229)میں عدت کے اندر باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے اور آیات (231) اور (232) میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے ۔ میں نے اپنی کتابوںنمبر(1)ابررحمت۔ نمبر(2) تین طلاق کی درست تعبیر۔ نمبر (3) تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل اور نمبر(4) عورت کے حقوق ۔ میں تفصیل کیساتھ ایک ایک بات کی وضاحت کردی ۔شیخ الحدیث والتفسیر مفتی زرولی خان نے آخری کتاب ”عورت کے حقوق ” پڑھنے کے بعد اس کی زبردست تعریف کی تھی۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے میں نے ملاقات بھی کی تھی اور اگر ان کا وصال نہ ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ وہ بہت کھل کرتائید بھی کرلیتے۔
غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
حضرت مفتی محمدزرولی خان جلالی شخصیت اورکتابوں کے بڑے ماہر تھے ان میں بے خوفی بھی تھی اور منافقت بھی نہیں تھی۔ میرے ہم سبق عالمِ دین نے کہا تھا کہ ”مفتی زرولی خان سے تائید حاصل کرلو تو دھماکہ ہوجائیگا، باقی تو ایسے منافقین ہیں،ان کا کوئی اعتبار مت کرنا ”لیکن میں ایسا ہرگزنہیں سمجھتا۔
نمبر….7 ……
عدل وانصاف کا وہ تصور جس کی ضرورت پاکستان ، عالم اسلام اور پوری دنیا کو ہے جو قرآن وسنت میں بڑا واضح ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا ہے اور اگر اس پر عمل ہونا شروع ہوجائے تو دنیا بھر کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں
قرآن میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے کا ذکر ہے جس میں انصاف کیساتھ فیصلے کو بھی عدل کے خلاف قرار دیکر انصاف کاتقاضہ بھی پورا کیا گیا تھا
حدیث میں دو خواتین کا ایک بچے پر جھگڑے کے بعد اجتہادی خطاء اور ٹھیک فیصلے کیلئے جس حکمتِ عملی کا ذکر ہے اسکے بغیر انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنے کا تصور نہیں ہوسکتا۔

(1) قرآن وسنت میں نظام عدل کا بہترین تصور موجودہے۔

جب ایک قوم کے جانوروں نے دوسری قوم کی فصل کو نقصان پہنچایا تھا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے دونوں کی قیمت لگاکر فیصلہ کردیا کہ جانور اس قوم کو دیدئیے جائیں جس کی فصل کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کیونکہ جانوروں اور فصل کی قیمت برابر تھی۔ بادی النظر میں یہ عدل کا فیصلہ تھا اسلئے کہ دونوں چیزوں کی قیمت برابر تھی۔ نقصان کا ازالہ انصاف کے عین مطابق ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان فیصلہ میں کرلیتا ہوں۔ جانور والے کے ذمہ فصل کی خدمت لگادی اور فصل والے کے سپرد جانور کردئیے کہ جب تک فصل اپنی جگہ پر واپس نہ آئے تو اس کے دودھ،اُون اور گوبر کا فائدہ اٹھائیں۔ جب فصل اپنی جگہ پر آئے تو مالک کو واپس لوٹائی جائے اور جانور اپنے مالک کو واپس کئے جائیں۔ اگر جانور والے کو بالکل محروم کردیا جائے تو پھر اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔
قرآن نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے فیصلے کو زیادہ دانشمندانہ قرار دیا ہے اور یہ نہ صرف اُمت مسلمہ بلکہ ساری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے۔اب ہمارا عدالتی نظام دیکھ لیجئے۔ لوئر کورٹ سے سپریم کورٹ تک جج کی دیانت یہ ہوتی ہے کہ قانون اندھا ہے۔ کس کو انصاف ملتا ہے اور کس کو نہیں؟۔ اس سے جج کا کوئی سروکار نہیںہوتاہے۔ لوئر کورٹ اور سول کورٹ میں فیصلہ کچھ ہوتاہے اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کچھ ہوتا ہے۔ جسکے پاس زیادہ سے زیادہ قابل وکیل ہو،وہ کیس جیت جاتا ہے۔ انصاف میں تاخیر کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے لیکن طاقتور کے رحم وکرم پر کمزور تاریخوں پر تاریخ کی سزا خواہ مخواہ میں نظامِ عدل کے ہاتھوں بھگتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ دو عورتیں بچوں کیساتھ جنگل سے لکڑیاں لینے گئیں۔ ایک کے بچے کو بھیڑئیے نے اٹھالیا۔ اس نے دوسری کا بچہ اٹھا کر قبضہ کرلیا۔ حضرت داؤد نے عدالت میں اسی کے حق میں فیصلہ کردیا جو تیز طرار تھی۔ حضرت سلیمان نے فرمایا کہ یہ فیصلہ میں کروں گا۔ تلوار منگوائی کہ بچے کو دو ٹکڑے کرکے آدھا آدھا بانٹ دیتا ہوں۔ جو اصل ماں تھی اس نے کہا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے اسی کو دیدو اور دوسری نے کہا کہ آدھے بچے پر بھی میں خوش ہوں۔ اس طرح اصل ماں کو اسکا اپنا بچہ حضرت سلیمان نے لوٹادیا تھا۔

(2) عدالت کی بنیاد کہاں ٹیڑھی ہوئی اور کہاں انتہاء کو پہنچ گئی تھی؟۔

ایک یہودی نے حضرت علی کا ذرہ چوری کیا۔ معاملہ حضرت قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔ حضرت علی نے گواہی کیلئے اپنے بیٹوں اور غلام کو پیش کیا لیکن قاضی شریح نے کہا کہ باپ کے حق میں بیٹوں اور آقا کے حق میں کسی غلام کی گواہی قبول نہیں ہے۔ ذرہ حضرت علی کا ہے لیکن گواہی قابل قبول نہیں اسلئے یہودی کو سپرد کردیا تھا۔ اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ پہلے لوگ خائن نہیں تھے اسلئے باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول ہوتی تھی لیکن بعد میں خائن بن گئے ،اسلئے باپ کے حق میں بیٹے اور آقا کے حق میں غلام کی گواہی ناقابلِ قبول بن گئی۔ حضرت عمر کے حق میں انکے بیٹے کی گواہی قابل قبول تھی مگر امام حسن و امام حسین کی گواہی حضرت علی کے حق میں ٹھیک نہ تھی۔
انگریز سے پہلے مغل کا نیک ترین بادشاہ اورنگزیب تھا۔ جس نے اپنے بھائیوں کو حکومت پر اکیلے قبضہ کرنے کیلئے قتل کیا تھا۔ پانچ سو علماء نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کیا جن میں شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی تھے۔ جس میں لکھ دیا گیا ہے کہ ” بادشاہ پر قتل، چوری، زنا، ڈکیتی اور کسی قسم کی کوئی بھی حد جاری نہیں ہوگی، اسلئے کہ بادشاہ دوسروں پر حد نافذ کرتا ہے ، اس پر کوئی دوسرا حد جاری نہیں کرسکتا ہے”۔ فتاویٰ عالمگیری کے مقابلے میں انگریزکی عدالت میں زیادہ انصاف تھا اسلئے برصغیر کے لوگوں نے اس کو قبول کرلیا ہے۔
آج لوگ علماء اور شیخ الاسلام کی عدالت سے بھی ڈرتے ہیں اور انگریز کی عدالت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا تعلق بھی اشرافیہ کے مفادات سے ہی ہوتا ہے۔ ساحل سمندر پر مچھیروں کے کاروبار پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ جزیرے صدارتی آرڈنینس کے تحت آئین کے بالکل منافی وفاق نے قبضہ کرلئے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے لوگ حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آواز اٹھارہے ہیںمگر عدالتیں عوام کو انصاف فراہم نہیں کررہی ہیں۔ شوگر مافیا، آٹا مافیا اور زمینوں پر قبضہ مافیا لوٹ مار میں مگن ہے۔
جب طاقتور طبقہ حقائق کو سمجھنے کے بجائے اپنے مفادات میں لگا رہتا ہے تو مغل بادشاہوں کی طرح نہ صرف اپنے اقتدار کا خاتمہ اغیار کے ہاتھوں کرتا ہے بلکہ رعایا بھی محکوم ہوجاتی ہے لیکن رعایا اسلئے خوش ہوتی ہے کہ اغیار سے پھر بھی کچھ نہ کچھ مراعات ،انصاف اور محنت کا صلہ ملنے کی توقع ہوتی ہے۔

(3) حکومت کفر کیساتھ چل سکتی ہے مگر ظلم کیساتھ نہیں چل سکتی ہے۔

حکومت کاکام انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ عدل توازن کوکہتے ہیں۔ جب انسان کا ذہنی توازن خراب ہوجاتا ہے تو وہ معذور شمار ہوتا ہے اور جب حکومت عدل وانصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اُترے تو ظالم کہلاتی ہے۔ ظلم کا نزلہ عوام پر گرے تو وہ ریاست کو ماں کے بجائے ایک ڈائن سمجھتے ہیں۔ موجودہ دور میں صرف برصغیر پاک وہند ،ایشیااور افریقہ نہیں یورپ و امریکہ سمیت پوری دنیا ظلم وجور میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آٹھ (8)مارچ کو عورت پر جنسی تشدد کا دن پاکستان میں اب منانا شروع ہوا، جب عورت کیساتھ جنسی تشدد بڑھ گیا ہے۔پوری دنیا میں خاص طور پر ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں اس سے بہت پہلے یہ احتجاج شروع ہوا ہے۔ ہمارا خوشحال طبقہ عورت کے حقوق کی بحالی کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ دنیا میں بدحال طبقہ اس کیلئے نکلتا ہے۔
مزدور کے حقوق کی جدوجہد بھی ”جب لال لال لہرائے گا” والے شگاگو کے امریکی مزدوروں کے شہداء یکم مئی سے مناتے ہیں۔ جب انصاف پیسے کا محتاج ہو تو غریب ، مزدور اور کسان کو انصاف کہاں فراہم ہوسکتا ہے؟۔ ہماری بڑی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں پیدا کیا ہے، بھارت ، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے علاوہ کسی مسلم ممالک میں بھی کوئی ایسی آزادی اور انصاف نہیں ہے جو پاکستان سے کسی طرح سے بھی بہتر ہو۔
ہم اپنی آزادی کا درست فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں۔ ایم کیو ایم (MQM) نے کراچی میں کتنی پاور حاصل کرلی تھی؟۔ ملٹری ڈکٹیٹر شپ پرویز مشرف کو اپنی طاقت کا اتنا بھروسہ نہیں تھا جتنا ایم کیو ایم (MQM) کی طاقت پر تھا۔اس آزادی کا فائدہ کیا اُٹھایا؟۔ کراچی میں سگریٹ کی اشتراک پاکستان سے غیرملکی کمپنی میں کام کرنیوالے ملازم نے بتایا کہ کمال کی مزووری اور کمال کی مراعات ملتی تھیں مگر ایم کیو ایم (MQM)کے بھتے کی وجہ سے بند کردی۔جب ریاستِ پاکستان اپنے شہری کو کراچی میں تحفظ فراہم نہ کرسکتی تھی تو ایم کیو ایم (MQM) عوام کا بہت بڑا وسیلہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ قتل وغارتگری کے بعد بھتہ خوری حد سے بڑھ گئی۔ بازار اورسڑکیں بند ہوتی تھیں۔ عوام تنگ آگئے تو ریاست نے جان چھڑائی۔ لیاری ایکشن کمیٹی کی سرپرستی وزیرداخلہ سندھ ذوالفقارمرزا نے شروع کی تو زرداری نے نکال دیا۔ عذیر بلوچ نے لیاری میں جو کچھ کیا اسلئے اب آزاد بھی ہواہے۔

(4) اپنے فرائض اور اپنے حقوق کا درس عوام میں عام کرنا ہوگا۔

معاشرے میں الٹی رسم وروایت چل پڑی ہے کہ اپنے حقوق سے آگہی کا درس دیا جاتا ہے لیکن اپنے فرائض سے آگاہ نہیں کیا جاتا ہے۔ جب فرقے اور قوم پرستی کے نام پر کسی معاشرے، گھر، گاؤں، شہر اور علاقے میں غیرملکی فنڈز سے دہشتگرد اپنے علاقے کا امن تباہ کررہاہو اور لوگوں کو یہ نہ بتایاجائے کہ تمہارا فرض ہے کہ خود پکڑ کراس کا ہاتھ روک لو۔پولیس کو اطلاع دو اور اپنا فرض پورا کرلولیکن دہشتگرد مسنگ پرسن ہوجائے تو پھر واویلا شروع کردو کہ اپنی ریاست ہمارے ساتھ ظلم کرتی ہے۔ عدالت میں پیش کیا جائے۔ حالانکہ جو عدالت ایک ٹریفک وارڈن کو بھرے بازار میں بے گناہ قتل ہونے پر انصاف فراہم نہیں کرسکتی ہے تو وہ دہشتگرد کو کہاں سے کیا سزا دے گی؟۔
سب سے بڑے منافق اور معاشرے کا ناسور وہ ہیں جو پرائے گو پر اپنی لیڈری چمکاتے ہیں۔ خود اپنے بچوں سمیت پُر تعیش رہائشی علاقوں میں رہتے ہیں اور غریبوں کے بچوں کو پراکسی میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم اہل اقتدار طبقے کی بھی یہ بہت بڑی نالائقی ہے کہ سوئی گیس جہاں سے پاکستان کے تمام علاقوں میں پہنچا ہے وہاں ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کا کیا حال ہے؟۔ محموداچکزئی کی تقریر سے عوام اتنی متأثر نہیں ہوئی ہے جتنی روف کلاسرا کے اس پروگرام نے اثر ڈالا ہے جس میں پراکسی جنگ کے شکار ڈیرہ بگٹی کے مکینوں کو مصنوعی ٹانگیں دی جارہی ہیں۔ جن کی حالت دیکھ کر اقتدار کی کرسی پر رہنے والے سیاسی اور ملٹری لیڈرشپ دونوں طبقے کے ضمیر پر لعنت بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔
سول وملٹری کے غریب ملازمین میںوہ افسران بھی شامل ہیں جنکے چولہے حد درجہ حرام کی کمائی سے نہیں چلتے ہیں بلکہ تنخواہ کے علاوہ گزارے لائق حرام پر گزارہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طبقات ہیں جنہوں نے اپنی اوقات کی پرواہ کئے بغیر اس حد تک حرام کے پیسے کمائے ہیں کہ انکی شخصیات اسکے تصور سے چلوپھر پسینے میں ڈوب مرنے کے قابل ہے۔ بڑے کرپٹ قسم کے جرنیل، جج،صحافی ، سول بیوروکریٹ ،سیاستدان ، مولوی اور پیر حضرات کی لیڈری پیسوں کی ریل پیل سے چمکتی ہے اور غریبوں کی زکوٰة تک کھاتے ہیں۔ اگر معاشرے میں فرائض و حقوق کا درست تصور عملی طور سے پیش نہیں کیا گیا تو پاکستان کی بقاء وسلامتی بنگلہ دیش کی طرح تشویشناک ہوسکتی ہے۔
نمبر….8 ……
پاکستان اسلام کے نام پر بناہے اور اسلام کی بنیاد پر ہی یہاں انقلاب آسکتا ہے لیکن اسلام وہ نہیں جو مولوی نے سپیرے کی طرح سانپ کو اپنی پٹاری میں چھپارکھا ہے بلکہ وہ اسلام جو قرآن وسنت میں من وعن آج محفوظ ہے
مولوی کہتا ہے کہ پہلے مجھے اقتدار دو پھر اسلام کا مزہ چکھا دوں ۔ سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں ملاؤں کے اسلام سے لوگوں کا فائدہ ہواہے جو پاکستان میں نیا تجربہ کرینگے؟
عمران خان تبدیلی کی بات کرتا تھا،آج سرکے بل اُلٹا ٹنگ گیا۔عافیہ صدیقی کو حوالے کرنے والوں کے ہاں اسامہ بن لادن مارا گیا لیکن پھر بھی دنیا میں نمبرایک کی رِٹ یارَٹ ہے؟

(1) ہندو، سکھ، عیسائی ، قادیانی اور غیرمسلم پارٹیوں کا سربراہ نہیں۔

ریاستِ مدینہ کی بات کرنے والا عمران خان، غریبوں کی رَٹ لگانے پر اقتدار میں آنے والی پیپلزپارٹی، خود کو بانی پاکستان کی جماعت قرار دینے کی دعویدار جنرل ضیاء الحق کی پیداوار مسلم لیگ ن اور اسلام کے نام پر ریاست کو چیلنج کرنیوالی جمعیت علماء اسلام کے علاوہ دیگر چھوٹی بڑی قومی ،علاقائی،لسانی اور اسلامی جماعتیں سبھی مسلمان ہیں اور غریبوں کی خیرخواہ کہلاتی ہیں۔
جب سود کی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو سود قرار دیدیا اور مدینہ میں پابندی لگادی کہ کوئی زمین کو کرایہ اور بٹائی پر نہیں دے سکتا ۔ اس کی وجہ سے غریب خوشحال بن گئے اور جو آرام کے عادی تھے وہ محنت کش بن گئے۔ زمین کی کاشتکاری کیلئے وہی خاندان خود کو وقف کرسکتا ہے جو بھوک کی وجہ سے مجبور ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اصل وارث اس کا پوتا ذوالفقار جونیئرکبھی بھی اپنی زمین کاشت کرنے کیلئے نہیں آسکتا ، بلکہ زرداری اس پر قبضہ کرلے اور بلاول بھٹو زرداری اسکا خاندان کبھی زمین کاشت نہیں کرسکتا،اسی طرح یہ حال مریم نواز ، حمزہ شہباز اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے خاندان کا ہے۔ حالانکہ کاشتکاری سے ان کی صحت بھی ٹھیک رہتی اور اچھی گزربسر ہوتی۔
اگر سیاسی خانوادے یہ فیصلہ کرلیں کہ مزارعین کو اپنی زمینیں مفت میں ہی دینی ہیں تو ایک انقلاب آجائے گا۔ پاکستان میں ایک صحت مند سکیم شروع ہوجائے گی۔ جاگیرداروں کی صحت ٹھیک ہوجائے گی اور غریبوں کو اپنا بہت بڑا روزگار مل جائے گا۔ جب مفت میں زمین کاشت کیلئے مل جائے تو بڑے پیمانے پر لوگ زمین کی کاشت میں لگ جائیںگے۔ جو جو آسودہ حال ہوتے جائیںگے وہ زمین چھوڑ کر شہروں کا رخ کریںگے۔ غریبوں کے پاس پیسہ آجائیگا تو وہ اپنی تعلیم، صحت ، رہن سہن اور بہتر زندگی گزارنے کے لائق بھی بن جائیںگے۔ پھر تاجر برادری کے روز گار بھی بڑھ جائیںگے۔ کپڑوںو بجلی کے آلات اوردیگر اشیائے خورد ونوش وغیرہ لوگ خریدیں گے۔
جاگیردارانہ نظام ہی کی وجہ سے دنیا میں غلامی اور لونڈی کا رواج عام تھا ، جس کو ختم کرنے کیلئے ساڑھے چودہ سوسال پہلے اسلام نے بنیاد رکھ دی تھی۔ امریکہ کے ابراہم لنکن نے (1964ئ) میں غلامی کا نظام ختم کیا تو امریکہ کی امیر ریاستوں نے بغاوت کردی تھی۔ دنیا کو اصلی اسلام سے خطرات لاحق ہیں۔

(2) مولوی نے اسلام کی پاسداری کیساتھ اس کی روح نکال دی۔

جنگ میں قید کئے جانے والوں کو غلام بنانے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتاہے کیونکہ قیدی نقصان پہنچائے گا۔ اسلام کے پہلے غزوہ بدر میں ستر (70)قیدی تھے لیکن ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ بنانا ممکن تھا۔ غلام وہ افراد ہوتے تھے جن کو جاگیردار اچھی تعلیم وتربیت دیکر منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔اور لونڈیوں کا بھی دنیا میں یہی تصور تھا کہ جاگیرداروں کے ہاں ان کی تربیت ہوا کرتی تھی البتہ جنگوں میں کنیز اور غلام ہاتھ آتے تو غنیمت شمار ہوتے تھے اور جن بے یار ومدد گار خواتین کو چھوڑ کر مرد بھاگ جاتے یا قتل ہوتے تو یہ بدقسمت کسی کے ہاتھوں فروخت ہوتیںیا مالِ غنیمت بن جاتی تھیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ ناظرہ قرآن سے لیکر اسلام کے تمام خدوخال کی پاسداری علماء کرام اور مفتیانِ عظام نے کی ہے اور ان کا اُمت پر بہت بڑا احسان ہے۔ ہم بھی مدارس کی خاک چھان کر اسلام کی تعلیم تو نہیں دیتے ہیں لیکن جتنی تعلیم حاصل کرلی ہے اس کی ہم تھوڑی بہت جگالی کرلیتے ہیں۔ جس دن اسلام کی تعلیم عوام کے سامنے آگئی تو مشرق ومغرب میں مقبولیت کا ڈنکا خود بخود بجنا شروع ہوجائے گا۔ ابھی تو اسلام کا اعتماد مدارس کے گمراہی کے قلعوں میں بند ہے اور ہم جنگلی سانڈ کی طرح ان کی درودیوار سے ٹکریں مارتے پھرتے ہیں۔ دیوانے کی بڑ سے زیادہ ہماری آواز کی اوقات نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیگم حضرت حاجرہ لونڈی تھی اور شہزادی بھی تھی۔اُم المؤمنین حضرت صفیہ مال غینمت میں ملی تھی ، پہلے کسی صحابی کودی گئی اور پھر بتایا گیا کہ کسی اچھے خانوادے کی ہے تو نبیۖ نے شادی کرلی، اسکے پیچھے بہت بڑا فلسفہ یہ تھا کہ نبیۖ کو اپنی چچازاد حضرت اُم ہانی سے بھی نکاح کی اجازت نہیں ملی جو حضرت علی کی ہمشیرہ اور اولین مسلمانوں میں سے تھیں لیکن انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ بخاری کے شارح علامہ بدرالدین عینی نے اُم ہانی کونبیۖ کی اٹھائیس(28)ازواج میں غلط شمار کیا ہے۔ قرآن کے مطابق ان سے ملکت ایمانکم کے آزادانہ ایگریمنٹ کی اجازت تھی مگر نکاح کی اجازت نہیں تھی۔ قرآن نے لونڈیوں کی شادی کا حکم دیا تھا اور آزاد عورتوں سے ایگریمنٹ کی اجازت تھی۔تفصیل کیلئے میری کتاب ” عورت کے حقوق” کا مطالعہ کریں اورحکومت پاکستان علماء کی ایک عالمی کانفرنس بلائے۔

(3) جب معاشرے میں عورت اور بچوں کو حقوق نہ ملیں تو؟۔

اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بعد مرد پر اپنی استطاعت کے مطابق اپنی عورت کو نہ صرف خرچہ بلکہ عدل وانصاف کا ماحول فراہم کرنے کی ذمہ داری ڈالی۔ طلاق کی صورت میں بار بار باہمی اصلاح سے رجوع کی اجازت دی ، جدائی سے پہلے انصاف پر فیصلہ کرنے کیلئے میاں بیوی کے خاندان میں سے ایک ایک شخص کو حکم مقرر کرنے کا واضح فرمان جاری کیا لیکن ہمارے معاشرے کی رسم وروایت یہ ہے کہ طاقتور اپنے دست وبازو کے زور پر دوسرے کے حقوق چھین لیتا ہے اور پھر ہر فریق اپنے اپنے ماحول میں کبوتر کی طرح اپنے اپنے دڑبے میںغٹرغوںغٹر غوں کی فریاد اور دھمیکوں کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ قرآن نے جس طرح اس بات کو احسان قرار دیا ہے کہ پرائی نامحرم بچی اپنے شوہر کیلئے جائز اور حلال بن جاتی ہے ،اسی طرح سے اسکے حقوق کو بھی تحفظ دیا ہے۔ ہمارے ہاں حقوق وفرائض کا عوام کو سرے سے علم ہی نہیں۔
ہماری ریاست اور حکومت کو اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے اور علماء ومفتیان مسلکوں اور فرقوں کے مسائل سے چھٹکارا نہیں پاتے ہیں مگر عوام کو بھی حقائق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کافی عرصہ سے ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے بڑے بنیادی مسائل حل کئے ہیں لیکن میڈیا کو بھی ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ خوف ودہشت کا شکار ہے۔ اب تولوگ پاک فوج کے خلاف بولنے سے بھی نہیں کتراتے ہیں تو مولوی کیا چیز ہے؟۔ جس سے سب ڈرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا انتہائی غلط رویہ ہے۔ جن لوگوں کو اس ریاست نے بھونکنے کیلئے سوشل میڈیا پر چھوڑا ہواہے وہ یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ڈرون حملوں سے پاکستان کے شہریوں کی حفاظت جدید اسلحہ سے لیس فوج کا کام تھا یا محسن داوڑ کا؟۔ اسامہ کی ہلاکت پر دفاع نہ کرنا زرداری کی بے حسی تھی یا پاک فوج کی غفلت؟۔ تحریک انصاف کی خاتون رکن اسرائیل کو بیت المقدس سونپنے کی بات کرتی ہے لیکن شوسل میڈیا پر مولانا فضل الرحمن کیخلاف بھونکنے والے چیختے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کررہاہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ مراد سعید اور فیصل واوڈا جیسے ٹائیگر اور شیرو ںکے ہاتھوں میں پاکستان کا دفاع ہوگا تو اس ملک کا کیا بنے گا؟ مولانا فضل الرحمن بھی اسلام نہیں اپنی کاز کیلئے کام کرتے ہیں ،ختم نبوت کیلئے ن لیگ کے وقت میں کیا کارکردگی دکھائی؟۔

(4) پاکستان میں اسلام کی درست تعبیر وتشریح کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کی طاقت کو توڑنے کیلئے وہ کام شروع کیا ہے جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مدارس اور ائمہ مساجد کو تنخواہیں دینے کا اعلان کیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کی جماعت بلوچستان اور سندھ میں زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ اس بات کو دنیا جانتی ہے کہ خیبر پختونخواہ میں مفتی محمود نے اپنے لئے وزارت اعلیٰ بھی بلوچستان کے بل بوتے پر حاصل کی تھی اور جب اسٹیبلشمنٹ نے پہلی اور آخری مرتبہ بڑے پیمانے پر خیبرپختونخواہ میں علماء ومفتیان کو جتوادیا تھا تو پھر وزیراعلیٰ کیلئے مولانا فضل الرحمن کے پاس کوئی مولوی نہ تھا، اکرم خان درانی کو مختصر داڑھی رکھواکر وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھادیا گیا۔
وہ لوگ جو مولانا فضل الرحمن کے سیاسی مقابلے میں ہوتے تھے ، نواب قیذار خان کے صاحبزادے شفیع اللہ ،حاجی رمضان کے بیٹے اب جمعیت کی ٹیم میں شامل ہیں۔ مذہبی لبادے توہاتھی کے دانت دکھانے کے ہیں ، کھانے والے تو دوسرے سرمایہ دار ، جاگیردار اور وڈیرے ہیں۔ اگر مذہبی طبقات بھی درست اسلام پیش کریںگے تو اسلام اور مذہبی طبقات کا بول بالا ہوسکتاہے۔ اللہ نے فرمایاکہ ”اور(دیکھو) بے دل نہ ہونااور نہ کسی طرح کا غم کرنا،اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب رہوگے۔اور اگر تمہیں زخم لگاہے تو ان کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جدا وممتاز کردے اور تم میں سے گواہ بنائے اور اللہ بے انصافوں کو پسند نہیں کرتا”۔ (سورۂ آل عمران آیت139،140)
اللہ نے فرمایا کہ ” اے ایمان والو! بات کروبات سیدھی تواصلاح کردیگا تمہارے اعمال کی اور تمہارے گناہ معاف کردے گا”۔ جب تک اس اُمت میں درست بات کو اجاگر نہ کیا جائے تو بداعمالیوں کے بوجھ سے چھٹکارانہیں مل سکتا ہے۔ اب تو یہ لاعلاج بیماری لگتی ہے کہ دوسروں کی اصلاح پر توجہ دی جاتی ہے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی اور ہڈ حرامی نے ایک ایک شخص کے اعصاب پر قبضہ کرلیا ہے۔دنیا کی امامت کیلئے سب سے پہلے طہارت ضروری ہے۔اگر اپنی زیرِ جامہ غلاظت کی پپڑیوں سے استنجاء نہ کیا جائے تو پوری انسانیت کا نہیں دورکعت کا امام بھی کوئی نہیں بن سکتاہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟