خلافت کامختصر تصور: تحریر سید عتیق الرحمن گیلانی
نومبر 12, 2020
رسول اللہ ۖ کے بعد تیس سالہ خلافت راشدہ ، پھر امارت، پھر بادشاہت، پھر جبری حکومت پھر طرزِ نبوت کی خلافت کا وہ تصور ہے جس سے آسمان وزمین والے سب خوش ہونگے۔دنیا کی سپر طاقت امریکہ میں جمہوریت کا نتیجہ خانہ جنگی کی نوبت تک پہنچ چکاہے۔ پاکستان میں بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی والے ایکدوسروے کو چوکوں میں گھسیٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ پھر عمران خان نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب سوات میں طالبان کو اپنا موقع مل گیا تھا تو ایک بریلوی پیر کو شہید کرنے کے بعد قبر سے نکالا تھا اور اس کی لاش کو چند دن چوک پرلٹکادیا تھا۔
پشاور کے حالیہ دھماکے میں مدرسے کے مہتمم نے بتایا کہ” داعش کا جلال الدین نامی شخص کسی مدرسے کے مہتمم کا داماد ہے جس نے کئی لوگوں کو ذبح کیا ہے اور یہ تکفیری لوگ ہیں”۔ جماعت اسلامی کے امیر سنیٹرسراج الحق اور MNA مشتاق صاحب مہتمم کی پریس کانفرنس میں دائیں اور بائیں جانب کھڑے تھے لیکن پشتو زبان کا اردو ترجمہ بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نہیں پہنچایا۔ یہ خیانت ہے یا خوف کا نتیجہ ہے مگر یہی کام دہشتگردی کے عروج کے دور میں بھی ہوتا رہاہے۔ پیپلزپارٹی ، اے این پی اور مولانا فضل الرحمن دہشت گردوں کی کھل کر مخالفت کرتے تھے اور ن لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی توپوں کا رخ کبھی بھی دہشت گردوں کی طرف نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کو حدیث کا حوالہ دیکر خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تھا مگر اس وقت میڈیا دہشت گردوں کی حامی تھی۔ آج بھی مولانا فضل الرحمن نے وہی مؤقف اختیار کیا ہے جو اس نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمہوریت کے حق میں اختیار کیا تھا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن پر مدارس نے کفر وگمراہی کے فتوے لگائے تھے اور آج مولانا کے حق میں دیوبندی مدارس کی اکثریت کھڑی نظر آرہی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے PDMکے سربراہ کی حیثیت سے مدارس کے ایک اصلاحی بیان میں فرمایا ِکہ ”جب مفتی محمود ہندوستان میں صد سالہ جشن دیوبند کانفرنس میں گئے تو اتنا بتایا کہ آزادی سے دوسال پہلے ہندوستان گیا تھا اور اسکے بعد پہلی مرتبہ بھارت جارہاہوں۔ پھر بعد میں ایک تحریر پڑھی جس میں لکھا تھا کہ ہندوستان میں علماء کا ایک اجلاس1945ء کو ہوا تھا جس میں مولانا زکریا بھی تھے اور مفتی محمود کا نام بھی اس میں تھا۔ علماء نے ہندوستان کی سرزمین پھر امارت شریعہ کے بارے میں شرعی رائے لینی تھی۔ مفتی محمود نے اس وقت اپنی رائے دی تھی کہ امارت شریعہ کیلئے قوت نافذہ کی حیثیت ایک رکن کی ہے اور اس کے بغیر شرعی امارت قائم نہیں ہوسکتی ہے”۔
مفتی محمود نے اپنی رائے سے علماء کے جم غفیر کو رہنمائی فراہم کی تھی۔ امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کو بھی لقب اسلئے ملا تھا کہ وہ ہندوستان میں حکومتِ الٰہیہ کا قیام چاہتے تھے۔ جب متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت تھی تو بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومت کو اتنا اختیار بھی نہیں دیا گیا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے سکے۔ وزیراعلیٰ کے خاندان پر طالبان نے حملہ کیا تو اکرم خان درانی نے میڈیا پر بیان جاری کیا کہ جس نے حملے میں طالبان کا نام لیا تو اس پر ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا۔ جب مجھے ٹارگٹ کرنے کیلئے طالبان نے میرا گھر نشانہ بنایا تو جمہوری حکومت کی کوئی رٹ نہ تھی ،ہماری حفاظت کیلئے پولیس نہیں فوج کھڑی تھی۔ طالبان بارودی سرنگ اور بم دفناکر گئے تھے تو حکومت نے بم ڈسپوزل اسکواڈ تک دینے سے انکار کردیا تھا۔ پرائیوٹ ادارے سے خدمت لینی پڑی تھی۔ ایسے میں امیرطالبان کے پاس قوت نافذہ تھی لیکن جمہوری حکومت اور پاکستانی ریاست کے پاس نہیں تھی۔ عوام کے تیور طالبان کیخلاف اس واقعہ کے بعد بدل چکے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا اور مولانا عطاء الرحمن نے بیان دیا کہ سیکورٹی فورس کی صرف حکومتی وریاستی ذمہ داری نہیں بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کو مار دیں۔ جس کے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کے کالم طالبان کے حق میں اور مولانا فضل الرحمن کے خلاف چھپ گئے ۔ پھر پیپلزپارٹی اورANP کے دور میں جب طالبان کے مارگلہ کے پہاڑ تک پہنچنے کی خبر مولانا فضل الرحمن نے دی تو ن لیگ کے رہنما مولانا فضل الرحمن کو امریکہ کا ایجنٹ قرار دینے لگے۔ طالبان نے عمران خان اور نوازشریف کو اپنی طرف سے نمائندگی کرنے کیلئے نامزد کیا تھا۔ پنجاب میں کاروائیاں نہ کرنیکی شہباز شریف کا کھلا بیان تھا۔
مفتی محمود کے انتقال کے بعد جب مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام کی قیادت سنبھالی تو ایک بیانیہ یہ تھا کہ عقیدے کو بدلنے کیلئے دعوت کی ضرورت ہے اور نظام کو بدلنے کیلئے بندوق اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ انبیاء کی سنت ہے مگر علماء جہالت کا مظاہرہ کرکے بالکل الٹ چلتے ہیں، دوسرا بیانیہ یہ تھا کہ جمعیت علماء جماعت ہے اور احادیث میں اس جماعت سے ہٹنے کی وعیدوں پر اپنے مذہبی اعتقادات کا زور دیتے تھے۔ جب 1945ء میں ہندکے علماء نے امارت شریعہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تومفتی محمود نے رکاوٹ ڈال دی، جب مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت پر امارت شریعہ کا اطلاق کیا اور الیکشن کی سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کردیا تو پاک فوج نے ڈرا دھمکا کر فیصلے کے اعلان سے روک دیا تھا۔ پھر جب ہم نے ایک کتاب ” اسلام اور اقتدار” میں مولانا فضل الرحمن کو سمجھا دیا تو اپنی جماعت کو امارت شریعہ کا مؤقف چھوڑ دیا۔
وزیرستان کو اللہ نے اتنی حیثیت دیدی کہ پاکستان کی ریاست سے لیکر امریکہ تک اس کی دھاک دنیا میں بیٹھ گئی لیکن اس طاقت کا درست استعمال کرنے کے بجائے اپنی قوم کو تباہ وبرباد کرنا شروع کردیا۔ لیڈی ڈاکٹر تک کو اغواء برائے تاوان میں لے گئے۔ محسود قوم کی ناک کاٹ دی ۔ اب بھی وہ بے غیرت ہیں جو ان نکمے ، بدقماش و بدکردار طالبان پر اپنی فیک آئی ڈی سے فیس بک پر فخر کرتے ہیں لیکن اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ پنجاب میں پختون کے خلاف نفرت کی فضاء نہیں ہے اور اگر ایک دفعہ ہوا دی گئی تو پختونوں کیساتھ تاریخ میں مہاجر قومی موومنٹ کے مظالم بھول جائیںگے اسلئے کہ کراچی میں بہت علاقوں میں وہ اپنا ہولڈ رکھتے تھے۔ پنجاب میں پختون کا سارا کاروباری طبقہ ہے۔ پختونوں نے طالبان بن کر ناکامی کا ثبوت دیا لیکن اگر پنجاب کے لوگ طالبان بن گئے تو پھر انکا راستہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ سرنڈرطالبان سے بھی وزیرستان کے نام نہاد قبائلی ملکان کی حیثیت کمزور تھی جن پر حکومت اور ریاست کا انحصار ہوتا تھا۔ سرنڈر طالبان نے زبردستی سے پاکستان کا قومی ترانہ گایا ہے اسلئے اسلام کے وفادار نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے۔
اگر داعش اور طالبان نے مل کر آپس میں لڑنے کے بجائے عوام کی فلاح وبہبود اور اسلام کا درست تصور سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کیا تو پاکستان کی ریاست اور عوام بھی ان کو جمہوری بنیادوں پر پذیرائی بخشیںگے۔ خود کش حملے دشمن کو کمزور کرسکتے ہیں لیکن عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکتے ہیں۔ وزیرستان کی عوام میں آج بھی قوت نافذہ ہے اور جب وہ ہیروئن ومنشیات کو روک سکتے ہیں جس پر دنیا کو قابو کرنا مشکل ہے تو اسلام کی فطری تعلیم بھی نافذ کرسکتے ہیں۔ جب کس کے دل ودماغ اوروہم وگمان میں خلافت کا تصور نہیں تھا تو ہم نے وزیرستان سے اس کو شرعی فریضہ سمجھ کر اُٹھانے کی کوشش کی تھی اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء ہماری حمایت کررہے تھے۔ دیوبندی مکتبۂ فکر ٹانک کے تمام اکابر علماء نے کھلی مجالس، جلسہ ٔعام میں ہماری حمایت کی تھی۔ اخبارات اور کتابوں میں تائیدات کی تفصیل بھی چھپ گئی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن اور اسکے بھائیوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں علماء اور ریاستی مشنری کو استعمال کیا اور ہم پر وہ فتویٰ لگوایا جس سے ہم نے ان کو بچانے میں مدد کی تھی پھر جب ناکامی ہوئی تو گھر پر آکر جھوٹ بولا کہ ”ہم نے ہمیشہ حمایت کی ہے”۔ اسکے بعد بھی جمعیت کے باغی مولانا عبدالرؤف کی مزاحمت سے ہم نے ہی بچایا تھا اور آج ایسے وقت میں ایک دفعہ ریاست ، حکومت اور اس اپوزیشن کو خبردار کرتا ہوںکہ اسلام خیرخواہی کانام ہے اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل جائیگاتوپھر رونا بھی کام نہیں آئیگا۔ امن کی فضاء بہت کچھ کہنے کی رعایت کیلئے سازگارہے۔
اسلام کی درست تعبیر پیش ہوجائے تو ملحدین اسلام کو بطورِ نظام قبول کرنے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ پوری دنیا اس خلافت کیلئے راضی ہوجائے گی جسے سب خوشی کی بنیاد پر قبول کرینگے۔ ریاست، حکومت اور اپوزیشن بہت زیادہ تضادات کا شکار ہے اور اس سے فساد کے علاوہ کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ