دنیا نئے نظام کی تلاش میں پھر جنگ کے دھانے پر؟
اگست 18, 2020
اخبار: نوشتہ دیوار
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
امریکہ اور چین میں دنیا کی معاشی سرگرمی پر ایکدوسرے سے جنگ ایک نئی صورتحال کو جنم دے رہی ہے۔ قرآن میں سورۂ نمل موجود ہے جو اس چیونٹی کے نام پر ہے جس نے اپنی قوم کو آواز دی کہ” اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ، سلیمان کا لشکر آرہاہے ۔وہ تمہیں کہیں پاؤں تلے روند نہ ڈالے”۔ اپنی قوم کے مفاد میں یہ تاریخی جملہ چیونٹی کی زباں سے نکلا تو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک قرآن میں اس کواتنی عزت بخشی کہ انسانوں کیلئے ایک عمدہ مثال بنادیا۔ مقتدر طبقات کی حالت اور سوچ یہ ہے کہ جب عالمی جنگ میں ہماری حیثیت چیونٹیوں کی ہے تو کس لشکر کے بوٹوں سے چمٹ کر فوجی لنگر سے کچھ بچی کھچی خوراک مل سکتی ہے؟۔ روس اور امریکہ کی جنگ تھی تو یہ امریکہ کیساتھ کھڑا تھا اور افغانستان و بھارت روس کیساتھ کھڑے تھے۔ آج امریکہ نے بھارت کو اپنا گودی بچہ بنالیا تو پاکستان کسی دوسری گود کی تلاش میں ہے۔
جب کعبہ پر ہاتھیوں سے حملہ ہورہا تھا تو رسول اللہۖ کے دادا عبدالمطلب نے کہا تھا کہ ”میں اپنے گم شدہ اونٹ کو تلاش کررہا ہوں، کعبہ کا مالک اس کی خود ہی حفاظت کریگا ۔ میرے لئے اونٹ تلاش کرکے کوئی نہیں دے گا”۔ بت شکن ابراہیم علیہ السلام نے توحید کی بنیاد پر کعبہ کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن اس میں 360بت نصب کردئیے گئے تھے۔ رسول اللہۖ کی بعثت ہوئی تو کعبہ کو بتوں سے بھرا ہوا چھوڑ کر مدینہ ہجرت اختیار کرلی۔ بدر اور احد کے غزوات کے بعد صلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی کیا تھا لیکن آخر فتح مکہ پر بات پہنچ گئی۔ جب عرب کو شرک کی جگہ توحید، جاہلیت کی جگہ اسلام اور انسانیت کا سبق مل گیا تو وہ دنیا کے امام بن گئے۔ ہم دوسروں کی جنگ بھی قومی مفادات کے نام پر لڑتے ہیں لیکن جب بلی تھیلی سے باہر نکلتی ہے تومعاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔ افغان وار امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے لڑی لیکن پاکستان کے فوجی حکام آرمی چیف، صدر ،امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق اور آئی ایس آئی کے چیف جنرل اختر عبدالرحمن سمیت حادثے کا شکار ہوئے تو نتیجے میں کوئلے کی دلالی کی بات کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے ہاتھ میں کیا آیا تھا؟۔ البتہ اختر عبدالرحمن نے اپنی اولاد کیلئے حق حلال کی وہ کمائی چھوڑی جو امریکہ نے جنگ کیلئے بھیجی تھی۔
ایک تبلیغی جماعت کا فرد کہہ رہاتھا کہ ”ہم کیسے مسلمان ہیں۔ امریکہ سات سمندر پار سے افغان مہاجرین کیلئے امداد اور خوراک بھیجتا ہے اور ہم یہاں کھا جاتے ہیں؟”۔ رستم شاہ مہمند اور اوریا مقبول جان ان مذہبی خطیبوں کی طرح ہیں جن کو اچھا معاوضہ ملتا ہے تو بہت اچھے جذبے ، جوش وخروش اور ایمانی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ عناصر کو اپنوں اور بیرونی امداد نہیں ملے تو پھر اس جوش سے فسادات تک بات نہیں پہنچے گی۔ ہماری ریاست نے دوسری مرتبہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ مل کر طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ لڑی۔ پوری قوم تباہ ہوگئی لیکن آسٹریلیا میں جزیرہ خریدنے کی خبر اشفاق پرویزکیانی کی بتائی جاتی ہے۔ جو پرویز مشرف کے دور میں آئی ایس آئی کا چیف تھا اور آصف علی زرداری نے ایک مرتبہ مدت پوری کرنے کے بعد دوسری مدت کیلئے بھی آرمی چیف بنادیا تھا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
قوم کو طبقاتی تقسیم میں گھسیٹنے کی بجائے اپنی حالت درست کرنے کی ضرورت ہے۔جب ہماری اپنی حالت صحیح ہوگی تو ہم ہر جگہ سرخرو اور خوشحال ہوں گے۔
لوگوں کی راۓ