دہشتگردی اور سیاست گردی کا گٹھ جوڑ: ملک محمد اجمل ایڈیٹر نوشتہ دیوار
نومبر 12, 2020
تحریر:ملک محمد اجمل ایڈیٹر نوشتۂ دیوار
پشاور میں نبوت کے دعویدار مرزائی کو قتل کیا گیا تو سوشل میڈیا سے لیکر عوامی جلسے جلوسوں تک ایمانی جذبوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر چشم فلک نے دیکھا۔یہ اس فرد کو اسلام سے نکلنے کی سزا دی گئی یااپنے مذہب مرزائیت سے ارتداد کی سزادی گئی؟۔ گند کی نالی میں کھڑا ہوا شخص یہ جرم کرلے کہ ایک بالٹی مزید گندا پانی اپنے اوپر ڈال دے تو کیا اس جرم کی سزا کیلئے خوشیوں کے شادیانے بجائے جاسکتے ہیں اور مجرم جب قادیانی تھا تو اس نے نبوت کا دعویٰ کرکے اپنی مرزائیت سے بغاوت کا ارتکاب کیا تھا؟۔
سیاستدان 72سالوں سے غلامانہ نظام کا حصہ ہونے کے باوجود جب تک حکومت کے اندر ہوتے ہیں تو سب ٹھیک نظر آتا ہے لیکن جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کو غلامانہ نظام کا غم کھاتاہے۔ پرویزمشرف اور نوازشریف ”دونوں میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے ”کا نعرہ لگانیوالے پاکستان کے عدالتی نظام سے بھاگے ہوئے ہیں۔ پاک فوج پہلے پرویزمشرف سے گزارش کرے کہ یہاں آکر اپنے اعمال کا حساب دے ۔ن لیگ نوازشریف سے گزارش کرے کہ یہاں آکر اپنے اعمال کا حساب دے۔
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ لیکن حکمرانوں نے پارلیمنٹ میں کوئی بھی ایسی قانون سازی نہیں کی جس سے لگے کہ ہم نے انگریز کے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا ہے۔ جنرل جیلانی نے نوازشریف کا بیج بویا۔ جنرل ضیاء الحق نے گود لیا۔ آئی ایس آئی نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر وزیراعظم بنایا۔ غلام اسحاق خان نے اس کو کرپشن کی بنیاد پر نکال دیا۔ لندن فلیٹ کا قصہ اسی وقت سے معرض وجود میں آیا مگر تیسری بارمنتخب وزیراعظم نوازشریف نے پوری قوم سے تحریری پارلیمنٹ میں جھوٹ بھونکا تھا۔ پھر قطری خط لکھ کر ملک اور قوم کو بین الاقوامی بدنامی سے دوچار کیا اور پھر قطری خط سے مکر کر ہٹ دھرمی کے ریکارڈ توڑ دیے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے خود سومناتی قرار دیدیا ہے اور ہماری قوم سورج پرست ہے اسلئے کہ زمین سورج کا حصہ ہے اور انسان مٹی کی پیدوار ہے۔چڑھتے سورج کی پوجا عوام کی مجبوری الاصل ہے۔
پاک فوج اور اس کی ناپاک پیدا وار کا جھگڑا اس وقت تک جاری رہے کہ جب داعش اور طالبان کی لڑائی دوبارہ میدان میں لڑی جائے۔ کچھ لوگ طالبان کیساتھ اور کچھ داعش کیساتھ کھڑے ہونگے۔ پھر اس نظام سے تنگ عوام جس طرح ن لیگ اور فوج کی جنگ میں بٹے ہوئے ہیں اس طرح داعش اور طالبان میں بٹ جائیں گے۔ جب قوم خمیرہ بنے گی تو داعش اور طالبان کا بھی لڑتے لڑتے دم نکل جائیگا۔ پھر طالبانِ خیر اُٹھ کھڑے ہونگے اور اس ملک کو درست اسلامی نظام سے روشناس کرائیںگے۔ اب تو اگر داعش وطالبان کا نظام آبھی جائے تو درست نہیں ہوگا۔
ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خالد خان نے جس طرح مرزائی امت کے مرتد کو قتل کیا اور قوم نے خوشیوں کے شادیانے بجائے اور جس طرح اسٹیبلیشمنٹ اور ن لیگ کے وفادار خود کو تمام گناہوں سے پاک سمجھتے ہیں اور دوسرے کو ناپاک سمجھتے ہیں ، اسی طرح خالد جان اور اس کی حمایت کرنے والوں کا جذبہ پاکیزہ ہے اور اسی طرح طالبان اور داعش کا جذبہ بھی ایمانی ہے۔
کسی نے کہا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی اپنے زمانہ سے دس سال آگے کی سوچ رکھتے ہیں اسلئے لوگ سمجھ نہیں پاتے اور دوسرے تو کیا ہماری سمجھ جواب دے جاتی ہے۔ زمانے کے رُخ کو بدلنا مشکل کام ہے۔ جب سورج کی طرف زمین کا رُخ ہوتا ہے تو دنیا کو دن دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کو اسلام ہی کی بنیاد پر بنایا گیا تھا اور اسلام ہی کی بنیاد پر بچایا جاسکتا ہے مگرمحمود خان اچکزئی کومولانا فضل الرحمن کے امام انقلاب کا نعرہ لگانے میں دیر لگ گئی ہے۔ اصل امامہ انقاب تو مریم نواز شریف ہیں۔ جسکے پاپا جانی نے ا س وقت بھی محمود اچکزئی ، عمران خان اور جماعت اسلامی کو دھوکہ دیا تھا کہ انتخابات سے بائیکاٹ کرواکے خود الیکشن لڑلیا تھا۔
یہ وہی نوازشریف ہیں جو لکھے ہوئے معاہدے سے ڈھٹائی کیساتھ مکر رہے تھے کہ کوئی معاہدہ ہے تو دکھاؤ۔ اور یہ وہی تو ہیں جو ائرپورٹ پر نوازشریف زندہ باد کا نعرہ لگانے پر جھاڑ رہے تھے کہ چپ کرو، تم نعرے لگاتے تھے کہ قدم بڑھاؤ، نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جب مڑ کر دیکھا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ حالانکہ موصوف معاہدے کرکے جارہے تھے۔
عمران خان کے تضادات بھی بیشمار ہیں۔فوج کا بھی متنازعہ کردار تاریخ کا بڑا حصہ رہاہے۔ نوازشریف کا پیدا کرنا بہت بڑا جرم تھا۔ عمران خان کو سپورٹ کرنا بھی اس سے کم جرم نہیں۔ اگر سیاسی ڈائیلاگ شروع ہوجائے تو پہلے پہلے ملک سے باہر سیاستدانوں،ججوںاور جرنیلوں کو اولاد اور جائیداد سمیت ملک کے اندر بلانا ہوگا ۔
پارلیمنٹ میں سیاست نہیں تجارت کا بازار گرم ہے۔ عدالتوں میں انصاف مل نہیں رہا ہے بلکہ بِک رہا ہے۔ فوج ملک کی خدمت نہیں کررہی ہے بلکہ قیادت کی تشکیل اور اپنے کاروبار کا غم کھارہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف ، عمران خان سب نے کٹھ پتلی بن کر کردار ادا کیا۔
قائداعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان سے لیکر غدارشیر بنگال کے پوتے سکندرمرزا تک مسلم لیگی قیادت نے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو غدار بنایاتھا اور مسلم لیگ کی نااہلیت کے سبب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے بھٹو کو تشکیل دیا۔ بھٹو نے قائدعوام کا خطاب پایا تو ساری اپوزیشن کو پھانسی گارڈ میں بھر دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپوزیشن کی جان چھڑائی اور نوازشریف کو پرومٹ کیا کیونکہ محمد خان جونیجو اس فوجی کیفے ٹیریا میں مس فٹ تھا۔
جنرل ضیاء الدین خواجہ نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں پرویزمشرف کا آرمی چیف بننے کا کوئی چانس نہیں تھا لیکن نواز شریف نے وہی کام کیا جو بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو کمزور اور عاجز سمجھ کر کیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ کارگل میں پہلی باربھارت سے پاکستان نے بدلہ لیا۔ کرنل شیرخان کا نشانِ حیدر اس کا ثبوت ہے لیکن نسیم زہرہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نوازشریف نے انڈین سے کہا تھا کہ ہم پرویزمشرف سے حساب لیںگے۔ جب نوازشریف نے چھپ کر پرویزمشرف پر وار کردیا تویہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ فوج آپس میں ہی لڑلڑ کر تباہ ہوجائے لیکن نوازشریف کے مقررکردہ آرمی چیف نے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دیدی۔ جب نوازشریف نے آرمی چیف جنرل راحیل کو منتخب کیا تو پاک فوج نے پہلی مرتبہ اپنے اندر سے کرپشن کو ختم کرنے کے اقدامات اُٹھائے۔ عدالت نے نوازشریف سے حساب مانگا تو نواز شریف کو برداشت نہیں ہوا۔ حالانکہ جب عدالت میں کرپشن کے خلاف فوجی وردی کیساتھ کالا کوٹ پہن کر نوازشریف گئے تھے تو یہ ٹھیک تھا۔ یوسف رضاگیلانی اور زرداری کی جمہوریت پسندنہیں تھی لیکن اپنی کرپشن پاک لگتی تھی۔
کافی عرصہ خاموشی توڑنے کے بعد اس آرمی چیف کو موردِ الزام ٹھہرانے کی یہ وجہ معلوم ہے کہ کرپشن پر ڈیل نہیں ملی ہے اور اب طوفان برپا کردیا ہے۔ پنجاب پر ہمیشہ انگلی اُٹھتی تھی کہ ٹاؤٹ کا کردار ادا کیا جارہاہے لیکن اگر مریم نواز اس داغ کے دھونے کا نام لیکر اپنے باپ کی بڑائی بیان نہ کریں تو امامہ انقلاب کہلانے کی مستحق ہوگی۔ نوازشریف خود تو بیمارہیں لیکن اسکے فرزندوں کو تو ایسی بیماریوں کا سامنا نہیں؟ لیکن ان کو بھی بٹھارکھا ہے۔صحافت نے جانبداری کاریکارڈ توڑ کر وکالت کابازار گرم کررکھا ہے لیکن سوشل میڈیا کے دور میں جھوٹ کی دال گلانہ کسی کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ اب اسلامی انقلاب ہی واحد راستہ ہے لیکن اسلامی انقلاب معاشرے اور گھر کے نظام سے شروع ہوکر عالمی سطح تک حالات بدلنے کی صلاحیت کا نام ہے اور ہمارے خیال کے مطابق وہ صلاحیت سید عتیق الرحمن گیلانی میں موجود ہے،اس لئے نہیں کہ شخصیت کا کمال ہے بلکہ اسلئے کہ اسلام میں یہ کمال موجود ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے دائیں طرف مریم نواز بائیں طرف بلاول بھٹو زرداری اور آگے اویس نورانی اور پیچھے محمود اچکزئی ہیں۔ حافظ حسین احمد نے کہاہے کہ مولانا عبدالغفورحیدری نے بریگڈئیر سے کہا تھا کہ مجھے وزیراعلیٰ بنا دیں۔ صادق سنجرانی کی طرح حیدری نے اسپیکر بننے کی کوشش بھی فرمائی تھی۔امام انقلاب اقتدار کی دہلیز پر اپنا حصہ بقدر جثہ نہیں مانگتا ہے۔ جن بیساکھیوں کیخلاف انقلاب لانا ہے ، انکے سہارے انقلاب نہیںلاسکتے۔ البتہ ہلچل مچاؤ۔ اجمل ملک: ایڈیٹرنوشتۂ دیوار
لوگوں کی راۓ