قرآن میں تاریخی اور زمینی حقائق ہیں اور علماء نے انسان اورپری کو جوڑا بنادیا۔
فروری 20, 2021
قرآن میں تاریخی اور زمینی حقائق ہیں اور علماء نے انسان اورپری کو جوڑا بنادیا۔ فتوحات کے دروازے کھل گئے تو اللہ نے مسلمانوں کو نسل در نسل اجتماعی امامت کے مقام پر فائز کردیا،اگر اب رویہ بدلا تو ہماری حالت بدلے گی!
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
سینٹر مشاہداللہ خان مرحوم نے کہا تھا کہ قوالی سن کر مسلمان ہونے والوں نے حلالہ کی لعنت سے اسلام کا چہرہ خراب کردیا ورنہ فطری دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔یہ بیان چھپاتھا
مولاناعطاء الرحمن نے نوشہرہ میں ن لیگ کی حمایت کرکے پی ڈی ایم (PDM)کی قلعی کھول دی تھی،میاں افتخار حسین نے پی ڈی ایم (PDM)کے جلسوں میں نمایاں شرکت کی مگر جمعیت ن لیگ کی دُم چھلہ تھی
والذارےٰت ذروًاOفالحٰملٰت وِ قرًاOفالجٰرےٰت یسراO فالمقسمٰت امرًاOانما توعدوں لصادقOوان الدین لواقعOو السماء ذات الحبکOانکم لفی قول مختلفOیؤفک عنہ مَن افکOقتل الخرّٰ صونOالذین فی غمرة ساھونO ….
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے مسلمانوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کیلئے انقلابی تفاسیر کی طرف توجہ دلائی تھی۔ جب میں نے مسجد الٰہیہ ،خانقاہ چشتیہ، مدرسہ محمدیہ اور یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسین میں حضرت حاجی محمد عثمان کی اجازت سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تو مولانا سندھی کی انقلابی تفسیرپڑھاتا تھا۔ جب حاجی محمد عثمان کے خلفاء نے سازش کرکے حاجی صاحب کو اپنے گھر میں نظر بند کیا تھا تو ہمیں نہیں پتہ تھا لیکن اس دوران میں مولانا عبیداللہ سندھی کی قبر پر دین پور خان پور گیا اور انقلاب کی دعا مانگی تھی اور انقلاب کا عزم کیا تھا۔ پھر مجلس احراراسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت، انجمن سپاہ صحابہ کے مولانا حق نواز جھنگوی ،مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبدالمجید ندیم کے دوست فیض محمد شاہین لیہ پنجاب سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ نئی تحریک سے علماء دیوبند کی محنت کو آگے بڑھایا جائے۔ میرا کہنا یہ تھا کہ اکابر نے اپنے کسی مخصوص مکتبۂ فکر کیلئے قربانی نہیں دی تھی بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے نمائندے تھے۔ ہم نے ان کو بھی فرقہ، مسلک اور مکتب بناکر بیڑہ غرق کیا ہے۔ پھر سوچا کہ جنت کا سب سے مختصر راستہ جہاد ہے اور افغانستان گیا۔
جب وہاں حرکة الجہادالاسلامی کے کمانڈروں نے پوچھ گچھ کی تو پھر میں نے بھی پوچھ لیا کہ آخر یہ تحقیق کیوں؟۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں بہت سارے امریکی ایجنٹ ہیں ، جماعت اسلامی اور گل بدین حکمتیار سے لیکر کسی کو نہیں چھوڑا۔ میں نے کہا کہ پھر تو ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف روس ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ بات تو یہ یہی ہے ۔ میں نے کہا کہ پھر بہتر نہیں کہ قبائلی علاقوں کو اسلامی خلافت بناکر دونوں سے لڑیں۔ حاجی عثمان صاحب ہمارے مرشد ہیں۔ بڑے فوجی افسران اور مدارس کے اساتذہ بھی ان کے مرید ہیں۔ ایک اعتماد کا رشتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو زبردست بات ہے۔ اور مجھے افغانستان سے پاکستان اسپیشل پہنچا بھی دیا۔ لیکن جب میں کراچی آیا تو پتہ چلا کہ حاجی صاحب کو بند کیا گیا تھا اور ان پر فتوے بھی لگ چکے ہیں۔میں نے اس سے پہلے وزیرستان کے طلبہ کی تنظیم جمعیت اعلاء کلمة الحق کے نام سے بنائی تھی اور اسکی وجہ سے تحریک طالبان بیت اللہ محسود کے ترجمان مولانامحمدامیرنے کہا تھا کہ” آپ نے ہمیں انقلاب پر لگادیا اور جب وقت آیا تو اب آپ پیچھے ہٹ گئے ، ہم آئی ایس آئی (ISI)کے نہیںہیں”۔ میں نے کہا کہ آئی ایس آئی (ISI)کے ہو تب بھی ساتھ دوں گا لیکن یہ مجھے امریکہ ہی کا ایجنڈہ لگتا ہے کیونکہ جو پمفلٹ چھپوایا تھا وہ امریکہ ہی کا ایجنڈہ ہوسکتا تھا۔
مولانا سندھی یوں ترجمہ وتفسیر کرتے کہ ” قسم ہے اس انقلابی جماعت کی جس کی وجہ سے کافروں کے چہرے غبار آلود ہونے والے ہیں۔ پس وہ جماعت جس نے انقلاب کا بارآور بوجھ اٹھا رکھا ہے، جس کی تحریک آسانی کیساتھ جاری ہے۔ جس کی وجہ سے رب کائنات نے کافروں اور مؤمنوں کی تقسیم کا فیصلہ کردیا ہے اور بیشک جو تم سے اللہ نے غلبے کا و عدہ کررکھا ہے وہ سچا ہے۔ اور بیشک جزائے اعمال کا بدلہ مل چکا ہے (فتح مکہ کے دن سے پہلے کی خوشخبری)۔ قسم ہے اس آسمان کی جو رنگ بدلتا رہتا ہے کہ تم لوگ حق کے قول میں مختلف ہو۔ وہی برگشتہ ہے جو پھرا ہواہے۔ مارے گئے قیاس وگمان سے حکم لگانے والے۔ جو جہالت وغفلت میں مدہوش ہیں۔ اس انقلابی دن کے وقت وہ آگ پرفتنے میں پڑیںگے۔پس چکھو اپنے فتنے کو۔ یہ وہی تو ہے جس کو جلد طلب کررہے تھے۔ بیشک پرہیزگار لوگ باغات اور چشموں میں ہونگے۔ وہ ان باغات اور چشموں کو خوشی سے لیںگے کہ ان کے رب کی دَین ہے۔بیشک اس سے پہلے یہ احسان کرنے والے تھے۔ وہ راتوں کو کم ہی سوتے تھے اور پچھلے پہر اللہ سے استفار کرتے تھے۔ ان کے مال میں مانگنے والوں اور محروم طبقے کا حصہ ہوتا تھا۔ اور زمین میں یقین کرنے والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیںاور تمہارے نفسوں میں بھی کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو؟”۔
یہ سورۂ ذاریات کی ابتدائی آیات ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم کا تذکرہ ہے کہ جب فرشتوں سے خوفزدہ ہوگئے اور جب فرشتوں نے بڑی عمر کے باوجود بیٹے کی خوشخبری سنائی تو آپ کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اپنے منہ پر ہاتھ مارا ۔ کہنے لگی کہ بوڑھی بانجھ۔
آگے اللہ نے فرمایا:” اور آسمان کو ہم نے ہاتھ سے بنایا اوربیشک ہم وسعت دے رہے ہیں۔اور ہم نے زمین کو فرش بنادیا اور ہم اچھا جھولا جھلا تے ہیں۔ اور ہم نے ہر چیز کو پیدا کرکے جوڑے بنائے۔ ہوسکتا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرلو۔ پس گمراہی کے ماحول سے اللہ کی طرف فرار ہوجاؤ۔ بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لئے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ اور اللہ کیساتھ کسی اور کو معبود مت بناؤ۔ میں ہی بیشک اس کی طرف کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ اس طرح اس سے پہلے جن لوگوں کے پاس کوئی رسول آیا تو وہ لوگ کہتے تھے کہ جادوگر اور پاگل ہے۔ کیا انہوں نے یہ اس بات کی وصیت کررکھی ہے بلکہ وہ قوم ہیں سرکش۔پس (اے نبی!) ان سے رُخ پھیر دو۔آپ پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اور اپنی نصیحت جاری رکھیں کیونکہ واعظ سے مؤمنوں کو نفع پہنچتا ہے۔ اور ہم نے انسانوں اور جنات کو پیدا نہیں کیا مگر تاکہ عبادت کریں۔ مجھے ان سے روزی کی چاہت نہیں اور نہ کھلانے کی چاہت ہے ۔ بیشک اللہ بہت روزی دینے والامضبوط قوت والاہے پس ان لوگوں کیلئے جنہوں نے ظلم کرکے بوجھ اُٹھائے ہیںجس طرح ان کے پیشرو ساتھیوں نے بوجھ اُٹھائے تھے ، پس یہ جلدی نہ مچائیں۔ پس ہلاکت ہے جن لوگوں نے اپنے دن سے انکار کیا ،جس دن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ (سورۂ ذاریات آخری رکوع)
پہلے انبیاء کی قوموں نے اپنے اپنے دور میں حساب اور جزا کا دن دنیا میں دیکھ لیا تھا اور جب مکہ فتح ہوا تو اہل مکہ نے بھی دیکھ لیا۔ ابوجہل، ابولہب اور بڑے بڑے سردار انجام کو پہنچ گئے تھے۔ ابوسفیان ، ہند اور عکرمہ بن ابوجہل وغیرہ نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ تک باغات کے مزے اُڑائے تھے۔
سورۂ ذاریات کے بعد قرآن میں سورۂ طور ہے۔ جس سے حقائق پیش کرنے تھے اور اس کیلئے سورۂ ذاریات سے کچھ معاملات مقدمہ کے طور پیش کئے ہیں۔ سورۂ ذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کچھ تفصیل سے ہے جسکا مقصد مشرکینِ مکہ کو متوجہ کرنا ہوسکتا ہے کیونکہ اہل مکہ کے ہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے بعد کوئی نبی نہیں آئے۔ اجمالی ذکر حضرت نوح کا بھی ہے۔ ہندوستان کے ہندو سمجھتے ہیں کہ وہ نوح کی قوم ہیں۔اسلام کی نشاة اول میں حضرت ابراہیم کی قوم نے اہم کردار ادا کیا تھا اور اسلام کی نشاة ثانیہ میں ہندوستان کے ہندو بہت اہم کردار ادا کریںگے ۔ جب مسلمان خود ہی دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ میں تقسیم ہیں تو پھر بھارت کے ہندوؤں کو اسلامی تعلیمات سے کیسے آگاہ کیا جاسکتا ہے؟۔
موسیٰ علیہ السلام کو یہود ونصاریٰ مانتے ہیں۔ ہزاروں انبیاء بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مولوی اور دانشور طبقہ لڑرہا ہے کہ اللہ نے مسجد اقصیٰ کی زیارت میں جو مشاہدہ کرایا وہ خواب میں تھا یا بیداری میں؟۔ سیدابولاعلیٰ مودودی سے جاویداحمد غامدی کا اختلاف ہے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ٹی وی کے چینلوں پر غامدی کو دیکھ رہاہے کہ کون کون سے الجھے ہوئے مسائل کا حل نکال رہاہے لیکن دنیا کو یہ نہیں بتایا جارہاہے کہ اللہ نے مسجد اقصیٰ میں کیا دکھایا تھا؟۔ حرم کعبہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے اور بیت المقدس میں پچاس (50) ہزار کے برابر ہے۔ تو مسجد اقصیٰ میں اللہ نے کیا دکھایا تھا؟۔ جاوید غامدی کا عجیب دماغ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی پہلی آیت کے بعد اس میں معاملے پر سکوت اختیار کرلیا۔ پھرساٹھ (60) ویں آیات میں بتایا کہ یہ خوا ب تھا جو ہم نے دکھایا جس کو لوگوں کیلئے آزمائش بنادیا۔ یہ کونسی آزمائش ہے کہ بیداری ہے یا خواب؟۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دومرتبہ بنی اسرائیل کے فساد اور بڑائی کے دعوؤں کو زمین بوس کرنے کی زبردست وضاحت فرمائی ہے اور نبیۖ کو یہی تو دکھایا تھا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ قیصر روم کی سپر طاقت کو بھی شکست دی تھی اور آج پھر بنی اسرائیل پر نعمتوں کی بارش ہے لیکن انہوں نے پھر انسانیت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور عنقریب اللہ نے ہی اپنی قدرت سے ان کے غرور کو خاک میں ملانا ہے۔ سورہ حدید میں بھی دوسری مرتبہ کا پھر سے ذکر ہے۔ اگر مسلمان اپنا ایجنڈہ دنیا کو دکھادیں کہ ہم نے لوہے کو اسٹیل مل کا کباڑ خانہ بھی نہیں بنانا ہے اور دنیا میں بھی تباہی نہیں مچانی ہے تو بات بن جائے۔
اللہ تعالیٰ نے مکہ ومدینہ کے کفار ومنافقین کو واصل جہنم کرنے کے بعد مسلمانوں پر فتوحات کے دروازے کھول دئیے تھے۔ سورۂ طور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ
ان المتقین فی جنّٰتٍ وعیونOفٰکھین بما اٰتٰھم ربھم ووقٰھم ربھم عذاب الجحیمٍOکلواواشربواھنیئًا بما کنتم تعملونOمتکین علی سررٍ مصفوفةٍ وزجنٰھم بحورعینٍOوالذین اٰمنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم و ماالتنٰھم من عملھم من شی ئٍ کل امریٍٔ بما کسبت رھینOوامددنھم بفاکھةٍ ولحمٍ ممایشھونOیتنازعون فیھا کأسًا لا لغو فیھا ولاتأثیمOو یطوف علیھم غلمان لھم کانھم لؤلؤ مکنونOواقبل بعضھم علی بعضٍ یتسآء لونOقالوا انا کنا قبل فی اہلنامشفقینOفمن اللہ علینا و وقٰنا عذاب السمومOانا کنا من قبل ندعوہ انہ ھو البرالرحیم
”بیشک پرہیزگارلوگ باغات اور چشموں میں ہونگے۔ پس وہ خوش ہونگے جو انکے رب نے ان کو عطاء کیا ہے۔ اور ان کے رب نے جحیم کے عذاب سے بچایا ہے۔ کھاؤ پیو مزے سے بسبب جو تم عمل کرتے تھے۔ بیٹھے ہوں گے صفوں میں چارپائیوں پر اور ہم نے ان کی موٹی آنکھوں والی شہری عورتوں سے شادی کرائی۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولادوں نے ان کی اتباع کی اپنے ایمان کیساتھ ان کے ساتھ ملادیا ان کی اولاد کو ۔ ہم انکے اعمال میں سے کوئی چیز کم نہ کرینگے۔ ہر شخص (انفرادی طور پر)اپنے عمل کا رہین ہے۔اور ہم نے (اجماعی حیثیت سے) ان کی مدد کی پھلوں سے اور گوشت سے جو وہ چاہتے تھے۔ وہ تنازع کریںگے پیالوں پر مگر یہ لغو اور گناہ نہیں ہوگا۔ ان کی خدمت پر لڑکے گھوم رہے ہونگے گویا وہ چھپے موتی تھے۔ وہ بعض ان میں سے بعض پر پیش کرینگے، ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے اپنوں میں بہت مشکلات میں تھے تو اللہ نے ہمارے اوپر احسان کیا۔ اور ہمیں گرم ہواؤں سے نجات دیدی۔ بیشک ہم پہلے بھی اس کو پکارتے تھے۔ بیشک وہ بڑا محسن رحیم ہے”۔ (آیات 17تا28سورۂ طور )
جو روانی کیساتھ عربی کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتا ہے وہ قرآن کی تلاوت سے آخرت کے بجائے دنیا میں ہی قرونِ اولیٰ کے ادوار میں مسلمانوں کی اجتماعی خوشحالی کا معاملہ سمجھنے میں دیر نہیں لگائے گا کیونکہ بعض چیزوں سے تو آخرت مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ جب مدینہ میں مہاجرین کے دل فطری طور پر اپنے عزیز واقارب کی طرف مائل تھے ۔ ایک بدری صحابی نے اہل مکہ کو خط بھی لکھا تھا جو پکڑا گیا تھا۔ جس پر تنبیہ بھی آئی اور پھر آخر میں اللہ نے یہ مژدہ بھی سنادیا کہ عنقریب سب رشتہ دار مل جائیں گے۔ اور پھر ایسا ہی فتح مکہ کے بعد ہوا تھا لیکن اس دوران جو بڑے بڑے جاہل اور ہٹ دھرم تھے وہ اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے اسلئے جس طرح قرآن نے پہلے سے خبر دے رکھی تھی اسی طرح سے ہوا اور پھر مسلمان نسل در نسل خوشحال رہے۔ البتہ انفرادی معاملات سب کے اپنے اپنے تھے انکے ایمان اور اعمال کے حساب سے۔ جب اللہ نے ہر چیز میں جوڑے بنارکھے ہیں تو پھر بھینس اور بیل کا جوڑا نہیں ہوسکتا۔ انسان کا جن و پری سے جوڑا نہیں بن سکتا ہے۔
ان آیات میں غلمان کا ذکر ہے جو چھپے ہوئے موتی کی طرح ہونگے۔ جب انسان میں اچھی صفات ہوتی ہیں اور ایسے ماحول سے نکلتا ہے جہاں اس کی صلاحیتیں مخفی ہوتی ہیں تو چھپا ہوا ہیرا کہلاتا ہے۔ مختلف قوموں سے سلمان فارسی، صہیبِ رومی ، بلال حبشی کی طرح محمود غزنوی کے غلام ایاز کی طرح مسلمانوں نے صدیوں چھپے ہوئے ہیرے ایک دوسرے کو تحفہ کے طور پر پیش کئے ہیں۔
قرآن کے ذریعے پہلے جو انقلاب برپا ہوا تھا ،اس سے زیادہ آج کے دور میںبھی انقلاب برپا ہوسکتا ہے اسلئے کہ آج دنیا میں اعلیٰ اقدار کو خوشی کیساتھ قبول کیا جاتا ہے۔ہم نے عوام کو قرآن کی طرف متوجہ کیا تو قوم زوال سے بہت جلد عروج پالے گی ۔انشاء اللہ
NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat
لوگوں کی راۓ