پوسٹ تلاش کریں

قرآن کریم عظیم الشان انقلاب کی ہی خبر دے رہا ہے!

قرآن کریم عظیم الشان انقلاب کی ہی خبر دے رہا ہے! اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
دنیا میں اسلام کا تعارف مذہب ہے مگراسلام دینِ فطرت ہے۔ شیعہ وسنی علماء وذاکرین نے مذہب کو اپنا ذریعہ معاش بنارکھا ہے اور سیاست کے علمبردار اسلام کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔شیعہ کیلئے بڑی بات حدیثِ قرطاس کی ہے۔ نبیۖ نے تحریری وصیت لکھناچاہی کہ خلیفہ و امیرالمؤمنین علی ولی اللہ کو بنایا جائے۔ حضرت عمرنے کہا کہ” ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔ حنفی مسلک کا سارا اصولِ فقہ اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں صحیح احادیث قابلِ قبول نہیں ہیں۔ ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ نبیۖ کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا اس سے زیادہ حق تھا جس طرح حضرت ابوبکر نے اپنا جانشین حضرت عمر کو نامزد کیا تھا۔ البتہ جانشین نامزد کرنے پر اختلاف جائز تھا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے وامرھم شوریٰ بینھم و شاور ھم فی الامر کی آیات میں اصول وضع کردیا ہے ۔صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اہل مغرب کو قیامت تک حق پر قائم ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اس سے مغرب کا جمہوری نظام ہی مراد ہوسکتا ہے۔ اسلام ہی نے دنیا کو جمہوریت سکھائی ہے اور جمہوریت کے ذریعے سے خلافت کا قیام دنیا میں آئیگا تو اس سے زمین وآسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ انصار وقریش،قریش واہلبیت کے درمیان خلافت کے استحقاق کی مہم نے اسلامی سیاسی نظام کی جڑوں کو اتنا کمزور کردیا تھا کہ حضرت ابوبکر وعمر کے بعد تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کو مسند پر شہید کردیا گیا اور پھر خونریزی ، عدمِ اعتماد اور اسلام کی روح مفقود ہونے کا سلسلہ شروع ہوا، جو آج اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ اہل تشیع کی اکثریت کو قرآن اسلئے اچھا نہیں لگتا ہے کہ علی اور حسین کی اسمیں کھل کرتائید نہیں ہے اور اہلسنت کو قرآن سمجھنے کا شوق نہیں مگر اسلئے اچھا لگتا ہے کہ ہردور کے فرعون کیلئے بھی آیات پڑھی جاتی ہے کہ ” جس کو اللہ عزت دے اور جس کو ذلت دے ، جسے چاہے ملک کا اقتدار دے اور جس کو چاہے اس سے اقتدار چھین لے”۔ خلافت راشدہ کے بعد امیہ ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ اور انگریز سرکار تک قرآن کی آیات کا سہارا لیا گیا۔ جسکے ہاتھ میں ڈنڈا تھا، اسکے گن گانے کی فقہ ایجاد کی گئی۔ ائمہ مجتہدین کے نزدیک دینی فرائض پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں تھا ، احادیث صحیحہ میں زمین کو مزارعت یا کرائے پر دینا ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ سُود کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ۖ نے زمینوں کو مزارعت پر دینا بھی سُود قرار دیا۔ ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک کے نزدیک متفقہ طور پر زمین کو مزارعت پردینا سُود اور ناجائز تھا پھر بعد میں بعض حنفی علماء نے اپنا مؤقف بدل دیا اور زمین کو مزارعت پر دینا جائز قرار دیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت مولانا یوسف بنوری کے داماد حضرت مولانا طاسین صاحب نے بھی حقائق پر مبنی بڑی تفصیل کے ساتھ اپنا نکتہ نظر پیش کیا جس کو جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن سمیت بہت سے معتبر علماء نے بہت سراہا لیکن وہ گوشہ گمنامی کا شکار ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے پہلے سودی رقم سے زکوٰة کی کٹوتی کو جائز قرار دیا اور پھر بینکنگ کے سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دیا۔ آج کی طرح ہر دور میں علماء حق کا کردار پسِ منظر میں چلاگیا اور اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے والے شیخ الاسلام بن گئے۔ دیوبندی مکتبہ فکر کی مشہور شخصیت حضرت مولانا قاری اللہ داد صاحب نے بتایا کہ ایک بڑے تاجر نے یہاں آکر کہا کہ تم لوگ اپنا حق ادا نہیں کررہے ہو، سُود کو مفتی تقی عثمانی نے جائز قرار دیا ہے اور آپ لوگ کھل کر ان کی مخالفت نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ ”ہماری سنتا کون ہے؟ ”۔ مولانا قاری اللہ داد صاحب مدظلہ العالی نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت آپ مجھے بڑے یاد آئے۔
حیدر آباد میں مفتی تقی عثمانی کے ایک شاگرد نے الزام لگایا ہے کہ طلاق و حلالہ کے حوالے سے مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ العالی پر دباؤ ڈالا گیاتھا۔ یہ بھونڈے الزام کسی کام کے نہیں ہیں۔ قرآن و سنت اور تمام مکاتب فکر کے ہاں اسلام کے غلبے کا تصور موجود ہے۔ اسلام کا غلبہ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات کی بنیاد پر نہ ہوگا بلکہ اسلام آفاقی دین ہے جو انسانی فطرت کا بہترین شاہکار ہے۔ پاکستان کی سرزمین سے قوم ملک سلطنت کے ذریعے تمام مذہبی طبقات کی یکجہتی سے اللہ کا دین نافذ ہوگا اور پوری دنیا اسلام کو دیکھ کر اسکے سیاسی ، معاشی ، اخلاقی ، معاشرتی اور مذہبی معاملے کو قبول کرے گی۔ اسلام میں نسلی تعصبات نہیں، وطنی تعصبات نہیں، لسانی تعصبات نہیں ، قومی تعصبات نہیں، فرقہ وارانہ اور مذہبی تعصبات نہیں بلکہ انسانیت کا بہترین نظام موجود ہے۔ دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں اور ظالمانہ نظام کسی طرح سے بھی کہیں بھی قابل قبول نہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جو ظلم کو اپنی فطرت کے مطابق صحیح سمجھتا ہو۔ البتہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جب وہ بالادست ہوتے ہیں تو کمزور پر ظلم کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ جب عدل کا نظام قائم ہوگا تو کوئی ظالم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اسلام نے دنیا سے غلط اور باطل عقائد اور عقیدتوں کا جنون و جمودتوڑا تھا مگر آج فرقہ پرستی کی بنیاد پر لوگ پھر اسی جنون و جمود کا شکار ہوئے ہیں۔
غلطیاں سب سے سرزد ہوئی ہیںاور غلطیوں سے توبہ کا دروازہ موت تک بالکل کھلا ہے۔ ہم بہت سے تضادات کا زبردست شکار ہیں جب مذہبی طبقات حلال اور حرام کا تصور لیتے ہیں تو اس میں اپنے لئے گنجائش نکالتے ہیں اور دوسروں کیلئے راہ تنگ کردیتے ہیں۔ تصویر کو ناجائز سمجھتے ہیں مگر شوق سے ویڈیو بنواتے ہیں۔ پردے کو ضروری سمجھتے ہیں مگر اپنے اور پرائے کے درمیان اپنے کردار کا بہت تضاد رکھتے ہیں۔ کوئی سُود کو جائز قرار دے تو یہ رائے کا اختلاف ہے اور جوحقوق کی جنگ لڑے تو وہ اسلام کا باغی اور مرتد قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان امریکہ کی مدد کرے تو مجاہد لیکن افغان حکومت امریکہ کی آشیر باد لے تو کافر و گمراہ۔ یہ تضادات چلنے والے نہیں۔
ISIکے سابق افسر طارق اسماعیل ساگر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر کو کھلی چھوٹ ملی تھی جس نے مذہبی دہشتگردوں کو پیدا کیا۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ میں جب دہشتگردوں سے ملتا تھا تو اس وقت پوری دنیا ان کی حمایت کرتی تھی۔ سوشل میڈیا پر دونوں بیانات موجود ہیں۔ جب مشرکین مکہ کو جہالت ، سابقہ کفر اور اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرنا معاف ہوگیا تو ہم بھی مختلف جہالتوں سے گزرے ہیں اور توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ سب کو معاف کرسکتا ہے۔ جو ہوا سو ہوا مگر اب آئندہ کیلئے کوئی درست لائحہ عمل تشکیل دیں تاکہ ہمارا مستقبل روشن ہوجائے۔
رسول اللہ ۖ نے حضرت ابو طالب کیلئے ہدایت کی دعا مانگی تھی مگر اہل سنت کے بقول قبول نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ۖ نے حضرت امیر معاویہ کیلئے دعا مانگی تھی کہ اللہ ان کو ہادی اور مہدی بنادے۔ حضرت امیر معاویہ کے حق میں یہ دعا قبول تھی یا نہیں مگر ان کے دورِ حکومت کو خلفاء راشدین مہدیین میں شمار نہیں کیا جاتا ہے۔ اور سنی سادات ہی نہیں اہل تشیع کیلئے بھی معاویہ کے نام سے کوئی بغض نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ یزید کے بیٹے معاویہ نے اہل بیت کی وجہ سے اقتدار چھوڑ دیا تھا۔ مگر معاویہ کا معنیٰ عربی میں ٹھیک نہیں ہے۔ اسلئے یہ نام نہیں رکھا جاتا ہے۔ صاحب کشاف تفسیر کے امام جار اللہ زمحشری نے لکھا ہے کہ معاویہ اس کتیا کو کہتے ہیں جو کتوں کو شہوت پر ابھارنے کیلئے آواز نکالتی ہے۔ بھیڑئے اور لومڑی کے بچے کو بھی معاویہ کہتے ہیں۔ حضرت علامہ مفتی شاہ حسین گردیزی نے اپنی کتاب ”تفتازانیہ” میں ساری تفصیل لکھ دی ہے جو حال میں چھپی ہے اہل ذوق دیکھ سکتے ہیں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟