مسئلہ کشمیر اور سیون سٹار جنرل راحیل شریف کی عزت کیوں ؟
ستمبر 4, 2016
بھارت خود کوجب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے تو اسکے دماغ پر مظلوم کشمیریوں کا بھوت سوار ہوجاتا ہے۔اس کو ڈراؤنے خواب آنا شروع ہوجاتے ہیں، اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر کشمیریوں کی خود ارادیت اور استصوابِ رائے کے خوفناک مناظرسامنے آجاتے ہیں، اقوام متحدہ نے سوڈان کو بھی تقسیم کردیا، پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ اور کشمیر میں بھی سکھوں کی حکومت رہی ہے اور سکھ بھارت کے ہندؤں سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ مشرقی پنجاب کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت اور بنگلہ دیش کے آزاد مملکت بن جانے کے بعد بھارتی بنگال بھی بنگلہ دیش سے مل سکتا ہے۔ ہندو فطری طور پر متعصب اور مسلمان محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مفاد اپنے پڑوسی ملک بھارت کیساتھ دوستی کرنے میں ہے، پاکستان انڈیا کے ذریعہ ایشاء کا سب سے بڑا ٹائیگر بن سکتا ہے،روس اور اس سے آزاد ہونے والی ریاستوں ،افغانستان، ایران، ترکی اورعرب ویورپ تک بھارت کیلئے پاکستان زمینی اور سمندری حدود کا راستہ ہے جس سے بھارت بھی بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور پاکستان کو بھی بہترین راداری کے ذریعہ بڑی آمدن مل سکتی ہے۔ ایک کشمیر تو بھارت کو بالکل تحفہ میں بھی پیش کردینا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی ایک فطری عمل تھا لیکن بھارت نے خود کو خوامخواہ بدنام کردیاتھا۔
مجلس احرار کے قائدمولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے انگریز کے خلاف زندگی جیل اور ریل میں گزاری، ان کی تقریریں ریکارڈ پر ہیں، وہ سرِ عام لوگوں کو پاکستان کا نقشہ سمجھاتے تھے کہ اتنی دور ہماری فوجیں ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کرسکیں گی، اسلئے بنگلہ دیش کو الگ آزاد ہونے دو، اس پر ہندوؤں کا قبضہ نہیں ہوسکتا، وہ اپنی آزادی خود حاصل کریں گے۔ ہمارے لئے سب بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے اور انگریز کے جانے سے پہلے اس مسئلہ کا حل ضروری ہے، ورنہ انگریز نے پہلے بھی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو ‘‘ کی پالیسی اپنا کر ہمیں محکوم بنایا تھا، یہ مسئلہ کشمیر دوبارہ اس خطے میں انگریز کی مداخلت کا ذریعہ بن جائیگا۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ایک کشمیر ہے لیکن حالات اور واقعات کا فائدہ اٹھاکر عالمی قوتیں پاکستان کے علاوہ بھارت، چین، ایران اور افغانستان سمیت پورے خطے میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور نئے انداز میں نئی صف بندی کے ذریعہ وہ کھیل کھیلنا چاہتی ہیں جس کی طرف ہم خود کو بھی خود ہی دکھیل رہے ہیں۔
بھارت کو دانشمندی کا مظاہرہ کرکے کشمیر سے اپنی جان ہی نہیں چھڑانی چاہیے بلکہ جنرل راحیل شریف کی خدمت میں خاص تحفہ کے طور پر پیش کرنا چاہیے، جس نے اس خطے میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے عالمی خوابوں کا چکناچور کیا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ جنرل راحیل کو 7سٹار جنرل بناکر کم ازکم اگلے پانچ سالوں کیلئے نہ صرف چیف آف آرمی سٹاف بلکہ چیف آف جوائنٹ اسٹاف کا عہدہ بھی ان کے سپرد کریں۔ نوازشریف کے قریبی ساتھی طلال چوہدری کو یہ کہتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی ہے کہ ’’فوج پہلے منہ چھپاتی پھر رہی تھی، ہماری وجہ سے اس قابل ہوئی ہے کہ سامنے آسکے‘‘۔ ٹی وی ٹاک شوز میں اسکے یہ تأثرات سن کر بہت افسوس ہوا تھا۔
جنرل راحیل شریف کیوجہ سے بلوچستان کے بلوچ، پختونخواہ کے پختون، کراچی کے مہاجر اور پورے پاکستان کے تمام شہریوں نے سکھ کا سانس لیاہے ۔ جمہوریت کو بچانے کیلئے فوج سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ خود جمہوری جماعتیں ہیں، جن کا اپنا ایجنڈہ اپنی جماعتوں میں بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ ہے۔ ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین سے بڑا ڈکٹیٹر ، ظالم اور جاہل متکبر عمران خان ہے۔ جس طرح طالبان دہشت گردوں کی بے ضمیری اور بے غیرتی سے حمایت کررہا تھا، اس میں عقیدے اور نظرئیے کے کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ غیرت کا فقدان تھا۔ عمران خان کیلئے برکی بوٹ ہاؤس ٹانک کے مالک گل شاہ عالم خان برکی نے بہت ہی زیادہ جدوجہد کی تھی لیکن جب طالبان نے اس کو زندہ غائب کردیا تو اس پر اظہارِ مذمت تو بہت دور کی بات ہے اظہارِ افسوس بھی نہ کیا۔ کراچی میں زہرہ شاہد کے قتل کے بعد عمران خان کافی عرصے بعد خصوصی ہیلی کاپٹر سے کراچی آئے ، بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا ، دو لفظ کی مذمت تک نہ کی اور تعزیت کیلئے بھی نہ گئے۔ یہ بہادری ہے یا بے غیرتی؟۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے نواز شریف کو چیلنج کیا ہے کہ بھارت نے اس کو پاکستان میں برسر اقتدار لانے کیلئے سرمایہ کاری کی ہے۔ قادری صاحب کے سچ اور جھوٹ کو پنجاب والے جانیں لیکن ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ن لیگ کی حکومت لڑانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ دو چار اس طرح کے اور ایشوز کھڑے کئے جائیں گے اور پھر جنرل راحیل شریف کو رخصت کردیا جائیگا۔ جنرل راحیل شریف خود اقتدار کے بھوکے ہوتے تو انکے حق میں کوئی بھی آواز نہ اٹھاتا۔ اس شخص نے پوری قوم پر امن و سلامتی کے حوالے سے بڑا احسان کیا ہے اور نواز شریف پانامہ لیکس کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔ اسلئے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کبھی نہیں کریں گے۔
پرویز مشرف نے آخر کار نواز شریف کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر کشمیر کا سمجھوتہ ایکسپریس کرنا تھا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے اپنی وردی کو اپنی کھال بھی قرار دیا تھا۔ عمران خان سمیت مفاد پرست قسم کے لوگوں کو بھی پرویز مشرف نے اپنے لئے استعمال کیا تھا۔ وہی مفاد پرست لوگ اب عمران خان اور نواز شریف کی پارٹیوں میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کرنی ہے ، جنرل راحیل شریف عزت کے ساتھ رخصت ہوجائے تب بھی ان بدبخت سیاستدانوں اور جرنیلوں کا قلع قمع ہونا ہے جنہوں نے مملکت خداداد پاکستان کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ہر جگہ سے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو ختم کرکے چھوڑا ہے۔ جو مذہبی اور سیاسی جماعتیں ان کے بل بوتے پر عوام کے سامنے کھڑی رہ سکتی تھیں انکے خاتمے کے بعد نہتے عوام حکمرانوں کا بخوبی مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو اپنی فتح سمجھنے والے شہباز شریف اور نواز شریف اس بات کو یاد رکھ لیں کہ اب لشکر جھنگوی کے سیدھے سادے لوگ تمہاری حفاظت نہیں کرینگے۔
شہباز شریف نے پنجاب میں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کے خاتمے پر جس طرح کا احتجاج کیا تھا ، اتنے جذبات سے تو ملا فضل اللہ کے سسر صوفی محمد نے بھی ریاست کے خلاف بغاوت کی آواز نہیں اٹھائی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے سارے محاذ فتح کرلئے ہیں مگر پنجاب ابھی باقی ہے۔ جہاں عصمت دری کے سب سے زیادہ واقعات ہوتے ہیں جو فرقہ پرستی اور شدت پسندانہ نظریات کیلئے گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے ، جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد یہ لوگ طالبان ، لشکر جھنگوی ، ایم کیو ایم ، بلوچ شدت پسند، پیپلز پارٹی اور دیگر لوگوں سے معافی تلافی کرلیں گے کہ ہم مجبور اور معذور تھے اسلئے معافی چاہتے ہیں۔
اگر جمہوریت اور سسٹم کو بچانے کی فکر ہو تو سب سے پہلے نواز شریف اپنے بچوں کے سب اثاثے بیرون ملک سے پاکستان منتقل کردے۔ ماڈل ایان علی کی طرح پورے خاندان پر جب تک کورٹ فیصلہ نہ کرلے بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی جائے۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو نے بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو قتل کردیا اور پھر اس پر دہشت گردی کا دفعہ ختم کرکے ریمنڈ ڈیوس کی طرح بیرون ملک بھیج دیا۔
اصغر خان کیس کے جرم کا بھی فوری طور پر فیصلہ سنا کر نواز شریف اور دوسرے ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور نہ اہل قرار دے کر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح گھر نہیں بلکہ جیل بھیج دیا جائے۔ وہاں اس کو پتہ چلے گا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے کہ نہیں؟۔ ہر معاملے پر جھوٹ اور پیسوں اور میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار سے خوشحالی کا جشن منایا جارہا ہے مگر قرضہ لے لے کر ملک کا دیوالیہ کردیا ہے۔ اقتصادی راہداری اور موٹر وے کو ملانے کیلئے نام وسطی ایشیائی ریاستوں کا لیا جارہا ہے اور افتتاح اسکے بالکل برعکس لاہور سے سیالکوٹ بھارت کی طرف کیا جارہا ہے۔ عمران خان اور پرویز خٹک بھی عقل سے عاری ہیں ، سوات موٹروے کے بجائے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان موٹر وے بنائی جاتی تو ملتان سے ڈیرہ اسماعیل خان تک کوئٹہ ، گوادر ، کراچی کا ٹریفک اسی شارٹ کٹ کی طرف منتقل ہوجاتا۔ پختونخواہ کے عوام کو کراچی ، جنوبی پنجاب ، کوئٹہ اور گوادر کیلئے سہولت سے ایک بہترین شاہراہ کا اہتمام بھی ہوجاتا۔ سوات میں موٹروے بنانے سے پہلے بڑے پیمانے پر پن بجلی سے نہ صرف پختونخواہ بلکہ پورے پاکستان کو روشن کیا جاسکتا ہے سیاستدان صرف شہرت اور تجارت کا تجربہ رکھتے ہیں باقی کچھ نہیں۔ عبد القدوس بلوچ
لوگوں کی راۓ