مولانا فضل الرحمن جیسے فرزند مائیں روز روزنہیں جنتی ہیں
جنوری 26, 2021
مولانا فضل الرحمن جیسے فرزند مائیں روز روزنہیں جنتی ہیں۔قذافی، ملاعمر،بینظیربھٹو اورنوازشریف سے مولانا بڑا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اگر مولانافضل الرحمن نہ ہوتے تو جنرل راحیل اور پاک فوج دہشتگردوں کا خاتمہ نہیں کرسکتی تھی ۔
جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار نہ ہوتا تو پختون دہشتگردوں سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے تھے، مولانا فضل الرحمن کی زندگی جہدِ مسلسل سے اعتدال پر گامزن ہے!
اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کو مولانا شیرانی چلائیںگے۔ صابر شاکر۔ اسلئے کہ شیرانی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کاکہا؟ ،صابر شاکر فوج کوہی نقصان پہنچارہاہے
مولانا فضل الرحمن دینی مدرسہ اوربی اے (BA)کی تعلیم سے اس مقام تک نہیں پہنچے بلکہ اپنی جرأت ، کردار اور ذہانت کی بدولت یہ مقام حاصل کیاہے۔ جب مولانا مسعود اظہر انڈیا کی جیل سے آزاد ہوئے تو اس سے پہلے ایک بار جمعیت طلباء اسلام کے شاہ ولی اللہ کانفرنس میں مولانا مسعود اظہر کو میری وجہ سے تقریر کا موقع دیا گیا۔ مسعود اظہر اس وقت جامعہ بنوری ٹاؤن کا طالب علم میرا دوست تھا۔ اس نے اشارہ کنایہ سے بزرگ علماء کی تعریف کرتے ہوئے جمعیت ف کے مقابلے میں درخواستی کی حمایت میں بات کی۔ جمعیت ف کا طالب علم دوست ناراض ہوا کہ قربانیاں ہم نے دی ہیں اور تقریر کا موقع اس کو دلوادیا، جس نے تمہارا لحاظ بھی نہیں رکھا؟ ۔ میں نے کہا کہ تمہارا پتہ چلتا کہ اس پروگرام میں شرکت کی ہے تو مدرسہ والے نکال بھی دیتے۔ یہ مدرسے والوں پر حجت ہوگئی کہ اس کو نہیں نکالتے اور اچھا ہوا کہ اس نے منافقت کرنے کی بجائے اپنے ضمیر کا کھل کراظہار کیا ہے۔
مولانا مسعود اظہر نے انڈیا سے آزادی کے بعد مولانااعظم طارق کیساتھ تقریریں شروع کیں تو پاکستان میں افغانستان کے طرز پر تحریک طالبان کی طرح امیر المؤمنین بننے کا نقشہ پیش ہورہا تھا۔ مجھے اس وقت اسی دوست نے خط لکھا کہ تمہاری وجہ سے ترقی وعروج کے اس مرتبہ پر مولانا مسعود اظہر پہنچے،اگر شاہ ولی اللہ کانفرنس میں آپ نے دعوتِ خطاب کا جرم نہ کیا ہوتا تو مسعود اظہر کسی کی نظر میں آتا اور نہ یہاں تک پہنچ پاتا۔ اب آپ ہی اس فتنے کا تدارک بھی کیجئے گا۔
میں نے اپنے اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میںاس پر ایک مضمون لکھتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ” مجھے چالیس ایف سی آر کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل میں ایک چھوٹے سے انقلابی کی حیثیت سے قلم اور کاغذ کی سہولت میسر نہیں تھی بلکہ اس پر سخت پابندی تھی اور مولانا مسعود اظہر کے حالاتِ حاضرہ پر تہاڑ جیل سے مسلسل ضربِ مؤمن کراچی میںمضامین شائع ہورہے ہیں، یہ آئی ایس آئی (ISI) اور بھارت کی را سے بالا بالا امریکی سی آئی اے کا گیم ہے۔ مولانا اظہر کا یہ کہنا کہ تہاڑ جیل میں بارہ (12) سرنگ کھودے گئے تھے جن میں ایک سرنگ میرے سائز کا بھی تھا۔ کیا یہ خالہ جی کا گھر تھا؟ اور مولانا کے سائز کا ایک سرنگ سب کیلئے کافی نہیں تھا؟”۔ یہ تحریر جماعت اسلامی کے امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد کو بھی بہت پسند آئی تھی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کوئٹہ میں ضربِ حق کے نمائندے امین اللہ بھائی کا تعارف قاضی حسین احمد سے کروایا توقاضی صاحب بہت پُر جوش انداز میں امین اللہ بھائی سے ملے مگر جب امین اللہ نے سوال کیا کہ ”شیعہ مسلمان ہیں یا کافر؟” تو قاضی صاحب بہت سخت ناراض ہوگئے کہ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھ لیا؟۔ حالانکہ ملی یکجہتی کونسل کے تحریری معاہدے پرسپاہِ صحابہ اور اہل تشیع کے دستخط تھے کہ” ہم ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کریںگے”۔
جب امریکہ جہاد کی سرپرستی کرتا تھا تو اسرائیل کا بھی وہی سرپرست تھا۔ پھر امریکہ کے خلاف جہاد کا مسئلہ آیا تو مولانا فضل الرحمن کے جھنڈے کے نیچے جماعت اسلامی بھی کھڑی ہوگئی۔ امریکہ کو للکارنا مولانا کی جرأت کا آئینہ تھا۔پھر جب متحدہ تنظیمات المدارس اورمتحدہ مجلس عمل کیلئے شیعہ سنی اتحاد کا فتویٰ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے دیا تو فتویٰ لکھنے والے ہمارے وزیرستان کانیگرم شہر کے پڑوسی مفتی شاہ فیصل برکی تھے۔ بنوری ٹاؤن نے اہل تشیع پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا جس پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے علماء نے دستخط تھے۔ تین (3)وجوہات سے شیعہ کو قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا گیا تھا۔
(1) قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔
(2) صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں۔
(3)عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں۔ جبکہ قادیانی صرف ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں۔
میں نے اس پر تبصرہ لکھا تھا کہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی اس اتحاد کی وضاحت کریں کہ اہل تشیع نے اپنے عقائد سے توبہ کی ہے یا پھر انہوں نے غلط فتویٰ لگایا تھا؟۔ اگر دونوں میں سے کوئی بات نہیں تو کیا قادیانیوں کو بھی وہ اس سیاسی اور مدارس کے اتحاد میں شامل کرلیںگے؟۔ مفتی شاہ فیصل برکی نے مجھ سے میرے سکول کبیرپبلک اکیڈمی علاقہ گومل میں تشریف لاکر کہا کہ ”آپ ہمیں کہیں بھی نہیں چھوڑتے۔ شیعہ پر کفر کے فتوے پر مخالف تھے اور اب اتحاد کی بھی مخالفت کرتے ہیں؟” لیکن میرا کہنا تھا کہ میں صرف حق کی بات کرتا ہوں باقی کسی کو کافر قرار دینا یا مسلمان قرار دینا یہ میرا کام نہیں ہے۔ آپ لوگ اسلام کے نام پر عوام کے جذبات سے مت کھیلو”۔
مولانا فضل الرحمن اور اہل مدارس کو سب سے زیادہ خطرہ تنظیم فکر ولی اللہ سے تھا لیکن مولانا عبدالخالق آزاد اور مفتی عبدالقدیر کے دانت بھی میں نے مفتی شاہ فیصل برکی اور دوسرے علماء کے سامنے کراچی میں کٹھے کئے تھے۔
تحریک طالبان عوام کی امنگوں کی اس وقت ترجمان بن گئی کہ جب امریکہ نے افغانستان پر یلغار کردی تھی۔ اگر مولانا فضل الرحمن ایجنسیوں کی راہ پر چلتے ہوئے جہادیوں کی حمایت کرتے تو پاکستان کا کباڑہ ہوچکاہوتا۔ مولانا نے معتدل کردار ادا کرتے ہوئے امریکہ کو مات دینے کی حمایت جاری رکھی اور تحریک طالبان سے اپنے لوگوں کی بربادی کو بھی بچانے کی اپنی بھرپور کوشش کی۔ طالبان کے حامی مولانا عبدالغنی اور مخالف مولانا محمد خان شیرانی کے درمیان مولانا فضل الرحمن نے میانہ روی کا راستہ اپنایا۔ جب سپاہ صحابہ نے اہل تشیع کا قتل شروع کیا تو مولانا فضل الرحمن نے ہی ان کو دہشت گرد قرار دیا تھا اور جب تحریک طالبان پاکستان نے دہشتگردی کی تو مولانا فضل الرحمن نے ان کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا۔ شاہد مسعود جیسے چند ٹکوں کے صحافیوں نے مولانا کی حمایت کرنے کے بجائے مولانا کی کردار کشی شروع کردی تھی۔
پھر جب جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا تو مولانا فضل الرحمن اور مولانا عطاء الرحمن کے فتوؤں کا اس میں کلیدی کردار تھا۔ ہمارا میڈیا یہ جرأت تو نہیں کرسکتا تھا کہ خراسان کے دجال والی بات کو سامنے لایا جاتا لیکن مولانا عطاء الرحمن کا بیان مشرق پشاور میں چھپا تھا کہ ”سیکیورٹی کے اداروں کی یہ صرف سرکاری ذمہ داری نہیں کہ دہشت گردوں کو قتل کریں بلکہ یہ ان کا شرعی فریضہ بھی ہے”۔ سن(2007ئ) میں یہ کہنا کسی کمزور مائی کے لال کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔ عمران خان مچھ کے واقعہ پرہزارہ کے پاس کوئٹہ جانے کیلئے تیار نہیں تھا اور مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کے بھرے اجتماع میں طالبان کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا اور جب وہ ہمارے گھر میں اسکے بعد ٹانک سے تعزیت کیلئے آرہے تھے تو اپنے دوستوں نے کہا کہ وہ قتل نہیں کردیں؟۔ مولانا نے کہا کہ میں ان سے نہیں ڈرتا۔ میرے بھائی نے پولیس کو بیٹھک اور آنے جانے والوں کی تلاشی سے منع کردیا کہ مہمانوں کی بے عزتی ہے۔ پولیس والوں نے کہا کہ یہ ہمیں حکم ہے لیکن بھائی نے کہا کہ پھر تعزیت کیلئے مولانا نہ آئیں۔ پھر پولیس نے تلاشی نہیں لی اور مولانا تشریف لائے۔ وہاں بھی خراسان کے دجال والی حدیث دھرائی ۔
مولانا فضل الرحمن کو جتنے جھوٹے طعنوں سے ڈیزل پر بدنام کیا گیامگر یہ کسی کو پتہ نہیں چلا کہ ڈیزل کے پرمٹ سے مولانا سے پہلے اور بعد میں کس نے کتنے پیسے کمائے ہیں؟ مولانا نے متعددمرتبہ تحقیقات کی پیشکش بھی کردی اور ترقی یافتہ ممالک کی عدالتیں ہوتیں تو مولانا کو اس طعنے سے اتنی دولت مل جاتی جتنی دوستوں کی طرف سے ہدیات دینے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ جب نوازشریف پر اسامہ بن لادن سے بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کیلئے رقم لینے کا الزام تھا تو لیبیا کے صدر قذافی نے مولانا فضل الرحمن سے کہاتھا کہ اگر اس نے تحریک عدم اعتماد میں حصہ لیا تو مدرسہ جامعہ معارف الشریعہ کیلئے وہ پیسے نہیں دیںگے۔ مولانا نے پھر بھی تحریک عدم اعتماد میں حصہ لیا۔ حالانکہ مولانا کے قریبی حلقوں کا کہنا تھا کہ صدر قذافی کی پیشکش کرنا اچھا تھا۔
بینظیر بھٹونے امریکہ کے کہنے پرنصیراللہ بابر کے ذریعے طالبان کو تشکیل دیا، مولانا فضل الرحمن بیرون ملک دورے پر گئے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی نے شکایت لکھی کہ پاکستان کو مولانا فضل الرحمن کے کردار کی افغانستان میں ضرورت تھی تو مولانا رفوچکر ہوگئے۔ مولانا نے کابل فتح کرتے وقت ملاعمر سے افغان صدر نجیب اللہ کو پناہ دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ملاعمر نے کہا تھا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں۔جس پر مولانا نے کہا تھا کہ ”ملاعمر کی اس بات سے مارے شرم کے میرے کپڑے اتر گئے ہیں”۔
مولانا فضل الرحمن معمر قذافی، ملاعمر، بینظیر بھٹو اور نوازشریف سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہیں۔ عمران خان بیرونی اور اندرونی قوتوں کا مہرہ ہیںجو ٹکوں کے بھاؤ درجنوں اور کلوکے حساب سے ملتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جیسے فرزند مائیں روز روز نہیں جنتی ہیں۔ مولانا راشد سومرو کے باپ ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید کے مرشد جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف نے جنرل ضیاء الحق کو قادیانی قرار دیکر لاڑکانہ آنے سے روکا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے جنرل ضیاء الحق کے جنازے میں شرکت کی تھی۔ اگر جنرل ضیاء الحق کو علماء ومفتیان کھلے عام قادیانیوں کیخلاف آرڈینینس نافذ کرنے پر مجبور کرسکتے تھے تو جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاک فوج کیخلاف بڑی شدت سے جذباتی لوگ علماء اور مذہبی عوام کو کھڑا کرسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن فرشتہ نہیں انسان ہیں لیکن یہاں کوئی دوسرابھی فرشتہ تو نہیں ہے۔
پاکستان کی ریاست سوشل میڈیا کے ان ٹٹوؤں اور الیکٹرانک میڈیا کے ان کردار کو شٹ اپ کی کال دیں جو پاک فوج زندہ باد کہہ کر اپنے دلوں کی بھڑاس نکالتے ہیں اور ملک وقوم اور ریاست وعوام میں بدظنی کی فضاء پھیلا رہے ہیں۔ یہی لوگ پاک فوج کو بدنام کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ اگر خدانخواستہ مولانا فضل الرحمن حادثاتی طور پر بھی دشمن کے تیر کا شکار ہوجاتے تو مینڈک مافیا کے اس ٹرانے سے حادثہ ایجنسیوں کے کھاتے میں جاسکتا تھا۔
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ