نور اللہ ترین جیسے جوان ہی پی ٹی ایم (PTM)کے روحِ رواں ہیں
دسمبر 14, 2020
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
خصوصی آرٹیکل
مولانا اجمل خان موسیٰ خیل امیرجے یوآئی شرقی ملتان اور مولانا طیب بلوچ ایرانی خیرالمدارس ملتان کے طالب علم بعد میں دارالعلوم کراچی سے فارغ ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن اور قاضی فضل اللہ ایڈوکیٹ کا ہمارے ہاں جٹہ قلعہ گومل ٹانک کی تاریخ میں پہلا سیاسی جلسہ تھا۔ مولانا اجمل اور مولاناطیب بلوچ کو میں مولانا نور محمد وانا جنوبی وزیرستان کے ہاں لے گیا۔ مولانا نور محمد صاحب نے کہا تھا کہ ”آزاد قبائل برائے نام آزاد کہلاتے ہیں ۔ چالیس ایف سی آر (40FCR)جیسے غلامانہ قوانین پورے پاکستان میں موجود نہیں۔ مجھے ذوالفقار علی بھٹو نے قید کیا تھا ، وانا کے شہر کو مسمار کردیا تھا، اگر مفتی محمود نہ ہوتے تو مجھے کسی عدالت سے رہائی نہیں مل سکتی تھی۔ جاہل قبائلی ملکان سے انگوٹھے لگواکر مجھے مجرم بنایا گیا تھا۔ قرآن پاک بھی میں نے جیل میں حفظ کرلیا تھا۔ آپ کی تحریک کیلئے سب سے موضوع علاقہ بلوچستان ہے۔ وہ انقلابی لوگ ہیں”۔
مولانا فضل الرحمن نے جلسہ میں کہا تھاکہ ” ہم آپ کے بھروسہ پرریاست کو بندوق اُٹھانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اگر وقت آئیگا تو بندوق اُٹھالو گے؟”۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نے اندورن خانہ کہا تھا کہ” لوگ ووٹ نہیں دیتے تو بندوق کہا ں سے اٹھائیںگے”۔ جس کو خیر خواہ حکمت اور بدخواہ منافقت سے تعبیر کریںگے ۔ بلاشبہ وزیرستان کے لوگ آزاد منش اور سرکاری ملک نااہل اور بے کارہیں۔ انگریز کے دور میں ان کو جاسوس کہا جاتا تھا۔ مراعات کے بدلے یہ بکے ہوئے تھے۔ پھر موروثی نظام نے زیادہ بیڑہ اسلئے غرق کیا کہ جرگوں میں بھی منافقت ہوتی تھی۔ سرکاری حکم ان کیلئے آسمانی صحیفہ ہوتا تھا۔ جب طالبان کیساتھ جذباتی طبقہ اسلئے کھڑا ہوگیا کہ امریکہ ظالم کے مقابلے میں بھاگے ہوئے مظلوموں کا ساتھ دینا فطرت کا تقاضہ تھا۔ لوگوں کو پرویزمشرف اور پاک فوج سے نفرت اسلئے ہوگئی کہ افغانستان کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے تو امریکہ کیساتھ کھڑے ہونا بھی تو غیرت سے عاری پاک فوج کا کام نہ تھا۔ عوام کی طرح فوج کے جذبات بھی طالبان کیساتھ تھے لیکن عمل اس کا بالکل برعکس تھا۔ سفیر ملا ضعیف سے لیکرسائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو حوالے کرنا پاک کو ناپاک کرنے کے مترادف تھا۔ اس دوغلی پالیسی میں پشتون قوم کا بیڑہ غرق ہوگیا اور امریکی ڈالروں سے پاک فوج نے اپنی پاکدامنی کو بدترین دھبہ لگادیا۔
اب پی ٹی ایم (PTM)کی نوجوان قیادت سے گزارش ہے کہ ایم کیو ایم (MQM) نے آپریشن کے بعد پولیس اہلکاروں اور افسروں کو سینکڑوں کی تعداد میں مار دیا تو کراچی رینجرز کے حوالے ہوگیا۔ رینجرز نے ایم کیو ایم (MQM)کی بدمعاشی سے کراچی کی فضاء کو پاک کردیا جو روزانہ کی بنیاد پر اچانک پہیہ جام ہڑتال کرکے عوام کے ناک میں دَم کرکے رکھتے تھے۔ بدمعاشوں سے عوام کو چھٹکارا مل گیا لیکن الطاف حسین کی قیادت سے مہاجر عوام کا اعتماد اسلئے نہیں اٹھا سکے کہ مصطفی کمال نے اپنی زندگی کے نشیب وفراز الطاف حسین کی گود میں پل کر گزارے تھے، عوام کیسے اعتماد کرسکتی تھی کہ الطاف حسین مجرم اور بیرونی ایجنٹ ہے اور ایم کیو ایم (MQM)کی قیادت پاک سرزمین پارٹی کی پراپرٹی ہے؟۔ دباؤ ڈالنے سے کبھی لوگوں کے دل ودماغ نہیں بدلتے۔
جب پاک فوج نے دیکھ لیا کہ تمام پابندی اور ٹرکس استعمال کرنے کے بعد بھی ایم کیو ایم (MQM) نے نائن زیرو (90)کے حلقے سے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو بدترین شکست سے دوچار کردیا تو جبر کا استعمال شروع کردیا۔ جب ڈاکٹر فاروق ستار نے دھرنا دے رکھا تھا اور ن لیگ و غیرہ والے ہمدردی کا اظہار کررہے تھے تو اس وقت ہم نے ڈاکٹر فاروق ستار کو آگاہ کیا تھا کہ یہ تمہیں میدان میں چھوڑ جائیں گے۔ اور پھر وہی ہوا تھا جس کا ہم نے اظہار کیا تھا۔ جب پی ٹی ایم (PTM)نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو میں یہ سمجھانے گیا تھا کہ اپنی توپوں کا رخ اس نظام کی طرف کردو، جس میں مظلوم کو انصاف نہیں ملتا ہے۔ ایک راؤ انوار نہیں پولیس کے ہر تھانے میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ لیکن پی ٹی ایم (PTM)نے نظام کی بجائے اپنا ٹارگٹ صرف پاک فوج ہی کو بنالیا۔ آج پی ڈی ایم (PDM)بھی پاک فوج کے خلاف کھڑی ہے اور جماعت اسلامی بھی پاک فوج کے بارے میں وہی مؤقف رکھتی ہے جس کا اظہار پی ٹی ایم (PTM)کرتی ہے۔
پہلے پاک فوج کی ایمانداری پر لوگ قسم کھاتے تھے لیکن کرپٹ نظام نے ان کو بھی کرپٹ بنالیا ہے تو قصور پاک فوج کا نہیں اس کرپٹ نظام کا ہے۔ ہماری اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ جس نظام نے فوج کو کرپٹ بنادیا ہے تو اس نظام کو نہیں بدلتے بلکہ فوج کیساتھ لڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں؟۔امریکہ سے طالبان نے لڑلیا اور اب دنیا نے دیکھ لیا کہ طالبان نے امریکہ سے بھی صلح کرلی۔ایک لطیفہ ہے کہ ایک گاؤں میں بکرے کا سرمٹکے میں پھنس گیا تھا۔ پہلے بکرے کو ذبح کیا گیا اور جب بکرے کا سر پھر بھی نہیں نکلا تو مٹکے کو بھی توڑ دیا اور پھر کم عقلوں نے عقل کے ناخن لینے کے بجائے خوشیوں کے شادیانے بجائے کہ ہم نے کمال کردیا ہے۔ طالبان کااپنا اسلام اور حکومت تھی ، امریکہ نے پہلے ان کی حکومت کو گرا دیا اور پھر انکا اسلام بھی ان سے چھین لیا۔جاندار کی تصاویر اور بے پردہ عورتوں کیساتھ بیٹھ کراپنے اسلام سے بھی ان کوآخر کار دستبردار ہونا پڑا ہے۔اب دلال بنے پھرتے ہیں۔
آج پی ٹی ایم(PTM)کا جوان فوج کو روڈوں پر گھسیٹنے کی بات کرتا ہے ۔ جس طرح طالبان نے مخصوص فضاء سے فائدہ اٹھاکر فوج سے ٹکر لی مگر بعد میں فوج کے دلال بننے پر مجبور ہوگئے، اپنوں کی ہمدردیاں بھی بالکل کھو بیٹھے تھے۔ اسی طرح پی ٹی ایم(PTM)کا حال بھی آنے والے وقت میں ایسا ہوسکتا ہے، جس کا اندازہ پی ڈی ایم (PDM)کے جلسے سے لگایا جاسکتا ہے۔ محمود خان اچکزئی کی تقریر کے وقت بجلی اور جنریٹر بند کئے گئے۔ سندھی صحافی نے بہت پہلے انکشاف کیا کہ نوازشریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ اورآئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کا نام نہیں لیناہے۔ جس کی بات بالکل درست ثابت ہوئی ہے ، نواز شریف پوری تقریر میں شف شف کرتا ہے لیکن شفتالو نہیں بول سکا تھا۔ سندھی صحافی نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ نوازشریف نے پہلے بھی پیپلزپارٹی کو دھوکے دئیے ہیں اور اب بھی شہباز شریف کو رکھا ہوا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جب تمام سیاسی جماعتوں کو فوج سے لڑا دے اور پھر شہبازشریف کے ذریعے سے اسٹیبلشمنٹ سے مل جائے۔شہباز شریف کا ورکر لاہور جلسے میں نہیں نکلا تھا۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پی ٹی ایم(PTM) پشتونوں کو بلوچوں کے راستے پر لے گئی تو پشتون فوج کیساتھ لڑنے کے بجائے پی ٹی ایم(PTM)سے لڑنے کو ترجیح دینے لگیں گے۔ بلوچ کاڈی این اے (DNA)بالکل جدا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ریاست کیساتھ لڑتے رہے ہیں لیکن ہمارے پشتونوں نے ہمیشہ ریاست کیلئے وفادار شہریوں کا کردار ادا کیا ہے۔ جب پشتون قوم سمجھ گئی کہ طالبان 3ہیں نہ13، تب بھی ان کے آگے دُم ہلانے سے باز نہیں آتے تھے۔ حالانکہ محسود قوم میں یہ صلاحیت زبردست طریقے سے موجودتھی۔
علی وزیر کے علاقے میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوا۔ طالبان اور پاک فوج کی مدد سے انہوں نے ازبک طالبان سے اپنی جان نہیں چھڑائی ہوتی تو وزیر خود کہتے ہیں کہ ہماری خواتین کو بھی ازبک اٹھاکر لے جاتے۔ وزیر اورمحسود اجتماعی حیثیت سے اپنا فرض ادا کریں تو معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔پختون پنجاب کی مدد سے اس وقت انقلاب لاسکتے ہیں جب صرف فوج سے چھٹکارے کی بات نہ ہو بلکہ نظام کی تبدیلی کیلئے مینارِ پاکستان میں عظیم الشان جلسے سے عوامی شعور برپا کریں۔
لوگوں کی راۓ