ولی کا معنی حکومت کرنا بھی ہے اورحق سے پھرجانا بھی ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی
فروری 1, 2021
ہم نے لکھ دیا تھا کہ قرآن میں ”ذنب” سے مراد نبیۖ کیلئے گناہ نہیں بلکہ بوجھ ہے ۔ عربی میں جملے کے سیاق و سباق سے الفاظ کے معانی کی وضاحت ہوتی ہے۔ ولی کا معنی حکومت کرنا بھی ہے اورحق سے پھرجانا بھی ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی
قرآن کے بعض احکام کا تعلق حکومت اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی سے ہے۔ اسلام میں اولی الامر کی اہمیت کو قرآن نے اُجاگر کیا ہے جس کا مقصد قرآن وسنت اور عدل کا نفاذ ہے
بلغ ماانزل الیک من ربک …… واللہ یعصمک من الناس ” پہنچادو! جو اللہ نے آپ کی طرف نازل کیا ہے…… اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا”۔
قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا ” تبلیغ کریں آپ جو بھی اللہ نے آپ کی طرف نازل کیا ، اگر آپ نے نہیں پہنچایا تو آپ نے رسالت کو نہیں پہنچایا۔ اللہ آپ کی لوگوں سے حفاظت کرے گا”۔ شیعہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں حضرت علی کی امامت مراد ہے۔ خطبہ حجة الوداع میں نبیۖ نے اللہ کے پیغام کو پہنچانے پر سب کو گواہ بنادیا اور پھر اس کے بعد غدیر خم کے موقع پر فرمایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” جس کا میں مولیٰ( حاکم ) ہوں تو یہ علی اس کا حاکم (مولیٰ ) ہے”۔ نبیۖ نے حدیث قرطاس میں وصیت لکھوانا چاہی کہ ایسی چیز لکھ کردیتا ہوں کہ میرے بعدتم گمراہ نہیں ہوگے لیکن حضرت عمر نے کہا کہ ”ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔
اسکا جواب مولانا غلام رسول سعیدی اور مفتی محمد تقی عثمانی نے یہ دیا ہے کہ حضرت علی سے چند دن بعد نبیۖ نے فرمایا کہ میرے پاس تشت لاؤ تاکہ میں کچھ وصیت لکھ دوں تاکہ میرے بعد گمراہ نہ ہوجاؤ، تو حضرت علی نے کہا کہ مجھے زبانی بتادیجئے میں ان کو یاد رکھوں گا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ نماز کی پابندی کرو، زکوٰة ادا کرو۔ …”۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبیۖ کی یہ نافرمانی نہیں تھی اور جو نبیۖ لکھوانا چاہتے تھے وہ لکھوادیا تھا۔ اس وقت کاغذ کی کمی تھی اسلئے تشت لکھنے کیلئے منگوایا تھا۔ قرآن کو بھی قرطاس پر نہیں ہڈی ، لکڑی اور درخت کے پتوں پر لکھا جاتا تھا۔
مولانا غلام رسول سعیدی مناظر تھے اور اہل تشیع کو مناظرانہ جواب دیا تھا مگر وہ جواب تسلی بخش نہیں تھا جس کو میں نے اپنی کتاب” ابر رحمت ” میں نقل کیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے یوٹیوب پر جو جواب دیا ہے وہ مزید تشویشناک ہے اسلئے کہ قرآن کو ہڈی، پتھر، لوہے اور پتیوں پر لکھا جاتا تو کچھ آیات بھی مل جاتیں اور جب قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ” اگر ہم اس قرآن کو قرطاس میں بھی نازل کرتے اور اس کو پھر چھوتے بھی ۔ پھر بھی نہیں مانتے تھے”۔ توراة، انجیل اور افلاطون کی کتاب کیلئے وہ تصورات نہیں ہیںجو قرآن کے حوالے سے گھڑ ے گئے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ” تدوین القرآن” میں ان خرافات کا قلع قمع کیا گیا جو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی طرف سے دوبارہ بھی شائع کی گئی ہے اور اس کو سمجھ کر نافذ العمل کرنا ضروری ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے وقت میں رسول اللہۖ نے یمن کا حاکم حضرت معاذ بن جبل کو مقرر کیا تھا تو کیا اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنانے کی فکر تھی یا نہیں تھی؟۔ اگر نبیۖ کسی کو نامزد کردیتے تو انصار ومہاجرین اور قریش و اہلبیت کا اختلاف بن سکتا تھا جس کی آج تک اُمت سزا کھارہی ہے؟۔
غزوۂ تبوک سے واپسی پر منافقین نے نبیۖ کی سواری کو پہاڑ کی گھاٹی کی کھائی میں گرا کر شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عمار بن یاسر نے یہ حملہ ناکام بنادیا ۔ نبیۖ نے بارہ منافق کے نام حضرت حذیفہ کو بتادئیے ۔جن کی موت پھوڑے سے واقع ہونے کی نشاندہی بھی فرمائی تھی۔ منصوبہ سازوں کو پکڑنا اور ثابت کرنا آج بھی بہت بڑا مسئلہ ہے اور جب نبیۖ کو اللہ تعالیٰ نے گارنٹی دی تھی کہ لوگوں کے شر سے اللہ بچائے گا تو یہ نبیۖ کی اپنی حکمت عملی تھی کہ ایسے لوگوں کو تہہ تیغ کیوں نہیں کیا؟۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” ان کے کھوٹ کو میں ضرور باہر نکال کر لوگوں کو بتادوں گا”۔( سورہ ٔ ،محمد)
آج اسلام اجنبیت کا شکار ہوگیا ہے۔ حضرت علی نے تشت پر نماز و زکوٰة کی تلقین کا حکم لکھ دیا ہوتا تو غلام احمد پرویز کے پیروکار پنجاب میں محمدعلی اٹکی کے مرید بلوچستان میں نماز کے حکم کو منسوخ قرار دینے کی حد تک نہ پہنچتے۔ جو لوگ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں لیکن خلافت کا نظام نہیں مانتے ہیں تووہ بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔ اگر حضرت عمر حدیث قرطاس لکھنے دیتے تو تبلیغی جماعت ، دعوتِ اسلامی اور مدارس خلافت کی اہمیت کو ترجیح دیتے۔
اہل تشیع پر سب سے بڑا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ نبیۖ کیسے حضرت عمر کی وجہ سے اتنی بڑی امانت کو لکھوانے سے رُک سکتے تھے؟۔ جواب شیعہ یہ دے سکتے ہیں کہ جب حضرت زید نے اپنی بیوی سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی تو نبیۖ کے دل میں تھا کہ وہ اس طلاق شدہ سے پھر دلجوئی کیلئے نکاح بھی کرلیںگے مگر یہ خوف بھی تھا کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ اسلئے کہ منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی کو بھی حقیقی بہو کی طرح حرام سمجھاجاتا تھا۔ لیکن اللہ نے فرمایا وتخش الناس واللہ احق ان تخشٰہ ”اور آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اور اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے”۔
اس پر عثمان علی داتا گنج بخش اور مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابوں میں جو گل کھلائے گئے ہیں ان پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث کی ضرورت ہے جو حنفی اصولِ فقہ کے مطابق ہیں لیکن ان پر پوری دنیا کے مسلمانوں کو زبردست حیرت ہوگی اور یہ مسائل عالمی فورم پربھی شائع ہورہے ہیں اور اسکا ترجمہ ارود زبان میں بھی آچکا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبیۖ کی ذات کیلئے اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے بچانے کا وعدہ کیا تھا تو کیا جس امام یا خلیفہ کو مقرر کرتے تو اسکے ساتھ بھی وعدہ تھا؟۔ قرآن کے الفاظ میں بھی نہیں ہے اور حضرت عمر وعثمان اور حضرت علی و حسین کی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ شیعہ سنی خلفاء اور ائمہ کیساتھ یہ وعدہ نہیں تھا۔ جن اختلافات پر افہام وتفہیم سے کام ہوسکتا ہے ، شیعہ سنی مل بیٹھ کر ان معاملات کا حل نکالیں۔ جب تک اہل تشیع کے مہدی غائب تشریف نہیں لاتے ہیں تو پاکستان اور عالم اسلام پر جمہوری طرز کا متفقہ حکمران مقرر کرنے کی ایک کوشش کرلیتے ہیں۔ اہل تشیع کی مسجد کے امام کو بھی پیش نماز کہا جاتا تھا اور اب ایران میںآیت اللہ خمینی کو بھی امام کہتے ہیں۔
احادیث میں اہلبیت کے فضائل ہیں لیکن جب بنوامیہ و بنوعباس کے دور میں اہلبیت کے وہ امام موجود تھے جن کو شیعہ سنی عقیدت کی نظروں سے دیکھتے ہیں تو ان کودبایا گیااور امام مہدی کے انتظار میں بیٹھ گئے ۔ اگر قرآن واہلبیت سے وہ مراد ہیں تو اہل تشیع انتظار کریں لیکن جب تک امام کا ظہور نہیں ہوتا ہے تو کیا شیعہ سنی ایکدوسرے سے لڑتے ہی رہیں گے؟۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ”الحاوی للفتاویٰ ” میں لکھ دیا ہے کہ جن بارہ امام کا ذکر حدیث میں ہے وہ ابھی تک نہیں آئے ہیں کیونکہ ان پر امت کا اجماع ہوگا۔ اگر نبیۖ نے اہلبیت کو کشتی نوح سے تشبیہ دی ہے تو اہلبیت کو ایسے زمانے سے ابتداء کرنی چاہیے کہ جب امت ہلاکت کے کنارے پہنچ چکی ہو۔ افغانستان، عراق، شام ، لیبیا تباہ ہوگئے تو کیا ایران ، پاکستان اور سعودی عرب کی تباہی کا بھی انتظار کرنا چاہیے ؟۔ یا امت کو مشترکہ لائحۂ عمل سے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنا چاہیے؟۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ فتح میں نبی ۖ کو اگلے پچھلے بوجھ سے چھٹکارا دلانے کا یقین صلح حدیبیہ کے تناظر میں کیا تھا۔ جب نبیۖ کے صحابہ ان شرائط پر صلح کیلئے راضی نہیں تھے ، یہاں تک کہ حضرت علی نے رسول اللہ کے لفظ کو بھی کاٹنے سے انکار کردیا تھا۔ پھر صحابہ معاہدے پر راضی ہوگئے تو نبیۖ کے بوجھ کو اللہ نے ختم کردیا۔ البتہ نبیۖ کو اپنے بعد خلافت کے حوالے سے بھی بوجھ کا سامنا تھا اسلئے کہ نبیۖ نے فرمایا تھا کہ پہلے انبیاء کرام کے کچھ خلفاء جانشین رشدوہدایت کی راہ پر چلتے تھے اور بعد میں ناخلف جانشین اس راہ سے پھر جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے زبردست تسلی دی تھی کہ آنے والا بوجھ بھی میں اتار دوں گا۔ جب حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر نے خلافت کی تو آپ کی وفات پر حضرت علی نے آپ کی تعریف فرمائی ہے۔ نہج البلاغہ
شیعہ سنی کے اندر بہت اچھے اچھے علامہ اور خطیب بھی ہیں جو اس نازک صورتحال کو سمجھ کر بہت احترام کیساتھ اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ لیکن ان کو معاملہ حل ہونے پر یقین نہیں ہوتا ہے۔ ڈر اور خوف کی ایک فضاء موجود ہے اور جب اعتماد کا فقدان ختم ہوجائیگا تو گھمبیرمسائل کاحل بھی نکل آئیگا۔
نبی ۖ نے من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ سے اپنا بوجھ اتار دیا تھا لیکن اگر اس کو تسلیم کرلیا جاتا تو وحی کے ذریعے سے نبیۖ سے مجادلہ اور اختلاف کا فیصلہ قرآن میں اترتا تھا ۔ اگر نبیۖ کے نامزد کردہ خلیفہ سے اختلاف کیا جاتا تو پھر اُمت کی کیاروش ہوتی؟۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے اختلاف کی گنجائش تھی لیکن حضرت علی سے خلافت بلافصل کی عقیدت کیا ہوتی؟۔ یزید اور مروان کی طرح مسلمانوں پر اہلبیت مظالم نہ کرتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صحابہ کرام نے نبیۖ سے اختلاف رکھا تھا۔ بعض معاملات پر اللہ نے صحابہ کرام ہی کی تائید بھی فرمائی ہے لیکن جن لوگوں نے حضرت علی سے بے انتہاء عقیدت رکھی وہی خوارج بن کر حضرت علی کے دشمن بن گئے۔ قرآن نے انتہاء پسندی کا نہیں اعتدال کا راستہ بتایا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے اپنے بیٹے کو بچانے کا عرض کیا تو اللہ نے فرمایا کہ انہ عمل غیر صالح انہ لیس من اہلک ” بیشک وہ غیرعمل غیر صالح تھا اور بیشک وہ آپ کی اہل میں سے نہیں تھا”۔ یہ نہیں فرمایا کہ ان عملہ غیر صالح کہ اسکا عمل غیر صالح تھا بلکہ فرمایا کہ وہ بذات خود عمل غیر صالح تھا۔ قابیل بھی نافرمانی کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا تو اسکے کرتوت بھی غلط تھے۔ سورۂ تحریم میں اللہ نے لوط ونوح کی بیگمات کے بارے میں فرمایا کہ کانتا تحت عبدین صالحین فخانتا ھما ” وہ دونوں میرے صالح بندوں کے نکاح میں تھیں مگر پھر انہوں نے ان دونوں سے خیانت کی” بخاری میں ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اگر حواء نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی اور اگر بنی اسرائیل نافرمانی نہ کرتے تو گوشت کبھی خراب نہ ہوتا”۔ آج زمانہ قرآن وسنت کی تصدیق کررہاہے۔
حضرت ام ہانی حضرت ابوطالب سے نبیۖ نے مانگی تھی لیکن عطاء نہیں کی گئی۔ پھر نبی ۖ نے مانگا تو اس نے خود انکار کیا اور پھر اللہ نے فرمایا کہ” جن چچا کی بیٹیوں نے ہجرت آپ کیساتھ کی وہ ہم نے آپ کیلئے حلال کی ہیں”۔ پھر الا ملکت یمنک کی اجازت دیدی۔ بخاری کے شارح علامہ بدر الدین عینی حنفی نے نبیۖ کیلئے اٹھائیس (28)ازواج کاذکرکیا اور حضرت ام ہانی کو بھی ان میں شمار کیا ہے۔ نبیۖ نے حضرت صفیہ سے نکاح کا تعلق رکھا اور اُم ہانی سے متعہ یا ایگریمنٹ کا۔
اگر شیعہ اپنے مخصوص ماحول میں حضرت ام ہانی کے حوالہ سے اہلسنت کے کسی غلیظ عالمِ دین کی زبان سے حضرت ام ہانی پر خبیث اور مشرک کے حوالے سے آیت پڑھ کر ماحول کو آلودہ کریں تو کیا یہ قابلِ برداشت ہوگا؟۔غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے لیکن کیا مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں؟ اور سود کھانے کو اللہ اوراسکے رسول کیساتھ اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے لیکن کیاہم اس پر عمل نہیں کررہے ہیں؟حدیث میں سود کے ستر (70)سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر قرار دیا گیا ہے لیکن کیا ہم سود سے رُک گئے ہیں؟۔
شیعہ ہر بات میں منطق نکالنے کے بجائے حقائق سیکھیں ۔ خود مشکل میں پڑیں نہ دوسروں کو ڈالیں۔ وجادلہم بالتی ہی احسن ” اور ان سے لڑائی کا یہ طریقہ اختیار کریں کہ یہ اچھا ہوتا”۔ ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس” خشکی اور سمندر میں فساد لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی سے ہے”۔ صحابہ کے دور میں جو کچھ ہوا تھا ،ان میں ایکدوسرے پرذمہ داری ڈالنے کا فائدہ نہیں ہے۔ ہم اپنے معاملات کو سیدھا کریں تو اللہ حق کا راستہ سب کو دکھا دے گا۔سنجیدہ مسائل کا متفقہ حل نکالنے کیلئے حکومت ایک کمیٹی تشکیل دے اور افہام وتفہیم کا راستہ نکالے۔
لوگوں کی راۓ