پاکستان آزاد قبائل اور پوری دنیا کی امامت کابڑا نظام: اداریہ نوشتہ دیوار
دسمبر 12, 2020
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
پاکستان میں ہندو، عیسائی، سکھ ، قادیانی ، ذکری، آغا خانی، بوہری ، پرویزی اور انواع واقسام کے مذاہب اور فرقے ہیں لیکن جب تک فرقہ واریت کو ہوا نہ دی جائے عوام میں کسی مذہب والوں کے خلاف بھی نفرت نہیں ہے۔ البتہ مذہبی لبادوں کی اکثریت کا گزر بسر شاید دوسروں کے خلاف ہوا بھرنے پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارننگ ہے کہ” آپس میںنہ لڑو، ورنہ تمہاری ہوا خارج ہوجائے گی”۔
جب نوازشریف اپنی حکومت میں بھاری بھرکم سودی قرضہ لے رہا تھا تو اس وقت ہم نے کئی دفعہ واضح کیا کہ اس کا سارا بوجھ مہنگائی کی صورت میں عوام پر پڑے گا اور آج اگر نوازشریف کی اپنی حکومت ہوتی تو بھی مہنگائی کا گراف زیادہ ہی ہوتا۔ عمران خان پر جن لوگوں نے بھروسہ کیا تھا انہوں نے کم عقلی کا مظاہرہ کیا تھا اسلئے کہ اس نظام کے ہوتے ہوئے کوئی بھی تبدیلی نہیں لاسکتا ہے۔ پاکستان کا آئین اسلام کے نام پر ہے لیکن علماء نے اسلام کی کوئی وضاحت تک نہیں کی ہے۔ اسلام غریب و امیر کی چوری کیلئے بلیک اوروائٹ کالر کرائم اصطلاح سے پاک ہے۔ امریکہ نے تو زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے کہ کالے اور گورے کے قوانین میں ترمیم کردی ہے اور ہمارا نظام انگریز اور برصغیر پاک وہند کی غلام عوام کیلئے الگ الگ قوانین سے ابھی تک چھٹکارا نہیں پاسکا ہے۔ افسر اور نوکر کی عزت میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اگر بڑے آدمی کی بے عزتی کردی تو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کا ہرجانہ عدالتوں میں قانونی طور پر لے سکتاہے لیکن اگر غریب کی عزت خراب کردی تو عدالت میں اس کی حیثیت ٹکے کی بھی نہیں ہوتی ہے۔ آقا اور غلام کی اس تفریق کو اسلام نے ختم کیا تھا۔ قبائلی علاقہ جات میں بالعموم اور وزیرستان میں بالخصوص آقا اور غلام کا کوئی بھی نظام نہیں تھا۔ سیٹل ایریا میں نواب، خان ، سردار اور چوہدری وڈیرہ شاہی کی وجہ سے آقا اور غلام کے درمیان ایک واضح لکیر تھی۔ پیروں اور گدی نشینوں کے مرید وں کا حال بھی غلامی سے بدتر ہوتا تھا۔ اسلام نے بندوں کی بندگی ختم کردی تھی اور قبائلی نظام اسلام سے بالکل قریب تر تھا۔ انگریز نے غلامی کا نظام قائم کررکھاتھا۔ قبائل کو اللہ کے فضل سے اس نظام سے بہت دور رکھا گیا تھا۔
جب اُم المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو اسلام نے وہی سزا دینے کی بات واضح کردی جو عام غریب خاتون پر بہتان لگانے کی سزا ہوتی۔ غلام احمد پرویز انگریزی نظام کا پروردہ تھا اسلئے صحیح احادیث کا انکار کردیا کہ اُم المؤمنین اور کسی عام عورت پر بہتان کی سزا ایک نہیں ہوسکتی ہے۔ بخاری کی صحیح احادیث کا انکار فقہ حنفی والے بھی کرتے تھے لیکن غلام احمد پرویز کی ذہنیت بالکل غلامانہ تھی۔ عربی میں غلام کو عبد کہتے ہیں اور لڑکے یا جوان کو غلام کہتے ہیں۔ شیخ المشائخ سید عبدالقادر گیلانی نے عربی خطبات میں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یا غلام! اے لڑکے۔ جس سے جاہل علماء ومشائخ نے اردو کا غلام مراد لیا۔ تبلیغی جماعت ، دعوت اسلامی ، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں کا رویہ بھی اپنے کارکنوں کیساتھ وہی ہوتا ہے جو آقاؤں کا غلاموں کیساتھ ہوتا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلئے انسانوں کی بندگی کو حرام قرار دیا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا رویہ بھی عوام کیساتھ اس مزاج کے مطابق بالکل ویسا ہے جیسا آقاؤں کا غلاموں سے ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ نے بنایا ہے یا استعمال کر کر کے کرکرکے کرکر کے بالکل ناکارہ بنادیا ہے وہ امامت کے قابل بالکل بھی نہیں ہیں۔ وہ لوٹ کھسوٹ اور جھوٹ موٹ جانتے ہیں ان کو امامت کرنے کی ہوا بھی نہیں لگی ہے۔ کل تک پاک فوج نوازشریف بچہ جمورا کو پوٹی کرانے بٹھاتا تھا اور آج اس بغل بچے کو اسلئے باغی مان لیا جائے کہ پارلیمنٹ کی لکھی ہوئی تحریر سے عدالت میں قطری خط تک اپنے ہی جال میں پھنس چکا ہے؟۔ یہ ہمارے اداروں کی نالائقی ہے کہ جسٹس قیوم سے زیادہ اس نے ارشد ملک مرحوم کو رائیونڈ محل میں بلاکر استعمال کیا اور عمرے کروائے۔
جسٹس سجاد علی شاہ کو نوازشریف نے بلوچستان ہائیکورٹ سے اسلئے نااہل کروایا تھا کہ اس سے سینئر جج کو چیف جسٹس نہیں بنایا گیا تھا حالانکہ یہ اس وقت کے قانون کے مطابق درست تھا، پھر تو آرمی چیف پر بھی اس کا اطلاق ہوتا تھا۔ اب تو جسٹس فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائیکورٹ کا براہِ راست چیف جسٹس مقرر کیا گیا ہے۔ کیا علی احمد کرد کو چیف جسٹس نہیں بنایا جاسکتا تھا؟۔ فائز عیسیٰ کے علاوہ بھی پتہ نہیں کس کس کو بیرون ملک نوازشریف نے جائیداد کا مالک بنایا ہوگا لیکن انقلاب کیلئے خرید وفروخت کرنے والے تاجروں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم(PDM)کے پلیٹ فارم سے چوروں کے ہاتھ کاٹنے والی سزا کا اعلان کریں۔ نوازشریف سے پارلیمنٹ کے تحریری بیان اور قطری خط کی بھی وضاحت مانگ لیں اور ہتک عزت کی یکساں سزا کی تبلیغ شروع کردیں تو کامیاب سیاستدان بن سکتے ہیں لیکن بکاؤ مال اپنے اندر غیرت کا مادہ بالکل نہیں رکھتے ہیں۔ مروت قوم سب سے شریف ہے اور وہاں مولانا نے تقریر کی تھی اسلئے خٹک ، بنوچی اوربیٹنی سے معافی نہیں مانگتے تو کم ازکم مروت سے ضرور مانگ لیں۔ آزاد قبائل تو ویسے بھی کسی کے غلام تھے، ہیں اور نہ ہونگے۔ ہمارے آباء واجداد نے وزیرستان کی عوام کو ملاؤں ، پیروں اور حکمرانوں کی غلامی کا کبھی سبق نہیں دیا ہے۔
آتی ہے دَم صبح صدا عرش بریں سے
کھویا گیا ہے کیونکر تیرا جوہر ادراک؟
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک؟
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟
باقی نہیں رہی تجھ میں آئینہ ضمیری
اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری
علامہ اقبال نے پختونوں کے ضمیر محراب گل افغان کے تخیلاتی نام سے لکھا ہے۔ تحقیق کرنا محقق کا کام ہے لیکن انقلابی تعبیرات یہ ہیں کہ پیشہ ور سے پشاور بن گیا تھا اور پنجابی میں لا ہور سے لاہور بن گیا ہے۔ پیشہ ور نے پشاور سے سیاست کی سمگلنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور تختِ لاہور سے بھی مزید طلب جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی خان بچے نہیں تجربہ کار لوگ ہیں۔مریم نواز جتنی سپلائی طلب کرے ۔یہ لوگ دے سکتے ہیں۔بلوچ مسنگ پرسن اور ہلاکتوں کے ذمہ دار نوازشریف تھے ۔ مریم نوازشریف نے اسٹیج پر بلوچ بیٹیوں کو لاکر اپنا مطلب پورا کرلیا مگر ماما قدیر کے کیمپ میں وعدے کے باجود نہیں گئی تھی۔ حامد میر ادھورے حقائق بتاکر سچ نہیں جھوٹ کو سہارا دیتے ہیں۔ اپوزیشن کو اقتدار ملنے سے ریاست کے مسائل حل نہیں ہوںگے بلکہ مزید الجھ جائیںگے۔
پی ٹی ایم (PTM)اپنے گانے اور ترانے بدل کر پاکستان کی تمام مظلوم عوام کیساتھ کھڑے ہوجائیں تو نظام کی تبدیلی میں دیر نہیں لگے گی۔ ریاست کو چاہیے کہ ہماری گزارشات پر غور کرے۔ پی ٹی ایم (PTM)پر کوئی سختی نہ کرے۔ عوام میں ہر جگہ حقیقی لیڈر شپ ابھرنے کا موقع فراہم کرے۔ بھٹو ، نوازشریف کے بعد عمران خان کو دیکھ لیا۔ نوجوان طبقہ شعوری طور پر نفرت اور انتقام کے جذبات نہیں مثبت انقلاب کیلئے اپنی کوشش تیز کرلیں۔ آنے والا مستقبل انشاء اللہ انہی کا ہے۔
لوگوں کی راۓ