پوسٹ تلاش کریں

مولانا مفتی محمود نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں تھے

مولانا مفتی محمود نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں تھے اخبار: نوشتہ دیوار

مولانا مفتی محمود نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں تھے، اگرحضرت ابوسفیانبھی کہتے کہ شکر ہے کہ ہم اسلام کے گناہ میں شریک نہیں تھے جس کی وجہ سے عرب کلچر کی پامالی سے عالمی دہشتگردی تک بات پہنچ گئی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہندوستان میں تبلیغی جماعت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور پاکستان میںتبلیغی جماعت اور دہشتگرد ایک جسم دو قالب کی طرح تھے ، مولانا طارق جمیل نے کہا:راستے دو ہیںمگر منزل ایک ہے!

جب شیعہ کے بقول چار صحابہ کے علاوہ سب مرتد ہوگئے تو پھر جنگوں میں تباہی اورقربانی سے لیکر بنوامیہ وبنوعباس کا ملیا میٹ اور موجودہ سعودی حکمرانوں تک اسلام کا کیا فائدہ ہوا ہے؟

سنی شیعہ اور امن پسند ودہشتگردوں کے اسلام میں کیا فرق ہے؟۔ تبلیغی جماعت کا نظم ونسق اور امن پسندی مثالی ہوا کرتی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے عالمی مرکزبستی نظام الدین ہندوستان میں مولانامحمد الیاسکے پڑپوتے کی تبلیغی جماعت اور ان سے الگ ہونے والی شوریٰ کی تبلیغی جماعت دوالگ الگ حصوں میں تقسیم ہیں۔ لڑائی اورمارکٹائی کا سلسلہ ہے۔ ایک مسجد سے الگ الگ دونوں جماعتوں کی تعلیم ، جماعتیں نکالنے کی ترتیب اور حدود میں رہنے کی ترکیب کیلئے جمعیت علماء ہند دہلوی کا مفاہمتی کردار بھی دارالعلوم دیوبند کے ترجمان مولانا فضیل احمد صاحب کی دردناک آواز میں سامنے آچکا ہے۔
مولانا طارق جمیل نے بتایا ہے کہ جب تبلیغی جماعت کے آخری امیر مولانا انعام الحسن کو مشورہ دیا گیا کہ حضرت ابوبکر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے بعد کیلئے ایک امیر منتخب کرلیں تو ان کے صاحبزدے مولانا زبیراور مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد میں سے کسی کو امیر بنانے پر خدشہ ہوا کہ جماعت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ حاجی عبدالوہاب اور چند دوسروںکی رائے یہ تھی کہ مولانا سعد کو امیر نامزد کیا جائے اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ مولانا زبیرکو امیر نامزد کیا جائے۔ پھر تین شخصیات کی ایک نظم بنائی گئی تاکہ جماعت تقسیم نہ ہوجائے۔ مولانا طارق جمیل نے ایک بیان میں کہا کہ مولانا زبیراور مولاناسعد کے حامیوں نے ایکدوسرے پر بندوقیں تک تان لی تھیں۔ قتل وغارت کے خدشہ سے ہی جماعت کیلئے امیر کے بجائے نظم کا فیصلہ کیا گیا۔ پھرنظم کے دو ارکان مولانا زبیر اور دوسرے کا انتقال ہوا تو مولانا سعد نے کہا کہ اب میں ہی امیر رہ گیا ہوں اور حاجی عبدالوہاب نے مرکزی شوریٰ کے ارکان بڑھانے کا فیصلہ کرلیا لیکن مولانا سعد نے شوریٰ کے ارکان بڑھانے کا فیصلہ اس کی مرضی کے بغیر مسترد کردیا۔ اب تبلیغی جماعت کا سر کٹی لاش ہے۔ مولانا سعد اور مولانا احمد لارڈ کی الگ الگ جماعتیں ہندوستان اور بنگلہ دیش میں کام کررہی ہیں۔
جب پاکستان میں طالبان کی دہشتگردی عروج پر تھی تو ریاست نے علماء کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا۔ صحافی سلیم صافی نے مولانا طارق جمیل کو پروگرام میں بلایا تاکہ ہشتگردی کی روک تھام کیلئے کچھ ارشاد فرمائے لیکن مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ہماری منزل ایک ہے، طریقۂ کار میں فرق ہے۔ جب دہشت گردی عروج پر تھی تب بھی تبلیغی جماعت اور طالبان ایک جان دوقالب تھے۔ تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوتا تو دہشت گرد جنگ بندی کا اعلان کردیتے تھے۔ بدمعاش دہشتگردوں پرمذہبی رنگ وروغن چڑھانے کیلئے ان کو تبلیغی جماعت میں وقت لگانا پڑتا تھا۔ کوڑ علاقہ گومل میں دہشت گرد بمبار کو پولیس والے نے مار دیا تھا تو وہ تبلیغی جماعت سے تازہ تازہ آیا تھا۔ ہمارے عزیزوں نے کیوں اور کس کیلئے رکھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں وہ کس کی تلاش میں تھے؟۔ کریم پیر کا ایک بیٹا کچھ معلومات دینے پشاور آیاتھا اور تفصیل کا درست تفتیش پر پتہ چل سکے گا۔
مجھے بچپن سے دین وایمان کی چاہت تھی۔ جب نویں جماعت کوٹ ادو لیہ میں تھا تو علامہ دوست محمد قریشی کے بیٹے مولانا عمر قریشی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں زیرتعلیم تھے۔ ان کے مسجد ومدرسہ کا انتظام اللہ وسایا نے سنبھال رکھا تھا۔ ایک مرتبہ اچانک مولانا عمرکے بہنوئی نے اللہ وسایا کے سر پر بہت زور دار طریقے سے بہت موٹا ڈنڈا مار دیا لیکن بچت ہوگئی اس کے دماغ کا بھیجا باہر نہیں آیا۔ جسے اللہ رکھے اسے کون جان سے مار سکتا ہے۔ مولانا سید محمد بنوری کو مدرسہ میں شہید کرکے خود کشی کا جھوٹا الزام لگایا گیاتھا۔ وزیرستان کے مولانا نور محمد وزیر اور مولانا معراج الدین قریشی محسود جنوبی وزیرستان کے ایم این اے (MNA) اور مسلمہ مذہبی شخصیات تھیں لیکن دونوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیاتھا۔
مفتی محمود نے کہا تھا کہ ”ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے” ۔ اسلے کہ برصغیر میں بڑے پیمانے پر جانیں گئیں، عزتیں لٹ گئیں، خاندان کے خاندان بچھڑ گئے اور لوگوںکو اپنے مستقل گھروں، زمینوں، جائیدادوں، نقد رقوم، زیورات وغیرہ کی قربانی کیساتھ اپنے اپنے وطن وعلاقہ کو چھوڑنا پڑگیاتھا۔ جس کا حاصل انگریز کی باقیات عدلیہ، پولیس ، فوج اور بیوروکریسی تھی اور 22خاندانوں کی سیاست تھی۔ عوام کو کالے انگریز کی شکل میں غلاموں اور نااہلوںکے اقتدارپر قبضہ کرنے کے بعد غلامی سے زیادہ یہ آزادی بھی ایک سزا لگ رہی تھی جس کی بھیانک شکل میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا۔
انیس سو اڑتالیس (1948) بابڑہ میں پختونوں کے قتل عام سے لیاقت باغ راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے فیصل آباد جیل سے بدمعاش رہاکرکے پختونوں کاخون بہایاگیا تھا۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی تقاریر میں انگریز وں کے نکالنے اور مرزائیت کی مخالفت کا معاملہ ہوتا تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد سرکار نے ختم نبوت کا نعرہ لگانے پر بھی گولی مارنے اور پھانسی پر چڑھانے کی سزاؤں سے انگریز کو پیچھے چھوڑ دیا۔ حبیب جالب کی شاعری ایوب خان کے ایسے دستورکو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا، بھٹو کے لاڑکانہ چلو نہیں تو تھانے چلو اور ضیاء کے دور میں ظلمت کو ضیاء کیا لکھنا ، بادل کو ردا ء کیا لکھنا بھی ظالمانہ تاریخ کی عکاسی تھی لیکن پرویزمشرف نے پاکستان کو قصاب خانہ بنادیا تھا۔ جس کی بھرپور تائیدنوازشریف، شہبازشریف اور عمران کی طرف سے بھی ہورہی تھی۔
مفتی محمودکی طرح ممکن تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت کے وقت یہ ابوسفیان نے بھی کہہ دیا ہو کہ ”ہم اسلام کے گناہ میں شریک نہیں تھے” اسلئے کہ سرزمین حجاز میں حضرت سمیہ کی ٹانگیں اونٹوں سے باندھ کر چیر نے، بلال کے سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گرم ریت پر لٹانے اور شعب ابی طالب تک مظالم تھے؟۔ بدرواحداور دوسری جنگوں میں کتنے مشرکینِ مکہ ومسلما ن قتل ہوئے؟۔ رسول اللہۖ کے وصال پر قریب تھا کہ انصار ومہاجرین میں خلافت کے مسئلے پر قتل وغارت برپا ہوجاتی اور پھر ارتداد اور زکوٰة دینے سے انکار اور نبوت کا دعویٰ کرنیوالے کے خلاف جہاد سے کتنے قتل کئے گئے۔ جب قریشِ مکہ نے نبوت کے دعویدار حضرت محمدۖ کے خلاف اقدام اٹھایا تو وہ ناجائز تھا لیکن مسلیمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کو ساتھیوں سمیت تہہ تیغ کیا گیا تھا؟۔
رسول اللہۖ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی صفت بیان کی تھی کہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں مگر پھر عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت طلحہ و حضرت زبیر اور حضرت علی تک نے ایکدوسرے کے مقابلے میں جہاد کیا اور ستّر (70) ہزار ایک جنگ کی نذر ہوگئے جو پاکستان میں اس وقت بھی مشکل سے ہوئے کہ جب ریاست کی رٹ ختم ہوچکی تھی اور پاکستان بالکل قصاب خانہ بن چکا تھا۔ اتنے افراد سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کی شیعہ سنی شدت پسند تنظیموں نے بھی ایکدوسرے کے قتل نہیں کئے۔ پھر بنی امیہ کے دور میں کربلا کا واقعہ پیش آیا۔ مسجد نبوی اورمدینہ شہر کی حرمت بھی پامال کی گئی اور عبداللہ بن زبیر سے جنگ کرنے کے دوران خانہ کعبہ کا مطاف پتھروں سے بھر دیا گیا اور ابن زبیر کے قتل کے بعد انکی نعش کئی دنوں تک لٹکائی گئی۔ اس کی سو (100) سالہ بوڑھی ماں حضرت اسماء بنت ابی بکرکے حال پر بھی رحم نہیں کھایا گیا۔ پھر بنوامیہ کے خاندان کو بنوعباس نے بہت بے دردی سے کچل دیا اور بنوعباس کو ہلاکو خان چنگیزی نے ہی تخت وتاراج کیا ۔ انسانی سروں سے مینار تعمیر کئے گئے۔ جب اہل تشیع کے نزدیک صرف چار صحابہ مسلمان باقی بچے تھے باقی سب مرتد ہوگئے تھے تو کیا ابوسفیان کی طرف سے بات بنتی نہیں ہے کہ جس اسلام نے عرب کے اقدار کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا تھا ،اچھا ہوا کہ یزید نے رسول اللہۖ کے کنبے کو پہلے بھی کربلا میں قتل کردیا تھا اور طالبا ن اور تبلیغی جماعت کی مشترکہ کاروائی اور حکمت عملی کے نتیجے میں سن د وہزار سات (2007) میں سیدعتیق الرحمن گیلانی کو قتل کرنے کی غرض سے آنے والوں نے بہن ،بھائی، بھتیجے ،بھانجی ،خالہ زاد ،ماموں زاد ، مسجد کے امام اور گھر کے خادم کے علاوہ آنے والے مہمانوں آفریدی، مروت، جٹ اور محسود سب کو قتل کیا تھا اور اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب دیکھنے والے عتیق گیلانی کو قتل کرنے کے بعد تیزاب کے بڑے بڑے کین لاکر عبرت کا نشان بھی بنانا تھا لیکن اللہ کے فضل سے وہ بچ نکلا تھا۔
ایک طرف شیعہ ہزارہ کے ذبح کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تو دوسری طرف عراق وشام میں مسلمان ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے بعد یہ سلسلہ پاکستان میں گرم کرنا چاہتے ہیں۔ شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی کے علاوہ حنفی واہلحدیث اور ایک ایک فرقے والے بھی ایکدوسرے کے خلاف رندے تیز کررہے ہیں۔ اگر بس چل گیا تو قادیانی صفحہ ہستی سے مٹادئیے جائیں۔ اگر بس چلا تو وہابی گستاخ صفحہ ہستی سے مٹادئیے جائیں اور اگر بس چلا تو بریلوی مشرک بھی صفحہ ہستی سے مٹادئیے جائیں۔ حجاز مقدس پر جن عرب حکمرانوں کا قبضہ ہے وہاں کفیلوں کے ذریعے غیر ملکیوں کو تمام انسانی اور تجارتی حقوق سے محروم کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ اگر وہ پیسے دیں تو اچھے ورنہ پھر ہمارے اہلحدیث بھی بریلوی کیا ہندو بننے کیلئے بھی آمادہ ہیں۔
جب سنی مسلمانوں کو پتہ چل گیا کہ قرآن وسنت میں حلالہ کی لعنت کا کوئی تصور نہیں تھا تو گمراہی کے قلعوں مدارس کو چاہیے تھا کہ قرآن کی تعریف میں تحریف کا عقیدہ پڑھانے اور حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت 6سال اور رخصتی کے وقت 9سال کی بجائے سولہ (16)سال اور(19)کی درست تحقیق پر جشن منانے سے لیکر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز تک ہر معاملہ پر علاقائی سطح سے لیکر ملکی اور بین الاقوامی سطح تک جلسے جلوس کرتے ۔ قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتے۔ اپنے غلط عقائد ونظریات اور نصاب سے توبہ تائب ہوجاتے ۔ اللہ کے حضور سجدہ شکر بجالاتے کہ رسول اللہۖ کی آل اولاد میں ایک شخص نے زبردست طریقے سے جہالتوں کی نشاندہی کردی ہے۔ تمام فرقوں کے مسائل کا حل قرآن وسنت سے حل کرنے کی زبردست کوشش نے اسلام کی نشاة ثانیہ کے خواب کی تعبیر کو قریب تر کردیاہے ۔ حلالہ کے نام پر خاندانوں کو تباہ اورعزتیں لٹوانے سے بچانے کا راستہ نکال دیا ہے۔ اسلام کی درست نشاندہی کردی ہے۔ اسلام کے نام پر مفادات کی سیاست اور سودکے جواز میں مذہبی رنگ سازی کے دانت کھٹے کردئیے ہیں۔ اہل تشیع کے گیارہ ائمہ نے بہت کچھ کیا ہوگا مگرمنصبِ خلافت پر براجمان ہونے یا نہ ہونے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں مل سکا ہے اور بارہواں امام مہدیٔ غائب ہزار (1000)سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے کہ اہل تشیع کا ان سے رابطہ نہیں ہے۔ جب آئیں گے تو آئیںگے لیکن قرآن میں ایسے اولی الامر کی اطاعت کا ذکر ہے جس سے اختلاف کرنے اور بات اللہ اور اسکے رسول ۖ کی طرف لوٹانے کی گنجائش بھی ہو۔ علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی اچھے ذاکر اور خطیب ہیں لیکن اس کی یہ بات شاید کسی شیعہ کی معتبر کتاب میں بھی نہیں ہوگی کہ رسول اللہۖ قیامت کے دن اپنی قوم سے قرآن کو چھوڑنے کی شکایت کریںگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو علی کے بغیر چھوڑ دیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ ان کی کسی تفسیر میں ہو بھی سہی، کیونکہ مولانا حق نواز جھنگوی شہید کے معتبر اکابر شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب”منصبِ امامت” میں حضرت علی کے بارے میں ایسی احادیث لکھ دی ہیں۔ اگر رسول اللہۖ کو یہ شکایت صحابہ سے ہوگی تو ہمارا قصور تو نہیں ہوگا۔ البتہ یہ سمجھا جائے گا کہ جب تک مہدی غائب کا ظہور نہیں ہوتا ہے تو قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہوگا اسلئے کہ حضرت علی اپنے وقت کاامام اور موجودہ دور کا امام زمانہ مہدی ٔ غائب ہیں۔ ایران اور عراق کی حکومت بھی اہل تشیع کے پاس ہے لیکن جب تک مہدی ٔ غائب کا ظہور نہیں ہوتا ہے تو شیعہ کے روحانی پیشواء کی طرح ایک ایسا اولی الامر عالمِ اسلام کو تشکیل دینا ہوگا جس سے دنیا کی سپر طاقتیں بھی اسلام کا نظام قبول کرنے کیلئے بخوشی تیارہوجائیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟