اب توپاکستان کے ایک نئے دور کا آغازہواچاہتا ہے! سید عتیق الرحمن گیلانی
دسمبر 6, 2020
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
زرداری چور کو پکڑنے والے شہباز شریف اور نوازشریف خود چور نکلے لیکن ان دونوں چوروں کو پکڑنے والے تحریکِ انصافی بھی چور بن گئے ہیں۔ کیا یہ سلسلہ جاری رہے گا؟۔ ریاستِ پاکستان سود تلے آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک کی اب لونڈی بن چکی ہے اور اس کو لونڈی بنانے تک پہنچانے والے مقدر طبقات کی گرفت موجودہ عدالتی ، مارشل لائی اور پارلیمانی نظام سے بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
آئینِ پاکستان میں قرآن وسنت کا نظام ہے۔ قرآن میں چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے۔ فقہاء کا اس بات پر اختلاف ہے کہ ہاتھ کہاں سے کاٹے جائیں تو منتخب حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے یہ متفقہ قانون پاس کرے کہ چوروں کی کیٹہ گری کا تعین کیا جائے۔ 7سٹار چوروں کے ہاتھ کاندھوں تک کاٹے جائیں اور 5سٹار چوروں کے ہاتھ کہنیوں تک کاٹے جائیں اور 3سٹار چوروں کے ہاتھ کلائی سے کاٹے جائیں اور ان کے خاندانوں کو بھی اس سزا میں برابر کا شریک کیا جائے۔
البتہ ساری دولت بمعہ منافع لوٹائی جائے تو پھر ان کو اس شرط پر معاف کرلیا جائے کہ آئندہ تمہاری نسلیں بھی اس فیلڈ میں خدمات انجام نہیں دیںگی اور پہلے کا جس طرح کفر معاف ہے اسی طرح چوروں کیلئے اسلامی جمہوری تعزیر بھی معاف۔ لوگ بھوک وافلاس سے مررہے ہیں اور یہ لوگ مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں بلکہ وسائل پر لڑرہے ہیں۔ حکمران کوئی بھی ہو ،اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن عوام اب عدل وانصاف چاہتے ہیں جو ان کو جی کر بھی نہیں ملتا ہے اور مرکر بھی نہیں ملتاہے۔
دنیا بھر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائے بغیر پاکستان کے قرضے ختم نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب تک قرضوں کے سود سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جائے تو بھاری بھرکم ٹیکسوں اور مہنگائی سے عوام کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہے۔ پاک فوج میں اکثر اچھے ہی لوگ ہیں، سیاستدانوں میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں ، مذہبی طبقات میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں اور عوام میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں۔ ایک خوشحال انقلاب کیلئے کچھ کرپٹ عناصر کی قربانی اب مجبوری بن گئی ہے۔ ان لوگوں سے شرم وحیاء نکل گئی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ جب حیاء چلی جائے تو جو مرضی کرو۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرمودی سے عمران خان بھی کم نہیں ہے لیکن زردای، نوازشریف، فضل الرحمن، پرویز الٰہی ، بھائی لوگ ایم کیوایم والے اور بلوچستان کی سیاسی لیڈر شپ کے نمونے بھی کوئی غنیمت نہیں ہیں۔ اگر محمود خان اچکزئی ایک غریب ٹریفک اہلکار کی موت پر عدالت کے اس فیصلے کے حوالے سے آواز اٹھاتا جو دن دیہاڑے مجید اچکزئی نے کچل دیا تھا تو انقلاب کیلئے اس کے نعرۂ تکبیر میں بڑی جان ہوتی اور فضل الرحمن کی امامت میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا ہوجاتا مگر بے عملی سے منافقین کا ٹولہ نااہل ہونے کا ثبوت دے رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن نے طالبان کے خلاف ریاست کا ساتھ دے کر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ پختونخواہ کی پوری حکومت، بلوچستان کی آدھی حکومت اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کا اپنا مفاد حاصل کیا اور طالبان کیساتھ جان گنوانے کی قیمت پر حکومت بھی زبردستی سے دھکیلتی تو نہیں جاسکتا تھا۔ اس کا تویہ پتہ بھی کسی کو نہیں چلتا تھا کہ طالبان کیساتھ ہے یا ریاست کے ساتھ ہے؟۔ لیکن ریاست کا خود بھی یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ طالبان کو پیدا کررہی ہے یا ختم کررہی ہے۔
صلاح الدین ایوبی کا تعلق کردستان سے تھا جہاں پر ترکی، ایران اور عراق اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کرد قبیلے کا ایک شہر کانیگرم وزیرستان کی سرزمین پر بھی آباد ہے۔ سلمان فارسی اصل میں کرد تھے۔ سید عبدالقادر جیلانی کے شہر گیلان کا تعلق بھی ایران کے کردستان سے تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عجم تھے اور نبیۖ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وجہ سے بعد میں عرب بن گئے تھے۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی کرد تھے اور نبیۖ نے حضرت سلمان فارسی کو اپنے اہلبیت میں شمار کیا تھا۔ عربی میں مدینہ شہر کو کہتے ہیں۔ وزیرستان کا مرکزی شہر کانیگرم بھی شہر کے لفظ سے مشہور ہے۔ افغانستان کے بادشاہ نے کانیگرم میں اپنے لئے جس جگہ قلعہ کیلئے جگہ مانگی تھی مگرہمارے آباء واجداد نے دینے سے انکار کیا تھا، اب وہی جگہ کانیگرم کے باشندگان نے اپنی پاک فوج کو اپنے افسران کے کہنے پر دی ہے۔ آئی ایس آئی کے اس افسر کے بھائی گلشاہ عالم کو طالبان نے اپنے ابتدائی دور میں لاپتہ کیا تھا اور آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے لیکن جب طالبان نے انگریزوں کو اسامہ بن لادن کی تلاش میں کانیگرم تک لانیوالے گائیڈ ہمارے عزیز پیر زبیر شاہ کو پکڑ لیا تو TV چینلوں پر خبر کی سلائیڈ چلنے کے 5منٹ بعد طالبان کے ترجمان نے خبر جاری کردی کہ پیر زبیرشاہ اور ایک سومرو صحافی کو رہا کردینگے۔
ہم نے طالبان کی منافقانہ جنگ اور قوم کی منافقانہ پالیسوں کی ایک ایک چیز کادیکھ لی ۔ فوج کے جوانوں اور افسران سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن سب چیز کا موردِ الزام انہی کا ٹھہرانا انتہائی بھونڈی حرکتیں ہیں۔ پوری محسود قوم میں طالبان کے ہم سے زیادہ سپوٹر کوئی نہیں تھے اور ہم سے زیادہ طالبان کے کوئی شکار بھی نہیں ہوئے اور ہم سے زیادہ منافقانہ اور بے غیرتی کا کردار بھی کسی نے ادا نہیں کیا ہے۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
بہت ہی قابلِ احترام بزرگ سیاسی رہنما محمود خان اچکزئی نے اپوزیشن کے جلسے میں کہا کہ افغانستان وپاکستان کے درمیان باڑ کو اکھاڑ پھینک دیںگے تو تاجر سے زیادہ اسمگلر طبقہ بڑا خوش ہواکہ پورے پاکستان میں کسٹم کے بغیر اسمگلنگ کا راستہ کھل جائیگا۔ لیکن جب چمن بارڈر پر سختی شروع ہوگئی اور بلوچوں کے راستے سے اسمگلنگ کا مال آنا شروع ہوگیا تو پختون تاجروں کا راستہ بند ہوا۔کوئٹہ جلسہ میں محمود اچکزئی اور اختر جان مینگل نے ایکدوسرے کی کاٹ کی اور ملتان جلسے میں اختر جان مینگل کی محمود خان اچکزئی نے تائید اور توثیق کی۔ حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت چھوڑنے کی عدت بھی اختر جان مینگل نے ابھی پوری نہیں کی ہے اور بلوچوں کی جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں اور آواران میں پختون ایف سی اہلکاروں نے جو انکے گھروں کو جلایا ہے تو اس کی ساری ذمہ داری مریم نواز کے بابا نوازشریف پر ہی پڑتی ہے۔ گوادر کو بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ سے چھین کر پنجاب کے تختِ لاہور تک پہنچانے والانوازشریف نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے علاقہ سے موٹر وے گزارنے کا کام کیا تو مزاحمت کاروں کے گاؤں فوج کو مسمار کرنے پڑے ۔ڈاکٹر اللہ نذر نے غدار سیاسی قیادت کی وجہ سے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور اختر جان مینگل نوازشریف کیلئے سہولت کار نہ ہوتے تو پاک چین دوستی میں گوادر سے کوئٹہ اور پشاور مالا مال ہوتے۔ سرائیکیوں کو صوبہ دینے میں بہاولپور کے نام پر ن لیگ نے ہی منافقت کا بازار گرم کیا تھا لیکن اس نوازشریف کی مکار بیٹی مریم نواز بھٹو سے لیکر یوسف رضا گیلانی تک اپنے باپ کا سارا کردار بیان کرتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں کرتی ہے۔ قارئین اعتدال کا راستہ صراط مستقیم ہے جو پلِ صراط سے زیادہ مشکل ہے۔ گرتے پڑتے خود کو اس پر چلانے کی کوشش کرنی ہے اور بلند بانگ دعوے اور نعرے نہیں لگانے ہیں ۔ دوسری طرف منافقت کا بدترین راستہ ہے جو کفر اور اسلام کے درمیان ادھر ادھر دونوں کے درمیان بہت ہی قابل مذمت ہے۔
لوگوں کی راۓ