سیاسی ،لسانی اور فرقہ پرستی کے تعصبات عروج پر ہیں کارکن اپنے بڑوں کو ہی اب لڑنے دیں
مارچ 17, 2021
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
قال اللہ تعالٰی جدہ: الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلٰم دینًا
وقال رسول اللہ خاتم الانبیاء ۖ : ایھا الناس اقرأ وامنی السلام من تبعنی من امتی الا یوم القیامة
بلندشان والے خدا نے فرمایا: ” آج میںنے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پراپنی نعمت کو پورا کردیا اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا ہے”۔
اور خاتم الانبیاء رسول خدا ۖ نے ارشاد فرمایاکہ:”اے لوگو! میری طرف سلام پڑھو جو میری اتباع کرے میری اُمت میں سے قیامت کے دن تک”۔ رسول اللہۖ کا آخری پیغام
وزیراعظم کا ذہنی توازن چیک کرنے سے پہلے اس کوکنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، کہیں تمام ریاستی و حکومتی اداروں اور انکے سربراہوں کو فارغ کرکے پوری دنیا میںتماشہ نہ بن جائیں
بلند شان والے خدا نے فرمایاکہ ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیااور اپنی نعمت کوتمہارے اُوپر پورا کردیااور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیاہے”۔ (القرآن المجید)جد کا معنی دادایا نانا نہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ سورج،چاند اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ پھر اس خواب کی تعبیر اس وقت پوری ہوئی کہ جب دس ستارے بھائیوں نے آپ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا۔ پھر ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ پھر قافلے نے اٹھایا اور مصر کے بازار میں ایک غلام کی حیثیت سے فروخت کردیا۔ عزیز مصر اور اس کی بیوی کے گھر میں جوان ہوئے۔ پھر بے گناہ جیل کی سلاخوں میں بند ہوئے۔ جس گناہ کی طرف بلایا جارہاتھا تو آپ نے فرمایا کہ السجن احب الیی مما تدعوننی الیہ ” جیل مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ جس کی مجھے آپ دعوت دے رہی ہو”۔
وزیراعظم عمران خان کو کرکٹ کے میدان اور شوکت خانم پر چندوں کے باران سے اللہ تعالیٰ ، اس قوم اور ہماری ریاستی اداروں نے وزیراعظم کے ایوان تک پہنچادیا۔ کتنے وعدے کس سے پورے کئے اور کس کے سامنے سرخروہوا؟۔ یہ بات چھوڑئیے،اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں لگتا ہے۔ سینیٹرز کے الیکشن میں ووٹ خریدنے اور الیکشن کمیشن سے کوئی معجزہ دکھانے کی استدعا ٹھیک تھی یا نہیں مگر کہنے کی حد تک ایک بات تھی لیکن جب سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت تھی تو بھی یہ شخص کہہ رہا تھا کہ زرداری ہمارے ووٹ خرید کر ہماری اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے۔ نظام قدرت کو پتہ تھا کہ اگر صادق سنجرانی پھر ہار گیا تو یہ شخص پارلیمنٹ کو توڑ دے گا جس کی ہوائیاں بھی اسکے چہرے پر اُڑرہی تھیں۔ بشریٰ بی بی نے پتہ نہیں کیا وظائف پڑھ کر اس شخص کو سنبھالنے میں اپنا کردار ادا کیا؟۔ ہمارے ہاں تو پہلے بھی نوازشریف اور بینظیر بھٹو کو اقتدار کیلئے ڈنڈی والی سرکار سے جتنے ڈنڈے پڑتے تھے اتنے سال کی مدت تک وزیراعظم بنتے تھے۔ ایک پیر پینچرسرکار بھی لکھ پڑھ کر کچھ پیش گوئیاں سنانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
کچھ باکمال لوگ لاجواب سروس والے صحافیوں نے بھی وزیراعظم کے حوالے سے بڑی مثبت خبروں کی رہنمائی کی کہ عمران خان میں بڑا حوصلہ ہے اور وہ اپوزشن کی بینچوں پر بھی بیٹھ سکتا ہے لیکن اس سے پہلے پہلے کہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی ، چیف جسٹس ، صدرمملکت ، چیف الیکشن کمشنر اور سارے گورنرز اور سینیٹ وقومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو بیک وقت فارغ کردے اس شخص کا دماغی توازن صرف چیک نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی جگہ پر لانا چاہیے۔
انصار و قریشاور قریش واہلبیت میں خلافت کے مسئلے پر چپقلش ہورہی تھی۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد تو صف بندی کرکے لڑائی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اُمت کے اختلاف کو بھی رحمت سے تعبیر فرمایا تھا لیکن اختلاف میں اعتدال کی حد سے بڑھ کر انتقام تک اعتدال سے ہٹ جانا رحمت نہیں عذابِ خداوندی ہے۔ اللہ نے امت مسلمہ پر سابقہ امتوں کی طرح کوئی اجتماعی عذاب نازل نہیں کرنا ہے لیکن آپس کی لڑائی کے عذاب سے بچنے کیلئے رسولِ خداۖ نے فرمایا کہ اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ۔
جب بھی کسی قوم پر عذا ب کا وقت آیا ہے تو اللہ نے عذاب کو نہیں ٹالا ہے مگر قومِ یونس سے ۔اسلئے کہ انہوں نے مشاورت کے بعد کہا تھا کہ جس طرح کا عذاب خدا نے ہم پر نازل کرنا ہو ،ہم نہیں ڈرتے مگر آپس کی لڑائی کا نہیں۔ جس کی وجہ سے اللہ نے اس قوم سے عذاب کو ٹال دیا تھا۔ آپس کی لڑائی اللہ کا واقعی بڑا عذاب ہے لیکن یہ عذاب انسانوں کے اپنے ہاتھوں میں بھی ہے۔ جب تک کوئی قوم اپنی پرامن حالت بدلنے کیلئے بدامنی کا راستہ اختیار نہیں کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حالت کو نہیں بدلتا ہے۔ اسی طرح جب تک کوئی قوم خراب حالت کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتی ہے تو اللہ تعالی بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔
آج افغانستان، عراق ، شام اوریمن کی قومیں آپس میں فیصلہ کرلیں کہ انہوں نے اپنی حالت بدلنی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو نہیں لڑا سکتی ہے۔ ہم پاکستانی بھی اپنے دشمن آپ ہیں اور پشتون بھی ایک دوسرے کے دشمن خود ہیں لیکن اگر ہم آپس کی دشمنی ختم کرنے کے بجائے ”یہ جرنل کرنل دہشت گرد” کے نعرے لگائینگے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کیلئے کوئی کوشش نہیں کرینگے تو پھر مزید تباہی اور بربادی کا خدانخواستہ سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی قوتوں نے ہمیں کمزور کرنے کیلئے آپس میں لڑانے کی سازشیں کیں ہیںمگر جب تک ہم خود ان قوتوں کے آلۂ کار بننے کا کردار ادا نہ کرتے تو بات نہ بنتی۔
رسول اللہ ۖ نے آخری وعظ میں امت کو بڑی دعائیں دینے کے بعد اپنا آخری پیغام قیامت کے دن تک آنیوالے رسول ۖ کا اتباع کرنے والوں کو اپنی طرف سے سلام پہنچانے کا حکم فرمایا تھا، مسجد کے علماء کواپنے نمازیوں کا حال بھی معلوم ہے اور اپنا حال بھی معلوم ہے اسلئے رسول اللہ ۖ کے پیغام اور سلام کو پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں۔ رسول اللہۖ نے سلام پھیلانے کا حکم دیا تھا اور اپنے آخری پیغام سے بھی امت میں سلام کو عام فرمایا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جھگڑے بھی عروج پر ہیں۔ لسانیت اور فرقہ پرسی کے تعصبات بھی عروج پر ہیں۔سیاسی، لسانی اور فرقہ پرستی کے بیوقوف کارکن آپس میں لڑنے کے بجائے بڑے بڑوں کو آپس میںلڑائی کا شوق پورا کرنے دیں۔ ہزارہ میں منظور پشتین کے خلاف اشتعال انگیزی اور انجینئر محمد علی مرزا پر قاتلانہ حملہ قابل مذمت ہیں۔ گالی گلوچ، بدتمیزی اور اخلاق باختگی کا مقابلہ دلائل سے کیا جاسکتا ہے لیکن چاقو اور پتھروں سے حملوں کا مقابلہ دلائل سے نہیں ہوسکتا۔ مذہبی اور لسانی ماحول کی خرابی پاکستان کو عراق کی طرح تباہ وبرباد کرسکتی ہے۔
اپوزیشن اور حکومت دونوں طرف سے لڑائی جھگڑے کا ماحول بنایا جارہا ہے۔ پاکستان میں چند سیاسی رہنماؤں کے سوا باقی سب موروثی اور پیسہ کی بنیاد پر سیاست کررہے ہیں۔ لوٹوں سمیت ان سب سیاسی رہنماؤں اور قائدین سے خیرکی کوئی توقع نہیں جنہوں نے عوام اور سیاسی حالات دیکھے بغیر مفادات کیلئے سیاست میں قدم رکھا ہے۔ یہ لوگ عوام کی خیرخواہی کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی نہیں کرینگے۔ ان کو گدھوں کی طرح رسی نہیں روپیہ سے باندھا جاتا ہے ۔
لوگوں کی راۓ