کہاوت ہے کہ” پشتو نیم کفر دا” پشتو نیم اسلام بھی ہے. تحریر: عتیق گیلانی
نومبر 12, 2020
پشتو کی مشہور کہاوت ہے کہ پشتو آدھا کفر ہے۔ جس کا مطلب پشتو زبان نہیں بلکہ پشتون کلچر ہے۔یہ کہاوت پختون اقدار اور رسم وروایات کے حوالے سے ہے۔ جس طرح جاہل عرب بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے اسی طرح پختون روایات میں کچھ باتوں کو محض غیرت کا مسئلہ سمجھ کر اس پر عمل کیا جاتاہے ۔ اس روایت کی بڑی مثال یہ ہے کہ ” ایک پڑوسی کی دوسرے پڑوسی سے کوئی ناچاقی ہو تو پڑوسی کو اپنی ہی زمین پر چیلنج کردیتا ہے کہ تم کوئی تعمیر نہیں کرسکتے۔ جب دونوں غیرتمند بن کر اپنا اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قتل وغارتگری ہوجاتی ہے تو اس کو پختون روایات سمجھا جاتا ہے اور اس کو نیم کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ طالبان نے دہشت گرد کاروائیوں سے جہاں اپنی قوم کا بہت نقصان کرلیا ہے لیکن کافی حد تک اس نیم کفر کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔ خود کش حملوں کے آگے نیم کفر اور اسلام سب بیکار تھا۔ اس کی ساری ذمہ داری ریاست پر ڈالنا بھی بہت بڑی حماقت ہے۔ دہشت گردوں کی کاروائیوں سے نیم کفر پورے کفر میں بدل گیا تھا کیونکہ نیم اسلام کیلئے بھی غیرت کا عنصر عوام میں نہیں رہاتھا۔ وزیرستان میں جن لوگوں کے گھر تک نہیں تھے وہاں ایک شناختی کارڈ پر لوگوں نے فوج کی وجہ سے بڑے پیمانے پر رقم بٹور لی جبکہ کراچی میں لیاری ایکسپریس وے کے لیز شدہ مکانات مسمار کئے گئے مگر ایک روپیہ بھی لوگوں کو نہیں ملا ہے۔ اگر فوج کا کردار نہیں رہا ہے اور بے غیرت سیاستدانوں کے رحم وکرم پر بے چارے عوام کا دارومدار ہوا تو بہت مشکل ہوگی۔ کوئٹہ جلسے میں کوئی مرد کا بچہ یہ کہنے کی جرأت کرتا کہ ” مجید اچکزئی نے دن دیہاڑے غریب ٹریفک پولیس اہلکار کو کچل دیا ، کیمروں کی آنکھ نے محفوظ کرکے میڈیا میں دکھایا مگر عدالت نے بری کیا۔ کیا پہاڑوں میں چھپ کر وار کرنے والوں کویہ عدالتیں سزائیں دے سکتی ہیں؟”۔
کراچی میں رینجرز اہلکار نے رنگے ہاتھوں پکڑنے والے ڈکیٹ کو غلطی سے ماردیا لیکن عدالت نے اس کو سزا دیدی۔ ہماری ریاست، ہمارا مذہب اور ہمارا کلچر سب کے سب نیم کفر کے مترداف ہے۔ ہونا یہی چاہیے تھا کہ قتل عمد اور قتل خطاء میں فرق روا رکھا جاتا۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے میڈیا پر واضح کیا ہے کہ زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق نہیں ہے۔ دونوں کی سزا ایک ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں گھس کر اس کی بیوی پر چڑھ جائے تو انسانی فطرت اور اسلام میں اس کی سزا قتل ہے لیکن مفتی تقی عثمانی کے نزدیک اس کیلئے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔ اسلئے شیخ الاسلام کا اسلام بھی نیم کفر ہے۔ شادی کی رسم میں لفافے کی لین دین کو مفتی محمد تقی عثمانی نے سود قرار دیا اور بینک کے سود کو اسلام قرار دیدیا۔ سود خور پختون اوران کے بعض علماء بھی حیلہ سازی کے کرتب میں مبتلاء تھے۔
پنجابی لوگ پتہ نہیں کہاں سے کہاں نکل جائیںگے؟۔ مرزا غلام قادیانی پنجابی تھا۔ مرزائیوں کا مرکز ربوہ بھی پنجاب میں ہے۔سرکاری اور تجارتی سطح پر بھی قادیانی معاشرے کا حصہ ہیں۔ جب ان کو سرکاری سطح پر کافر قرار دیا جارہاتھا تب بھی مرزا طاہر غلام احمد قادیانی کا پوتا اسمبلی میں بحث کرنے کیلئے آتا تھا۔ جب مولانا فضل الرحمن اپوزیشن لیڈر تھے تو پنجاب کے چوہدری برادران نے انکے دل کے وال بھی امریکہ سے قادیانی ڈاکٹر مبشر کو بلاکر بدلوائے تھے۔ اگر بینک منیجر قادیانی بھی ہوتا تو کیا اس کے قتل پر کوئی قاتل عاشق رسول بن سکتا تھا؟۔ اگر یہ بینک منیجر اس گارڈ کی بیگم پر زبردستی چڑھتا تو پھر اس کو قتل کرنا غیرت ، ایمان اور اسلام کا تقاضہ تھا لیکن یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ قادیانی سمجھ کر قتل کو عشق کا تقاضہ سمجھا جائے۔ پھر جنہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کو قتل نہیں کیا وہ سب بے ایمان اور بے غیرت تھے؟۔ اگر یہی مذہبی مزاج رہا تو پھر کسی کا ایمان بھی معتبر نہیں ہوگا۔
پھر تو سمجھا جائیگا کہ جنرل باجوہ، مولانا فضل الرحمن، عمران خان، نوازشریف اور سارے فوجی جرنیل، سیاسی لیڈر اور علماء بھی قادیانی ہوسکتے ہیں۔ جان بچانے کی خاطر ڈر سے قادیانی ہونے کا اظہار نہیں کرتے۔ پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے اور کسی بڑے دھماکے سے پہلے ہمارے ریاستی اداروں ، سیاسی لیڈر شپ اور علماء کرام کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ تو طالبان کے خوف سے سرکاری نمبر پلیٹ اسلام آباد میں گاڑیوں پر نہیں لگائی جارہی تھیں اوراب حالات نے پلٹا کھایا تو بہت مصیبت کھڑی ہوسکتی ہے۔ ن لیگ کے خلاف قادیانی ہونے کی مہم چلائی گئی، عمران خان کو بھی وضاحت دینا پڑی۔ جنرل ضیاء الحق نے قادیانی کے فتوے کے خوف سے ایک سخت آرڈنینس جاری کیا تھا۔ صابر شاکرنے ویڈیو میں بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمن کے سامنے واضح کیا کہ وہ قادیانی نہیں راسخ العقیدہ مسلمان ہیں لیکن جب پروپیگنڈہ پھیلانے والے اپنا کام دکھاتے ہیں تو معاملہ مشکل بن جاتا ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا تھا کہ ”نبیۖ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک تحفہ دیا تو جنرل قمر باجوہ نے بائیں ہاتھ سے لیا پھر حضرت عمر نے دائیں ہاتھ سے لینے کا کہا تھا”۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نوازشریف نے آرمی چیف بنایا تھا اور اب تو ایکسٹینشن میں نوازشریف، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سب شامل ہیں۔ جمہوری لوگوں نے غلط کیا یا درست کیا لیکن اب فوج میں دراڑ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جب نوازشریف کے دور میں ماڈل ٹاؤن کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں ہورہی تھی اور جنرل راحیل شریف کو نوازشریف نے کردار ادا کرنے کا کہا تو ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان سے جنرل راحیل شریف نے ایف آئی آر درج کرانے کا وعدہ کیاتھا۔ پھر ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔جب عمران خان نے دھمکی دی ،پھر وفاق کے زیر کنٹرول آئی ایس آئی اور رینجرز کو سندھ پولیس کیخلاف استعمال کرکے جناح کے مزار کی بے حرمتی کے ایکشن پر مجبور کیا گیا تو بلاول بھٹو زرداری اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے درمیان گفتگو میں ایکشن لینے کی بات ہوئی۔ اس کا بھی بظاہر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا بہت تیزی سے عوام کا ریاست پر سے اعتماد اُٹھارہے ہیں مگر کسی بڑے خونی انقلاب سے پہلے ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے کہ موجودہ ریاستی ڈھانچہ اور عوام مل بیٹھ کر ایک اچھے سیٹ اپ سے اپنے حالات بہتر کرلیں، غریب کی زندگی اجیرن ہے کسی وقت بھی کوئی ایشو بہانہ بن جائے تو پیٹرول کا سمندر آگ پکڑنے میں دیر نہیں لگائے گا۔
حضرت ابوبکر و عمر کی خلافت کو انصار کے سردارسعد بن عبادہ اور حضرت علی و ابن عباس نے دل سے قبول نہیں کیا۔تو نتیجے میں حضرت سعد بن عبادہ کو جنات نے قتل کردیا اور حضرت عثمان مسند خلافت پر شہید کردئیے گئے۔ پھر حضرت علی نے اپنا دارالخلافہ کوفہ منتقل کیا مگر وہاں بھی شہید کردئیے گئے۔ حضرت امام حسن کو دستبردار ہونا پڑا اور حضرت حسین کیساتھ واقعہ کربلا پیش آیا۔ خلافت بنوامیہ اور پھر بنوعباس کی لونڈی بن گئی اور پھر ارتغل غازی نے اس کو اپنے خاندان کی لونڈی بناکر دم لیا۔ اہل تشیع اپنے تین اماموں کے بعد باقی 9اماموں کی زندگی پر غور کریں۔ اپنی حدود سے تجاوز کریںگے تو خلافتِ راشدہ سے عقیدت رکھنے والوں کی طرف سے ردِ عمل آئیگا۔ حضرت عثمان کیلئے نبیۖ نے صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان لیا تھا لیکن حضرت عثمان کی حقیقی شہادت ہوئی تو اس بیعت کی پاسداری کا کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے۔اب امت میں انتشار نہیں اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ