1400 سو سال پہلے سورہ حج میں اللہ نے مشینی ذبیحہ کو روز روشن کی طرح واضح کیا: عتیق گیلانی
جنوری 31, 2018
شیخ العرب و العجم حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے لکھا ہے کہ’’ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ومن یشتری لھو الحدیث (جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں)جس وقت قرآن نازل ہوا تھا تو اس دور میں لغو باتیں خریدنے کے حوالے سے کوئی آثار بھی نہیں تھے۔ آڈیو ریکارڈ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ موجودہ دور میں فحش گانے ، فلمیں و دیگر اشیاء پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ قرآن کی صداقت اور کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے کہ 14سو سال پہلے جس چیز کا کوئی وجود نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کا ذکر کردیا‘‘۔ قرآن میں کتاب ینطق بولنے والی کتاب کا بھی ذکر ہے۔ نظریہ اضافیت کا بھی قرآن میں ذکر ہے۔ یہاں کے ایک دن اور چڑھنے کے 50ہزار سال کی مقدار کے برابری سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے نظریہ اضافیت نہ صرف واضح کردیا تھا بلکہ معراج کے اندر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مشاہدہ بھی کروایا تھا۔ البرٹ آئین اسٹائن نے بہت بعد میں نظریہ اضافیت کو ریاضی اور سائنسی بنیاد پر دریافت کیا۔ حج کے دوران مشینی ذبح پر علماء و مفتیان اجتہادات کی رٹ لگاتے رہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے 14سو سال پہلے سورہ حج میں مشینی ذبح کو روز روشن کی طرح واضح کیا۔
اس آیت کی تفسیر میں فقہاء کے اختلافات دیکھ کر ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مذہبی قربانی پر اللہ کا نام لینے کا ذکر کیا ہے کیونکہ مشرکین اپنے بتوں کا نام لیتے تھے۔ قرآن میں ان ذبیحوں کو جن پر بت کا نام لیا جائے حرام قرار دیا گیا ہے۔ شکاری کتے اور باز جن کو شکار کی تعلیم دی جائے ان کے شکار کردہ جانوروں یا پرندوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ اہل کتاب کے طعام کو بھی حلال قرار دیا ہے۔ اہل کتاب میں مشرکوں کی طرح غیروں کے نذرانے اور بتوں کے آستانے پر ذبح کرنے کا رواج نہیں تھا۔قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے
لوگوں کی راۓ