افغانستان و پاکستان گڈ اوربیڈ طالبان کو علمی تربیت گاہ سے اعتدال کی راہ پر لاکر مشکل سے نکالا جاسکتا ہے؟
جون 8, 2021
9/11, 9/11, 9/11 Altaf Hussain, Jamat e Islami, Afghan Taliban, Molana Fazl ur Rehman
افغانستان و پاکستان گڈ اوربیڈ طالبان کو علمی تربیت گاہ سے اعتدال کی راہ پر لاکر مشکل سے نکالا جاسکتا ہے؟
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ایک ایسی فضاء آئی تھی کہ بہت سارے لوگ اپنے دینی جذبات سے طالبان بن گئے!
عام انسانی معاشرے کی طرح طالبان میں بھی اچھے برے ہرطرح کے افراد شامل تھے
جب اچھے طالبان کو زبردست راستہ دیا جائیگا تو بروں سے اس خطے کو چھٹکارا مل جائے گا
نبیۖ نے فرمایا کہ ” لوگوں کی مثال معدنیات کی ہے جو جاہلیت میں سونا،چاندی تھے وہ اسلام میں بھی سونا چاندی تھے اور جو جاہلیت میں کوئلہ تھے وہ اسلام میں بھی کوئلہ کی طرح ہیں”۔( مفہوم حدیث)
جب نائن الیون (9/11) کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیاتو پوری دنیا کے مسلمانوں کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ امریکہ کے خلاف تھیں۔البتہ کچھ لوگ طالبان کے سخت گیر رویے کی وجہ سے انکے ذاتی مخالف تھے۔ آج امریکہ وطالبان کی دشمنی دوستی میں بدل گئی ہے اور طالبان کا رویہ بھی سخت گیر نہیں رہاہے۔ جب طالبان نے امریکہ کے سامنے سرنڈر ہونے کے بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا تو کوئی بھی ایسا مسلمان نہیں تھا جو دل سے امریکہ کیساتھ اور طالبان کے خلاف ہوتا مگر کچھ لوگوں کی کچھ مجبوریاں ہوسکتی تھیں۔ جن کی مجبوریاں تھیں ان کاتعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا۔ کچھ لوگ طالبان کے نظریہ ، مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر خلاف تھے اور یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کی نظروں میں طالبان کے گڈ وبیڈ ہونے کا اپنا اپنا معیار تھا۔ ان تضادات کی وجہ سے سب نے اپنے مفادات بھی اُٹھائے اور نقصا نات بھی اُٹھائے۔
کون ہارا؟ کون جیتا؟۔ انسان ہارا! شیطان جیتا!۔ اگر اسلام کی درست تعلیمات ہوتیں تو امریکہ نے افغانستان، عراق ، لیبیا ، شام اور پاکستان کو اس حال پر کبھی نہیں پہنچانا تھا جس طرح کی تباہی وبربادی سے ہم مسلمان گزرے ہیں۔ ستر (70) ہزار سے زیادہ لوگ دہشتگردوں کے ہاتھوں کام آئے ہیں اور دہشتگردی کے نام پر کتنے لوگ کام آئے ہیں شاید ان کا شمار بھی نہیں ہوسکا ہے۔ جب ایمان والے طالبان عام لوگوں کی زباں میں دہشت گرد بن گئے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جس طرح تبلیغی جماعت میں بہت سے اچھے لوگ بھی اپنا وقت لگاتے ہیں تو بہت سے بدکرداروں کو بھی ٹھیک کرنے کیلئے تبلیغ میں بھیج دیا جاتا ہے، اسی طرح طالبان کو بھی بہت اچھے لوگوں نے بھی سپورٹ کیا اور اس میں شامل ہوگئے اوربہت بدکردار ، مکار اور بدمعاشوں نے بھی اس کواپنی پناہ گاہ بنایا۔ جن میں بہت اچھوں کے علاوہ ملوثی، ہم جنس پرست اور بھتہ خور سب شامل تھے۔
طالبان جسکے بھی وفادار ہیں وہ اپنا مخصوص حلیہ ، ٹائٹل اور شاخت کی نشانی رکھنے پر مجبور ہیں۔کہاوت ہے کہ ” میں کمبل کو چھوڑ رہا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہاہے”۔ ایک شخص نے دریا میں کمبل دیکھ کر چھلانگ لگا دی مگر جب ساتھیوں نے اس کی کشمکش کو دیکھا تو کہنے لگے کہ کمبل کو چھوڑ دو، کہیں اس چکر میں اپنی جان سے بھی نہ چلے جاؤ۔ اس نے جواب میں کہا ہے کہ میں کمبل کو چھوڑ رہا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہاہے۔اصل میں وہ کمبل نہیں ریچھ تھا۔ جس سے یہ کہاوت مشہور ہوگئی۔ طالبان نے اسلام سمجھ کر جس کمبل کو پکڑنا چاہا تھا تو اس سے اب انکی جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔ افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان میں بہت اچھے اچھے لوگ ایک لہر کی وجہ سے شکار ہوگئے تھے۔ اگر طالبان کی بانی پیپلزپارٹی اور حامی ن لیگ اور تحریک انصاف کو باری باری پاکستانی اقتدار میں لایاجاسکتا تھا تو طالبان کو بھی ایک مؤثر تعلیمی تربیتی نظام سے معاشرے میں موقع دینا انسانیت، اسلام اور پاکستانیت کا تقاضہ ہے۔ ملا عمر اور افغانستان کے طالبان نے وہی کیا تھا جو انہوں نے اپنی شریعت کی کتابوں میں پڑھا تھا۔ پاکستان کی سرزمین میں صرف ہمارے ریاستی ادارے ، عدلیہ،سول وملٹری بیوروکریسی،سیاسی حکمرانوں نے کفر ونفاق اور بدعملی کا لبادہ نہیں اوڑھ رکھا تھا بلکہ علماء اور مذہبی طبقات بھی اسکا شکار تھے۔
پہلے جب طالبان کے جنازے ہوتے تھے تو بہت سے لوگ ان کی خوشبو بھی سونگھ لیتے تھے ۔ لیکن پھر جب لوگوں میں شعور بڑھ گیا تو لوگوں کو خوشبو آنا بھی بند ہوگئی ۔ الطاف بھائی کی تصاویر بھی درختوں کے پتوں پر عوام کو نظر آتی تھیں اور گوہر شاہی بھی عقیدتمندوں کو چاند میں دکھتا تھا جو دراصل چاند کی کالک ہوتی تھی۔
لوگوں کی راۓ