پوسٹ تلاش کریں

A dispute was raised and exploited by a group on the statement of Malala but why they keep silent on scandal of Aziz-ur-Rehman?

A dispute was raised and exploited by a group on the statement of Malala but why they keep silent on scandal of Aziz-ur-Rehman? اخبار: نوشتہ دیوار

ملالہ کے بیان پر طوفان برپا کرنے والا طبقہ مفتی عزیز الرحمن کے اسکینڈل پر کیوں اپنی دُم گھسیڑکر بیٹھ گیا؟ جب تک علماء اپنے نصاب کو درست نہ کریں تو مدارس کی بدنامی کایہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا لیکن دنیا کے حریص خاموش ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سیاسی، مذہبی، جماعتی ، تنظیمی اور مساجد ومدارس کے علماء ومفتیان نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اسلام کے بہترین نظام کو قربانی کے کٹہرے میں بہت بری طرح کھڑا کیا۔
قرآن وسنت نے تمام مذاہب کے باطل عقائد ونظریات اور مسائل کی اصلاح کرکے انقلاب برپا کردیا تھا لیکن مدارس کے نصابِ تعلیم نے پھر سے باطل عقائد ومسائل پیدا کررکھے ہیں

اس اخبار میں علماء کے نصاب و کردار پر تیر چلائے جاتے ہیں لیکن ہمارا مقصد بغض وعناد اور دشمنی نہیں۔ کالج یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ سے زیادہ مدارس کے علماء و طلبہ میں صلاحیت ہے۔ مفتی سید عدنان کا کا خیل نے مشاہد حسین سید اور عوام کے سامنے کس طرح پرویزمشرف کے سامنے اپنی صلاحیت کا اظہار کردیا تھا؟۔ مفتی محمود نے قومی اتحاد اور مولانا فضل الرحمن نےPDMکی قیادت کی؟۔ طالبان نے امریکہ کو شکست دی۔ ایٹمی پاکستان کے پرویزمشرف اور جنرل محمود مرغا بن کر دانے چگ رہے تھے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ اوریا مقبول جان اور سوشل میڈیا کا وہ طبقہ کہتا ہے جو فوج پر دنیا میں نمبر1ہونیکا اتنا یقین رکھتاہے جتنااللہ کی واحدانیت پر وہ حقیقی یا مصنوعی ایمان کادعویٰ کرتا ہے۔اور یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے عرب کے بدؤوںکا فرمایا تھا کہ ”اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ تم اسلام لائے ہو اسلئے کہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن)
جنرل حمیدگل سے لیکر چھوٹے موٹے بہت سے لوگ طالبان کا کہتے تھے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور پاکستان کا اسلام اعرابیوں کی طرح ہے ، جن کے دلوں میں 70سالوں سے زیادہ عرصہ ہوا کہ ایمان داخل نہ ہوسکا ہے اور اس کے بعد ہم دولت کیلئے کتنی جنگیں لڑتے رہیں گے۔
ہماری سوچ کا زاویہ مختلف ہے۔ ایمان و عمل کیلئے بنیادی بات علم کی اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کے ذریعے سے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت اور حکمت سکھانے کا اہتمام کیا اور اس شعور وآگہی کی بدولت انہوں نے دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا ۔ قرآن کے نزول سے پہلے بہت سی برائیاں مذہب کے نام سے تھیں جن کی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اصلاح فرمائی۔ ظہار کا حکم مذہب نے ہی بگاڑ دیا تو ایک عورت نے اپنے شوہر کے حق کیلئے رسول اللہ ۖ سے مجادلہ کیا ۔ جس پر سورۂ مجادلہ کی آیات نازل ہوئیں اور مذہبی فتویٰ غلط قراردیا گیا۔ دنیا میں عیسائی، ہندو سمیت کئی مذاہب میں طلاق کا کوئی جواز نہیں تھا یا پھر ایک ساتھ تین طلاق سمیت بہت ساری خرابیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس کی اصلاح فرمائی۔ زنا اورقوم لوط کے عمل کی شکل اور سزاؤں میں بھی بہت بگاڑ آچکا تھا۔ سود کی حرمت بھی ختم کردی گئی تھی اور جاگیردانہ نظام اور جنگوں میں لونڈیاں بنانے کا بھی نظام جاری تھا۔
اللہ نے ایک ایک کرکے تمام برائیوں کا وحی کے ذریعے خاتمہ قرآن میں محفوظ کیا۔ توارة میں بوڑھے مرد عورت کے زنا پر رجم کا حکم تھا ۔قرآن نے زنا پر 100کوڑے اور جبری زنا پر قتل کا حکم دیا بخاری میں ہے کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعدنبی ۖ نے سنگساری کی سزا پر عمل نہیں کیا لیکن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہۖ کا وصال ہوا تو رجم کی آیات اور رضاعت کبیر یعنی بڑے آدمی کو عورت کے دودھ پلانے کی آیات کو بکری نے کھاکر ضائع کیا۔قرآنی آیت یہ بتائی جاتی ہے کہ الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما …. ”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو”۔ اب مفتی عزیز الرحمن کو بوڑھا قرار دیکر کہا جارہاہے کہ یہ معذور ہے اس میں بدکاری کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
جعلی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اگر جوان شادی شدہ ہوں تو بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بوڑھوں میں100کوڑے سہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہو اور تورات میںیہ حکم ہو کہ ” ان کو کوڑے مارنا سزائے موت کے مترداف ہے اسلئے ان پر لعنت بھیج کر چھوڑدو”۔ جب قوم لوط میں ہم جنس پرستی کا رحجان تھا تو اللہ نے اجتماعی عذاب نازل کرکے ان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادیا لیکن اس پر قرآن میں سزائے موت یا بہت لمبی چوڑی سزا نہیں ہے بلکہ اذیت دی جائے اور پھر توبہ واصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
جب قرآنی آیات بناکر ابن ماجہ میں پیش کی جارہی ہوں تو صحیح مسلم کی یہ روایت بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ” اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے قرآن پر زیادتی کا مرتکب سمجھیںگے تو قرآن میں رجم کا حکم لکھ دیتا”۔ ایک طرف ابن ماجہ میں بکری کے کھا جانے سے آیات کا ضائع ہونا اور دوسری طرف مسلم میں حضرت عمر کی بات میں کتنا کھلا تضاد ہے؟۔ جب آیات کے مقابلے میں آیات ایجاد کی جائیں، احادیث اور صحابہ کبار کے اقوال ایجاد کئے جائیں تو اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟۔ اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ” اگر آدمی کسی عورت کا دودھ بڑی عمر میں پی لے تو اس کا اس عورت سے پردہ نہیں رہے گا لیکن اگر وہ شادی کرنا چاہے تو ان کی آپس میں شادی ہوسکے گی”۔ اگر دیکھ لیا جائے کہ مسلک پرست عناصر نے کس طرح متعہ ، رجم اور بڑے کے دودھ کی آیات تک گڑھ دی ہیں۔ پھر متضاد احادیث گڑھ دی ہیں جس طرح بیوی کیساتھ پیچھے سے بھی جماع کرنے کے حوالہ سے حدیثیں تک بھی گڑھ دی گئیں ہیں۔
گورنربصرہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ سے شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن تک اسلام کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر اختلافات وتضادات کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ روز روز کوئی بیل یہ نہیں بول سکے کہ مینارِ پاکستان پر لٹکادو اور نہ یہ بول سکے کہ شرعی گواہوں کے تصورات کا کیا کیا معیار ہے؟۔ پنجاب کا ایک معروف خطیب دوسرے ہم مسلک خطیب کیلئے کہا کرتا تھا کہ” وہ فاعل بھی ہے اور مفعول بھی۔الحمدللہ میں نہ فاعل ہوں اور نہ مفعول ”۔ سبوخ سید نے بھی کسی مسلک کے مناظر اورہم مسلکوں کی پشت پناہی اور دوسری کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین ازواج مطہرات کیلئے قرآن میںدُگنی سزا کا ذکر کیا ہے اور لونڈی وایگریمنٹ والوں سے نکاح کے بعد فحاشی میں مبتلاء ہونے پر آدھی سزا کا حکم دیا۔ سنگساری اور قتل کو دگنا اور آدھا نہیں کیا جاسکتا لیکن مولوی تقلید کی وجہ سے صلاحیتوں سے محروم ہیں۔
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اگر اسلام کو ان علماء کے چنگل سے آزاد کیا جائے جو مزارعت سے سودتک کو اسلامی قراردینے کے معاملات میں ہردور میں ملوث رہے ہیں تو انقلاب سالوں، مہینوں نہیں چند ہفتوں اور دنوں کے فاصلے پر ہے۔
عورت کے حقوق سے لیکر بدنام زمانہ گناہگاروں کے حقوق تک جس طرح اسلام نے انسانیت کی عزت وتوقیر اور سزا وجزاء کا سلسلہ رکھا ہے تو اس پر مسلمان ، کافر، ملحدین اور دنیا کے تمام انسان اکھٹے ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس مجھے لگتا ہے کہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ اگر جلد اچھے فیصلے نہیں کئے تو پھر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور فلسطین سے بھی زیادہ خطرناک حالات کا سامنا ہم سب کو کرنا پڑسکتا ہے۔ ایکدوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا وقت نہیں ہے بلکہ اپنے کھلے گناہوں کا اعتراف کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دست بستہ معافی مانگنے کا وقت آگیا ہے۔
قوم پرستی، مسلک پرستی، سیاست پرستی ، ریاست پرستی اور مفادات پرستی کے سلسلے بعد میں بھی چل سکتے ہیں لیکن ایسے وقت میں اپنی جان اور اپنی قوم کیلئے امن وامان مانگنا ضروری ہے۔ بلوچوں، پشتونوں، مہاجروں اور سندھیوں نے پہلے جو مشکلات دیکھی ہیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں۔ پنجاب کی عوام کیساتھ پہلے بھی وہی ناانصافی ہوئی ہے جو دوسروں نے دیکھ لی ہے لیکن پنجاب کے لوگوں نے مرچیں کھانے کے باوجود اتنی زیادہ تیزی کبھی نہیں دکھائی جتنی دوسری قوموں نے کئی مرتبہ دکھائی ہے۔
عورت کو اپنے شوہر اور ماں باپ کی طرف سے وہ تحفظ مل جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو دنیا اسلامی نظام کی طرف آجائے۔ حضرت داود کی 99بیگمات تھیں اور سویں کی بھی خواہش کی جو ایک مجاہد اوریا کی بیگم تھی۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے 4ہزار لونڈیاں تھیں اور اسلام نے چار تک شادیوں کی اجازت دی اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ برصغرپاک و ہند میں اسلام کی روح پھر بھی کسی نہ کسی حد تک زندہ ہے۔ مصر کے اسلامی اسکالر نے النساء میں عورتوں کیساتھ مردوں کو بھی شامل کرنے کا تصور پیش کردیا ہے۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھاکہ ”کسی عورت سے شادی ہوتو اسکے سابقہ شوہر کے بیٹے سے بدفعلی پراحناف کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ”۔(کشف الباری)
نکاح و حرمت مصاہرت کی تفصیلات عوام کے سامنے آجائیں تو مفتی عزیز الرحمن کو بھول کر پہلے نصاب تعلیم کو درست کرنا ہی ضروری سمجھیں گے۔ ہم مسلسل متوجہ کررہے ہیں لیکن انکے کانوں پربھی جوں نہیں رینگتی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کا یوٹیوب پر بیان آیا جس میں قاری حنیف جالندھری وغیرہ بھی موجود تھے کہ ”جب قادیانیوں کے حق میں سینٹ کے اندر بل پاس کیا جارہاتھا جو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا تو مجھے خوف تھا کہ مجھے چیئرمین سینیٹ کی غیرموجودگی میں ڈپٹی کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیںگے مگر الحمدللہ بل پاس نہیں ہوا۔ پھر حکومت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا۔ ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں”۔
مولانا حیدری کے بیان سے مفتی عزیز الرحمن کی طرح اعتراف جرم ثابت ہورہاتھا۔ ممکن ہے کہ مولانا صاحبان سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی سے اسلام بیچ کر اپنے اثاثے بیرون ملک بنارہے ہوں کیونکہ اتنے بھولے تو یہ حضرات نہیں ہیں۔ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھنا ضروری ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں