نشتہ دیور کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ انتقال کر گئے۔
اپریل 15, 2022
انا للہ و انا الیہ راجعون
بطلِ حریت، شیر یزداں، کوہِ استقامت، بحر عزیمت، طوفانِ عظمت
عبد القدوس بلوچ انتقال کرگئے
بہت میر پھر ہم جہاں میں رہیں گے اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں اگر رہ جائیں گے جیتے سحر تک
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
عہدساز شخصیت ، قہاری و غفاری و قدوسی وجبروت چار عناصرکابڑا نمونہ عبدالقدوس بلوچ علالت کے باعث اپنے ربّ کے حضور پہنچ گئے جس منزل کی طرف کشاں کشاں ہم سب رواں دواں ہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون
وفات سے ایک رات پہلے قدوس بھائی سے ہسپتال میں کافی دیر گپ شپ لگی ۔ماجد بھائی نے بتایا کہ آج صبح خواب دیکھا کہ” رسول اللہ ۖ، حضرت علی ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے خیمے لگے ہیں۔ہم کئی ساتھی بھی حاضر ہیں پھرسب کو جانے دیا گیا اور قدوس بھائی کو اپنے پاس روک دیا گیا اورپہلے قدوس بھائی کا چہرہ کچھ بجھا سا تھا پھر بہت زیادہ ہشاش بشاش ہوگیا”۔ میں نے باقی تین خلفاء راشدین کے نام سن لئے مگر حضرت علی کے نام کو نہیں سنا تو ماجد بھائی سے پوچھا کہ کیا حضرت علی خواب میںنظر نہیں آئے؟۔ ماجد بھائی نے بتایا کہ کیوں نہیں۔سب سے پہلے تو علی ہی کا نام لیا ہے۔ خواب کا مطلب تو بالکل واضح تھا کہ قدوس بھائی کا بلاوا ا گیا ہے۔ قدوس بھائی بہت زیرک انسان تھے۔ اشارہ سمجھتے تھے۔ میں نے کہا کہ انشاء اللہ اس رمضان میں قدوس بھائی خانقاہ میں ذکر کرائیں گے۔ میں نے قدوس بھائی کی زبردست خدمات کو انکے سامنے خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مجھ سے اظہارِ عقیدت کیا۔ میں نے کہا کہ آپ نے عمر میں بڑے ہونے کے باجود بھی ہمیشہ جس طرح کی خدمت کی۔ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہردَم ، ہر وقت اور ہرلمحے جب ضرورت پڑ گئی تو نامعلوم منزل کی جانب ساتھ چلنے کیلئے تیار ہوگئے۔ساری زندگی وقف کی تھی، اپنے والدین، بہن بھائی، عزیزواقارب ، بیوی بچوں ، اپنے کاروبار اوراپنے گھر ووطن سب ہی پر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو ترجیح دی تھی۔ صفحہ3 بقیہ نمبر2
بقیہ نمبر2…… عبد القدوس بلوچ کی وفات پر تعزیتی پیغام
اللہ نے قرآن میں فرمایا قل ان کان اٰباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھاوتجارة تخشون کسادھا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بامرہ واللہ لایھدالقوم الظٰلمینO ”کہہ دیجئے (اے حبیب ۖ) کہ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیگمات اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارا وہ مال جو تم نے اکٹھا کررکھا ہے اور تمہاری وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہواور تمہارے وہ ٹھکانے جہاں تم رہنا پسند کرتے ہو۔تمہیں زیادہ محبوب ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو پھر انتظار کرو !، یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم لیکر آجائے اور اللہ ہدایت نہیں دیتا ہے اس قوم کو جو ظلم والے ہیں”۔ اور اللہ نے فرمایا وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ ھواجتبٰکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج ملة ابیکم ابرٰھیم ھو سمّٰکم المسلمین من قبل وفی ھٰذالیکون الرسول شہیدً١علیکم وتکونوا شہداء علی الناس فاقیموالصلوٰة واٰتوا الزکوٰةواعتصموا باللہ ھومولٰکم فنعم المولیٰ ونعم النصیرO ”اور اللہ (کے احکام) میں جہادکا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیا ہے،اور دین (پر چلنے)میں تمہارے لئے کوئی مشکل نہیں رکھی ہے۔تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت ہو اور اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ۔پہلے بھی اور اس دور میں بھی۔تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ بنے اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ پس نمازقائم کرو، زکوٰة ادا کرو اور اللہ کو تھام لو،وہ تمہارا مولیٰ ہے اچھا مولی اور اچھا مددگار ”۔ ان آیات کی بنیاد پر ہم نے تحریک کا آغاز کیا ہے۔
حضرت حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں 35برس گزارے۔ چار ماہ،سالانہ چلہ، ماہانہ سہ روزہ ، ہفتہ میںدو گشت اپنے محلے اور دوسرے محلے میں۔ اپنے خلفاء اور ہم مسلک دوست علماء نے فتویٰ لگانے میں دشمنوں کا کردار ادا کیا تو بہت لوگ چھوڑ کر گئے۔ محدود لوگ رہ گئے جن میں عبدالقدوس بلوچ بھی شامل تھے۔ میرے بھائی سیدامیرالدین اس وقت مجسٹریٹ تھے جو بعدمیں اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ، اسسٹنٹ پولیٹکل آفیسر، پولیٹیکل ایجنٹ، DSOہنگو، کمشنر بنوں اور سیکریٹری کے عہدوں پر فائز ہوکر ریٹائرڈ ہوگئے۔
مجسٹریٹ کی تنخواہ ڈھائی ہزار تھی تو اسوقت عبدالقدوس بھائی پانی کے جہاز میں40ہزار مہینہ لیتے تھے۔ حاجی محمد عثمان پر آزمائش آئی تو قدوس بلوچ نے نوکری چھوڑ کر سیکیورٹی سنبھال لی تھی۔ الائنس موٹرز کے مالکان اور خلفاء کی جگہ لینے کے خواہشمند ہرنائی چائے کے ہارون نے عبدالقدوس بلوچ کی جمع پونجی سے گاڑی لی اور پھر وہ لوگ بھی بھاگ گئے تھے۔ پھر عبدالقدوس بلوچ کی شادی ہوگئی۔ یثرب پلازہ شو مارکیٹ میں رہائش پذیر حاجی محمد عثمان کی چوکیداری کرنے والے عبدالقدوس بلوچ کے پاس کبھی کبھارہفتوں بعد گھر جانے کیلئے بھی کبھی کرایہ ہوتا تھا اور کبھی نہیں ہوتا تھا۔نوکری ، کلاکوٹ لیاری کاگھر، والدین ، بہن بھائی سب ہی چھوڑ دئیے تھے۔ بیگم صاحبہ آخر کار اپنے والدین کے گھر میں بیٹھ گئیں۔ چھوٹے بچے فضیل کیساتھ علیحدگی کا معاملہ تھا کہ میں نے قدوس بھائی کو سسرال پہنچادیا اور قدوس بھائی کو مجبور کیا کہ اپنا آنا جانا رکھے۔
قدوس بھائی کی ایک ہمشیرہ محمد علی سوسائٹی میں رہتی ہیں۔ جب میں 2004ء میں نرسری کے اندر ایک مرتبہ کی چھٹیاں گزارنے کیلئے گھروالوں کیساتھ آیا تو میری ہمشیرہ سے قدوس بھائی کی ہمشیرہ نے کہا تھا کہ ”آپ کے بھائی کیساتھ قدوس بھائی کی دوستی پر ہم بہت خوش ہیں۔جب قدوس بھائی بہت ہی چھوٹا بچہ تھا تو اس نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنی قمیض اتارکر آگ میں ڈال دی تھی۔ غصے کے اتنے تیز تھے کہ معمولی معمولی بات پر طوفان کھڑا کردیتے تھے۔ ہم ہروقت انکے رعب سے سہمے رہتے تھے۔اب بہت نرم مزاج اور اچھی طبیعت کے ہوگئے ہیں”۔ یہ قدوس بھائی کی بہن کا اظہارِ تشکر اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ہمارے بھائیوں میں جو سب سے زیادہ کمانے والا تھا، جس نے لیاری کلا کوٹ کا آبائی گھر تعمیر کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا، جس کے بچوں کو سسرال میں رہنا پڑگیا مگر اس تما م قربانیوں کے باوجود بھی ہم آپ کے بھائی سے ناراض نہیں بلکہ خوش ہیں۔ قدوس بھائی کے چھوٹے بھائی کی ناراضگی کا یہ عالم ہے کہ قدوس بھائی کی وفات کا بھی مسجد میں اعلان کروادیا مگر قدوس بھائی کے جنازے پر نہیں آیا۔ لوگ اس کو پیرجی کہتے ہیں۔ دوسرے بھائی بھی سخت ناراض تھے لیکن ایک بھائی وہاب بلوچ بہت ملنسار ہیں اسلئے گاہے بگاہے وہ چکر لگاتے رہتے تھے۔ جب قدوس بھائی کی والدہ کا انتقال ہوا تھا تو ہمارے دوست اشرف میمن جو دنیا کی مختلف خوشبوؤں کے شوقین اور پہچان میں بہت مہارت رکھتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ قدوس بھائی کی والدہ کی میت اور قبر سے ایسی خوشبو آرہی تھی کہ کبھی اس طرح کی خوشبو نہیں سونگھی ۔ یہ دنیا کی خوشبو نہیں تھی اور قدوس بھائی کی ساس کے انتقال پر اشرف میمن آئے تو کہہ رہے تھے کہ اب بھی وہی خوشبو آرہی تھی۔ جب قدوس بھائی کے والد صاحب ہمارے پاس گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے پروگرام میں آئے تو میرے بڑے بھائی ایکسین واپڈا نے کہا کہ ”ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس عتیق کی وجہ سے ایسے ایسے لوگ آتے ہیں ورنہ ہمارے پاس کتنی بھی دولت، خاندانی وجاہت اور دنیا کا اقتدار ہوتا تو ہمیں یہ سعادت نہیں مل سکتی تھی”۔ قدوس بھائی کے والد صاحب کے پاس رحمان ڈکیٹ پہنچا تھا کہ ”میرے سر پر ہاتھ رکھ لو” انہوں نے فرمایا کہ ”دفع ہوجاؤ!تمہارے سر پر شیاطین کا نزول ہورہاہے؟”۔ بینظیر بھٹو پر کراچی میں خود کش حملہ ہوا تھاتو رحمان ڈکیٹ نے ہی بحفاظت پہنچایا تھا۔ قدوس بھائی کہتے تھے کہ لیاری کے بلوچ تمام بلوچوں میں سب سے زیادہ اچھے تھے۔ اقدار کے پابند، قوم پرستی اور تعصبات سے پاک اوربہت ملنسارا ورزبردست روادار لیکن پیپلزپارٹی نے بدمعاشوں اور منشیات فروشوں کی سرپرستی کرکے ان کا بیڑہ غرق کردیا اور حلیہ بگاڑ دیا۔ جس کی وجہ سے لیاری کے لوگ بدنام ہوگئے ۔ قدوس بلوچ کے بھائی وہاب بلوچ لیبر یونین کے رہنما تھے۔ عزیزمیمن اور وہاب بلوچ ایک گروپ میں تھے اور ہمارے دوست محمداجمل ملک پنجابی گروپ میں تھے۔ وہاب بلوچ نے بتایا کہ جب ہمارے گروپ کے دوبندوں کی باہر کے بدمعاشوں سے پٹائی لگوائی گئی تو میں نے لیاری کے مشہورزمانہ بدمعاش رحمن ڈکیت کے باپ دادل سے کہا کہ ہمیں مسئلہ ہے۔ دادل نے کہا کہ آپ نے کبھی خدمت بتائی نہیں ۔ لیاری سے لڑکوں کا ٹرک بھرکر پہنچا دیا۔ مخالفیں سارے بھاگ گئے۔ ایک شخص مل گیا تو اس کی صحیح طریقے سے پٹائی لگادی۔ اسکے بعد رعب جم گیا اور کسی نے الجھنے کی ہمت نہیں کی۔ دادل وہی بدمعاش تھا جس کے ذریعے ذوالفقارعلی بھٹو نے جے رحیم کیساتھ جیل میں بہت برا کروایا تھا۔ عزیز میمن نے بینظیر بھٹو کے جلسوں اورشادی کے اخراجات ککری گراؤنڈ میں اٹھائے تھے۔
حاجی محمد عثمان کے دور میں ایک مرتبہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے کارندوں نے ہمارے ساتھیوں سے لڑائی کی تو دونوں طرف والوں کو لاک اپ میں بند کردیا گیا۔ مخالف جانب سے لشکر جھنگوی کے مشہور زمانہ ملک اسحاق نے رعب جھاڑنے کیلئے کرتب دکھانا شروع کیا تو قدوس بھائی نے اس کو ڈانٹ کر کہا کہ پہلے پنچ بنانا تو سیکھ لو۔ جس کے بعد وہ ایک کونے میں بالکل دُبک کر بیٹھ گیا۔ وہاب بلوچ نے مشہور رہنما سلیم اختر کو مدد کیلئے بھیج دیا تو اس نے کہا کہ قدوس بلوچ کو لاک اپ سے نکلوانے کی سفارش کی لیکن قدوس بھائی نے لاک اپ سے اکیلے نکلنا قبول نہیں کیا۔ بھتیجے کے محسود دوست نے اسلام آباد میں لال مسجد کے غازی عبدالرشید سے پوچھا تھا کہ وزیرستان کے ایک سید عتیق الرحمن گیلانی عالم دین ہیں ،اس کو آپ جانتے ہیں؟۔ اس نے کہا تھا کہ وہ عالم دین نہیں بلکہ کراچی میں نمبر ایک بدمعاش اور غنڈہ گرد ہے۔ ایک مرتبہ جب خانقاہ میں حالات کچھ مخدوش ہوگئے تھے تو قدوس بھائی کے چھوٹے بھائی لیاری سے ایک ٹیم لڑنے کیلئے لائے تھے۔ لیکن اگر ہم چاہتے تو اس وقت مذہبی شخصیات کی کوئی سیکیورٹی نہیں ہوتی تھی اور بہت کچھ کرسکتے تھے مگر کچھ نہیں کیا۔
جب عبدالقدوس بلوچ کی قیادت میں ڈیرہ اسماعیل خان کے اندر ہمارے ساتھیوں پر سپاہ صحابہ والوں نے ڈنڈوں، زنجیروں اور ہنٹروں سے حملہ کیا تو نہتے عبدالقدوس بلوچ نے پہلے مکوں سے کئی افراد کا کام کردیا اور پھر ہوٹل سے لکڑی اٹھاکر ایک کا سر پھاڑ دیا اور باقی سب بھاگ گئے۔ گومل کے رہائشی نے کسی کو بتایا کہ میں نے سوچا کہ اچھا موقع ہے کہ ان لوگوں کو میں بھی ماروں۔ جب مجھے چھوٹے قد کے بوڑھے آدمی نے مکا مارا تو مجھ سے زمین غائب اور آسمان گم ہوگیا۔ درد کی شدت سے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کس طرف بھاگ رہا ہوں۔ قدوس بھائی نے بتایا کہ ایک شخص سرائیکی میں کہہ رہا تھا کہ ”میں کس کو ماروں؟”۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں مارتا تو ایک مکا اس کو ماردیا، جس سے وہ بیہوش ہوکر زمین پر گر گیا۔ اس لڑائی میں عارف بھوجانی، حافظ شاہد جمال اور شاہ وزیر اور دوسرے کئی ساتھی جم کر لڑے اور کچھ ساتھی جوتے چھوڑ کر بھاگ بھی گئے تھے۔ پھر نہ صرف جھوٹی ایف آئی آر درج کروائی بلکہ پولیس کی تحویل میں ساتھیوں کو سپاہ صحابہ والوں نے مارا پیٹابھی ۔ خلیفہ عبدالقیوم کو ہم نے گھر سے اٹھایا اور اسکا اسلحہ خود لے لیا، کیونکہ دہشت گردوں کے آنے سے پہلے اعتبار میں دشمن کو دھوکہ دینا پشتوروایت وحمیت کے خلاف تھا۔سول ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان کی مسجد میں خلیفہ عبدالقیوم کے دوسرے ساتھی بھی پہنچ گئے۔ خلیفہ عبدالقیوم نے بتایا کہ” ہمارے ساتھی استعمال ہوگئے، اصل منصوبہ دوسرے علماء کا تھا۔مجھے آپ سے ملاقات کرنے کا شوق تھا۔دوسرے علماء سے آپ ملتے تھے لیکن ہم سے کبھی ملاقات نہیں کی۔میں آپ کی علمی صلاحیت کا بہت معترف ہوں”۔
میرے سکول کا افتتاح مولانا فضل الرحمن نے کیا ۔ الیکشن میں جلسہ تقسیم انعامات میں سکول کے بچوں کی بہترین کارکردگی دیکھ کر جمعیت علماء اسلام ف اور س کے ضلعی امیروں مولانا عبدالرؤف گل امام اور شیخ الطریقت مولانا شیخ محمد شفیع نے اپنی طرف سے نقد انعامات دئیے اور پھر ٹانک کے تمام اکابر علماء نے ہماری تحریری تائید کی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ علماء نے دیکھ کر کہا تھا کہ اگر یہ ہے تو ہم بھی تائید کریںگے۔ پھر ہم نے ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء کا مشترکہ پروگرام بنایا مگر ڈیرے والے نہیں آسکے اور ٹانک والوں نے بہت کھل کرتائید فرمائی۔پھر سکول کے جلسۂ عام میں ٹانک کے اکابر علماء نے زبردست تائید کی ، جو ماہنامہ ضرب حق میں شہہ سرخیوں کیساتھ بیانات لگے۔ جس سے مولانا فضل الرحمن کے پیٹ میں جلن اور مروڑ پیدا ہواتھا اور اخبار واسکٹ کی جیب میں لیکر اس دن ٹانک کے اکابر علماء کے پاس جاکر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ تم نے ایسی تائید کیوں کی ہے؟۔ جمعیت علماء اسلام کے ضلعی امیر مولانا عبدالرؤف نے کہا تھا کہ ” اگر پیر عتیق الرحمن گیلانی میں کوئی خامی ہے تو مجھے بتاؤ، میں مقابلہ کرونگا لیکن اگر خواہ مخواہ حسد ہے تویہ غلط ہے”۔پھر ایک ایسا وقت آیا کہ مولانا فضل الرحمن نے مولانا فتح خان ،مولانا عبدالرؤفاور مولانا عصام الدین محسود جیسے علماء کو کنارے لگاکر مولوی شریف الدین جیسوں کو قیادت سونپ دی تھی، جس میں چمچہ گیری اور مفاد پرستی کے علاوہ شکل وصورت اور علم وعمل کی کوئی معمولی سی معمولی خوبی بھی نہ تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو مولانا عبدالرؤف نے بجلی کے فیڈر کا افتتاح کرنے سے روک دیاتو مجلس عمل کی حکومت بھی کام نہیں آئی۔
سپاہ صحابہ کے ایک جوشیلے کارکن نے کہا کہ تم شیعہ کو کافر کہتے ہو یا نہیں؟۔ میں نے کہا کہ کفر کی وجہ بتاؤ تو اس نے کہا کہ شیعہ قرآن کو نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ قرآن کو اگر سنی نہیں مانتے تو وہ بھی کافر ہیں۔ پہلے آپس کی نشست ہوجائے کہ قرآن کو وہ نہیں مانتے یا درسِ نظامی میں قرآن کی تحریف پڑھائی جارہی ہے۔ پھر اس پر اتفاق ہوا کہ ایک نشست ڈیرہ اسماعیل خان میں علماء کی رکھیں گے اور پھر مقررہ وقت پر علماء کرام کیساتھ نشست کی فضاء بھی خراب کردی گئی تھی اور پھر فتویٰ لگایا گیا، پھر فتوے لگانے والوں نے معافی طلب کی اور مولانا فضل الرحمن اس کے بعد گھر پر تشریف لائے اور کہا کہ میں ہمیشہ سے آپ کی حمایت کرتا رہا ہوں لیکن حقائق اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے اور عوام کو بھی معلوم ہیں۔ مجھے پیر عبد الغفار ایڈوکیٹ اور جلال محسودکی طرف سے سپاہ صحابہ والوں کو سیدھا کرنے کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے ان کو کاروائی سے روک دیا تھا۔
عبد القدوس بلوچ کی زندگی جدوجہد کا حق ادا کرنے والوں کی قیادت سے عبارت ہے، پاکستان کے تمام صوبوں اور بہت سے شہروں تک پیغام حق کو پہنچایا۔ جماعت کا امیر کبھی کوئی ہوتا اور کبھی کوئی ہوتا تھا اور ایسا بھی ہوا کہ امیر نے عبدالقدوس بلوچ کی جماعت میں روٹی کھانے پر پابندی لگاکر فاقہ کشی کی سزا تک دی ۔ قدوس بھائی نے ساری زندگی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لازوال قربانیاں دی ہیں جو تحریر کے الفاظ میں ہرگز ہرگز نہیں آسکتی ہیں۔ تاہم وہ ایک انسان تھے جس میں غلطی کا امکان نہ ماننا کفر ہے مگر اللہ کی راہ میں جدوجہدکا حق ادا کرنے والے قدوس بلوچ کی شخصیت بہت ہی قابلِ رشک تھی۔ میں نے کئی ماہ پہلے لاعلاج مرض کی خبر سن کر سوگ کے لمحات اس امید سے گزاردئیے کہ جانبر ہوگئے ۔زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے؟
اللہ نے قرآن میں فرمایا :” جدوجہد کرنے والے بعض اپنی قضاء کے ہدف کو پہنچ گئے اور کچھ انتظار میں ہیں”۔ عارف بھوجانی، محمد مالک، چچا اصغر علی،اشفاق صدیقی، چاچا اسرار ، غلام محمد جی ایم ، حنیف رکشے والا ، محمد حنیف نمک والا، ذوالفقار،محمد نعیم، اعظم بلوچ اور دیگر کئی ساتھی داغ مفارقت دے گئے اور ایک ایک کی زندگیاں کردار ہی کردار سے عبارت ہیں اوران کے عجیب واقعات اپنی اپنی جگہ پر بہت بڑی یادگارہیں۔
عبدالقدوس بلوچ ستاروں میں چودھویں کے چاند اور میری جان تھے۔ جماعت کے روح رواں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک آزمائش ان پر ڈالی اور وفات سے پہلے اس کا بوجھ بھی اتاردیا۔ جماعت نے جمہوریت کے طرز پر مشاورت کرکے عبدالقدوس بلوچ کو جماعت کا امیر بنادیا تھا۔ یقینا اس خلاء کو دوسرا ساتھی پورا نہیں کرسکتا ہے اور مجھے اس بات کا پتہ ہے کہ عبدالقدوس بلوچ امارت کا بوجھ اٹھانے پر راضی نہیں تھے لیکن جب خدمت ان پر ڈالی گئی تو انکار بھی نہیں کرسکتے تھے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ ”جو اپنی خواہش سے عہدہ طلب کرکے اس کا بوجھ اٹھاتا ہے تو اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے لیکن جس کی خواہش نہیں ہوتی ہے اور اس پر کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ مدد بھی کرتا ہے”۔ ہمارا ایک ساتھی مختار سائیں جماعت کا امیر بننا چاہتا تھا اور ساتھیوں نے بنادیا۔ پھر تو اس کا وہ حشر ہوا کہ پیروں میں پڑکر معافیاں مانگتا تھا کہ مجھ سے اس بوجھ کو خدا کیلئے ہٹادو۔ میں نے کہا کہ دوسرے امیروں کو آپ نے کم تنگ کیا تھا؟۔ اس نے کہا کہ ”میں بہت کوچڑائی کرتا تھا اور اب بہت بھگت چکاہوں”۔ خلفائے راشدین نے اپنے اور اپنی اولاد کیلئے کبھی بھی امارت کی خواہش نہیں رکھی لیکن جب اپنے اور اپنی اولاد اور خاندان کیلئے امارت کی خواہش کا آغاز ہوگیا تو خلافت کا نظام امارت اور بادشاہت میں بدل گیا۔ ہماری سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ خلافت راشدہ کے طرز پر اپنی جماعتوں کو چلارہے ہیں یا آمریت ویزیدیت کا جھنڈا بلند کررہے ہیں؟۔
عبدالقدوس بلوچ قلیل من الاٰخرینسورہ ٔ واقعہ اور واٰخرین منھم لما یلحقوبھمسورۂ جمعہ کا مصداق تھے۔ امیر حمزہ، حضرت زیداور شہدائے بدر واُحد کی طرح کئی صحابہ نے فتح مکہ کا منظر نہیں دیکھا۔ جسکے بعد دشمنوں کے سردار ابوسفیان، بیگم ہند اور بیٹے معاویہاور حمزہ کے قاتل وحشی نے سرنڈر ہونے کا فیصلہ کرکے اسلام قبول کرلیااور عزت بھی کمائی۔اسلئے ہمارے دشمنوں کوکبھی ہم سے کوئی خوف نہیں کھانا چاہیے۔ ہماری جماعت نے کم تعداد اور کمزور سے کمزور تر ہونے کے باوجود ایک بہت بڑاانقلاب برپا کردیا ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
لوگوں کی راۓ