سیاسی نظام کی اصلاح
جنوری 1, 2017
سب سے زیادہ قابلِ داد وہ سیاسی ورکر ہوتاہے جو غریب کی ہر مشکل میں کام آتاہے، ڈکٹیٹر شپ قوم پر مسلط ہوتی ہے تو یہی ورکر اور رہنما جیلوں کی صعوبت برداشت کرتے ہیں۔قربانیاں دیتے ہیں، عوام کے درمیان رہتے ہیں، جینے مرنے میں ساتھ ہوتے ہیں، باغی کہلاتے ہیں، جیالا اور جنونی کہلانے پر فخر کرتے ہیں ، مخالفین کی طرف سے آسائشوں کی پیشکشوں کوٹھکراتے ہیں اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگاکر نظرئیے ، تبدیلی اور عوامی خدمت کو اپنا مشن بناکر رکھتے ہیں، دوسری طرف سیاسی قیادت کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، ان کا علاج ملک سے باہر ہوتاہے، ڈاکٹروں کی مبہم سی ہدایات پر دنیا بھر میں گھوم سکتے ہیں لیکن پاکستان نہیں آسکتے۔ جھوٹی بیماریاں جھوٹے علاج کرنے والے قائدین کے چاہنے والے غریبوں کو سچ کی بیماری اور سچ کا علاج بھی نصیب نہیں ہوتاہے۔
ایں خیال است و محال است کہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے سے کوئی مثبت اور بنیادی تبدیلی آئے گی۔ قانون بنایا گیا کہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں 15لاکھ سے زیادہ رقم خرچ نہ ہوگی لیکن کیا اس پر عمل درآمد ہوا؟۔ ایاز صادق اسپیکرقومی اسمبلی اسپیکر اور تحریک انصاف کے علیم خان نے15لاکھ کے بجائے 15,15کروڑ کا خرچہ نہیں کیا بلکہ نجم سیٹھی کی بیگم جگنو محسن کے جیو کا پروگرام تھا جس میں50,50کروڑ سے زیادہ خرچہ کرنے کی بات عوام کے سامنے لائی گئی۔ اور جہانگیر ترین کو اس حلقے والے جانتے بھی نہ تھے جہاں سے الیکشن لڑا ، ایک ارب کا خرچہ میڈیاپر بتایا گیا۔ جسکے پاس الیکشن لڑنے کیلئے 15لاکھ روپے ہوتے ہیں وہ غریب اور پسے ہوئے طبقات کا دکھ درد نہیں سمجھ سکتاہے اور جہاں طلال چوہدری دانیال عزیز، جہانگیرترین اور دیگر لوٹے شوٹے قیادت کی آنکھ کا تارا ہوں، ان موتیا کے مریضوں کو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے کبھی نظر نہیں آسکتے ہیں۔ ایک ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو غریب ، قوم اور جمہوریت کی آواز بن کر اُبھرے۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے انتظار میں عمران خان نے اپنا لائحۂ عمل بعد میں دینے کا اعلان کیا،حالانکہ جب پنڈی میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے جلسہ کیا تھا اس کا بھی عمران خان نے انتظار کیا تھا، ڈاکٹر طاہرالقادری کے بعدہی رائیونڈ جانے کا اعلان کیا لیکن فسٹ کزن نے سرخ بتی دکھادی، جب عمران خان نے 2نومبر کا اعلان کیا تھا اور فضا گرم تھی تو پھر بلاول بھٹو نے بھی 7نومبر کا اعلا ن کردیا تھا۔ اللہ خیر کرے کہ چوہدری اعتزاز احسن کو بلاول بھٹو حکم نہ دے کہ پانامہ لیکس میں نوازشریف کے وکیل بن جاؤ، زرداری کو بھی قابل وکیلوں نے بچایا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری کو اردو صحیح نہیں آتی ورنہ اور کچھ نہیں تو نواب شاہ اور لاڑکانہ کے الیکشن کو جیتنے کیلئے شہبازشریف کو پرجوش تقریروں کا حوالہ دیتا کہ ’’ تم نے کہا تھا کہ صدر زرداری کو لٹکا دونگا، اب آؤ، تم زیادہ پکے مسلمان ہو، وعدہ کو قرآن و حدیث کی رو سے پورا کرنا ضروری سمجھتے ہو، پانامہ لیکس سے آلودہ نہیں دامن صاف ہے تو اس جوش کیساتھ خالی تقریر ہی کرکے دکھادو، کہ زرداری کو میں گھسیٹوں گا، پیٹ چاک کرونگا، چوکوں پر لٹکاونگا۔ میں بھی کہتا ہوں کہ کراچی سے جو پائپ لائن قطری گیس کی جارہی ہے، ایران کی سستی گیس کو چھوڑدیا ہے، جس سے عوام کو ریلیف مل جاتی تو اسی پائپ لائن کے اندر دونوں بھائیوں کو ڈال دونگا، بھلے نون لیگی مجھے شائستگی سکھادیں‘‘۔
عبدالحکیم بلوچ نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی، پھر ن لیگ میں وزیرِ مملکت برائے ریلوے بن گئے اور پھر وزارت کو لات مارکر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ انکے حلقہ صالح محمد گوٹھ میں ویرانے کی طرف میمن گوٹھ جاتے ہوئے ایک پرانا کھمبا پڑا ہے، جس کو قانون کے خوف سے چور نہیں لے جاتے مگر ٹانک سے بنوں تک پورا ریلوے ٹریک نوازشریف نے اتفاق کی بھٹی میں ڈال دیا۔ بڑے چوروں نے سیاست کو تجارت بنالیاہے۔درباری ملا دوپیازے ہر دور کے بادشاہوں کو میسر آجاتے ہیں، پاکستان کی سیاست کے فیصلے لندن میں ہوں، لندن میں رہنے والے کریں تو قوم کو کبھی درست سمت نہیں لے جاسکتے۔ جبتک جنرل راحیل شریف سے اہل اقتدار خوفزدہ تھے تو بھارت نے ہمارے معصوم لوگوں کو سرحد پر مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہندوستان سے دوستی ہونی چاہیے لیکن اسلئے نہیں کہ سرحدوں پر بھی دوستی نبھانے کیلئے ٹینشن کا کام لیں۔
پنجاب حکومت نے عوام کو گدھوں کا گوشت کھانے سے بچانے والی عائشہ ممتاز اور سندھ نے ایماندار پولیس آفسر اے ڈی خواجہ کو ہٹادیا۔ پانی سے مالامال اور سستی بجلی پیدا کرکے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے سوئس اکاونٹ اور پانامہ لیکس سے بھی سیاستدانوں کے پیٹ نہیں بھرے اور مخلص ورکروں اور رہنماؤں کا فرض بنتاہے کہ خودہی اپنی اپنی قیادتوں کے خلاف بھی آواز بلند کر دیں۔ سیاست ملازمت کی طرح بن جائے تو پاکستان میں جمہوری کلچر کبھی پروان نہیں چڑھے گا۔
لوگوں کی راۓ