پوسٹ تلاش کریں

Akhtar Khan’s Manzoor Pashtun’s main role in PTM? But then the line was cut. The picture shows some of the documents on which I wrote the five demands with my own hands, which were agreed upon by the twenty-two young men who marched with Manzoor Pashtun after a long discussion.

Akhtar Khan’s Manzoor Pashtun’s main role in PTM? But then the line was cut. The picture shows some of the documents on which I wrote the five demands with my own hands, which were agreed upon by the twenty-two young men who marched with Manzoor Pashtun after a long discussion. اخبار: نوشتہ دیوار

اختر خان کاپی ٹی ایم (PTM) میں بنیادی کردار ؟ مگرپھر لائن کٹ گئی!
تصویر میںکچھ غذات نظر آ رہے ہیںجن پر میں نے خود اپنے ہاتھوں سے وہ پانچ مطالبات لکھے جن پر منظور پشتین کیساتھ لانگ مارچ کرنے والے بیس بائیس نوجوانوںنے طویل بحث کے بعد اتفاق کیاتھا۔

یہ تصویر 30جنوری 2018کی ہے۔اس میں سب سے اوپر عتیق عالم وزیر بیٹھے ہیں۔ انکے بائیں طرف کچھ کاغذات نظر آ رہے ہیںان کاغذات پر میں نے خود اپنے ہاتھوں سے وہ پانچ مطالبات لکھے جن پر منظور پشتین کیساتھ لانگ مارچ کرنے والے بیس بائیس نوجوانوںنے طویل بحث کے بعد اتفاق کیاتھا۔عتیق عالم وزیر سے ہم نے درخواست کی کہ وہ یہ مطالبات سب کو سنائے۔ڈاکٹر سیدعالم محسود اور ڈاکٹر مشتاق بھی موجود تھے۔ڈاکٹر سید عالم محسود نے ذمہ داری لی کہ وہ ان مطالبات کی ایک ہزار پرنٹ کاپیاں نکال لے گااور یہ ہم اسلام آباد دھرنہ کی جگہ پر آنے والے شرکا میں تقسیم کرینگے اور ارادہ کیا کہ ان مطالبات کیلئے نہ صرف اسلام آباد میں دھرنا دیں گے بلکہ تحریک چلائیں گے۔اس رات ہم نے طویل بحث کی۔میں نے منظور پشتین کو اپنے رشتہ دار علی خان محسود کے پشتون قوم پرست نظریات سے بہت متاثر پایالیکن ہم نے اس پہلو پر اتفاق کیا کہ کسی بھی طرح ہم کسی سیاسی جماعت کے کندھے یا سیاسی نظرئیے کو استعمال نہیں کرینگے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کو یہ اجازت دینگے کہ وہ تحریک کے پلیٹ فارم کو اپنے سیاسی نظریات کے پرچار کیلئے استعمال کریںبلکہ جو نوجوان ہماری آواز کو حق سمجھے گا ہم اس کو اپنا دوست سمجھیں گے اور ان نئے نوجوانوں کا ایسا گروہ بنائیں گے جو ریاستی اداروں، پشتون قوم پرست جماعتوں اور پشتون کے مذہبی طبقات کے درمیان پل کا کردار ادا کریں تاآنکہ وہ کسی مصلحت اور نئی اجتماعی ترکیب پر پہنچ جائیں۔
ہم جب اسلام آباد گئے تو وہاں پرہی تحریک کے اغراض و مقاصد سمت اور بیانئے پر رسہ کشی شروع ہوئی۔وزیرستان کے ملکان اور مولوی اس میں پیش پیش تھے لیکن جن نوجوانوں نے پشاور میں ریٹائرڈ پولیس افسر رحمت خان محسود کے گھر پر جو مطالبات لکھے تھے انہوں نے ان ملکان اور مولویوں کو سائڈ لائن کیالیکن اسکے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور پی میپ کے کارکنان نے حتی الوسع کوشش کی کہ منظور پشتین اور اسکے ساتھ آئے ہوئے سکول کالج کے طلبا کو ان مطالبات پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے سو سالہ پرانی لر او بر یو افغان اور لوئی افغانستان اور آزاد پشتونستان کے جذباتی فریبی جگاڑ کی طرف مائل کر لیں۔ پشاور یونیورسٹی گومل یونیورسٹی اور ڈگری کالج ڈیرہ اسماعیل خان کے سابقہ اور موجودہ جتنے صدر صاحبان وہاں آئے تھے انہوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ کسی طرح منظور پشتین کو اختر اور عتیق عالم وزیر سے دور رکھا جائے۔
اسلام آباد دھرنہ کے تیرہ دن بعد23 فروری2018کو منظور مردان میرے گھر آیا ۔ مجھے اپنے ساتھ اٹک لے گیا۔وہاں جمعیت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے ایک امیر محسود تاجر نے منظور کیلئے سابق وزیراعلی اکرم خان درانی کے فارم ہاوس میں بنے ریسٹ ہاوس میں مقامی گلوکاروں کو بلا کر میوزک پروگرام ارینج کیا تھا۔ڈھول کی تھاپ پر منظور پشتین اور ہم اتنڑ کرتے رہے۔رات کو میں اور منظور اور اس کا دوست گفتگو کرنے لگے۔سیاست سے لیکر ذاتی زندگی کے ہر پہلو پر ہم نے تفصیلی گفتگو کی۔منظور پشتین کے پاس تحریک کو آگے لیجانے کیلئے نہ کوئی منصوبہ بندی تھی اور نہ ہی کوئی فکر۔ 30جنوری 2018 کو ہمارے درمیان پانچ مطالبات پر جو فکری ہم آہنگی بنی تھی منظور اس سے کوسوں دور جا چکا تھا۔منظور پشتین لوئی افغانستان اور آزاد پشتونستان بنانے کے بارے میں اتنی لمبی لمبی چھوڑ رہا تھا کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ میرے ساتھ میرے استاد ڈاکٹر فدا کے پاس جائیں۔ عشا کی نماز کے بعد خانقاہ پہنچے۔ ڈاکٹر فدا نے بات سنی اور منظور پشتین سے کہا کہ آپ اور اختر دو دن بعد آئیں، مشورہ کر لیں گے۔ آپ کی آواز ملک کے نظام کو بدلنے سے جڑی ہے۔ اسکے بعد ہم پشاور یونیورسٹی گئے جہاں سوات کے پروفیسر الطاف اور پروفیسر درویش آفریدی نے پشاور یونیورسٹی کے چند پروفیسروں کو اکٹھا کیا تھا۔اس ملاقات میں صمد خان کے پیروکار پروفیسر درویش آفریدی نے مجھے لوئی افغانستان کا دشمن کہا۔ملاقات کے خاتمے پر میں نے منظور پشتین سے کہا کہ درویش آفریدی کی گفتگو سے آپ نے کیا اخذ کیا؟ تو منظور پشتین نے مجھے کہا کہ درویش آفریدی نے جو کچھ کہا اس کا سادہ الفاظ میں خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ اختر کو اپنے آپ سے دور نہیں کرتے تو ہم تمام لوئی افغانستانی اور آزاد پشتونستانی آپ سے دور رہیں گے۔
اسکے بعد منظور پشتین نے تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل اور خط حرکت کو پی میپ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سابقہ اور موجودہ پارلیمانی غیر پارلیمانی کارکنوں اور بھگوڑوں جیسے ڈاکٹر سید عالم محسود، علی وزیر، محسن داوڑ، عبداللہ ننگیال، گل مرجان وزیر ،پروفیسر درویش آفریدی، رضا وزیر وغیرہ وغیرہ کے حوالے کیا. 2018 کے پشاور جلسے میں ڈاکٹر سید عالم محسود نے ان کو دوئم احمد شاہ ابدالی کا خطاب دیا۔ سب نے منظور پشتین میں ایک ایسا غبار بھروا دیا جس سے منظور پشتین کو یہ احساس دلایا گیا کہ پانچ مطالبات کو چھوڑو، تم اتنے بڑے لیڈر ہو کہ جس لوئی افغانستان کو احمد شاہ ابدالی نے بنایا اور جس کو حاصل کرنے میں باچاخان اور صمد خان جیسے پشتون رہنماوں نے زندگیاں برباد کیں لیکن حاصل نہ کر سکے۔ تم اس لوئی افغانستان کو بنانے میں کامیاب ہو جاو گے…….
جولائی2018 کے الیکشن کے بعد منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ پانچ مطالبات کو بھول گئے ۔پاکستان میں بیٹھ کر موجودہ امریکہ نواز قوم پرست افغانستان اور افغان رہنماوں اشرف غنی، کمیونسٹ رہنما جبار قہرمان، قندہار کے را انوار اچکزئی کے ترجمان بنے۔منظور محسن امریکہ نواز افغانستان اور افغان رہنماوں کے حق میں ٹویٹس اور پوسٹ کرنے لگے۔پی ٹی ایم کے جلسوں میں افغانستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔ ڈاکٹر نجیب کے پوسٹر آویزاں کئے گئے۔ یورپ اور امریکہ میں پناہ گزین افغانوں کو پی ٹی ایم کے حق میں ریلیاں اور جلوس نکالنے پر لگایااوروہاں ریلیوں میں افغانستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔ افغانستان کے باشندے ریلیوں سے خطاب کرنے لگے۔پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔یورپ اور امریکہ سے لاکھوں کروڑوں روپے چندے کی مد میں وصول کیے گئے لیکن اسکا کوئی شفاف طریقہ کار نہ تھا اور نہ اب ہے۔پی ٹی ایم کے اندر جو جتنا طاقتور ہے اس نے اس میں اپنی نظریات والی دوکان کھول لی،پی ٹی ایم کے اسٹیج سے ایسا بیانیہ جاری ہوا جہاں پشتون قوم کے اندر جمعیت علما اسلام، تحریک انصاف اور مسلم لیگی ذہنیت والے پشتونوں کی تضحیک کی گئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے مرکزی کرداروں منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ نے حالات کی غلط تشخیص کی اور غلط راہ پر چلنے لگے۔
تینوں کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے قبائلی علاقوں کے عوام کو تحریک کے مطالبات کے اردگرد منظم کرتے، پشتون قوم پرست جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتے، پھر تحریک انصافی اور مسلم لیگی اور جمیعتی پشتونوں کو قائل کرتے اور پاکستان کی باقی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے فعال اراکین سے رابطے بناتے اور اپنی آواز مستحکم کرتے اور پشتونوں کیساتھ ساتھ ملک کے باقی عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بنتے لیکن منظور علی اور محسن اپنے پشتون قوم پرستانہ تعصبات، کم علمی اور کم عمری کے باعث ایک ایسے راستے پر چل نکلے جہاں وہ نہ صرف آپس میں تینوں گتھم گتھاہیں بلکہ انہوں نے جمعیت علما اسلام، تحریک انصاف اور مسلم لیگی ذہنیت والے پشتونوں کو تو چھوڑیں، پی میپ اور عوامی نیشنل پارٹی سے جڑے پشتونوں کو بھی متنفر کرنا شروع کر دیا۔ایسے میں پنجاب یا سندھ کا کوئی بندہ منظور علی محسن یا پی ٹی ایم کے ساتھ کیوں ہمدردی رکھے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟