منظور پشتون ،خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لو!
مارچ 16, 2018
علامہ اقبال ؒ نے شکوہ میں بندے کی طرف سے شکوہ لکھتے ہوئے یہ جملہ لکھ دیا تھا اور پھر جوابِ شکوہ بھی لکھا تھامگر عام طور سے لوگ اس کو شکوہ، جوابِ شکوہ کے بجائے پہلے تعریف اور پھر خوب تنقید کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ میرا مقصد تنقید کرنا بھی نہیں ہے۔ البتہ جب انسان اللہ کے سامنے سجدہ کرتا ہے تو اپنی چوتڑوں کو آسمان کی طرف اٹھالیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسری قوموں کے نزدیک یہ بڑی بدتمیزی بھی ہو لیکن عبادات کا منہاج سب کا اپنا اپنا ہے۔ میں جرمنی میں کسی گرجا میں گیا تاکہ ان کے طریقۂ تعلیم وتربیت اور عبادت کو دیکھ لوں۔ وہاں مجھے ٹوپی کو اتارنے کا کہا گیا اور یہ شاید ان کے بے ادبی ہو۔ ہمارے ہاں ننگے سر کو باز لوگ ادب کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ حج وعمرے میں احرام کی حالت میں بھی سر ننگا ہوتا ہے ۔ چین میں گیا توثناخوانِ تقدیس مشرق کے حامل بدھ مت مذہب کے افراد کو قبر یا قبر نما علامت پر سجدہ ریز ہوتے دیکھا۔ ہزار سال قبل ایک عربی عالم ابوالعلاء معریٰ گزرے ہیں جس نے اعلیٰ درجے کی صلاحیت پانے کے بعد ایک مایوسی کی زندگی کا آغاز کیا ۔ تمام مذاہب کو بشمول اسلام کے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے نام پر علامہ اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں اس میں ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ کا ترانہ ہے۔ ابولعلاء معریٰ نے لکھا ہے کہ ’’ تمام قومیں ایک طرح کی ہیں ۔ یہود کہتے ہیں کہ خون بہانے سے ہماری مغفرت ہوگی۔ نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا مظلوم ہے اور مسلمان دور دور سے سفر کرکے پتھر مارنے اور چومنے کیلئے آتے ہیں‘‘۔ الحاد کی بنیاد بھی اسی شخص نے ہزار سال قبل رکھی تھی۔وہ کہتا تھا کہ ’’ انسان حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت کے مطابق نسیان سے ہے جس کا معنیٰ بھولنا ہے۔ حضرت آدمؑ کو جس درخت سے منع کیا تھا ، وہ اس حکم کو بھول گئے اور پھر جب زمین پر اتارے گئے تو جنت کی زبان عربی بھی بھول گئے۔ پھر ایک دور کے بعد زمین میں پھر سے یہ زبان وجود میں آگئی ہے‘‘۔
وزیرستان کے لوگ بہت آزاد منش تھے۔ زام پبلک سکول کے معروف ٹیچر عارف خان محسود نے وزیرستان پر باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں۔ ایک زمانہ میں آپ پکے کیمونسٹ تھے۔ وزیرستان کے مرکز میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں ہاتھ اٹھا رہا ہوں اگر اللہ ہے تو میرے ہاتھ کو نیچے کرکے دکھادے، جب اللہ کا چہرہ ، اس کی ناک ، کان ، ہاتھ پیر اور کچھ بھی نہیں تو یہ ایک بوتل ہے‘‘۔ اس گستاخانہ تقریر پر لوگوں کے ہاتھ اپنے کانوں تک گئے مگر عارف خان محسود کو کسی نے گریبان سے پکڑنے کی جرأت نہیں کی، یورپ وامریکہ میں بھی آزادی کا یہ تصور نہیں تھا جو وزیرستان میں تھا، پھر عارف خان کو بعد میں فالج کا اٹیک ہوا جسکے بعد خودہی سچی توبہ کرکے سچے اور پکے مسلمان بن گئے۔ میرے خلاف کئی انواع واقسام کے غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈے کئے گئے لیکن کسی نے میرا راستہ نہیں روکا۔ پاکستان بھر کے علماء اور ٹانک کے سارے اکابر علماء میرے حامی تھے لیکن جب طالبان نے زور پکڑا تو ایک سے ایک شریف انسان کوشہید کردیا۔
مجھے میرے ایک بھائی نے کہا کہ’’ آپ جرأت کرلو اور ان دہشتگردوں کے خلاف کھڑے ہوجاؤ‘‘ میں نے کہا کہ مجھے پہلے اپنے بھائیوں کیخلاف جہاد کرنا ہوگا جو طالبان کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ جب میرے تعلیم یافتہ بھائی بھی طالبان کی حمایت کررہے ہیں تو زانگڑہ کے وہ محسود جنہوں نے سڑک تک نہ دیکھی ہو اس بین الاقوامی سازش کو کیا سمجھ سکتے ہیں؟۔ انہوں نے میری بات کو درست قرار دیدیا۔ ہمارے گھر میں 13 افراد کی شہادت سے پہلے مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ میرے بھائی اور عزیز وپڑوسی جان پر کھیل کر مجھ تک پہنچ گئے اورمجھے بحفاظت گھر تک پہنچادیا۔ اسکے بعد سے جب تک واقعہ نہیں ہوا تو ہم لوگوں نے خود ہی طالبان کو اپنے ہاں رکھا ہوا تھا۔ ٹانک شہر میں راکٹ لانچروں و میزائلوں کے حملے ہورہے تھے تو طالبان ہمارے ہاں پراٹھے کھاتے تھے۔ حادثہ میری وجہ سے ہوا یا یہ عوام کی بددعاؤں کا نتیجہ تھا ؟۔ اس کا جواب کسی موقع پر ملے گا۔
تحریک انصاف کے سرگرم کارکن اور آئی ایس آئی کے ایک موجودہ بریگیڈئر کے بھائی گلشا عالم خان برکی کو راستے میں دن دہاڑے طالبان نے اغوا کیا جس کا آج تک کوئی اتا پتہ نہیں چل سکا۔ کانیگرم کی برکی قوم نے جلوس کی شکل میں جاکر بیت اللہ محسود و غیرہ سے پوچھا لیکن انہوں نے اپنی لا علمی اور لا تعلقی کا اظہار کیا۔ کوٹکئی جنوبی وزیرستان کے ملک خاندان محسود اور وانہ کے مرزا عالم وزیر کو شہید کردیا گیا تو بہادر محسودوں نے دُم گھسیڑی ہوئی تھی۔ شکئی کے قاری حسن وزیر کو شہید کیا گیا تو ان کی مسجد کی بیٹھک میں ایک شہید صحافی غالباً میر نواب کے چچا کا کہنا تھا کہ وزیر تو شروع سے بے غیرت ہیں مگر محسود جو گالی پر قتل کردیتے تھے وہ بھی سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں کو بند کررہے ہیں۔ انسان غلطی کا پتلا ہے اور پاک ذات صرف رب کی ہے جونہ کھاتا ہے اور نہ پیشاب اور پوٹی کرتا ہے۔ اس کو سجدہ کرنے کا فائدہ اس وقت ہے جب انسان صدق دل سے صرف اسی ہی کو سبحان ربی الاعلیٰ اور سبحان ربی العظیم پکارے اور خود کو نہ سمجھے۔
انسان کے پاس دکھانے کیلئے چہرہ ہے جس سے وہ دیکھ اور بول سکتا ہے۔ اور اس کے پاس چوتڑ بھی ہے جس کو جائے ضرورت میں چھپا کر کھولتا ہے ۔ فوج ہو یا پختون قوم سب نے اپنی اپنی جگہ بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں اور اگر صرف اور صرف دوسرے کے عیوب کو آشکارا کیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ وہ لوگ بھی ہیں جو اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ نقیب اللہ محسود اور راؤ انوار کا قصہ کوئی ڈرامہ نہ ہو جس کو بڑے پیمانے پر اچھالا گیا ۔ ڈان نیوز کے وسعت اللہ خان نے اپنے پروگرام میں ڈان اخبار کی رپورٹ بتائی کہ جہاں نقیب دکان خریدنا چاہتا تھا اس کی مالیت 3 کروڑ تھی ۔ نقیب 90لاکھ دے چکا تھا اور بقیہ رقم کیلئے اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ورثا کو دکھانے کے لائق نہیں رہا تھا تو اس کو پولیس مقابلے کے نام پر قتل کیا گیا۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ طالبان لڑکوں کو بھی بد فعلی کیلئے اپنے پاس رکھتے تھے۔ جن غریبوں کے پاس صبح شام کا کھانا نہ ہوتا تھا ان کے پاس جو اتنی بڑی دولت آئی تھی جس کا خمیازہ پاکستان بھر کے لوگوں کے علاوہ خود پختون قوم کو بھی خود کش ، بھتہ خوری، چوری اور سینہ زوری کی صورت میں بھگتنا پڑتا تھا۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھی چوہدری افضل حق ؒ نے ’’حسن لا زوال‘‘ کے عنوان سے ایک قصہ لکھا ہے جس میں ایک کردار کو بھیانک پیش کیا جاتا ہے تو لوگوں کو اس کی شکل بھی منحوس لگتی ہے اور پھر منظر بدلتا ہے اور اس کو معصوم بنا کر پیش کیا گیا تو لوگوں کو وہ خاتون فرشتہ صفت دکھائی دینے لگی۔ اللہ خیر کرے۔
لوگوں کی راۓ