پوسٹ تلاش کریں

پشتون قوم اورعالمی حالات میں پاکستان کی صورتحال پر دیانتدارانہ تجزئیے کی کوشش!

پشتون قوم اورعالمی حالات میں پاکستان کی صورتحال پر دیانتدارانہ تجزئیے کی کوشش! اخبار: نوشتہ دیوار

پشتون قوم اورعالمی حالات میں پاکستان کی صورتحال پر دیانتدارانہ تجزئیے کی کوشش!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی اور انگریز کیلئے بڑا دردِ سر رنجیت سنگھ تھا۔ خیبر پختونخواہ پنجاب کا حصہ تھا۔ سیداحمد بریلوی اور شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے خلافت کا خواب دیکھا تو انگریز نے اس کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ اسلئے کہ خراسان کے مہدی کی خلافت قائم کرنے میںوہ کامیاب ہوتے یا نہیں لیکن راجہ رنجیت سنگھ کو نقصان پہنچاسکتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے یہ خواہش بالاکوٹ کی سرزمین میں دفن کردی اور یہ نظریہ ٔپاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ ہندوستان سے خلافت کیلئے ہجرت کرنے والوں نے اپنی بیگمات و بچے سندھ میں چھوڑے تھے اور کیا پتہ کہ کراچی رنچھوڑ لائن کا علاقہ اسی لئے مشہور ہو کہ لوگ اپنی رن یعنی بیگم چھوڑ کر اطمینان سے جہاد پر جاتے ہوں۔ ایم کیوایم کی تحریک زوروں پر تھی تو رنچھوڑ لائن والوں نے کافی عرصے تک اپنے علاقے میں گھسنے نہیں دیا تھا۔
پختون قوم پرستوں میں غفار خان اور عبدالصمد خان نمایاں ہیں، دونوںکا تعلق کانگریس سے تھا۔ تحریک بالاکوٹ سے تعمیر پاکستان اورروس سے امریکہ تک کے مجاہدین کے خلاف رہے۔ انگریز دور میں علماء نے فتویٰ دیا تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور جو ہجرت نہ کرے گا ،اس پر بیوی حرام ہوجائے گی تو غفار خان نے کہا کہ اس فتوے کی وجہ نہ صرف ہم نے افغانستان ہجرت کی بلکہ ہماری بیویاں بھی ہم سے آگے آگے بھاگ رہی تھیں۔ افغانستان کی ہجرت ناکام ہوگئی تو علماء کے فتوے بھی ناکام ہوگئے۔ ملاعمر کے اسلام سے آج طالبان منحرف ہیں لیکن ملاعمر کا اسلام پہلے بھی متضاد تھا اور آج بھی قابلِ عمل نہیں ۔
پاک فوج راجہ رنجیت سنگھ کی فوج سے زیادہ مضبوط ہے۔ طالبان کا یہ گھمنڈ ہے کہ نیٹو جیسی طاقت کو شکست دی تو پاکستان کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ انگریز نے دی پٹھان میں لکھا ہے کہ” وزیرستان پر کبھی بھی کسی نے حکومت نہیں کی ہے اسلئے کہ حکومت کا کام ٹیکس وصول کرنا ہوتا ہے اور وزیرستان کے لوگوں نے کبھی کسی حکومت کو ٹیکس نہیں دیا ہے”۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیرستان میں اتنے بڑے پیمانے پر اناج اور وسائل نہیں تھے کہ کوئی حکومت قبضہ کرکے ٹیکس کا حصول یقینی بنانے کی تگ ودو میں اپنا وقت اور فوجیوں کو ضائع کردیتی۔
ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ برطانیہ اور افغانستان کے درمیان بعد میں ہواتھا۔ پہلے ایک طرف قبائل نے انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور دوسری طرف وہ خود کو افغانستان کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ افغانستان کی حکومت نے قبائل سے مدد ضرور لی ہے لیکن قبائل کو افغانستان کا باقاعدہ حصہ کبھی نہیں سمجھا ہے۔ انگریزی سرکاری رپورٹ اور ہمارے خاندانی ذرائع سے یہ معلومات کہ ”میرے دادا سیدامیرشاہ اوردومحسود قومی نمائندے گئے اور افغانستان کے بادشاہ امیر شیرعلی سے انگریز کے خلاف ایکدوسرے کیساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا اور افغانستان کے بادشاہ نے کانیگرم میں آسمانہ منجہ کے مقام پردفاعی قلعہ کی بھی اجازت مانگی تھی”۔ کسی ایک ملک کے افراد میں اس طرح باہمی تعاون کا معاہدہ نہیں ہوتا۔ پھر میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمدشاہ کی قیادت میں بیٹنی قبائل کاوفد بھی افغانستان گیا اور وہاں سے تحائف، نقدی بھی دئیے گئے۔ جب امیر امان اللہ خان کے خلاف بغاوت ہوگئی اور بچہ سقہ نے حکومت پر قبضہ کیا اور پھر وزیرستان کے قبائل نے بچہ سقہ کے خلاف لشکر بھیجا جس پر انگریز نے بمباری بھی کی اور1937کے زمیندار اخبار میں اس پر تبصرے ہوئے۔ امیرامان اللہ خان کی جگہ اس کے کزن نادر خان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور حکومت پر قبضہ کرلیا جو ظاہرشاہ کا باپ تھا۔ جب امیر امان اللہ خان کے بھائیوں کی طرف سے نادرشاہ خان کاتختہ الٹنے کی سازش کا انکشاف ہواتو سیدایوب شاہ عرف آغا ولد سیداحمد شاہ کو توپ سے اُڑانے کاحکم سنایاگیا اور بعد از آں افغانستان سے ہمیشہ کیلئے جلاوطن کردیا گیا،جو افغانستان میں پہلے اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے۔
سرحدکے گاندھی اور بلوچستان کے گاندھی متحدہ ہندوستان کا حصہ رہنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن جب پاکستان بن گیا تو پھر افغانستان سے ملنے کی دھمکی ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ ناراض بلوچوں سے ناراض پختونوں کے قائدین بھی پہلے سے موجود تھے لیکن بلوچ بندوق اٹھانے میں جلد بازی کا مظاہرہ روایتی طور پر کرتے ہیں۔ پختون طالبان بھی بنتے ہیں تو ایک طرف قطر میں مذاکرات اور دوسری طرف نیٹو سے افغانستان میں لڑائی کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ کوہِ سلیمان میں سلمان تخت کے قریب قیس عبدالرشید کی قبر ہے اور اس پہاڑ کا نام بھی ”قیسے غر” یعنی قیس کا پہاڑ ہے۔ فتح مکہ میں پختون قبائل نے اہم کردار ادا کیاتھا ۔ خالد بن ولید کا تعلق در اصل بنی اسرائیل سے تھا اور پختون بھی بنی اسرائیل تھے۔ سلیمان تحت کے ارد گرد شیرانی قبیلہ آباد ہے اور مولانا محمد خان شیرانی اورشیرانی قبیلے نے تحریک طالبان کو اپنے ہاں گھسنے نہ دیا ۔ مولانا شیرانی کہتے تھے کہ اغیار کی اس جنگ کا مقصد مسلمانوں ، پشتون اور خطے کا کباڑہ ہے۔ پاکستان کرائے کا وہ چوک ہے جس میں سیاستدان بھی کرائے پر ملتا ہے، مجاہد اور صحافی اور مفتی بھی کرائے پر ملتا ہے اور فوج اور حکومت بھی کرائے پر ملتی ہے۔ جیسے مزدور اپنے اوزار لیکر چوک پر موجود ہوتے ہیں۔
جب امریکہ افغانستان میں اترنے کیلئے شمالی اتحاد سے مدد لے رہاتھا تو مولانا معراج الدین قریشی محسود قبائلی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے افغانستان پہنچا تھا۔ وہاں سے واپسی پر وہ طالبان اور افغانیوں سے سخت ناراض تھے اور اس خدشے کا اظہار کرتے تھے کہ یہ بڑی گیم ہے جس کا طالبان بھی حصہ ہیں۔ جب مجھ پر فائرنگ ہوئی تو اس سے پہلے بھی مولانا معراج الدینMNAاور مولانا صالح شاہ سینیٹر نے طالبان کو سازش قراردیا اور پھر مولانا معراج الدین نے مجھ پر فائرنگ کے بعد کہا تھا کہ مولانا شیرانی صاحب نے مولانا فضل الرحمن سے پوچھا تھا کہ ”یہ معلوم کیا جائے کہ امریکہ کی آخری منزل کیا ہے؟”۔ آج صورتحال تبدیل ہوگئی ہے ۔ امریکہ اور طالبان کی ڈیل ہوگئی ہے۔ جب قبائل خود مختار تھے توپھر افغانستان تو بہت دور کی بات ہے ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی حدود پر قبضہ اور جرائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن اب عوام بھی بے اختیار ہوگئے ہیںاور حکومت بھی اپنی رٹ وہاں قائم نہیں کرسکی ہے۔ نیازی نسلاً پٹھان اور سرائیکی زبان بولتے ہیں جس کی وجہ سے سب کیلئے درمیانی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمران خان نیازی اپنے والد سے زیادہ اپنی والدہ شوکت خانم برکی پر نازکرتا ہے لیکن اس کی والدہ جالندھر بھارتی پنجاب سے تعلق رکھتی تھی اسلئے عمران خان کبھی خود کو قبائل کانیگرم جنوبی وزیرستان کے برکی قبیلے کا بھانجا کہتا تھا اور کبھی خود کو ماں کی وجہ سے آدھا مہاجر کہتا تھا۔ کرکٹ میں بینٹنگ اور بالنگ کے علاوہ آوارہ گردی اور شوکت خانم کے نام پر چندوں کا تجربہ بھی رکھتا تھا۔ سیتاوائٹ، جمائماخان، ریحام خان کے ناکام تجربات کے بعد بی بی بشریٰ سے شادی رچائی ہے۔ عوام نے اس کی شہرت اوربونگی مارنے پر اعتماد کرکے ووٹ دئیے لیکن جسٹس وجیہ الدین، جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، افضل چن سے لیکر حفیظ شیخ اور شہزاد اکبر تک پتہ نہیںکہ لباس مکمل ہے یا اس حمام میںچڈی اُترچکی ہے؟۔ پیرنی کا گھر اُجاڑ دیا اورمدینہ کی ریاست کے نام پر ملک کو تباہ کردیا۔
میاں نوازشریف کا پارلیمنٹ میں بیان اور قطری خط تک کی داستان سامنے ہے۔ پیپلزپارٹی بھی حقیقی بھٹوز اور نظریاتی لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر زرداری آپاؤں کی چنگل میں ہے۔ میڈیا کاروباری ہے۔ اگر منظور پشتین محسن داوڑ اور علی وزیر کو الیکشن میں حصہ لیتے ہی پارٹی قیادت سے ہٹادیتے اور خان زمان کاکڑ کو متوازی حیثیت دیدیتے تو پھر خیبر پختونخواہ اور بولان میںPTMایک مضبوط قوت بن کر ابھرتی۔ اب کالے تیتر کی طرح دوسروں کا شکار ہونے کیلئے ”سبحان تیری قدرت” کہہ سکتے ہیں لیکن کالے عقاب کی طرح کالی چٹانوں پر بیٹھ کر شکار نہیںکھیل سکتے ۔ ہماری حکومت وریاست کوTTPسے خطرہ لگتا ہے لیکن ابPTMسے خطرہ نہیں۔ جب لوگ طالبان کوانبیاء کی طرح مقدس اور فرعون کی طرح طاقتور سمجھتے تھے تو بھی ہم نے ان کے غلط تقدس اور غلط خوف کو بڑے اچھے انداز میں پامال کرکے رکھ دیا تھا۔ آج تو انقلاب آچکاہے کہ وہی لوگ ان سے خوف بھی نہیں رکھتے اور تقدس کا درجہ بھی نہیں دیتے ۔ اگر پاکستان کاقومی ترانہ زبردستی سے گانے اور مخصوص لباس پہننے پر انہیں سرنڈر کرکے مجبور کیا جائے تو ان کا دل ودماغ جبر سے نہیں بدل سکتا ہے لیکن جب اسلام کی حقیقت اور پشتو روایت کی حقیقت سمجھائی جائے تو ان کا ذہن بدل سکتا ہے۔PTMنے بہت کام اس طرح سے کیا کہ عوام کو اپنی رسم وروایت کی طرف راغب کرکے تشدد سے نکال دیا لیکن تعصبات پھیلانے والے خود شکار ہوگئے اور اب محسن داوڑ اور عبداللہ ننگیال مخالف صفوں میں کھڑے ہوگئے ہیں۔
ایسی تحریک کی ضرورت ہے جہاںعوام کے دل ودماغ میں مذہب کا غلط بھوسہ یاغلط فہمی پیداکی گئی ہے اس کی جگہ اسلام کی لہلہاتی ہوئی کھیتی سامنے لائی جائے۔ جس سے پاکستان بلکہ افغانستان وایران میں بھی پھلوں اور پھولوں کی بہار آئے۔ پھر عرب بھی اس بہار سے فائدہ اٹھائیں گے، پوری دنیا بھی اسلامی بہار سے استفادہ کرے گی۔ اسلامی خلافت کسی سے اختیار چھین لینے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنا اختیار درست استعمال کرنااور اپنا فریضہ پورا کرنا حقیقی خلافت ہے۔ رسول اللہ ۖ نے بادشاہوں کے نام خطوط لکھے تھے تو ان میں دھمکی نہیں دعوت تھی۔ اگر حق کو قبول کرکے ظالمانہ نظام کو ختم کرتے تو نبیۖ نے ان سے اقتدار چھین کر اپنے ساتھیوں کے حوالے نہیں کرنا تھا۔
آج دنیا میں حقیقی جمہوریت نہیں بلکہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے اقتدار میں لوگ اپنے مفاد کیلئے آتے ہیں۔ عمران خان اتنا کم عقل تھا کہ جب فوج ضرب عضب کے نام سے طالبان کے خلاف آپریشن کررہی تھی تو وہ پنجاب پولیس کو اسلام آباد دھرنے سے طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ بابا فرید گنج شکر کے مزار پر حاضری دی تو راہ گیروں کے پیروں کی جگہ راہداری کو بوسہ دے دیا۔ کھلاڑی کو تصوف، سیاست، جہاد اور کسی چیز کا بھی کبھی ڈھنگ نہیں آیا۔ البتہ لوگ پھر بھی خوش اسلئے ہیں کہ سیاسی ڈھونگ رچانے والی جماعتوں کا پول کھول دیا۔ اللہ نے کوئی مکھی بھی بے فائدہ پیدا نہیں کی ہے تو ایک اہم ملک پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کے قائد اور وزیراعظم سے کوئی نہ کوئی خدمت تو ضرور لینی تھی۔ بے شرموں کا مقابلہ بے شرمی سے کیا جاسکتا تھا۔
پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہندوستان، اسرائیل، امریکہ، ایران اور افغانستان سے اسکے خلاف محاذ کھڑا ہوجائے تو نیست ونابود ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یمن میں حوثی باغیوں کے پیچھے ایران ہے اور اسلامی ممالک کے نیٹو کا سربراہ جنرل راحیل شریف ہیں۔ یمن میں عوام تباہ ہیں۔ یوکرین پر روس قبضہ کے چکر میں ہے۔ دوسری طرف امریکہ و نیٹو روس کے خلاف کھڑے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف قتل عام کی علامات پوری ہیں۔کردوں اور داعش کے درمیان پھرقتل وغارت کیلئے بین الاقوامی ایکٹرز سرگرم ہیں ۔ پاکستان کے خلاف بھی اندرونی اور بیرونی سازشیں اپنا کام دکھا سکتی ہیں۔ اپنی تباہی کیلئے ہمارا اپنا ہوم ورک بھی کافی ہے۔ دنیا میں قتل وغارتگری شروع ہونے سے پہلے پاکستانی ریاست کو بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام قاری محمد طیب کی طرح مدارس ومساجد، فوجی بیرکوں، قلعوں اور کینٹ ایریاز میںپھر بے بسی کے عالم میں اس قسم کی نعت پڑھنے کی محفلیں سجانے لگ جائیں اور پھر اس کا کوئی فائدہ بھی دکھائی نہیں دے۔
باچا خان سے گاندھی جی نے کہا تھاکہ اپنی پختون قوم پر محنت کریں ۔جس کے جواب میں باچا خان نے کہا کہ آپ میرے ساتھ بازار چلیںاور ایک ہندو موچی کے کیلوں کا برتن ٹھوکر سے بکھیر دیں۔ گاندھی نے ٹھوکر ماری تو ہندو غصہ ہوا لیکن جب اس کو تعارف کرایا کہ گاندھی جی ہے تو ہاتھ جوڑ کر گستاخی پر معافی بھی مانگ لی۔ پھر آگے چل کر باچا خان نے پختون موچی کے کیلوں کوٹھوکر مار کر گرایا تو پختون موچی نے کہا کہ ایسا کیوں کیا؟۔ باچا خان نے کہا فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کیلئے ہے ،آپ کے ٹھئے لگانے کیلئے نہیں۔ غلطی سے پیر لگ گیا تو کیا ہوا؟۔ میںپختونوں کا اتنا بڑا لیڈر باچا خان ہوں۔ پٹھان موچی نے کہا کہ فٹ پاتھ پر سب ٹھئے لگاتے ہیں اور آپ جو بھی ہیں، اپنی غلطی کا ازالہ کریں اور کیلیں اکٹھی کرکے دیدیں۔ باچا خان نے گاندھی سے کہا کہ یہ ہماری قوم کا حال ہے۔ باچا خان اور گاندھی دونوں نے قوم کے جوہر آزادی کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ ایسی قوم اور اس کے جذبات سے دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے لیکن غلامی کے خوگر ہندو اور آزادی کے پاسبان پختون قوم کے جوہر کو سمجھا نہیں گیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پٹھان موچی معروف شاعر حبیب جالب کے والد ہوںجو میانی پٹھان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ ہمارے گومل میں میانی قوم کے افراد بھی سفید نہیں سانولے رنگ کے ہیں اور شکلیں بھی حبیب جالب سے ملتی ہیں۔ ہمارے ایک پڑوسی شاعر حبیب آباد نے بھی پشتو میں آزادی کی بڑی زبردست غزلیں گائی ہیں۔ اس کے کچھ اشعارارود ترجمہ کیساتھ ہم نے شائع بھی کئے تھے۔
جالب نے جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق سب کیخلاف آواز اٹھائی اور آخر میں نوازشریف، شہباز شریف اور بینظیر بھٹو کو بھی نہیں چھوڑا لیکن اعتزاز احسن نے جھوٹی وکالت کرکے روایتی پنجابی ہونیکا ثبوت دیا کہ ”بی بی جالب نے آپ کی تعریف کی ہے”۔ قابل خوشامدی ٹولہ ہمیشہ قومی قیادت کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے۔ پختونوں سے اس وقت دھوکہ ہوا تھا جب بلوچستان میں سردار مینگل اور سرحد میں مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ جو اسلام ، جمہوریت اور پشتو کے لحاظ سے غلط تھا۔ قائداعظم اور قائدملت کی طرح باچاخان و اچکزئی خاندان کا بھی غریب عوام سے فاصلہ تھااور مولانا فضل الرحمن نے بھی اڑان بھری ہے۔ اسلامی انقلاب کیلئے طبقاتی تقسیم کے بجائے نظام کی تبدیلی بہت ضروری ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟