پانامہ لیکس کاکورٹ میں کیس اور اشرف میمن کی طرف سے تبصرہ
فروری 14, 2017
نوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا : روزروزپانامہ پر تبصرے ، بچہ بچہ جانے ہے مگر جج اور جیو نہ جانے، شف شف چھوڑو، شفتالو بولو۔ دماغ کی دہی بنی، رومانس کے بجائے رومینٹک کی کیفیت ہے، سیاستدان سے زیادہ وکیل منافق ہے، صحافی نے وکیل کو مات دیدی ہے۔ لطیفہ ہے کہ عیارنے لوگوں کو ورغلایاکہ مہینہ تک میری ہر فرمائش پوری کردو، تویہ پہاڑ کواٹھا کر دوسری جگہ لے جاؤنگا، مہینے بعد عوام سے کہہ دیا کہ میں پہاڑ کے اس جانب بیٹھ جاتا ہوں اور تم دوسری جانب سے زور لگاؤ، جب لدوا دوگے تو میں اس کو یہاں سے بہت دور لے جاؤں گا۔ عوام کوبہت ہی امید تھی کہ یہ تماشہ دیکھیں گے ، کھلاتے پلاتے خوار ہوچکے، سادگی میں پہاڑ کو لدوانے پر خوب زور لگایا۔ شام کو تھک ہار کر ناکام ہوگئے تو معذرت کرلی کہ آپ نے وعدہ پوراکیا ،اٹھانے بیٹھ گئے مگرہم نہ لدواسکے ‘‘۔ ججوں نے فیصلہ کرنا ہوتاتواصغر خان کیس پر کیا ہوتا۔وہ شیخ رشید ، سراج الحق کو بھی دھمکائیں۔
مجیب الرحمن شامی جاویدچوہدری ،جاوید ہاشمی اور جیوکے ضمیر بھی قوم کے سامنے آئے ، رؤف کلاسرا اور ارشد شریف نے حقائق کھول کر سامنے رکھ دئیے ۔ پیپلز پارٹی نے تجربہ سے عدلیہ کا رخ نہ کیا یا ن لیگ کی حالت دیکھ کرشلوار گیلی ہوگئی؟ یہ ملک ایک انقلاب کا تقاضہ کرتا ہے جو ججوں کو انصاف سمیت بہالے جائے۔ عدلیہ کاانصاف کیلئے غریب اورامیر کی کرپشن، چوری، قتل، تشدد، عزت وحرمت ہر پیمانہ مختلف ہے۔ انصاف طاقت اورروپیہ سے ملتاہے۔
جنرل راحیل شریف جسٹس ظہیر جمالی کی عدالت میں جاتے، سوشل میڈیا کو کردار کشی نہ کرنے دیتے اور حکمرانوں کو عدالت گرفتار کر لیتی تو جنرل راحیل اپنے وقت پر چلے جاتے۔ آرمی چیف اور جوائنٹ چیف کو تمغے دئیے گئے کل ان کو طعنے ملیں گے کہ ڈان نیوز پر اس وجہ سے اصل کرداروں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا۔ جنرل راحیل کو قدم قدم پر بدنام کرنے کی کوشش ہوئی۔جنرل راحیل نے زندگی فوج میں کھپائی، کرپشن نہیں کی۔ جو زمین ملی اس سے زیادہ مریم نواز نے تحفہ لیکر چند سال میں کمائی پھر تحفہ بھی واپس کیا۔ لیڈر ہو تو ایسا کہ جادو سر چڑھ کربولے مٹی کے بدلے سونا تولے ،یہ سیدھے سادے بھولے بھالے،پھر عیار کیسے جنکے چوری کے مالے، کرتوتہیں کالے؟بڑے بڑے مجرموں کی وجہ سے جرائم کا راستہ نہیں رُکتا اور میڈیا کے بڑے کرشمے ہیں۔اشتہارات کے بدلے جو چاہیں مہم چلائیں۔جیو ایک دن اے آر وائی کی طرح ن لیگ کیخلاف مہم تو چلائے۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا لیکن وعدہ پورا نہ ہوا۔ سرمایہ کو غیر قانونی طریقے سے باہر لیجانا جرم ہے لیکن قوم کا اشرافیہ اس میں ملوث ہے۔ کرپشن و منی لانڈرنگ کے ملزموں کوان کے خاندان سمیت گرفتار کیا جائے جب تک اپنی دولت واپس نہ لائیں۔ زمین کی مزارعت کا سسٹم ختم کیا جائے ۔ شہروں میں سبزی منڈیوں کے نام پر آڑھت کی دلالی کا نظام ختم کیا جائے تاکہ محنت کش اور صارف دونوں کو فائدہ ہو، صحافت کے نظام کو شفاف بنانے کا اقدام کیا جائے،وکالت کا نظام جرائم پر پردہ ڈالنے کا قانونی جواز فراہم کرتاہے ، شیطانی دھندے کو قانونی لگام دی جائے تاکہ انصاف کو بالادستی حاصل ہو، مقدمہ پر دیر لگانیوالے ججوں کو ایسا مار دینے کا قانون بنایا جائے جیسے ہٹلر نے کرکٹ ٹیم کو قتل اور کرکٹ پر پابندی لگادی ۔ دنیا کی اونچی چوٹی سر کرنے سے انصاف کاملنا مشکل کام ہے۔ پاکستان لندن کا مقتدی بننے کیلئے نہیں امامت کیلئے بنایا گیا تھا۔ ہم نے خود سے انصاف کیا تو ملک کو استحکام ملے گا۔
وکیلوں سے بڑے دلال وہ جج ہیں جو انصاف نہیں منافقت کرتے ہیں۔ قرآن میں ہے کہ ’’جان کے بدلہ جان، آنکھ کے بدلہ آنکھ، کان کے بدلہ کان، دانت کے بدلہ دانت اور زخموں کے بدلہ قصاص‘‘۔ قرآن میں یہ حکم توراۃ کے حوالہ سے ہے۔ یہودی طبقہ نے نسل اور امیر وغریب کیلئے قوانین بدل ڈالے۔ کیا پاکستان ان یہودیوں کے اتباع کیلئے بنایا گیا تھا ؟۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ’’ 62،63کی بات ہو تو سراج الحق کے سوا کوئی بھی پارلیمنٹ میں نہ رہے‘‘۔ پھر اپنے الفاظ واپس لیکر ندامت کا اظہار کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا؟۔ کیا عمران خان کے وکیل پر دباؤ ڈالنا مقصد تھا کہ تیرا مؤکل بھی نہ بچے گا۔ جیسا کہ مختلف مواقع پر ججوں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ جس کی وجہ سے بڑا دباؤ پڑتا رہا۔ حامد خان اسی دباؤ کی وجہ سے بھاگا، یا بھگایا گیا۔ جبکہ اکرم شیخ کا معاملہ مختلف تھا، اکرم شیخ نے کہا کہ ’’پارلیمنٹ میں نوازشریف قطری سرمایہ بھول گیا‘‘۔توایک جج صاحب نے یہ ٹوٹکا دیا تھا کہ ’’ نوازشریف نے سیاسی بیان دیا ‘‘۔ پھر اگلی پیشی میں وہی بیان نوازشریف کے وکیل نے دیاتھا، نوازشریف پھر بھی پھنس رہا تھا،اب پارلیمنٹ کی غلط بیانی کو تحفظ دیا جارہاہے؟ ۔ شہبازشریف بڑا چیختا تھا جیسے حبیب جالب کی روح جاگی ہو، ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا۔۔۔
اگر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرٹیکل 62،63پر بیان دینے کے بعد ندامت کا اظہار اسلئے کیا ہو کہ جج کا کام سیاست اور کسی کو آئین کی زد سے بچانا نہیں بلکہ انصاف دینا اور مجرم کو سزا دینا ہے تویہ خوش آئند ہے۔ جو صادق و امین نہ ہو ، اس کو فارغ کیا جائے۔ عمران خان نے ٹھیک کہا کہ میں زد میں آتا ہوں تومجھے نہیں پاکستان اور قوم کو بچایا جائے۔ کسی ذاتی کاروبار کیلئے ٹرسٹ کا لفظ کسی نے نہیں سنا ہوگا۔ حکمران اپنے مفتیان کے ذریعے سود کو بھی جائز قرار دیتاہے۔ انگریزی میں ٹرسٹ ’’وقف‘‘ کو کہتے ہیں جسکی خریدوفروخت نہیں ہوسکتی۔ این جی اوز کے نام پر بھی پیسے کماجاتے ہیں، حالانکہ ان اداروں کا منافع سے کام نہیں ،نوازشریف کے بعد ٹرسٹوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جائے۔
خواجہ آصف نے عمران خان سے کہا تھا کہ ’’او کالیا تیرا کیا بنے گا؟‘‘۔ عدالت میڈیا پر چلنے والے متضاد بیانات کو ایک ایک کرکے چلائے اور تضاد بیانی کی وجہ پوچھے؟۔ خواجہ سعد رفیق میں اخلاقی جرأت ہوتی تو دُرِ یتیم وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کومریضوں کیلئے جعلی اسٹنٹ پر جیل بھجوادیتا۔ جہاں حامد سعید کاظمی کیساتھ’’ آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘‘ کا مظاہرہ ہوجاتا اور پیپلزپارٹی کا گلہ دور ہوجاتا کہ ’’عدالت ہم پرایک طرف دشمن کی طرح بھینگی نظرِغضب رکھتی ہے اور ن لیگ کو معشوقہ کی طرح محبت میں دوسری آنکھ بندکرکے پیار دیتی ہے‘‘۔ میاں شریف نے حسین نواز کو وصیت کی تو سرمایہ نوازشریف کا ہی تھا۔ حسین نواز کو مریم نواز ٹرسٹ کنٹرول کرتاہے،کیا حمزہ شہباز اپنے دادا کا پوتا نہیں تھا اسلئے اس پر فخر کرتا ہے؟ ۔ نوازشریف نے کہا کہ چور کبھی اپنے نام پر جائیداد نہیں رکھتا، ساری قوم چور بن جائے تو بھی ایسے لوگوں کو ملک کی باگ ڈور کی امانت نہیں سونپی جاسکتی جو یہ ملک اپنے مفادات کیلئے قرضوں میں ڈبودے۔ قوم کے سارے اثاثے گروی رکھوائے جارہے ہیں اورجس سے ٹیکسوں کا بوجھ قوم پرخود ہی بڑھتا رہیگا۔ کوئی کوئی ایسا ہوتاہے جو ذمہ دار عہدے کا پاس رکھ کر قوم کے مستقبل کا خیال رکھے۔ نوازشریف کی عقل دولت چھپانے کی نذر ہوئی ہے۔
جنرل راحیل چالاک اور بیوقف نہیں ہوشیارو سادہ ہیں۔ بد نیت و بدفطرت انسان میں ذہانت ہو تو اس کو چالاک کہتے ہیں، جوں جوں اس کی عقل کم ہوتی جاتی ہے توں توں وہ بیوقوف کے درجے پر پہنچتا ہے۔ نیک نیت اور اچھی فطرت کے انسان میں ذہانت ہوتی ہے تو وہ ہوشیار ہوتاہے اور جوں جوں اس میں عقل کی کمی ہوتی ہے تو اس کو سادہ کہتے ہیں۔ حدیث میں آتاہے کہ ’’مؤمن دھوکہ کھانے والا معاف کرنیوالا ہوتاہے‘‘۔ یہ سادہ مؤمن کی نشانی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’مؤمن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا‘‘ یہ بہت ہوشیار مؤمن کی علامت ہے۔ نوازشریف نے ایک مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے بات کرنے کی درخواست کردی اور پھر مکر گیا۔ پھر سعودی عرب بھیج کر کہا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ جنرل راحیل سادہ مؤمن لگتاہے ، دھوکہ کھاتا ہے دیتا نہیں۔ سعودیہ سے اپنی شرائط رکھ دیں کہ ایران کو بھی شامل کیا جائے۔ اگر سعودیہ شرائط مان لیتا تو پاکستان بھی شامل ہوجاتا۔ تاہم پھر بھی جنرل راحیل اپنے طور سے وہاں کی قیادت لے تو اس کو نیک شگون خیال کرنا چاہیے۔
سند ھ حکومت کراچی اور شہری آبادی میں بلدیہ کے اختیارات ضبط کررہی ہے اور مرکزی حکومت نے کراچی حیدرآباد ہائی وے کے ٹول ٹیکس پر ڈاکہ ڈالا ، دنیا کا ہر طاقتور کمزور کو دباتا ہے اگر یہ روش ختم نہیں کی گئی تو کوئی خوش نہ ہوگا، وزیر اعظم سے انصاف ہوا تودور رس نتیجہ نکلے گا۔ محمداشرف میمن
لوگوں کی راۓ