بہادر ارشد شریف شہید
نومبر 4, 2022
پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے کا بڑا نقصان ہوگا ، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور صحافی ملک و قوم کی رہنمائی کیلئے مثبت کردار ادا کریں ورنہ تو حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے
عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرنیوالے کو قرار واقعی سزا دی جائے اور پس پردہ حقائق منظر عام پر لائے جائیں اور قاتل کو پکڑنے والے بہادر جوان کو خراج تحسین اور انعام سے نوازا جائے
شہید ارشد شریف پہلے صحافی ہیں جن کو اپنی شہادت کی وجہ سے ملکی ، قومی، حکومتی، عوامی، صحافتی، ریاستی اور بین الاقوامی سطح پر اتنی بڑی عزت ملی ہے جس سے صحافیوں کا حوصلہ بلند ہوا
ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل بابرافتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم نے پریس کانفرنس کرکے ارشد شریف کی شہادت کوARYکے مالک کے کھاتے میں ڈالا جس میں وہ مخلص یا جوابی الزام تراشی ہوسکتی ہے اسلئے کہ یہ ماحول بن گیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کایہ کہنا کہDGISIنے مجھ سے اجازت لیکر پریس کانفرنس کی ہے تو اس پر ہا ہاہاہا ہا……. ہی ہوسکتا ہے۔ اس کو یہ اعتراف جرم کرنا چاہیے تھا کہ نالائق اور نااہل حکومت نے ترجمانی کا حق ادا نہیں کیا اسلئے بے چاروں کو خود میدان میں اترنا پڑا ہے جس پر ہم شرمندہ ہیں۔
فوج سیاست کیلئے نہیں دشمن سے دفاع کیلئے ہوتی ہے۔ الزام تراشی کی وجہ سے تفتیشی ٹیم سےISIکا نمائندہ نکال دیاگیا۔ عمران ریاض، سمیع ابراہیم، صابر شاکر ، چوہدری غلام حسین بھی منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ کی طرح اب محبانِ فوج نہیں تھے لیکن وہ قتل نہیںہوئے۔البتہ حامد میر اورابصار عالم کو گولیاں لگیں۔عمرشہزادشہیدہوا ،مطیع اللہ جان اغواء اور پٹ چکا، اسد علی طور پٹ چکا۔ ایاز امیر پٹے۔ ارشد شریف کی شہادت نے بڑی جگہ بنالی اور اس پر یقینا بہت تشویش، رنج ، غم و غصہ کی لہر بنتی ہے اسلئے کہ آلودہ فضاؤں میں معاملہ زیادہ حساس ہوتا ہے۔ارشد شریف شہید کے قاتلوں کا سراغ لگانا ضروری ہے لیکن اندھا دھن ایسی الزام تراشی کرنا جس سے ملک وقوم کو نقصان پہنچے اور کوئی بے گناہ زد میں آئے تو یہ انتہائی غلط ہے۔ صحافتی ، ریاستی، حکومتی اور اپوزیشن کی فضا آلودہ ہے ۔ کس کے گلے کی یہ ہڈی اور کس کا یہ فالودہ ہے؟۔ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹواورفاروق لغاری نے مرتضیٰ بھٹو کا قاتل آصف علی زرداری کو سمجھاتھا۔ زرد صحافت یا ریاست مکافاتِ عمل کا شکارہے؟ ،جائزہ لیں! ۔
صحافی وسعت اللہ خان نے کہا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا اصل جھگڑا فوج سے نظریاتی نہیں بلکہ گھر یلو اور خاندانی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں فوج سے کہتی ہیں کہ جب ہم دو بیویاں تھیں تو تحریک انصاف کو کیوں لے آئے؟۔ مطیع اللہ جان نے نواز شریف کو فوج کے مقابلے میں نظریاتی کردار ایک بھٹو کے طور پر پیش کرنے کے سوال پریہ جواب وسعت اللہ خان نے دیا تھا۔
ارشد شریف پرGEOاورARYمیں سوکناہٹ کا مسئلہ ہے۔ اگریہ کہا جائے کہGEOکا کردار جمائماخان اورARYکا ریحام خان کی طرح بن گیا ہے تو بات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔اب فوجی حکام نے24نیوز کو اپنی پریس کانفرنس کیلئے مدعو کرکے بی بی بشریٰ کا درجہ دیا ہے اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ24نیوز نے زیادہ آزادانہ صحافت کا کردار ادا کیا ہے۔
سوشل میڈیا چلانے والے انواع واقسام کے لوگ صرف طوائف کی طرح یوٹیوب پرپیسے کمانے کیلئے ہرقسم کے بے وسروپا جتن کرتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ ان کے پرکشش اورانتہائی سنسنی خیز عنوانات سے گناہ بے لذت حاصل کرنے کے بجائے ان لوگوں کو سنیں جو معتبر صحافی ہیں جیسے رؤف کلاسرا۔ رؤف کلاسرا کا تعلق لیہ شہر پنجاب سے ہے اور وہاں میں نے ابھرتی ہوئی جوانی کے کچھ سال گزارے ہیں۔ اس وقت پرائیوٹ سکول کا رواج نہیں تھا اور وہ ہم سے سینئر بھی تھے اور گورنمنٹ ہائی سکول بھی الگ الگ تھے۔ ارشد شریف کا نام رؤف کلاسرا کی وجہ سے پہلی مرتبہ ان لوگوں کی فہرست میں آیا جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اچھے ہی ہوں گے۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ارشد شریفARYپر فوجی حکام کی تعریفوں میں سر گرم رہتے ہیں اور روف کلاسرا کو مین اسٹریم میڈیا سے کیوں غائب کردیا گیا ہے؟۔ لیکن نیک گمان اپنی جگہ تھا۔
محمد مالک سے ایک ملاقات ہوئی ہے ۔ رؤف کلاسرا اپنے سوشل میڈیا کے چینل پر محمد مالک کو لیتے رہتے ہیں۔ رؤف کلاسرا کیساتھ محمدمالک کے شو کو معتبر سمجھ کر دیکھا تو اس میں تین قسم کے امکانات کا ذکر کیا گیا جن پر مسلسل الزامات لگ رہے ہیں۔ ایک ہماری اسٹیبلشمنٹ، دوسرےARYوالے اور تیسرے کینیا پولیس اور اس کی حکومت۔ جتنی بات کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے تو اس میں قتل کرنے والوں تک پہنچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ ارشد شریف کی اہلیہ نے ٹوئٹ کیا ہے کہ کینیا میں ارشد شریف کے میزبان وقارلوگوں کو تنگ نہیں کیا جائے۔ وقار نے کہا ہے کہ اگر ہمیں یہ کام کرنا ہوتا تو اس کے اور ہزاروں طریقے ہوسکتے تھے ، اس طرح کیوں کرتے؟۔ کینیا پولیس بدنام ہے ۔ اس کا اپنی ذمہ داری کو قبول کرنا بھی عجیب ہے۔ ہماری ریاست کیوں کسی کو قتل کرنے کی حد تک سازش میں ملوث ہوگی؟۔ کسی پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں لیکن تحقیقات کے ذریعے جو اصل مجرم ہیں ان تک پہنچا جائے جو مشکل ہے۔
محمد مالک نے یہ سوال اٹھایا کہDGISIکا یہ کہنا سمجھ سے بالاتر ہے کہ ارشد شریف کو خطرہ نہیں تھا۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ کینیا میں اب ویزے کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ارشد شریف کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے کینیا مدعو کیا گیا تھا۔ محمد مالک نے کہا کہ کاشف عباسی کی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اس کو دبئی حکام کی طرف سے جانے پر مجبور کیا گیا تھا؟۔ سوالات اٹھانا اور جوابات دیناکسی پر الزام تراشی کیلئے نہیں بلکہ اصل حقائق تک پہنچنے کیلئے ہونا چاہیے۔
خاتون کے جذبات اور کیڈٹ کالج کے فاضل ڈاکٹر کے جذبات بھی غلط وکالت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کا ایک آئینہ ہیں۔
یہ تو ممکن ہے کہ ارشد شریف کی شہادت کسی گہری سازش کا نتیجہ ہو اور اس میں بین الاقوامی سے لیکر مقامی مافیاز سازش تک کچھ بھی بعیداز امکان نہیں ہے لیکن بڑے معروضی حقائق کو نظرانداز کرنا بھی صحافت کیساتھ بڑی زیادتی ہے۔
ہمیں شوق نہیں کہ پاکستان کے طاقتور ادارے فوج کی وکالت کا کردار ادا کریں لیکن حق بات کہنے میں عوامی جذبات کی جگہ فکر وشعور کی افزائش اور مشکلات میں پھنسے لوگوں کی درست مدد کرنا ضروری ہے۔ جن کو پاک فوج نے اپنے کاندھے پر چڑھاکر میڈیا میں آنے کی کلیرنس دی ہو تو ان کی طرف سے سیاسی جماعت کی طرح فریق بن کر فوج کے خلاف بیانیہ بنانا قابلِ غور ہے؟۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس کو قتل کرنا جرم نہیں ہے لیکن اتنی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے کہ جن طوطوں کی اپنے ہاتھوں سے آبیاری کی ہو ،اگر وہ اپنے محسن کو ایسے چوراہے پر گالیاں بکنا شروع کردیں تو جتنا ان کا بس چلے گا اتنا وہ اپنا زور بازو استعمال کرکے اس کو خاموش یا رویہ تبدیل کرنے پرمجبور کریں گے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ جہاں کہیں اس کو حادثہ ہوجائے تو اس کو اسی کھاتے میں ڈالا جائے۔ پاکستان میں کیس الگ بات ہے اور باہر الگ معاملہ ہے۔ دونوں کو ایسا جوڑ دینا کہ اس پر فیصلہ کیا جائے بہت بڑی زیادتی ہے۔
یہ ماحول کیوں بنا ہے؟۔ حامد میر نے جنرل رانی سے لیکر ارشد شریف کے قتل سے ایک دن پہلے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں یہاں تک کہا کہ منظور پشتین کو میڈیا پر کیوں نہیں آنے دیا جاتا ہے؟۔ اگر وہ دہشت گرد ہے تو پھر ہم سب دہشت گرد ہیں۔ ایک بلوچ شاعر سمیت کچھ افراد کی ضمانت وزیرقانون اعظم تارڑ ، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ اور ایڈوکیٹ مرتضیٰ نے دی تھی کہ ان کی لاش کو نہیں پھینکا جائے گا۔ اور اس وجہ سے بلوچ خواتین نے مسنگ پرسن کا50دنوں سے دھرنا ختم کیا تھا۔ جن کا مطالبہ تھا کہ ان قیدیوں کو رہا بھی مت کرو، عدالت میں بھی پیش مت کرو، بس صرف ان کی لاشیں مت گراؤ، لیکن ایک شاعر کی لاش کو پھینک کر ان سب لوگوں کے منہ پر تھپڑ مارا گیا ہے۔ بلوچ شاعر اور ارشدشریف میں یہ فرق ضرور تھا کہ بلوچ اپنے قوم کے حقوق کیلئے لڑرہاتھا اور ارشد شریف کی لڑائی نہ صرف عمران خان کیلئے تھی بلکہ رجیم چینج آپریشن میں عمران خان نے ہی امریکہ کیلئے جب میرجعفر اور میر صادق کسی کو قرار دیا تھا تو اگلے دن ہی وضاحت کردی تھی کہ نوازشریف اور زردای مراد ہیں۔ ارشد شریف نے ”وہ کون تھا؟” کے ایک پروگرام سے میرجعفر اور میر صادق جنرل قمر جاوید باجوہ اورجنرل ندیم انجم کو ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کی تھی۔ اس پر بھی انکے خلاف مقدمات نہیں بنے۔ البتہ شہبازگل اور مطیع اللہ جان کی طرف سے مجبور کرنے کے بعد جو سوالات کے جوابات دئیے تھے تو اس پر مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ شہباز گل کیساتھ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا لیکن قتل تو نہیں کیا گیا، پھر ارشد شریف کو کیوں قتل کیا جاتا؟۔ مطیع اللہ جان کیساتھ بھی جو ہونا تھا وہ ہوا مگر قتل نہیں کیا گیا۔ پھر ارشدکے قتل کی سازش کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا مگر قتل ہوا اسلئے سوال پیدا ہوگیا۔
مشورہ ہے کہ جنرل عاصم منیر کی امامت میں کور کمانڈر ز دو رکعت نمازشکرانہ ادا کریں کہ عمران ریاض، سمیع ابراہیم، صابر شاکراور چوہدری غلام حسین وغیرہ مخالف کیمپ میں ہیں اسلئے کہ سب اپنے اپنے طرز پر نہ صرف ارشد شریف کے قتل کو جائز قرار دیتے بلکہ دنیا کے دوسرے کونے میں اس کو نمبر ون کا کارنامہ بھی کہتے۔ پاک فوج کو انہی لوگوں نے اپنے غلط ماحول کی وجہ سے اس حدکو پہنچادیا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد ان سے سخت بدظن ہے اور ان کو صفائی دینی پڑرہی ہیں اور یہ لوگ بھی شکر ادا کریں کہ تھوڑے بہت عتاب میں آگئے اور گناہ دھل گئے۔
شمالی وزیرستان میں ایک چیک پوسٹ پر پاک فوج کے جذباتی سپاہیوں نے فائرنگ کرکے16افراد شہید اور45افراد کو شدید زخمی کردیا تھا جن کو بعد میں معاوضے بھی دئیے گئے۔ ارشد شریف شہید نےARYنیوز پر خبردی کہ دو پارلیمنٹ کے ممبر علی وزیر اور محسن داوڑ نے چیک پوسٹ پر حملہ کردیا جس میں5سکیورٹی اہلکار زخمی اور کچھ حملہ آور مارے گئے۔ کیا ان لوگوں کے والدین نہ تھے؟ اور بیوی بچے ، خاندان اور دوست احباب نہیں تھے؟۔ ارشد شریف کے والد کی طبعی موت ہوئی تھی اور بھائی فوج میں ڈاکٹر تھے اور حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔ ایک گھر سے دو جنازے اُٹھانے والوں کا احساس بڑا احساس ہے ؟۔ ہمارے گھر پر حملہ ہوا تو13افراد کی شہادت ہوئی تھی۔ الجزیرہ کے علاوہ کوئی پاکستانی میڈیا چینل موقع پر نہیں آیا۔ اسلئے نہیں بتارہاہوں کہ کوئی گلہ شکوہ ہے کیونکہ
جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
مجھ پر اس سے ایک سال پہلے 2006ء میں فائرنگ ہوئی جس جگہ پولیس کا ناکہ ہوتا تھا اور اس دن پولیس موقع سے غائب تھی۔ ڈارئیور والا دروازہ ایسا کٹ گیا تھا جیسے کلہاڑی سے چیر دیا ہو لیکن ہم تینوں افراد معجزانہ طور پر بچ گئے۔ ساتھ میں بیٹھے ہوئے فرنٹ پر میرے بھتیجے کے سرکے کچھ بال اڑ گئے تھے اور پچھلی نشت پر بیٹھے ہوئے عزیز کو تین گولیاں لگی تھیں لیکن بالکل ہلکے نشان تھے۔2007میں گھر پر حملہ ہوا تو بھتیجے ارشد کے سر کا بھیجا درخت پر چپک گیا تھا۔
کینیا پولیس پر سوالات اٹھانے سے پہلے ماڈل ٹاؤن لاہور میں14افراد کی شہادت پر کیا نتائج نکالے ہیں؟۔ کیا وہ انسان نہیں تھے؟۔ ہماری صحافت کا معیار وکالت اور دلالی نہیں ہونا چاہیے۔ ارشد شریف کی شہادت ایک بڑا سانحہ ہے۔ جنازے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے اور اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان سے بڑا جنازہ علامہ خادم حسین رضوی کا تھا۔جنکے ساتھ صحافی برادری ، فوجی حکام کے دستے اور تحریک انصاف کا جنون بھی نہیں تھا۔تاہم یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اپنے پرائے سبھی ان کے اخلاق اور کردار کے معترف تھے۔ اتنی عزت کسی کسی نصیب والے کو موت کے بعد ملتی ہے جومریم نواز کی طرح قابل عبرت نہیں بلکہ بہت قابلِ رشک ہے۔
میں رؤف کلاسرا کو صحافت کا دماغ اور ارشد شریف کو صحافت کا دل سمجھ رہا ہوں۔ دل سے کبھی عشق وجنون کی غلطی سرزد ہوتی ہے جو قابلِ گرفت نہیں بلکہ قابلِ درگزر ہوتی ہے۔ ارشد شریف کو پاک فوج سے عشق تھا اور ہمارے گھر کو طالبان سے عشق تھا۔ ارشد شریف کی شہادت نے فوج کے مورال کو خراب کردیا اور ہمارے گھر کے واقعے نے طالبان کو عوام کی نظروں سے گرادیا تھا۔ ہمارے واقعہ کو طالبان مان گئے تھے لیکن ان کے ہاتھ سے شریعت اور پشتو دونوں ہی نکل گئے اور میرا غالب یقین ہے کہ ارشد شریف کی شہادت میں پاک فوج کا بالکل بھی ایسا کردار نہیں ہے جس میں ان کو ملوث کرنے کی زبردست کوشش ہے۔
جب کسی بھی بے گناہ پر قتل کا غلط الزام لگ جائے تو مقتول سے ہمدردی کا رواج عام ہے لیکن بے گناہ پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ مشکل ہے۔2006میں جب مجھ پر حملہ ہوا تو مجھے پولیس افسر نے کہا کہ کس کیخلاف آپFIRدرج کروگے؟۔ میں نے کہا کہ ریاست کیخلاف ریاست کے تھانے میںFIRدرج کرنا کم عقلی کے سوا کیا ہے؟۔ اس نے وضاحت مانگی تو میں نے پوچھا کہ اسلحہ بردار نقاب پوش گھومتے ہیں تو ان پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں؟ ان کو ریاست نے اجازت نہیں دی ؟۔ تو اس نے کہا کہ میں ذاتی طور پر کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں، اپنے پہنچ رہے ہیں۔میرے بھائی ، ماموں ، ماموں زاد اور ایک پڑوسی تھوڑی دیر میں پہنچ گئے۔ پھر میں چند دن آنے والوں کیلئے بیٹھ گیا اور پھر دوبئی دوست کے ہاں گیا۔ پھر واپس آکر اپنے اخبار کا کام شروع کیا۔ جب2007میں واقعہ ہوا تو دوبئی گیا۔ طالبان کے اس حملے کے بعد میری خواہش تھی کہ بیرون ملک کسی جگہ سیاسی پناہ لے لوں۔ جرمنی ، فرانس، ناروے اور سویڈن جانے کا موقع بھی ملا لیکن مجھے یہ خوف تھا کہ کہیں میری تگ ودو سے تحریک طالبان اور پاکستان کو نقصان نہ پہنچے اسلئے کہ نیٹو کی افواج نے نہ صرف افغانستان بلکہ عراق اور لیبیا کو بھی تباہ کردیا تھا۔ حالانکہ میری دانست میں فرانس وغیرہ کے خبرنامے پر ہمارے واقعہ کی خبر پڑی ہوئی تھی لیکن مجھے اس طرح پناہ نہیں لینی تھی کہ جان بچے اور اغیار اپنے فوائد اٹھائیں۔ پاکستان میں پاک فوج کے جرائم میں نواز شریف اور عمران خان کو بھی ڈال دیں تو اس کو ڈوب مرنا چاہیے لیکن تاہم یہ چندا فراد کی خواہش اور کم عقلی کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور قوم کے اجتماعی مفاد کیلئے پاک فوج کا بڑا رول ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہماری پولیس، عدالتیں ،سیاستیں اور زندگی میں ایک ریاست کے مزے ان کی مرہون منت ہیں۔ ریاست تومشرکینِ مکہ کی جیسی تیسی تھی لیکن رسول اللہ ۖ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ ان سے بھی کیا تھا۔ آج سعودی عرب کی ریاست نے جس طرح انسانی حقوق کو پامال کیا ہے تو وہ مشرکینِ مکہ کے دور سے بھی زیادہ بدتر ہے جس میں جان ،مال اور عزت کے علاوہ آزادی کو تحفظ نہیں دیا گیاہے۔ پاکستان میں آزادی کا جتنا تصور ہے وہ ہمارے صحافی اپنی دلالی اور وکالت کے ذریعے زیادہ خراب کرتے ہیں ورنہ اچھے اچھے صحافیوں کا کھل کر بولنا بہت بڑی غنیمت ہے۔ اگر سب کو اپنی وکالت اور چینل مالکان کی پالیسیوں کے مطابق بکنے دیا جائے تو بہت خرابی پیدا ہوگی۔ قرآن میں دو بڑے جرائم ہیں ۔ایک عورت پر ہاتھ ڈالنا اور دوسرا افواہ سازی سے معاشرے میں انتشار پیدا کرنا۔ دونوں کی سزا قتل ہے۔ کسی فرد پر بہتان سے زیادہ ریاست پر بہتان تراشی کا نقصان ہے لیکن ہمارے ہاں یہ تو ادنیٰ درجے کی بات بلکہ دلیری سمجھی جاتی ہے۔
ارشد شریف پہلے جس اعتماد کیساتھ فوج کی حمایت کررہے تھے آخر میں اس اعتماد کیساتھ مخالفت کررہے تھے۔ پہلے دل فوج کو دیا ہوا تھا اور پھر عمران خان کو دل دے دیا تھا۔ ان کی فکرسے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا جذبہ سچا تھا۔ اگر دوست احباب یہ مشورہ دیتے کہ ایاز امیر ، ابصار عالم اور مشتاق منہاس نے جب ن لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو صحافت کو خیرباد کہہ دیا۔ آپ بھی اگر سیاسی ڈگر اختیار کرنا چاہتے ہیں تو پھر صحافت چھوڑ دیں۔ صحافی کیلئے کسی سیاسی جماعت کی وکالت کرنا قانونی، اخلاقی اور شرعی اعتبار سے منع ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عرفان صدیقی جیسے صحافی ن لیگ کو سپورٹ کرتے ہیں تو جانبداری میں اس حد تک کہتے ہیں کہ رفیق تارڑ نے پانچ جرنیلوں کے سامنے استعفیٰ دینے سے انکار کیا تھا جس پر حامد میر نے صرف اتنا کہا تھا کہ” تارڑ نے”۔جب مظہر عباس سے ن لیگی جھرمٹ صحافیوں نے کہلوانا چاہاکہ بھٹو، نوازشریف اور عمران خان تینوں کرکٹرکو فوج سیاسی میدان میں لائی ہے تو مظہر عباس نے کہا کہ ” بھٹو صاحب کا بھی سیاست میں آنے سے پہلے ایک بیک گراؤنڈ تھا۔ عمران خان کا بھی ایک بیک گراؤنڈ تھا لیکن نوازشریف کو گورنر ہاؤس جنرل جیلانی کے پاس لایا گیا تو اس نے جم کے کپڑے بھی تبدیل نہیں کئے تھے۔ پوچھا کہ کام کیا کرتے ہو؟۔ اور پھر اس کووزیر خزانہ بنادیا۔نوازشریف اور اس کے خاندان کو سیاست میں لانا اب تک میری سمجھ میں نہیں آیا ہے”۔ عمران خان کی کامیابی یا بگاڑ کا ایک بنیادی سبب شریف خاندان کی عجیب وغریب طرز سیاست بھی ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ