پوسٹ تلاش کریں

ماکنے تو بلتکار شماکنے تو چمتکار، واہ بھئی واہ، عبد القدوس بلوچ

ماکنے تو بلتکار شماکنے تو چمتکار، واہ بھئی واہ، عبد القدوس بلوچ اخبار: نوشتہ دیوار

baloch-tahira-syed-madam-tahira-maulana-sami-ul-haq-nawaz-sharif-quddus-bizenjo-asma-jahangir-ptv-maryam-nawaz

نوشتۂ دیوار کے تجزیہ کار عبدالقدس بلوچ نے مریم نواز اور نوازشریف کا عدلیہ پر مسلسل توپخانہ کھولنے پر اطمینان کا اظہار کیاہے کہ یہ نظام اپنے لاڈلوں کے ہاتھوں انجام تک پہنچ رہاہے۔ ایگزٹ کورعایت دینے والے جج کو پچاس لاکھ رشوت کے الزام میں پکڑا گیا تو حدیبیہ پیپرز میں کروڑوں کی رشوت کا معاملہ بعیدازقیاس نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے لیکر مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن تک علماء کی صحبت اور ڈکٹیٹرشپ کی سرپرستی نے نواز شریف ، مریم نواز اور شہبازشریف کے دل و دماغ میں دونوں قسم کی صفات پیدا کردی ہیں ایک ملائیت اور دوسری فسطائیت۔ بلوچی میں کہا جاتا ہے کہ ملاکنا تو سنت ماکنے تو کنت۔ ملاکرے تو سنت اور ہم کریں تو چڑ ہے۔ یہی روش شریف برادری نے بھی اختیار کررکھی ہے۔مولوی نے دوسرے سے کہا کہ قبلہ روہوکر تم پیشاب کررہے ہو تمہارا نکاح ٹوٹ گیاہے، اب حلالہ کروانے کی ضرورت ہے، جب ملا خود قبلہ رو پیشاب کرتے ہوئے پکڑا گیا توکہنے لگا کہ ’’ میں نے اپنے عضوء کا سر گھمادیاہے‘‘۔ علماء کی صحبت سے اور کچھ سیکھا یا نہیں سیکھا مگر اپنے لئے الگ راستہ تلاش کرنے میں مہارت حاصل کررکھی ہے۔ درباری علماء نے بھی ہمیشہ بادشاہوں کیلئے راہ ہموار کی ہے۔ میڈیم طاہرہ نے مولانا سمیع الحق کو بدنام کیا لیکن نوازشریف کے حلقہ بگوش علماء نے نعیم بخاری کی بیگم طاہرسید سے نوازشریف کی دوستی کو جواز بخشا ہوگا کہ ’’یہ ایگریمنٹ ہے‘‘۔ پانچویں پارے میں شادی شدہ خواتین سے ایگریمنٹ کا جواز ہے اسلئے کہ المحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم وہ خواتین آتی ہیں جو کسی کی بیگمات بھی ہوں تب بھی وہ ایگریمنٹ کرسکتی ہیں۔ امام غزالیؒ نے لکھ دیا ہے کہ ’’ ابویوسف نے بادشاہ کیلئے اسکے باپ کی لونڈی کو جائز قرار دینے کا رستہ نکالا تھا‘‘۔ نوازشریف اور شہبازشریف کوئی شریف نہیں بلکہ ان کا باپ شریف تھا، وہ بھی صرف نام کا۔ یہ لوگ ڈکٹیٹر شپ کی پیداور ہیں۔ ڈکٹیٹر شپ کے شہزادے خود کو جمہوری صاحبزادے کہیں گے تو یہ جمہوری حرامزادے کہلائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو عقل آگئی ہے تو واضح اعلان کردے کہ اب ہم نے انکو عاق کردیا اور ہماراکسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں
نوازشریف ، شہباز شریف اور مریم نواز ڈکٹیٹر کی پیداوار ہیں اور وہ عدلیہ سے بھی ڈکٹیٹر شپ کی طرح رویہ رکھنا چاہتے ہیں، اگر یہ لوگ ملک پر مسلط ہوگئے تو فوج، پولیس، عدلیہ اورپنجابی بدمعاش گلو بٹوں کے ذریعے سے مخالف عوام کا جینا دوبھر کریں گے اور جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو ڈرانے کیلئے بندوں کو ماردیا۔ سپریم کورٹ کی بلڈنگ پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر بھی چڑھ دوڑے تھے اس طرح یہ فوج کو بھی بٹ مین بناکر رکھ دیں گے۔ انکے خمیر ڈکٹیٹر شپ، کرپشن، ملائیت کے باطل طرزِ عمل کو نکالنا ایک بڑے انقلاب کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس بے شرم کو اتنی شرم بھی نہیں آتی کہ جب امریکہ کے پاگل صدرٹرمپ نے پاک فوج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی تو اس نمک حرام ،احمق، جاہل اور بے غیرت نے انتہائی حماقت کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ جمہوری حکومت ہے، یہ بزدل فوج نہیں کہ ایک کال پر پرویز مشرف کی طرح ڈھیر ہوجائے ۔ ہمارے ساتھ فوج نے بڑی زیادتیاں کی ہیں، ڈان لیکس کی زیادتی ہمارے ساتھ ہوئی ہے اور ہم سب بتادیں گے‘‘۔ نوازشریف کا بیانیہ بڑی حماقت والا تھا۔ پورے مجلس میں ایک بھی رجل رشید اور حر نہیں تھا جو کہتا کہ الوکے پٹھے ! یہ کیا بک رہے ہو؟۔ ڈان لیکس فوج کی سازش تھی تو تم نے پرویزرشید اور طارق فاطمی کو کیوں قربانی کا دنبہ بنا لیاتھا؟۔ جس فوج کو بزدلی کا طعنہ دے رہے ہو تم تو اس سے زیادہ بزدل ثابت ہوئے ہو کہ خوف وبزدلی میں اپنے لوگوں کو ناجائز سزا دیدی ۔ یہ اتفاق فاونڈری کے کم اصل نواز اور شہباز کا قصور نہیں ہے بلکہ یہ ہماری فوج، عدلیہ اور علماء ومشائخ نے قصور کیا ہے کہ لوہے کی بٹی میں پیسوں کی چمک دیکھ کر پورے ملک کو ان کمینوں کے سپرد کردیا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایاتھا کہ دجال سے زیادہ خطرناک لیڈر اور حکمران ہونگے۔ یہ وقت وہ ہے جس کی پیش گوئیاں احادیث اور شاہ نعمت اللہ ولیؒ کے شعر میں موجود ہے۔ عوام تماشہ دیکھنے کے بجائے اٹھ جائیں ورنہ!

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!
چوہے کی بل سے آواز ایک بڑا راز ؟ فیس بک پر انگریزی کی تحریر کا ارود ترجمہ اور اس کاجواب!
پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح ہے اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں